” کہانی آوارہ ہوتی ہے ”
کچھ روز قبل سلیم اختر ڈھیرہ صاحب کی کتاب ” کہانی آوارہ ہوتی ہے” ملی۔
کسی بھی علاقے کے لوک ادب کی تاریخ اُس زبان کی تاریخ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے، زبان کی ابتدائی شکل بولی کی صورت میں پہلے گلی کوچوں میں وجود میں آتی ہے اور اسی بولی کے بطن سے لوک کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ لوک کہانی کی روایت انسانی تاریخ کی طرح قدیم ہے، جب کسی ماں نے دھرتی پر پہلی بار اپنے بچے کو سلانے کے لیے کچھ گاکر سنایا، جب کسی نے دل بہلانے اور لوگوں کو سنانے کے لیے کوئی قصہ گھڑا تو لوک ادب، لوک کہانی کا آغاز ہوا۔ قدیم دیووں اور پریوں کی داستانیں، قصے، حکایتیں، موسموں کے گیت، لوریاں، شادی بیاہ اور دوسری تقریبات پر گائے جانے والے گیت اور سنائی جانے والی داستانیں، کہانیاں جو سینہ بہ سینہ اور عہد بہ عہد اگلی نسل تک منتقل ہوتی رہیں، جو باقاعدہ تحریری شکل میں نہیں ملتے، جن کا تعلق محض عوام سے ہوتا ہے، جن کا کوئی ایک فرد خالق نہیں، بلکہ جسے عوام کے اجتماعی سماجی میل جول کے نتیجے میں پیدا ہونے، تہواروں، میلوں ٹھیلوں، جنگوں، مقابلوں، مہموں، اور دیگر خوشی غمی کے مواقع نے جنم دیا ہو سب لوک ادب یا عوامی ادب کی مختلف اصناف ہیں جیسے لوک گیت، اور نظمیں بھی۔
قصے کہانیاں، ماضی کے واقعات بیان کرنا انسانی فطرت کا حصہ رہا ہے، آج سے ہزاروں سال پہلے جب انسان گھنے جنگلوں اور غاروں میں رہتا تھا اس وقت وہ کہانیاں اور قصوں کا دلدادہ تھا، اس دور میں انسان کی تفریح کا واحد ذریعہ کہانیاں ہی تھیں، انسان کا داستان گوئی سے تعلق ہمیشہ سے ہی مضبوط رہا ہے، ابتداء میں انسان تصویروں اور اشکال کے ذریعے باتوں کے علاوہ کہانیاں بھی ایک دوسرے کو سمجھاتا تھا۔ بلا شْبہ کہانی اسی وقت وجود میں آگئی تھی،جب انسان نے ایک دوسرے سے بات کرنا اور سمجھنا شروع کیا تھا جس کا تذکرہ بولی کے توسط میں آغاز ہی میں کر چکا ہوں، ماضی کا انسان آج کے انسان کی طرح ایک دوسرے کو اپنے کارنامے سناتا تھا، وہ اپنی اور اپنے قبیلے کی برتری ثابت کرنے کے لیے مختلف واقعات بیان کرتا، جس طرح آج کے دور میں سفر نامہ لکھا جاتا ہے، ماضی کا انسان بھی سفر کے دوران کیے جانے والے مشاہدات کو دوسرے انسانوں کے علم میں لاتا تھا۔
مختلف خطوں کی لوک کہانیوں کے تراجم میں اکثر اوقات ہمارے مترجم اور لکھاری لوک کہانیوں کے مفہوم کو درست طریقے سے سمجھ نہیں پاتے۔اس کی بنیادی وجہ کہ وہ لوک کہانیوں کی تاریخ اور اہمیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن سلیم اخترڈھیرہ کے ہاں صورت حال اس سے مختلف ہے۔ انہیں اساطیر اور فوک کے آپسی گہرے تعلق کے بارے بخوبی علم ہے، انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ لوک کہانیاں تہذیبی امانتوں کے طور پر ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔
"کہانی آوارہ ہوتی ہے” کی کہانیاں اطالوی قوم کی تمدنی روایت سے لے کر ہمارے خطے کی تمدنی روایت سے جڑی ہوئی کہانیوں یا لوک ادب میں شامل ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ لوک کہانیاں مغرب کی ہوں یا مشرق کی ان سب میں جنوں، بھوتوں اور پریوں کے قصے، نیکی کا سبق، برائی سے نفرت، دوستی کے راستے، جان کی بازی لگا دینے والے سورما، جنوں سے مقابلہ کرنے والے بہادر ہی موجود ہوتے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ملک کی پریاں اْڑ کر دوسرے ملک چلی جاتی ہیں، دْھن کے پکے عاشق شہزادے سنہری بالوں والی شہزادی کو کسی دیو کی قید سے آزاد کرانے کے لیے شہر شہر اور دیس دیس کی خاک چھانتے پھرتے ہیں، پہاڑوں کی بلندیاں اور سمندر ان کی راہ میں قطعاً حائل نہیں ہوتے۔ ان کتھاؤں کی بنیاد سچائی اور دوستی ہی ہو تی ہے۔
"کہانی آورہ ہوتی ہے” کی بہت ساری کہانیاں مجھے ہمارے سماج کی معاصر تصویر کشی کرتی دکھائی دیتی ہیں گو کہ ان کہانیوں کے کردار جن بھوت اور مافوق الفطرت ہیں لیکن ہماری معاصر سیاسی اور سماجی صورت حال بھی ایسے ہی کرداروں سے بھر پڑی ہے۔ اس ضمن میں ان کی کہانی ” کبڑا موچی”، کاکا سیانا” جس میں کوئی دس بارہ لوک کتھائیں مختلف موضوعات پر ہیں لیکن ان کا نفس مضمون یا سَت انسانی لالچ حرص اور ہوس ہی ہے۔ لیکن گاہے گاہے کہانی میں مزاح کا عنصر بھی ملتا ہے، جو قاری کی دلچسپی کو بڑھانے میں معاون ہوتا ہے۔ یہی نہیں جو بے خودی اور سرشاری ہمیں غالب کی شاعری میں ملتی ہے وہی بے خودی "کاکا سیانا” کی مختلف شیڈز میں بیان کردہ کہانیوں میں بھی ملتی ہے، اس کی بنیادی وجہ کہانی کی کرافٹ میں سادگی اور تنوع ہے۔
"نواب کی داڑھی” تو عالمی سطح پر ہونے والی الیٹ کلاس کی لوٹ کھسوٹ اور سادہ لوح انسانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان ہے۔ یہ کہانی ایسے ہی ہے جس طرح سولہویں صدی میں انگریزوں نے اِس خطے پر ڈیرے ڈالے اور لوٹتے چلے گئے، لیکن افسوس کہ ہندوستان میں چند ایک کرداروں کو چھوڑ کر ہمارے پاس کوئی "ماہ سینو”نہیں جو اس نواب کو پکڑ لائے جو یہ ساری لوٹ کھسوٹ کر رہا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ہمارا ” ماہ سینو” ابھی لمبے سفر پر ہے اور جنگیں اسے لڑنا نہیں آتیں۔وہ محض حملہ آوروں کی منت سماجت کرکے یا تو نوے ہزار فوجیوں سے ہتھیار ڈلوا سکتا ہے، یا عالیشان محلات و پلازے تیار کرا کر اسی لوٹ کھسوٹ کا حصہ دار بن سکتا ہے۔
"پروں والا دیو” میرے بچپن کی کہانی ہے، لیکن میری کہانی کے دیو کے پروں کی جگہ بالوں کا تذکرہ ملتا ہے، نہایت ہی دلچسپ اور پر تاثیر کہانی ہے۔
