بلوچستان سنڈے پارٹی کا ماہانہ اجلاس 4 ستمبر 2022 کو پرفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں ہوئی۔ جس کی صدارت کلثوم بلوچ نے کی۔ موجودہ سیلابی صورت حال پر کلثوم بلوچ نے فورم ڈسکشن کے لیے اوپن کیا۔ مجتبیٰ بلوچ نے  کہا کہ لوگ سیلاب کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ خصوصاَ نصیرآباد ڈویژن، سبی ڈویژن  اور لسبیلہ کے  علاقے زیر آب آچکے ہیں، جس کی وجہ سے تباہی بہت زیادہ ہوئی ہے۔  اسی طرح ژوب اور کوئٹہ ڈویژنوں   میں بھی بارشوں نے شدید نقصان پہنچایا۔  لوگوں کے گھر بار، مال مویشی سب پانی کی نذرہوگئے اور لوگ سڑکوں پر بے یارومدگار پڑے ہوئے ہیں۔ زرعی سسٹم پورا تباہ ہو گیا ہے۔ خوراک کا ایک بڑا بحران پیدا ہوا ہے اور پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ ریاستی اداروں نے بلوچستان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔ معصوم اور نوزائیدہ بچوں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔  مختلف قسم کی بیماریوں میں لوگ مر رہے ہیں۔

َ             مجتبیٰ بلوچ کے مطابق لوگوں میں خوف ہے۔سرکار اور وڈیرہ دونوں مل کر لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں۔

نجیب سائر کہتے ہیں کہ کوئٹہ سے باہر کے علاقے تباہی کا شکار ہیں۔لیکن دشت کا علاقہ تو انہوں نے خود دیکھا ایک معمولی سی بارش کی وجہ سے لوگوں کے املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ اور بہت سے لوگ بے گھر ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس تناظر میں سیاسی و سماجی تنظیمیں اپنے بل بوتے پر امداد اکھٹا کرکے لوگوں تک پہنچا رہی  ہیں۔ پی ڈی ایم اے کو فنڈ مل رہے ہیں لیکن ان فنڈز کا صحیح سے استعمال نہیں ہو رہا اور عوام کو ریلیف نہیں مل پا رہی۔

اس سیلاب کی وجہ سے کسان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔روڈ سارے کٹ گئے ہیں جتنی امداد فلاحی اداروں کی طرف سے گئی ہے وہ صرف روڈ کے کناروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں تک پہنچی ہے۔ سیلاب کی وجہ سے فی الفور جو بحران زندگی اور موت کا تھا، گزر چکا۔ یہ پہلا فیز تو سرکار کا تھا جس میں انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ اس فیز میں این جی اوز  کچھ بھی نہیں کرسکتی تھیں کیونکہ زمینی راستہ مکمل طور پر منقطع تھے۔  سرکار نے عوام کو قدر ت کے رحم و کرم پر بے یارومدگار چھوڑ دیا۔

پہلا فیز اب نہیں رہا۔ جس نے مر جانا تھا وہ ان پندرہ دنوں میں سے مر گیااور باقی جو لوگ بچ گئے ان میں چند ایک ہی چل کر سٹرکوں کے کناروں تک پہنچ پائے۔کیونکہ میدانی علاقہ ہے اور پورا علاقہ پانی ہی پانی ہے اور اونچی جگہ صرف سڑک بچ جاتی ہے۔ میدانی علاقے کے پانی کو نکلنے کا کوئی راستہ نہیں اور یہ پانی کم از کم چار ماہ تک رہے گا۔ کھڑے پانی کی وجہ سے کئی بیماریاں ٹائیفائیڈ، ملیریا، گیسٹرو انٹرائٹس اور سکن کی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں۔

اگلہ فیز لمبا فیز ہے جو کہ لمبی بھوک،لمبی قحط کا فیز ہے۔ اب صرف ایک بات کی ضرورت ہے وہ ہے ریاست ریاست اور ریاست۔ ریاست  کے علاوہ اور کوئی  بات کریں ہی نہیں۔ کیونکہ ریاست  کے بازو  یعنی ایف سی، پولیس، فوج ہر جگہ موجود ہیں۔ عام فرد یا سیاسی و خیراتی تنظمیں اتنی بڑی تباہی کا کسی صورت مقابلہ نہیں کر سکتی ہیں کیونکہ بجلی، گیس پانی، روڈ ریاست کے علاوہ کون بنا سکتا ہے؟۔ تیز بارش برس رہی ہے اور لوگوں پہ   اوپر پلاسٹک شیٹ اوڑھے ایسے پڑے ہوتے ہیں کہ معلوم نہیں پڑتا زندہ انسان ہیں یا مردہ کی قبر۔  یہ  وہ تعداد  ہے جو سڑک کنارے بچ کر کے آیا ہے  جوبہت کم تعداد ہے اس سے بڑی تعداد میں لوگ اپنے حال میں وہاں موجود ہیں جہاں کوئی امداد نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ مسلسل بارشوں کی وجہ سے مکان گر گئے اور لوگ بے یارومددگار پانی میں رہنے پر مجبور ہیں۔

