سیلاب کی تباہیوں نے ہر طرف اداسی بھر دی تھی۔ انسانوں کی بدحالی، ان کی بے گھری کے درد نے دل کو، پوری روح کو نڈھال کر دیا۔ بارش، جس کی دعائیں کرتے تھے، اب اس دعا سے ڈر لگنے لگا۔

کافی دنوں بعد سورج نے چمکتی ہوئی کرنوں کے ساتھ آنکھ کھولی تو جیسے فضا میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ سورج کی گرمی نڈھال روحوں، شل دماغوں کے سکون آور ثابت ہو رہی تھی۔ میں پروفیشنل اکیڈمی کے بالائی منزل پر پہنچی تو اک ہلچل سی مچی ہوئی تھی۔ مختلف جگہوں پر لوگوں نے نشستیں سنبھالی ہوئی تھیں اور خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ یہ سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی نویں کانگریس تھی۔ اس کا کلوز سیشن تو نومبر میں ہو چکا تھا، اب یہ اس کا اوپن سیشن تھا۔

ہال بھر چکا تھا اور گھڑیال نے بھی گیارہ بجا دیے۔ کانگریس کا کا باقاعدہ آغاز سیف اللہ کھوسو نے اپنے خوب صورت لہجے اور ادائیگی کے ساتھ ہمارے خطے کے بڑے شاعر گل خان نصیر کی دعا کے ساتھ کیا۔

یا خدا وندا بلوچاناچشیں مردم بدئے

پْر دماغ و جان نثارو زندہ دل روشن خیال

ہم سب آمین کہہ رہے تھے۔

اس کے بعد سیلاب سے وفات پانے والے افراد سمیت جناب طاہر ہزارہ،پروفیسر کرامت علی اور امدا حسینی کی وفات پر جوہر بنگلزئی صاحب سے دعا کروائی گئی۔ نو منتخب کابینہ کے اراکین سے سابق سیکرٹری جنرل پروفیسر جاوید اختر نے حلف لیا۔

وحید زہیر  نے بابا بزنجو کو یاد کرتے ہوئے موجودہ حالات اور حکم رانوں کی بے حسی پر بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ہم بابا بزنجو کو یاد کرتے ہیں اور ہمیں یاد کرتے رہنا چاہیے۔ وحید زہیر صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں شرکا کو اپنی جانب متوجہ کیے رکھا۔

اس کے بعدسابق جنرل سیکرٹری جاوید اختر صاحب کو دو سال کی سیکرٹری رپورٹ پیش کرنے دعوت دی گئی۔ یہ طویل رپورٹ جس صبر اور تحمل سے انھوں نے مکمل کی، اسی تحمل کے ساتھ تمام شرکا نے سنی۔رپورٹ کے پہلے حصے میں عالمی، ملکی و علاقائی سیاسی صورت حال کا تذکرہ و تجزیہ کرتے ہوئے اس پر سنگت کا موقف واضح کیا گیا۔ دوسرے حصے میں تنظیمی رپورٹ پیش کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل نے اپنی دو سالہ کارکردگی بیان کی، جس میں خوبیوں اور اچیومنٹس سمیت کم زوریوں اور کوتاہیوں پر بھی بات کی گئی۔ آخری حصے میں فنانشل رپورٹ کا تذکرہ کیا گیا۔

پوہ زانت اور کانگریس میں قراردادیں سنگت اکیڈمی کی روایت ہے۔جن کے ذریعے حالیہ ایشوز پر سنگت کا موقف پیش کیا جاتا ہے۔ اس اہم ذمہ داری کے لیے کلثوم بلوچ کو بلایا گیا۔ کلثوم ایک ایک کر کے قراردادیں پڑھتی گئی اور شرکا سے اس کی منظوری لیتی گئی۔

کانگریس کے پہلے سیشن کا اختتام نئے منتخب جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عطا اللہ بزنجو صاحب کے صدارتی کلمات کے ساتھ ہوا۔

انھوں نے کہا کہ سنگت اکیڈمی نے، اپنی زندگی کا بیش تر حصہ جمہوری جدوجہد میں صرف کرنے والے اپنے اکابرین کو نہ صرف ہمیشہ یاد رکھا بل کہ ان کے حصے کی شمع کو بھی روشن رکھا ہے۔ انھی اکابرین میں سے صف ِ اول کے رہ نما بابا بزنجو بھی ہیں، جنھوں نے نہ صرف خطے میں ترقی پسند خیالات کو پروان چڑھایا بل کہ زندگی کا بیش تر حصہ قید و بند میں گزار کر جمہوریت کو پروان چڑھائے رکھا۔ مارشل لائی دور میں بھی انھوں نے کھل کر کہا کہ ”ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو میں نہیں  مانتا، میں نہیں جانتا“……. اور یہ جہد ِ مسلسل انھوں  نے عمر بھر جاری رکھی۔ سنگت اکیڈمی اسی جہد کا تسلسل ہے اور اپنے اکابرین کی روشن کی ہوئی شمع کو جلائے رکھنے کا عزم کرتی ہے۔