"کارک اور کاراک” انتہائی مختصر کہانی جو ہمارے 75 سالہ سیاسی اور غیر سیاسی منظر نامے کا احاطہ کرتی ہوئی دکھا ئی دیتی ہے۔یہ محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح ہمارے کارِک اور کاراک میثاق جمہوریت کے ڈاکومنٹ پر دستخط کرکے دل کھول کر ملک کو لوٹ رہے ہوں یا پھر اس سے بھی مضبوط بیانیہ یہ بنتا ہے کہ عسکری طاقت اور ملائیت کارِک اور کاراک کا چہرہ لیے ہوئے پچھلے 75سالوں سے قومی خزانے کی لوٹ مار کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس ہمارے ہاں کوئی ایسی طاقت نہیں جو قومی خزانے کی حفاظت کر سکے، نہ ہی ہمارے پاس ” پورٹاکلین ” جیسا کوئی کردار ہے جو خزانے کو لوٹنے کے بعد اس کی لوٹی ہوئی مال و متاع کی واپسی کی کوئی تدبیر کر سکے۔۔ ہمارے ساتھ تو بقول شاعر یوں ہورہا ہے۔
” ساڈھے اپنے پٹواریاں ساڈھے ناویں بدلے”
کہانی ” خوش باش آدمی ” میں ہمیں غلام عباس کے افسانے اور کوٹ سی صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ ” گڈریا” میں لالچ اور طمع جیسے عنصر دکھائی دیتا ہے، ” لاوارث بچہ ” میں ہمیں انسانی ہمدردی اور بین المذاہبی حوالہ اور مافوق الفطرت اظہاریہ ملتا ہے۔
ادب لطیف میں شائع ہونے والی کہانی ” جن ” بھی ہمارے پورے سماجی اور سیاسی بیانیے کی منہ بولتی تصویر ہے۔۔
” کہانی آوارہ ہوتی ہے” کی تمام کہانیوں کو پڑھنے کے بعد یہ سمجھ پایا ہوں کہ لوک کہانیاں ہنس کی طرح ہوتی ہیں جو ایک دیس سے دوسرے دیس بلا جواز، غیرمشروط طور پر سرحدیں پھلانگتی اپنا سفر کرتی رہتی ہیں، جس دھرتی پر بسیرا کرتی ہیں اسی دھرتی کی لفاظی اور تہذیبی بنتر ان کہانیوں کا نفس مضمون بنتی ہیں۔
عزیز دوست سلیم اختر ڈھیرہ نے اطالوی کہانیوں کا ترجمہ کرتے ہوئے کسی بھی طرح کی فکشن کی چالاکی اور موشگافیوں سے پرہیز کرتے ہوئے انتہائی سادہ اور وہی زبان برتی ہے جو کہانی کا متن تقاضا کرتا تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ” کہانی آوارہ ہوتی ہے” جیسی کتاب ہر گھر کی شیلف پر موجود ہونی چاہیے تاکہ ہماری نسل رواں اور آنے والی نسل بجائے موبائل پر گیمز کھیل کر وقت ضائع کرے اور ایک ہی گھر میں موجود انسانوں کے اندر دوئی جیسی خرافات پنپیں، وہ خود بھی ان لوک کہانیوں سے لطف اندوز ہوں اور اپنی پروان چڑھتی ہوئی نسل کے اندر بھی وہ تہذیبی اور کلاسیکی روایت کے بیج بو سکیں جس کی ہمارے فکری طور پر بانجھ ہوتے سماج کو اشد ضرورت ہے، اور کتاب بینی کا رواج بھی عام ہو جس سے ہم حد درجہ دور ہوچکے ہیں۔۔
عزیز دوست سلیم اختر ڈھیرہ کے انتہائی شکریے کے ساتھ یہ امید رکھتے ہیں کہ آنے والے وقت میں یقیناً وہ ہمیں مزید کسی اور دیس کی لوک کہانیوں سے روشناس کرائیں گے، تاکہ زندگی کا پہیہ یونہی چلتا رہے۔ کیونکہ میرے نزدیک زندگی اور کہانی فطرت کے عطا کردہ انسانی ثمرات کا خوبصورت ترین پرتو بھی ہے اور بذات خود فطرت بھی۔۔