بے درک، ہٹ دھرم اور لگام شکستہ بارشوں اور سیلاب کے علاقوں میں تباہی تصور سے بڑھ کر تھی۔ ہم کورونا کے کفر کی شدت سے نکلے ہی تھے کہ حیاتِ انسانی کے تارو پور کو درہم برہم کرڈالنے والی قیامت ٹوٹ پڑی۔ لگتا تھا کہ فطرت کی ساری قوتوں نے انسان کے خلاف انتہائی غصہ اور نا ترسی کے نفاذ کے لیے متحدہ محاذ بنا لیا تھا۔ پُل تباہ ہو کر اپنی جگہ سے سینکڑوں تیرکشوں دور پٹخ دیے گئے۔ ڈیم ریزہ ریزہ ہو کر چیف انجینئروں اور ٹھیکیداروں کے ضمیروں کے منہ پہ مار دیے گئے۔ سڑکیں نیم برہنہ، اور گھر وں محلوں اور دیہاتوں کو نیستی نیست گاری کا نمونہ بنا دیا گیا۔۔۔۔کیچڑ میں لت پت اورشناخت سے محروم انسانی اشرف لاشیں،مویشیوں کی لاشیں اور پاؤں اکھڑے سر سبز دیوہیکل درخت ایک ساتھ بپھرے دریاؤں پہ تیرتے جاتے تھے۔ انہیں گیلی آنکھوں والوں نے بادلوں کے پیچھے منہ چھپائے شرمسار سورج کی طویل غیر حاضری کے نتیجے میں کیچڑ شدہ زمین کے اندر دفن کردیا۔اور یہی فرق ہے پچھلی اموات میں اور اس سیلابی انبوہی مرگ میں۔ عام طور پر کسان اپنی کھیت میں کیچڑ کے اندر جیتا ہے، کیچڑ کے اندر مرتا ہے مگر دفن خشک قبرستان میں ہوتا ہے۔ سیلاب میں البتہ وہ جیا بھی کیچڑ میں، مرا بھی کیچڑ میں اور دفن بھی ہوا کیچڑ میں۔۔ساری زمین، آسمان کی کارستانیوں سے آب آب ہوچکی تھی۔ ٹیلے اور بلند سطح سڑکیں ہی جان بچانے کا آسرا بن چکی تھیں۔
آئین ِ فطرت کی دھجیاں اڑاتی ضیاء الحقی تھی کہ بارش تھمتی نہ تھی۔ آسمان، آدم زاد کی فریادیں، التجائیں،مناجاتیں مسترد کرتا جاتا تھا، اور اپنی دہشت بھری جھاگ واپس کلائی میٹ ہارمنی کی بے عزتی کرنے والے کپٹلزم کے منہ پہ مارے جارہاتھا۔ غرق کنندہ، مسلسل اور برق رفتاری سے گرتے زہر آلود قطروں کو ”ہالٹ“ کا کوئی حکم، سیٹی یا فرمان وہاں سے نکلتا ہی نہ تھا۔ ایسا غصہ، ایسا قہر!!۔
دریا بستیاں غرقاب کر کے، اور مکینوں کے خواب بہا کر اتر چکے ہیں۔ مرگ و زند کا فوری مرحلہ گزر گیا۔ خدا کا جو مال خدا کو چاہیے تھا وہ خدا کا ہوگیا۔ بات اب بقیہ نیم زندہ حلیم اور نجیب آبادی کی ہے۔ اس بے بس و بے کس و بے آسرا، مگر متحمل مزاج کسان آبادی کے نام نہاد گھر،اگر کہیں بچے بھی ہیں تو اُن کی چھتوں دیواروں کو اندر سے ٹی بی ہوگئی ہے۔ اس قدر لاغر کہ سانس لینے سے ڈھے جانے کو تیار۔ چنانچہ کل تک جو مسکین تھا، جو پناہ گاہ تھی،جو سرکی چھت تھی آج وہ موت نامی شکاری کا جال ہے۔ بستیاں بِھینگ ہوگئیں جہاں ڈِھینگ گِڑ گِڑاتے ہیں۔