اس سارے صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ سٹیٹ   ہے۔ ہمارے مطالبے کا رخ سارے کا سارا سرکار کی طرف ہونا چاہیے۔

یہ سیلاب کرونا سے بڑی جنگ ہے اور یہ جنگوں سے بھی بڑی جنگ ہے۔ کیونکہ اس سیلاب کی وجہ سے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم تباہی آئی ہے۔ جتنا اناج تھا وہ سارے کا سارا تباہ ہو گیا۔ سٹرک کے کنارے ہر دس منٹ بعد مردہ جانور پائے جاتے ہیں۔ فصل بونے کے لیے یہ پانی ٹائم نہیں دے گا۔ پچھلی فصل تباہ ہو گئی ہے اور نئی فصل اگے گی نہیں تو یہ بہت بڑا بحران انسانیت کا انتظار کر رہا ہے۔ حکومتی انتظامیہ اس انسانی بحران میں پیسے کمانے کے چکر میں بیٹھی ہوئی ہے۔  اگر ریاست کو مجبور نہ کیا گیا تو یہ سب مل کر عوام کا پیسہ ہڑپ لیں گے اور ضرورت مند لوگوں تک پہنچنے نہ دیں گے۔

جاوید اختر کہتے ہیں کہ دو باتیں واضح ہیں ایک بڑی تباہی اور پھر اس کا تدارک۔ 70 سالوں سے ہم نے کیا پلیننگ کی ہے۔ ہم این جی اوز کے خلاف ہیں کیونکہ وہ سامراج کی حفاظت کے لیے بنائے گئے ادارے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ سٹیٹ کا کام سٹیٹ کو ہی کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر عطا اللہ بزنجو نے کہا کہ نہ صرف ان علاقوں میں تباہی آئی ہے جو سیلاب سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں بلکہ عام آدمی شہر کے اندر بھی متاثر ہوا ہے۔ گیس منقطع ہے بجلی اور انٹرنیٹ نہیں ہے۔

ضیاالدین بلوچ  نے کہا کہ تباہی بہت زیادہ ہوئی ہے،بہت سے لوگوں کو کئی دن سے کھانا نصیب نہیں ہوا ، ٹینٹوں اور خمیوں کی بہت ضروررت ہے۔ سرکار کو مجبور کیا جائے کہ وہ عوام کے ریلیف پر کام کرے۔

وحید زہیر کے مطابق سرکار کی خامیاں بتا دینی چاہیں، جیسے کچی آبادیوں کو جو نقصان پہنچا تو یہ غیر قانونی آبادکاریوں کی اجازت کس نے دی۔ ان کو گیس اور بجلی کس نے فراہم کی ۔ نہ صرف دیہاتوں میں بلکہ سیلاب کی وجہ سے شہروں کی حالت بھی بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیا۔لوگوں کی آواز کسی حد تک مقتدر حلقوں تک پہنچی ہے۔

اکرم بلوچ کہتے ہیں کہ بہت ساری جگہوں میں امداد مقامی مافیا اور ضلعی انتظامیہ نے امدادی سامان مستحقین تک پہنچنے نہیں دیا۔

عابد میر کے مطابق راستے بند ہیں اور لوگوں کو یہاں آباد کرنے کے لیے وہ وسائل دستیاب نہیں ہیں۔  ان کا مزید کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں باہر  کیمپ لگاتے ہیں ان کے پاس افرادی قوت ہے تو ان کو حتجاج کرنا چاہیے اور سیلاب زدگان کی مدد کرنی چاہیے۔

ایک سنگت نے کہا  کہ اس وقت ہمیں کوئی تیسری بات کرنی ہی نہیں چاہیے،سٹیٹ ہی سب چیزوں کا ذمہ دار ہے اور ہمیں مل کر سٹیٹ کو مجبور کرنا ہے کہ وہ ریلیف کے کام کرے۔

 

اس ساری گفتگو سے تین بنیادی باتیں نکلتی ہیں:۔

۔1۔ اپنی انفرادی حیثیت میں جس حد تک ممکن ہو سیلاب زدگان کی مدد کرنی چاہیے۔

۔                2۔ جس طرح کی تباہ کاریاں ہوئی ہیں ان کا تدارک صرف ریاست کرسکتی ہے تاہم ریاست کہیں نظر نہیں آرہی۔ اس لیے ریاست کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ آئے اور معاملات سنبھالے کہ فریضہ ہی اُس کا ہے۔

۔                3۔موجودہ بحران نے ہمیں بہت پیچھے دھکیل دیا، فیوڈلزم مزید طاقتور ہوگا۔اس کے خلاف ہمیں مزید تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے