موت نے  سندھی اور اردو ادب کاعصرحاضر کا سب سے بلند مینار گرادیا۔۔امداد حسینی نہ رہا۔

وہ ایک بہت بڑا شاعر و دانشور تھا۔ وہ سندھی اور اردو  کا پُر فکر اور نفیس و لطیف نظم گو شاعرتھا۔

ویسے بھی کوئی سندھی شاعر ایسا نہیں ملے گا جسے شاہ لطیف کے فکر و فن سے وابستگی نہ ہوگی۔ مگر، امداد تو لطیف کا سچا عاشق تھا۔  اسے شاہ کے بے شمار  اشعار یاد تھے۔وہ بلاشبہ بہت بڑا ”شاہ شناس“ دانشور تھا۔ اپنی تحریروں، تقریروں اور گفتگو میں بار بار شاہ لطیف کے حوالے دیتا تھا۔

اس کی ایک اضافی اچھائی یہ تھی کہ وہ بلوچی زبان کے مفکر و شاعر تؤکلی مست سے بھی بہت متاثر تھا۔ امداد فیس بک پہ روزانہ مست کی شائع ہونے والی شاعری کا اسی روز سندھی منظوم ترجمہ کرتا تھا۔ اس نے سندھی اور مست کی بلوچی شاعری میں بے شمار مشترکہ الفاظ کھوج لیے تھے۔

لطیف و مست کی ایک مشترکہ صفت اُن کی انسان دوستی تھی۔ اُن دونوں کی پیروکاری میں امداد حسینی بھی عام انسان سے جڑا رہا۔اسی حوالے نے پھر اُسے سندھ دوستی کی طرف راغب کیے رکھا۔ سندھڑی سے پیاربھی وہ ایسے کرتاتھا جیسے کہ سندھ سرزمین نہ ہو بلکہ ایک زندہ انسان ہو۔ وہ نیچر کی باتیں، سیاست کی باتیں، اور لوگوں کی اچھائی برائی کی باتیں اور گلے شکوے براہِ راست سندھ سے کرتاتھا۔

امداد حسینی اردو شاعری بہت اچھا کرتا تھا۔ مگر اس نے سوچ سمجھ کر سندھی زبان کو ترجیح دی تھی۔ وہ اُسے اپنی زبان کو بچانے کی کوشش سمجھتا تھا۔

وہ سندھ میں بہت مقبول شاعر تھا۔ جوانی میں خاص کر اس نے بہت ہی نازک رومانی شاعری کی۔ بعد میں تو وہ سندھی سماج کی آواز بن چکا تھا۔ اس کا ذکر وہاں کے ناولوں، ڈراموں اور مقالوں میں ہوتاتھا۔ وہ اچھا شاعر صرف پڑھے لکھوں اور شہروں میں ہی  پاپولر نہ تھا، اسے تو دیہات اور گوٹھ کا کسان بھی گنگناتا رہتا تھا۔

امداد حسینی کو بلوچ سے، بلوچی زبان سے اور بلوچی شاعری سے بہت پیار تھا۔

امداد حسینی شاعری برائے شاعری نہیں کرتا تھا۔ وہ شاعری کو مزاہمت کا دوسرا نام قرار دیتا تھا۔ اُس کے ہاں شاعری ظلم کے خلاف، ظالم کے خلاف، بے انصافی کے خلاف، بے انصاف کے خلاف کھڑے ہوجانے کا نام تھا۔ اس کا ایمان تھا کہ مظلوم اور سماجی انصاف کا ساتھ دینا ہی شاعرکا فریضہ ہے۔ اس کا ایمان تھا کہ سماجی جمود توڑنا شاعری کا اہم ترین ہدف ہونا چاہیے۔

امداد حسینی ماہنامہ سنگت کا عمیق قاری اور ریگولر لکھاری تھا۔ سنگت میں وہ اردو شاعری بھیجتاتھا۔ اور کیا خوبصورت اردو  شاعری تھی اس کی!۔ ساری کی ساری نظموں والی شاعری۔

وہ بہت زیادہ کاٹ چھانٹ والا شاعر نہ تھا۔ کراچی میں کسی ادبی علمی  کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں مقررین کی حیثیت سے ہم دونوں پریذیڈیم میں بیٹھے تھے۔ اچانک اس نے مجھ سے قلم کاغذ مانگا۔ میں نے سوچا کہ وہ اپنی تقریر یا مقالہ کے لیے کوئی پوائنٹ نوٹ کرنا چاہتاہوگا۔  دو منٹ کے اندر اندر اس نے مجھے قلم واپس کردیا۔ مگر جب کاغذ بھی واپس کردیا تو مجھے تجسس ہوا۔ دیکھا تو وہ ایک تازہ نظم تھی جس کے آخر میں اس نے اپنی عادت کے مطابق ” سنگت کے لیے ”  لکھا ہوا تھا۔ بلاشبہ وہ سنگت کا دلپذیر اور مقبول شاعر تھا۔

امداد حسینی گفتگو بھی نہایت نفیس اور دھیمے لہجے میں کرتاتھا۔ دلیل بھری سبق آموز گفتگو۔ نرم خو اور نرم رو آدمی۔

محترمہ سحر امداد اور امداد حسینی کا تو میں گھر کا فرد تھا۔ یہ بلوچ اور سندھی فیملی ہمیشہ میرے دل کے بہت قریب رہی۔میں ایک ذاتی دوست اور ہمدرد سے محروم ہوگیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے