عمران خان، فی الحال پنجاب کی حقیقت ہے۔اس لیے کہ اُسے ڈھونڈا گیا، خوب گھڑا گیا،اور خوب تراشا گیا۔ اُس کے ہارڈ ڈسک میں پنجاب یونیورسٹی کا مائنڈ سیٹ خوب اچھی طرح فیڈ کیا گیا ہے۔اُس کے بعد عوامی مسائل کے چوک پر،ٹمپل بنا کے اُسے بھگوان صورت وہاں رکھا گیا۔ بلاشبہ وہ اُس مائنڈ سیٹ کا فی الحال سب سے موزوں، متحرک اور جارحانہ نمائندہ ہے۔
یہ درست ہے کہ اور اس سلسلے کا وہ واحد بت نہیں ہے۔مگر وہ مستقل اور دائمی بت نہیں۔ یہاں اہمیت بت کی نہیں بُت ساز کی ہے۔ بت خانے میں متبادل کے بطور بہت بت رکھے گئے ہیں۔تاکہ ہر وقت کسی ایک کوسامنے لانے، یا پھراسے دوبارہ سٹور میں ڈالنے کی سہولت موجود رہے۔ مُہرے بنانا اور مہرے پٹوانا ”اُن“ کی سپیشلٹی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے پیدا کردہ اس مائنڈ سیٹ کا سب سے اہم ستون پاپولزم ہے۔ اُس مائنڈسیٹ میں مذہبی بنیاد پرستی،انڈیا دشمنی اور ایک مشکل کشا شخصیت کی موجودگی شامل ہیں۔ اس مائنڈ سیٹ کا پہلا نمائندہ بھٹو بت تھا۔جس نے پنجاب کو اسلامی بلاک عطا کر کے وہاں کی بنیاد پرستی کو تھپکی دی ،گھاس کھا کر انڈیا کے خلاف ہزار سال لڑنے کا دلکش پیکیج دیا، اور پھر گنٹریشن بن کر روٹی، کپڑا اور مکان عطا فرمانے کا دلکش نعرہ دیا تھا۔۔۔ بس وہ ”اُن“ کے دلوں کی دھڑکن بنا رہا.۔۔۔ پھانسی چڑھا۔
ضیاالحق نے مذہب کو ریاستی امور اور عوامی جذبات دونوں میں داخل کر دیا۔اس بت کا نظام زبردست اور دس طویل برسوں تک چلا۔۔۔اُسے ہوا میں بم سے پھاڑ دیا گیا۔
نواز شریف نے مذہبی جذبات، مدرسہ نعیمیہ اور دیگر دینی جماعتوں کی اعانت سے پنجاب کے سیاسی و مذہبی آمیزش کو استعمال کیا اور مقبولیت کے آسمان چھوئے۔۔۔پلیٹ لیٹ مار سپرے چھڑک چھڑک کر اسے ادھ موا کردیا گیا۔
پنجاب کے پاپولزم کے انہی بنیادی عناصر کو ڈویلپ کر کے، اور ریاستِ مدینہ کا ”ٹچ“ ڈال کر فارمولا پھر عمران خان نامی بت کو تھما دیا گیا۔ کچھ گانے ترانے، اور کچھ پکنک میلہ سٹائل جلسے،عمران کو پاپولسٹ لیڈر بنا گئے۔پنجاب یونیورسٹی اور اس سے ملحقہ اداروں سے نکلی اسٹیبلشمنٹ، جوڈیشری، انٹلی جنشیا اور پارلیمنٹیرینز بھی اسی پاپولسٹ رجحانات سے سرشار عمران خان کے دلی طور پر حمایتی ہیں۔ اس لیے عمران فی الحال پنجاب کی حقیقت ہے۔
گو کہ اس مائنڈ سیٹ کی مادرِ علمی یعنی پنجاب یونیورسٹی اور اس مائنڈ سیٹ کی مدر پارٹی یعنی جماعت اسلامی ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔ لیکن ان کا کام اس مائنڈ سیٹ کو ڈویلپ کرتے رہنا ہے، بس۔ سیاسی فرنٹ تو پاپولزم کے کسی علم بردار کا،کسی مسیحا کا، کسی ہٹلر کا اور کسی خمینی کا رہے گا۔اس مائنڈ سیٹ میں منظم سیاسی پارٹی اور سنجیدہ معروضی منشور کی کوئی گنجائش نہیں۔
پاپولزم میں جہالت کی اہمیت سرفہرست رہتی ہے۔ اور اس جہالت پر،اس جہالت پرستی پر،فخرسر فہرست رہتا ہے۔خون کا ایک ایک قطرہ امریکہ سے بنے ہونے کے باوجود لوگ یہ نعرے بازی میں امریکہ مخالفت خوب جپتے ہیں۔ یہ مائنڈ سیٹ اپنے حلقے کو، اپنے فرقے کو دوسروں سے برتر سمجھنے کا سبق دیتا ہے۔ وہ اپنے علاوہ سب کو غلط، سب کو کمتر اور سب کو کمزور سمجھتے ہیں۔ پاپولزم خود غرضی، تکبر اور انا پرستی کی بنیاد ہوتا ہے۔ کمزورپہ غصہ ختم نہیں ہوتااور زور آور پہ غصہ آتا ہی نہیں۔ پاپولزم میں ایک طرف خالص رجعت پرستی ٹھسی ہوتی ہے مگر ساتھ میں لشکارے مارتا الٹرا ماڈرن ازم موجود ہوتا ہے۔ایک طرف چیخنیا تک مذہب پھیلانے کے عزائم ہوتے ہیں اور دوسری طرف جنسی درندگی میں غلطاں اعمال ہیں۔
پاپولزم کے شکار لوگ عام روایتی معاشرتی نارمز کی توہین کرتے چلے جاتے ہیں، سنگین ترین معاشی سیاسی مسائل پہ سطحٰی ترین رد عمل دیتے ہیں۔ پاپولزم کے شکار لوگوں کو اپنی تباہی میں مزہ آتا ہے۔ وہ لطف لے لے کر اپنی بربادی پہ منتج ہونے والی غلطیاں مستیاں کرتے جاتے ہیں۔اپنی تباہی انجوائے کرتے رہتے ہیں۔
اس مائنڈ سیٹ نے یہاں پون صدی تک بورژوا آمریت کو قائم و دائم رکھا ہوا ہے۔ اسی کی وجہ سے بحران آتے گئے، ٹکے رہے، شدت اختیار کرتے گئے۔اور اب، معاشی بحران کا پیدا کردہ سیاسی بحران پھول کر سماجی بدہضمی اور سڑاند کا روپ دھار چکا ہے۔
معیشت بیٹھ چکی ہے۔ اس حد تک کہ آئی ایم ایف آئے یا دوسرے امدادی ادارے، ہم چھ ماہ بھی نہ چل پائیں گے۔۔۔ کچھ نہیں بچا۔پیسہ ہے ہی نہیں۔ مگر بہت بڑی ریاستی مشینری کی سفید ہاتھی گھر میں پال رکھی ہے۔ اب ریاستی اخراجات پورا کرنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ عوام کیا کھائیں گے،کہاں سے کھائیں گے؟۔
پچھلی پاپولسٹ حکومتیں کئی ملکی اثاثے فروخت کر چکی ہیں۔وہ ہمارے بہت سے علاقے دوسرے ممالک کے ہاں رہن رکھ چکی ہیں۔ یقینا موجودہ حکومت بھی رہے سہے اثاثوں کو بیچے گی اور زمین کے مزید قیمتی علاقے گروی رکھے گی۔ مگر اس سب کے باوجود بھی قرضے ادا نہ ہوسکیں گے۔ ہم اس سب کچھ سے بڑھ کر مقروض ہیں۔
ملک تیزرفتاری سے بنیاد پرستی اور افراتفری کی مزید گہرائیوں میں دھنستا جارہاہے۔ فاٹا ابھی شعلوں میں ہے۔بلوچوں کے دھرنے اب دائمی مظہر ومنظر بن چکے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم اور فیڈریشن کی آئینی شقیں ختم کرنے کی زبردست کوششیں ہورہی ہیں۔ صدارتی نظام والی آمریت دوبارہ مسلط کرنے کی سرگوشیاں اب اونچی ہوچکی ہیں۔
حکومت فلاں پارٹی کی بنے یا فلاں پارٹی کی، مگر یہ بنیادی حقائق تو اسی طرح موجود ہیں۔۔دو ڈھائی پارٹیوں کی حق اور ناحق کی بحث سے نکلا جائے۔۔۔
عام انتخابات ہوں یا ضمنی، ان میں ہار،صرف عوام کی ہی ہوتی رہی ہے۔ بالادست طبقہ لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہے۔ عوام کے لیے،غربت، بھوک، مہنگائی، لا علاجی، بے روزگاری، بدامنی، استحصال اور ذلتوں میں کوئی کمی آنے والی نہیں ہے۔
یہی ہے آج کا پاکستان!!۔ اِن بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے سارے حربوں کو ”بورژوا سیاست“ کہتے ہیں۔ اور انہی بنیادی مسائل پہ توجہ مرکوز کیے رکھنے کی کوشش کو ”انقلابی سیاست“کہتے ہیں۔ باشعور انسانوں کی توجہ عوام کے انہی بنیادی مسائل پہ ہونی چاہیے۔ان کا حل تلاش کرنا چاہیے۔۔ اور حل سہ شاخہ ہے:
۔1۔اعلان کیا جائے کہ ہم آئی ایم ایف کے قرضے ادا نہیں کرسکتے۔ ضرورت ہے کہ باشعور سیاسی لوگ خاموش نہ رہیں۔ اور تحریک چلائیں کہ آئی ایم ایف یہ قرضے معاف کردے۔ اصلاحِ احوال کی اور کوئی صورت ہے ہی نہیں۔
۔2۔داخلی طور پہ غیر پیداواری اخراجات کو ختم کرنا لازم ہوگیا ہے۔یعنی فوجی اخراجات بہت کم کرنے پڑیں گے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد جو محکمے صوبوں کے حوالے ہوگئے ہیں، اُن کی وزارتیں مرکز میں ختم کرنی ہوں گی۔ حجم میں بہت بڑی اور مراعات میں نوازی ہوئی بیوروکریسی کم کر نی ہوگی۔
۔3۔ نجات کا تیسرا قدم یہ ہوگا کہ کام نہ کرنے والے،اور دوسروں کی محنت پہ پلنے والے جاگیرداروں کی زمینیں ضبط کر کے کسانوں میں تقسیم کرنی ہوگی۔