اب؟۔ اب یہ باراں گزیدہ مخلوق دنیا کی ہر بلا سے بڑی بلا، اور ہر آفت،سے بڑی آفت،یعنی بھوک میں مبتلا ہے ۔ کسان جس روزی رساں بارش کے لیے زندگی بھر آسمان کو تکتے رہتے تھے، آج اُس کے ننھے بچے اسی آسمان، بادل اور بارش کو موٹی موٹی بددعائیں دیتے ہیں۔ انسان نے اس بار مہر کو قہر بنتے دیکھا۔ یہ سیلاب دیہی کیلنڈر میں ایک مائل سٹون سال کے ریفرنس کے طور پر استعمال ہوتا رہے گا۔
آج کوئی تقسیم نہیں رہ گئی تھی۔ پار سا، دیوتا اور قاتل سب کو آفت نے محض انسان بنا دیا تھا،مقہور انسان!!۔ اب انسان کے لیے حسن، خواب، امن، امنگ، موسیقی، محبت، احساس، فصل، مِلک، ملکیت، ارمان، خواہش،سرکار،سردار، میر، پیر، فقیر، انسانیت، بھائی بندی،ایثار، علم، حلم، عقیدہ،وفا، رحم، ترس، احسان، بہشت۔۔۔۔ الغرض حیات صرف روٹی، خشک زمین، اور سالم چھت رہ گئے تھے۔
جیسے کہ ہوتا ہے کہ سرکار صرف وصولی کے وقت سماج میں موجود رہتی ہے۔ مرگ و زیست کے اُن دنوں میں ”حکومت ماں باپ ہوتی ہے“، یا ”ریاست ماں جیسی ہوتی ہے“ جیسے منحوس مقولے چپٹی جوتی بن کر انسانیت کی پیشانی پہ شڑاپ شڑاپ لگ رہے تھے۔زندوں کی حالت دیکھ کر لوگ میتوں پہ رونا بھول چکے تھے۔۔۔۔۔مگر، ابد سے سلیکٹڈ وزیروں نے سکھ کا سانس لیا۔
انسانوں کے ننگے بدن، بھوکے پیٹ اور خالی جیب سرمایہ داروں کے لیے ٹرنکو لائزر ہوتے ہیں۔ مرے ہوئے انسانوں اور حیوانوں کی تیرتی لاشوں، گری ہوئی چھتوں دیواروں، اجڑے کھیتوں کھلیانوں اور برباد بستیوں کے پس منظر میں سے آتی بَین،آہیں اور لوریاں ہیں ان کے لیے۔ ایک لیڈر نے تو پبلک میں کہا تھا کہ سیلابی علاقہ میں کشتی چلانا وینس شہر میں کشتی رانی جیسا لطف دیتا ہے۔ یہ بے حس و بے ضمیر لوگ، بچوں کے بلکنے کا لطیف لیتے ہیں۔ انسانیت کے لیے یہ ماتمی سنسان سیاہ روز و شب اِن کے لیے راحت و دولت وتمکنت لانے والے تھے۔
سیلاب ان وزیروں مشیروں کے لیے واقعی رحمت بن کر آیا۔ اُن طرف سے مسلط کردہ مہنگائی اور بے روزگاری سے ناک تک تنگ آئے عوام کے غصے پہ اموات و بربادی کے سیلاب نے پانی ڈال دیا تھا۔ اب وہ غصے کا مرکز نہیں رہے۔ اس لیے کہ اب تو وہ خیمے بانٹیں گے، راشن بانٹیں گے۔ تصویریں کھچوائیں گے۔ ایدھی، سیلانی وغیرہ وغیرہ کو چندے دیں گے۔یہ این جی اوز کیا ہیں؟۔یہ بپھرے عوام اور بورژوا لیڈروں کے بیچ شاک ایبزار بر ہیں۔ این جی اوز استحصال زدہ عوام کے غصہ کو ٹھنڈا کرتی ہیں۔ اور ناروا نظام کے لیے کچھ مزید عرصہ چلنے کی گنجائش پیدا کرتی ہیں۔ این جی اوز ”مخیر حضرات“ سے دل کھول کر مدد دینے کی اپیلیں کرتے ہیں۔کتنے استاد ہیں یہ این جی اوز!!۔خود کو ”فلاحی تنظیمیں“ کہتی ہیں اور سیلاب کی تباہیوں کا باعث بننے والے انہی ٹھیکیداروں، کمیشن خور انجینئروں اور خوردبرد کے ماہر، اور بڑے پیمانے پر کرپشن کرنے والے افسروں کو ”مخیر حضرات“ کہتی ہیں۔ شیطان پہ مقدس چادر چڑھاتی ہیں این جی اوز، سرمایہ داری نظام کا سافٹ فیس ہیں این جی اوز۔
کرپٹ اور مفلوج سرکار اور اُسی کی کرپشن سے بنائے ہوئے ”مخیر“حضرات اور اُسی سرکار کی محتاج ”فلاحی اداروں“پر مرغی کے دوانڈوں کا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ چلے ہیں اربوں کھربوں روپوں کی تقسیم پر۔ گوشت کا چوکیدار بلّی!۔ یہ ہے کپٹلزم کی سفاکیت!۔
اور اُنہوں نے خیمے، اور چاول دیگیں بانٹیں کہاں پر؟۔ سڑکوں پر۔ مگر کسان کی فصلیں اور کھیت تو سڑکوں پر نہیں ہیں،وہاں سے میلوں دور ہیں۔ وہاں امداد کا واحد ذریعہ ہیلی کاپٹر ہے۔مگر یہہیلی کاپٹرز تو صدر،وزیراعظم، وزیراعلیٰ، افسروں، اور بغیر وزارت والے عمران خان کی گھوڑیاں ہیں۔انہیں ملیچھ مخلوق کو بچانے کے پست کام پہ کیسے لگایا جاسکتا ہے۔
اب جب سب کچھ لٹ گیا تو ”دائمی سلیکٹڈ“ وزیر وں نے بلوچی ٹوپی پہن کر،شیو بڑھا کر،اور پرانے کپڑے پہن کر سیلابی علاقوں اور خیمہ بستیوں کے دورے کیے۔ اور ”امدادی“ سامان بانٹتے ہوئے فوٹو سیشن بپا کیے۔عوام کی قسمت پھوٹی مگر لیڈر کی لیڈری پکی۔ اگلے الیکشنوں میں پھر ”سلیکٹڈ“ہونا یقینی ہے۔
اس سے یہ مطلب بھی ہوا کہ اگر عوامی سیاسی پارٹی مضبوط ومنظم نہ ہو تو قدرتی آفات استحصالی نظام کو مزید تکڑا کرتی ہیں۔ محنت کشوں کی پارٹی نہ ہو تو آفت کے دوران عوام کی نفرت، شعور،یا چھوٹے موٹے احتجاج کو کامیابی کے ساتھ ہینڈل کیا جاتا ہے۔ اس لیے قدرتی آفتیں کوئی دیرپا شعور نہیں لاتیں۔ کوئی تبدیلی اور انقلاب نہیں لاتیں۔ بلکہ الٹا جاگیرداری کو مضبوط کرتی ہیں، وڈیرہ شاہی کو مزید گہرائی عطا کرتی ہیں۔
لوگو! بلوچستان واپس زیرو پر چلا گیا ہے۔ ہمارے پیداواری ذرائع ملیا میٹ ہوگئے ہیں۔ ہمارا انفراسٹرکچر برباد ہوگیا ہے۔ چیونٹی کی رفتار سے ہمارے آلات پیداوار میں جو نام نہاد ترقی آئی تھی وہ قتل ہوگئی ہے ۔ ہم جہاں سے چلے تھے وہیں واپس آگئے ہیں۔ اب لوگ مزید اوہام پرست بن جائیں گے۔ پیر، تعویزاور گنڈے نامی نقلی سہارے مزید مضبوط ہوجائیں گے، پولیس اور لیویز مزید کرخت ہوجائے گی۔اور یوں فیوڈل نظام کا سارا سٹرکچر مزید مستحکم ہوگا۔
اور دولت؟۔ ارے سیلاب تو دولت ہے۔ ناقص سڑکیں، پُل، ڈیمز اور عمارتیں ڈھے جانے کا سارا الزام سیلاب نے اپنے سر لے لیا۔ اب اُن ٹھیکیداروں اور افسروں سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی جن کی چوری سے یہ انسانی المیہ رونما ہوا۔ اب تو انہی کے ہاتھوں دوبارہ سڑکیں بنیں گی، دوبارہ ڈیم بنیں گے، دوبارہ سرکاری عمارتیں بنیں گی۔ مُچ کمائیاں!!۔۔۔ٹھیکیداروں کے مزے، کمیشن خور افسروں اداروں کے وارے نیارے ہوں گے، اور این جی اوز کی داڑھیاں مرغن ہوں گی۔
تباہ حالیوں، آفتوں اور ابتلاؤں کو گناہوں کی سزا کا نام دینے والوں کی زبانوں سے خدا کرے بچھو اور سانپ لٹکیں۔ ہلاک کر ڈالنے والی بربادیوں کو آزمائش کہنے والوں کو شالا چین نصیب نہ ہو۔ اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ زمانے میں سیلاب کی تباہ کاریوں پہ صبر کی تلقین کرنے والوں کے بدزبان منہ،گنگ ہوجائیں شالا!۔ مصیبت میں گھرے گھرانوں کی تباہ حالیوں کو ”مقدر کا لکھا“ قرار دینے والے انسان نہیں بہت پست مخلوق ہیں۔
بلاشبہ بشر دوست لوگ اس آفت میں لوگوں کے کام آئے۔ ہر ایک نے اپنی لاغر جیب سے کچھ نہ کچھ نکال کر اپنی انسانیت زندہ رکھی۔ یہ اشرف اور فضیلت بھری خاصیت ہے۔ ایسا ہی ہوتا رہا ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے تھا، ایسا ہی ہوا۔
مگر جس لیول کی تباہی ہوئی ہے، وہ انفرادی مدد امداد کے تصور سے بھی بڑھ کرے۔ یہ تو حتماً ٹیکس لینے والی بہت بڑی ریاست کا کام ہوتا ہے۔ ریاست جس کے دست و بازو ہر جگہ موجود ہیں۔عوامی ٹیکسوں پہ قائم ریاست میں ہیلی کاپٹر، کشتیاں، نیوی کے تیراک اور اس طرح کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ فوج ہوتی ہے۔ ڈِزاسٹرز کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت وسیع اور باقاعدہ ادارے ہوتے ہیں۔ اُس کے پاس صحت، اری گیشن، اور بی اینڈ آر جیسے معاون محکمے ہوتے ہیں۔ اُس دیوہیکل مشینری کے مقابلے میں انفرادی امداد یا این جی اوز کچھ بھی نہیں ہیں۔یہ درست ہے کہ ریاست اس وقت عوام نہیں بلکہ جاگیرداروں کے ہاتھ میں ہے۔یہ بھی ہے کہ وہ اس پورے مہیب منظر نامے میں کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ مگر اُسے ”نظر نہ آنے“ کی عیاشی نہیں کرنی دینی چاہیے۔ اسے کسی صورت فرار ہونے کی عیاشی نہیں کرنے دینی چاہیے۔