مجھے دوستوں نے جو تنظیمی ذمے داری دی ہے، میں اس کے لیے تنظیم کا اور ساتھیوں کا شکرگزار ہوں۔ تنظیمی امور ہمیشہ ٹیم ورک کی صورت میں ہی ہوتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں سنگت کو تنظیمی صورت میں مضبوط و مستحکم بنانا ہو گا۔ہماری کوشش ہو گی کہ تنظیم کو اس کے آئین و منشور کے مطابق فعال رکھا جائے۔ تنظیم میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہتر بنانا ہو گا۔ ڈسپلن ہی اس جمہوری تنظیم کو زندہ رکھے گا۔ تنظیم کے اداروں کی کارکردگی اور فعالیت کو مزید بہتر کرنا ہو گا۔اراکین سے رابطہ کاری اور ان کی شرکت کو یقینی بنایا جائے گا۔

سنگت کے اراکین کی شعوری سطح بلند سے بلند تر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ماہتاک سنگت کا مطالعہ اور اس کا ریویو، پوہ زانت کا مستقل حصہ رہے گا۔ اکیڈمی کے اراکین کے لیے ایک نصاب موجود ہے، ان کتابوں کے مطالعے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔اس کے ساتھ ساتھ سنگت کی ممبرشپ فیس کی بروقت ادائیگی بھی یقینی بنانی ہو گی۔پوہ و زانت کے تسلسل پر توجہ دینا ہو گی۔

سنگت اکیڈمی بلوچستان کے ترقی پسند ادیبوں اور روشن خیال افراد پر مشتمل ادارہ ہے، جوعلاقائی، ملکی و عالمی صورت حال پر ہمیشہ بروقت اپنا موقف کھل کر بیان کرتا رہا ہے۔ خواہ بلوچستان کا سیاسی مسئلہ ہو، جبری گم شدگیوں کا ایشو ہو، عورتوں اور مزدوروں کا عالمی دن ہو، یا صحت و تعلیم کے مسائل ہوں، سنگت اکیڈمی نے ہمیشہ اس پر آواز بلند کی ہے۔

ایسے میں ترقی پسند قوتوں کو مزدوروں، کسانوں اور محکوم عوام کے ساتھ جڑت پیدا کر کے اپنی قوت کو بڑھانا ہو گا۔ ادیبوں، دانش وروں اور اہلِ فکر کو اس سلسلے میں اپنا مرکزی کردار ادا کرنا ہو گا۔ سنگت اکیڈمی عوام دوستی کی ایسی تحریک میں پیش پیش رہے گی۔

پہلے سیشن کے اختتام پر جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عطاء   اللہ بزنجو صاحب اور ڈپٹی سیکرٹری نے جناب قادری صاحب اور سابق سیکرٹری جاوید اختر صاحب کو شیڈ  پیش کی۔

کانگریس کا دوسرا سیشن جو کثیر اللسانی شعری نشست پر مشتمل تھا،کی نظامت ڈاکٹر منیر رئیسانی صاحب کے سپرد تھی۔

صوفیہ وفا(ہزارگی)، عرفان عابد(ہزارگی)، عابد میر(سرائیکی)، مجید کپکپاری(بلوچی)، رفیق طالب(سندھی)، نجیب سائر (اردو)، وصاف باسط (پشتو، اردو)، ارشاد شمیم، سعید کرد (براہوی)، عابدہ رحمان(پشتو)، جوہر بنگلزئی (براہوی)، وحید زہیر (براہوی)، محسن شکیل (اْردو) اور بیرم غوری صاحب (اْردو) اس سیشن کے شاعر تھے۔ اس کے علاوہ سمیع ساحل بلوچ نے عطا شاد کی بلوچی غزل اور آزات جمالدینی نے میر گل خان نصیر کی بلوچی نظم پڑھی۔

گروپ فوٹو ہوا اور یوں احباب اپنی اس چھوٹی سی خوشی پر شاداں و فرحاں لوٹ گئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے