ماگھ کی پہلی مہاوٹ گری تو جلدی جلدی سارے گدے لحاف نکالے گئے۔اُنھیں دھوپ دی گئی۔کچھ نئی رضا ئیاں بنوائی گئیں۔صدر یاں،سویٹراورشا لیں بھی صندوقوں سے باہر آگئے۔دالان میں لٹکے ہوئے بھاری پردے کھول کر دیکھے گئے۔کہانی والی خالہ ابھی تک نہیں آئیں۔بچوں نے بار بار پوچھنا شروع کیا۔

کب آئینگی؟اے مرے کیوں جا رہے ہو ہر سال تو آتی ہیں اس سال بھی آ جا ئیں گی۔مگر بچے بے چین تھے۔ہر سال تو سردیاں شروع ہوتے ہی آجاتی تھیں۔اب کی بار دیر کیوں ہو گئی۔

یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ٹی وی ایجاد نہیں ہوا تھا اور موبائیل فون کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا۔ریڈیو آچکا تھا مگر وہ ہر ایک کے بس کی چیز نہیں تھی۔ ان بڑے گھروں میں سنائی دیتا تھا جہاں بجلی کی سہولت بھی ہوتی تھی۔ چابی والے گراموفون اکثر دکھائی دیتے تھے مگر 78RPM کے نئے نئے ریکارڈ خریدنا مہنگا سودا تھا اس لئے چند گانوں پر ہی صبر کرنا پڑتا تھا۔ مطلب یہ کہ وقت گزاری کے ذرائع کافی محدود تھے۔یوں کہنے کو شہر میں ایک سنیما ہال بھی تھا لیکن وہاں شریف گھرانے کی بہو، بیٹیوں اور بچوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔اُس زمانے کے بزرگوں کا خیال تھا کہ فلمیں دیکھنے سے اخلاق خراب ہو جا تا ہے۔ خواتین کی مشکل تو اور بھی زیادہ تھی کہ وہ باہر بھی نہیں نکل سکتی تھیں،بے چاریاں کھانے بنانے اور کھلانے ہی میں دن کو رات کر دیا کرتی تھیں۔کچھ سگھڑ ہوتیں تو سینے پرونے سے دل بہلایا کرتیں۔ لڑکیاں گڑیوں سے کھیلتیں اور لڑکے پتنگ بازی کے مزے لیتے۔ ایسے محدود ماحول میں اگر یہ خبر ملے کہ کہانی والی خالہ آرہی ہیں تو ایسا لگتاتھا جیسے ویرانے میں بہار آجائے۔

بڑی حویلی میں کہانی والی خالہ کی وہی اہمیت تھی جو گاؤں میں میلے کی ہوتی ہے۔وہ جب بھی آتیں اور جب تک رہتیں حویلی کی ہر رات شبِ برأت بن جاتی تھی۔دیوان خانے کے برابر والے بڑے کمرے میں گدوں کے اوپر چاندنیاں بچھائی جاتیں۔درجنوں گاؤ تکئے،گول تکئے اورتکونیوں کے ڈھیر لگا دیئے جاتے،اور آتش دان کوئلوں سے بھر دیا جاتا۔جیسے جیسے شام ڈھلتی ویسے ویسے کمرہ بھر جاتا۔ حویلی کی اپنی آبادی کون سی کم تھی مگر کہانی والی خالہ کا نام سن کر دور قریب کے رشتے دار اور پڑوسی بھی جمع ہو جاتے۔ دلان میں جوتوں،چپّلوں اور سینڈلوں کاایسا انبار لگا ہوتا کہ جامع مسجد کی سیڑھیاں یاد آجاتیں جو جمعہ کے جمعہ اِسی طرح جوتوں سے بھر جاتی تھی۔

گھر کے ان مردوں کے لیے جنہیں کہانی سننے کا شوق تھا دیوان خانے کا دروازہ کھول دیا جاتا اور کرسیاں لگادی جاتیں۔ جب بڑی بیگم عشاء کی نماز پڑھ کے اللہ ربّ العزت سے اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعا مانگ کے،انگلی سے حصار باندھ کے بڑے کمرے میں قدم رکھتیں اور نصیبن ان کا حقہ سامنے لاکر رکھتی تو یہ اشارہ ہوتا کہ خالہ اب کہانی شروع کر سکتی ہیں۔اور خالہ کی کہانی شروع ہو جاتی…

ہمارا تمہارا خدا بادشاہ،خدا کا بنایا رسول بادشاہ،تو ایک بادشاہ تھا۔ملک یمن پر حکومت کرتا تھا انصاف میں نوشیرواں عادل سے بڑھ کر تھا اور سخاوت میں حاتم طائی سے کم نہ تھا، ہر طرف امن امان تھا رعایا خوش حال تھی خوشیوں سے مالا مال تھی،ہر آد می بادشاہ کی محبت کادم بھرتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ یا رب جب تک دجلہ میں پانی رہے ہمارے بادشاہ کی حکمرانی رہے۔ اس بادشاہ کا ایک بیٹا تھا،ایسا خوبصورت کہ چاند دیکھے تو شرمائے بادلوں میں منہ چھپائے۔ بات کا سچا تھا عادت کا اچھا تھا مگر ایک شوق تھا کہ بے قرار رکھتا تھا۔ روکنے پر بھی نہ رکتا تھا اور وہ تھا شکار۔ جب بھی موقع ملتا گھوڑا لے جنگل کی راہ لیتا۔ جنگلی جانوروں کا شکار کرتا۔جان کو خطرے میں ڈالتا مگر قدم پیچھے نہ ہٹاتا اور جیت کر ہی آتا۔تو ایک دن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ شہزادہ جنگل میں پہونچا۔ کمان اتاری تیر چڑھایاببر شیر کا نشانہ لگایا کہ ایک عجیب منظر نظر آیا۔ ایک کالا ہرن دکھائی دیا جس کے بدن پر سنہری دھاریاں تھیں۔ شہزادے نے ایسا ہرن نہ دیکھا نہ سناتھا، حیران ہو گیا،سوچا زندہ پکڑ لوں اور بادشاہ کو نذر کروں تو نام ملے انعام ملے مگر ہرن تو ہرن ہوتا ہے،آہٹ پائی کہ ہَوا ہوا مگر شہزادہ بھی کہاں ہار ماننے والا تھا جنگل کے رستوں کو جاننے والا تھا۔ گھوڑا دوڑایا اور سوچا کہ زندہ ہاتھ نہ آیا تو مردہ لے جائے گا مگر خالی ہاتھ نہ جائے گا۔ اب کیا تھا آگے آگے ہرن پیچھے شہزادہ دل میں پکّا ارادہ۔دوڑتے دوڑتے شام ہو گئی ایک جگہ ہرن رُکا شہزادے کو دیکھا آنکھ سے آنکھ ملی۔ شہزادے کے لئے یہ ایک پل کافی تھا۔تیر چلایا وار کاری تھا۔ ہرن تڑپ کے گِرا۔ جنگل میں عجیب ساشور اُٹھا بادل گرجے بجلی چمکی اور ایک آواز گونجی۔

”ہائے یہ کیا غضب کیا،خون ایک معصوم کا بے سبب کیا،سونا پری کو مارڈالا۔“

شہزادے نے آگے بڑھ کر دیکھا جہاں ہرن کی لاش گری تھی وہاں ایک حسینہ مردہ پڑ ی تھی۔ شہزادے کا تیر چھاتی پار تھا۔چھوٹے بڑے سب دم سادھے سُن رہے تھے۔اچانک ایک بچے کی آواز سنائی دی۔بچے نے پوچھا۔

”خالہ،کیا پری مر گئی؟۔“

خالہ نے بڑے پیار سے بچے کو دیکھا اور مسکرا کے کہا

”ہاں بیٹا۔سونا پری مر گئی اور شہزادہ مصیبت میں پھنس گیا اب دیکھنا ہے وہ کیسے نکلے گا…۔“

اور خالہ کی کہانی پھر شروع ہو گئی۔

خالہ کی اپنی کہانی بھی کا فی دل چسپ تھی۔انھوں نے بتایا تھا کہ وہ لکھنؤ کے کسی اچھے خاندان کی فرد ہیں۔ کافی پڑھی لکھی بھی ہیں مگر وقت بگڑ گیا ہے، اُن کے شوہر گھوڑے سے گر کے مر گئے تودیور نے ساری جائداد پر قبضہ کرکے بے دخل کر دیا مگر خالہ ہار نہیں مانیں،دیور پر مقدمہ دائر کیا اور خود ان امیروں،جاگیرداروں اور زمین داروں کے گھروں میں جہاں کبھی وہ مہمان بلائی جاتی تھیں،جاکر سینے پرونے اور پڑھانے کا کام کرنے لگیں۔دن بھر تو کام کاج میں گزر جاتا،رات میں بچوں کو جمع کرکے کہانیاں سناتیں۔زبان اچھی تھی،بیان اس سے بھی اچھا تھا۔ایسا نقشہ کھینچتی تھیں کہ منظر آنکھوں میں زندہ ہو جاتا دھیرے دھیرے باقی کام تو بند ہو گئے مگر کہانی جاری رہی اور وہ کہانی والی خالہ کے نام سے مشہور ہو گئیں۔

لکھنؤ کی گھسیاری منڈی میں رہا کرتی تھیں۔ویسے رہنے کا تو بس نام ہی تھامحرم کے دس اور رمضان کے تیس دن چھوڑ کر سارا سال جہانیاں جہاں گشت بنی شہر شہر گھومتی رہتی تھیں۔جہاں بھی جاتیں ہفتہ پندرہ دن سے پہلے چھٹی نہ ملتی، کبھی کبھی تو مہینہ لگ جاتا۔وہ کہانی ہی ایسی چھیڑتی تھیں کہ کڑی سے کڑی پھنستی چلی جاتی اور ایک ایسی زنجیر بن جاتی جس سے آزاد ہونے کو کسی کا جی نہیں چاہتا تھا۔حالانکہ خالہ جہاں بھی جاتیں کہانی سنانے سے پہلے ان کا سوال ہوتا۔

”کتنے دن والی کہانی سناؤں؟“

بچے چلّاتے۔

”لمبی والی،ایک مہینے والی۔“

مگر بڑے دو چار دن میں ختم ہو جانے والی کہانی کی فرمائش کرتے۔یہ الگ بات ہے کہ دو چار دن دو چار ہفتے بھی ہو جاتے اور کہانی ختم نہ ہوتی۔اللہ جانے خالہ کو کتنی کہانیاں یاد تھیں۔ ہمیشہ نئی سناتیں الف لیلیٰ سے لیکر داستان امیر حمزہ تک اور طلسم ہوش ربا سے لے کر سنگھاسن بتسی تک وہ کون سی کہانی تھی جو انہیں نہیں آتی تھی۔کبھی کبھی رامائن اور مہا بھارت کے قصے بھی سنایا کرتی تھیں۔

اس بار حویلی کے بچوں سے زیادہ بے چین تھے حامد میاں۔پچھلے تین چار برس سے انھیں خالہ کی کہانیوں کا ایسا چسکہ لگ گیا تھا کہ مسوری میں جہاں وہ پڑھتے تھے سردیوں کی چھٹی کا اعلان ہونے سے پہلے ہی بھاگ کھڑے ہوتے اور جب تک خالہ بڑی حویلی میں رہتیں،پرانے دوستوں سے ملنے بھی نہیں جاتے تھے اِدھر خالہ نے کمرے میں قدم رکھا اُدھر حامد میاں اپنی کرسی پر آکے جم گئے۔اتنے غور سے سنتے تھے کہ لگتا تھا ایک ایک لفظ کو کانوں سے پی رہے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ آنکھیں خالہ پر نہیں ان کے برابر بیٹھی ہوئی جمیلہ پر جمی ہوتی تھیں۔

جمیلہ تھی بھی ایسی کہ نظر پڑ جائے تو دیر تک ہٹنے کا نام نہ لے۔پتہ نہیں ظالم کس کی آنکھیں چرا لائی تھی کہ جو دیکھتا وہ چونک پڑتا۔سبزی مائل نیل گوں آنکھیں خالہ کے خاندان میں توچھوڑئیے محلے ٹولے میں بھی کسی کی نہیں ہوں گی۔کچھ لوگ کہانیاں بنانے کی کوشش بھی کرتے۔عورتیں سرگوشیوں میں کہتیں

”یہ گلشن بیگم کی اولاد تو ہر گز نہیں ہو سکتی،کہیں سے چرا کے لائی ہو گی۔“

کوئی دوسری کہتی

”یہ بھی تو ہو سکتاہے کسی انگریز سے سانٹھ گانٹھ رہی ہو۔“

عورتیں دو پٹّوں میں منہ چھپا کے ہنستیں اور پھرپریوں، شہزادوں اور جناتوں کی کہانیاں سننے میں ایسی کھوجاتیں کہ خالہ کی اپنی کہانی کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا۔

جمیلہ،خالہ کے ساتھ ہر سال آتی تھی مگر حامد میاں کو بچوں کے ساتھ بیٹھ کر پریوں کی کہانیاں سننے کا کوئی شوق نہیں تھا، اس لیے کبھی آمناسامنانہیں ہوا۔جمیلہ سے ان کی ملاقات کوئی چار سال پہلے بڑے فلمی انداز میں ہوئی۔حامد میاں مسوری سے آئے ہو ئے تھے اور دوستوں کے ساتھ کرکٹ یا شام کو کلب میں تاش کھیل کر چھٹیاں گزاررہے تھے۔ایک دن دوپہر میں جب وہ کرکٹ کا میچ ہار کر آرہے تھے،باغیچے میں کوئی دکھائی دیا جو کھٹی نارنگیوں کی جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔حامد میاں نے بیٹ کو لاٹھی کی طرح کندھے پر رکھا اور دبے پاؤں جھاڑی کے پاس پہونچ گئے۔جھانک کر دیکھا توایک لڑکی دکھائی دی جو بڑی بڑی نارنگیاں توڑ کر دو پٹے کی جھولی بھر رہی تھی۔لڑکی کی پیٹھ حامد میاں کی طرف تھی۔حامد میاں نے ڈانٹ کر پوچھا۔

”کون ہو تم؟۔“

لڑکی اچھل پڑی،اس کے منہ سے چیخ نکلی اور ساری نارنگیاں گر پڑیں وہ سہم کر مڑی تو حامد میاں جس پوز میں تھے اسی میں کھڑے رہ گئے۔سنا تھاکہ دوپہروں میں بلائیں گھومتی ہیں جو بچوں کو اٹھاکے لے جاتی ہیں۔مگر وہ جو سامنے کھڑی تھی بلا نہیں ہو سکتی تھی کیوں کہ بلائیں اتنی خوبصورت نہیں ہوتیں۔ ایسی  سبزی مائل نیل گوں آنکھیں انھوں نے مسوری میں بھی دیکھی تھی مگر وہ ان انگریز لڑکیوں کی تھیں جو وہاں کونونٹ میں پڑھتی تھیں۔یہاں یوپی کے کونے میں کہاں سے آگئیں؟۔حامد میاں لڑکیوں کے معاملے میں اناڑی نہیں تھے دو ایک عشق بھی لڑا چکے تھے۔مگر جمیلہ کو دیکھ کر پتہ نہیں کیا ہوا کہ بس چت ہو گئے جب ذرا ہوش ٹھکانے ہوئے تو آواز اونچی کرکے پوچھا۔

”کون ہو تم؟۔“

”جی۔ ہم۔جمیلہ۔“

”جمیلہ کون؟میں نے توپہلے کبھی نہیں دیکھا۔!“

”جی وہ کہانی والی خالہ…جمیلہ ہکلائی۔وہ ہماری امّاں ہیں۔!“

حامد میاں کو یہ تو معلوم تھاکہ کہانی والی خالہ کے ساتھ ان کی بیٹی آتی ہے۔مگر کبھی دیکھا نہ تھا۔انھیں نہ کہانیوں میں دلچسپی تھی نہ خالہ میں تو ان کی بیٹی میں کیا ہو تی۔

”اوہ۔!“انھوں نے ایک لمبا سا اوہ کیا پھر مسکراکے بولے۔

”نارنگیاں پسند ہیں؟توڑ لو۔توڑ لو۔اورتوڑ لو۔مگر یہ کھٹی بہت ہوتی ہے۔“

جمیلہ مسکرائی۔اس کی مسکراہٹ بھی غضب کی تھی۔

”ہم نمک مرچ سے کھائینگے۔!“

”اور گلا خراب ہو گیا تو؟۔“

”نہیں ہوگا۔!“جمیلہ نے کہا اور زمین پر گری ہوئی نارنگیاں اٹھانے لگی۔

حامد میاں اسے دل چسپی سے دیکھتے رہے۔اور دل ہی دل میں خود کو بُرا بھلا کہتے رہے کہ اتنا بڑا خزانہ اُن کے اپنے گھر میں تھا اور وہ مسوری کی گلیوں میں وقت برباد کر رہے تھے۔حامد میاں جمیلہ پر نہایت سنجیدگی سے عاشق ہو ئے تھے۔

تاکنے جھاکنے اور کنکھیوں سے دیکھنے کا سلسلہ ایک سال چلا مگر جب اگلے سال جمیلہ آئی تو حامد میاں کافی تیاری کر چکے تھے۔ اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا تھا  ایک دن جب وہ دوپہر کا کھانا کھا کر دیوان خانے کی طرف جا رہے تھے تو جمیلہ سامنے آگئی۔

”سنئے۔!“

”سنائیے۔!“ حامد میاں ہمہ تن گوش بن گئے۔

”ہمارے کمرے میں نا رنگیوں کی ٹوکری آپ نے رکھوائی ہے نا۔؟“

”نارنگیوں کی ٹوکری۔؟“ حامد میاں نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر کہا

”قسم لے لو میں نے تو نارنگیوں کو چھوا بھی نہیں۔“

”تو پھر…۔“ جمیلہ کچھ پریشان ہو گئی۔اس نے حامد میاں کو غور سے دیکھا جن کے چہرے پر معصومیت تھی مگر آنکھوں سے شرارت جھانک رہی تھی وہ مسکرائی

”ہم سمجھ گئے آپ نے نارنگیوں کو چھوا نہیں مگر رکھوایا تو آپ ہی نے ہے۔!“

”اگر میرے ایک سوال کا جواب دو تو بتا دونگا کہ ٹوکری کس نے رکھوائی ہے۔!“

”پوچھئے۔!“

”تمہیں میری مونچھیں پسند ہیں۔؟“حامد میاں نے بہت سنجیدگی سے پوچھا

جمیلہ کھل کھلا کر ہنس پڑی۔

”آپ بڑے بد…۔“ وہ بولتے بولتے رک گئی۔

”بولو بولو۔بد کیا۔؟بد تمیز۔؟“

جمیلہ نے نا میں سر ہلایا

”بد زبان۔؟“

جمیلہ نے پھر سر ہلایا

”بد معاش۔؟“

جمیلہ پھر ہنس پڑی

”آپ بہت شریر ہیں۔!“

حامد میاں کچھ کہنے والے تھے کہ خالہ کی آواز سنائی دی

”جمیلہ۔!“

”ہم چلتے ہیں۔نارنگیوں کا شکریہ۔!“

وہ جانے کے لئے مڑی مگر حامد میاں نے ہاتھ پکڑ لیا۔

”یہ تو بڑی گڑ بڑ ہو گئی یار مجھے تم سے بہت سی باتیں کر نی تھیں۔!“

جمیلہ چلتے چلتے رُکی سر ٹیڑھا کر کے حامد میاں کو دیکھا اور دھیرے سے بولی

”لکھ کر دے دیجئے۔ہمیں پڑھنا آتا ہے۔!“

اس کے بعد یہ ہوا کہ جب بھی موقع ملتا ایک چھوٹا سا پرچہ جمیلہ کو پکڑا دیتے۔جس کا جواب کبھی ملتا بھی تو بہت مختصر ہوتا۔

”جی ہاں۔ جی نہیں۔جی ٹھیک ہے۔شکریہ۔وغیرہ وغیرہ۔“

جب وہ لکھنؤ چلی گئی تو حامد میاں نے بہت سے لمبے لمبے خط لکھے مگر اس خوف سے کبھی پوسٹ نہیں کئے کہ اگر خالہ کے ہاتھ پڑ گئے اور خالہ نے ابّا جان کو دِکھا دئیے تو ایسی شامت آئے گی کہ سارا عشق ہوا ہو جائے گا۔ابّا جان کا غصّہ سارے خاندان میں مشہور تھا،چچا میاں کہا کرتے تھے کہ نادر شاہ دُرّانی ہندوستان سے سب کچھ لوٹ کر لے گیا بس غصّہ چھوڑ گیا تھا،جو ابّا جان کے حصّے میں آیا ہے۔ ایک واقعہ تو حامد میاں کے سامنے ہی ہوا تھا۔ ایک دفعہ ابّا جان کی گھوڑی صبا رفتار نے انھیں گرا دیا تھا،ابا جان تھوڑی دیر تک صبا رفتار کو دیکھتے رہے پھر حویلی کے دربان ا ٓصف خا ں کو آوا ز دے کر کہا

”آج سے یہ تمہاری ہے مگر اسے ہمارے سامنے کبھی مت لانا ور نہ گولی مار دینگے۔“

اب اگر ایسے باپ کو بیٹے کی عشق بازی کی خبر ملے تو وہ کیا کرے گا یہ سوچنا مشکل نہیں تھا۔

حامد میاں نے خط توپوسٹ نہیں کئے مگر ایک بار چپکے سے لکھنؤ پہونچ گئے،سوچا تھا کہ موقع ملے گا تو جمیلہ کو دل کا حال تفصیل سے بتا ئینگے مگر ملاقات نہ ہو سکی پتہ چلا کہ جمیلہ اپنی ماں کے ساتھ میرٹھ گئی ہوئی ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ کب واپس آئے گی۔حامد میاں نے لکھنؤ سے مسوری واپس جا تے ہوئے بہت سوچا اور فیصلہ کیا کہ وہ عشق وشق کے چکّر میں نہیں پڑینگے بلکہ بزرگوں کو بیچ میں ڈال کرشادی کر لینگے۔امیر احمد خاں تحصیل دار کی حویلی کو جمیلہ سے زیادہ اچھی بہو کہاں ملے گی۔اس لئے اِس بار حامد میاں سردیاں شروع ہونے سے پہلے ہی گھر واپس آگئے اور خالہ کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔

ابّا جان تک پہونچنے کی تو ہمت نہ تھی مگر اماں کے لاڈلے تھے اس لئے کچھ ڈرتے، جھجکتے اور شرماتے ہوئے اپنے دل کی بات بڑی بیگم کے سامنے رکھ دیں۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے تو چکرا گئیں سوچنے لگیں کہ تحصیل دار صاحب کو کیسے راضی کرینگی جو نوابزادہ عبد اللہ خاں کی بیٹی سے رشتہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ انھیں یہ سوچ کے بھی ڈر لگا کہ گلشن بیگم بہت نیک اور شریف سہی جمیلہ لاکھوں میں ایک سہی مگر حیثیت میں بڑا فرق ہے۔ کہاں امیر احمد خاں تحصیل دار اور کہاں گھر گھر جا کے کہانی سنانے والی ایک غریب عورت۔ انھوں نے کچھ بولنا چاہا مگر اچانک رک گئیں۔انھیں یاد آیا کہ وہ خود بھی تو کسی بڑے اور امیر گھرانے کی بیٹی نہیں ہیں۔ ابّا ایک اسکول میں پڑھاتے تھے اور امیر احمد خاں گھر پر ٹیوشن لینے آتے تھے۔ وہیں آمنا سامنا ہو اتھا۔ باقی سب قسمت کا کھیل ہے۔ حامد میاں نے ماں کو گم صم دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ دھڑکتے دل سے پوچھا

”ابّاا جان سے بات کرینگی نا۔؟“

بڑی بیگم مسکرائیں،حامد میاں کے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور سر ہلا دیا۔

اس بار جب خالہ آئیں تو پہلے سے کہیں زیادہ خاطر کی گئی،پہلے وہ چھوٹے مہمان خانے میں ٹھہرائی جاتی تھیں اِس بار اُن کے لئے دیوان خانے کے پاس والا بڑا کمرہ صاف کرایا گیا جس کی کھڑکیاں باغیچہ کی طرف کھلتی تھیں اور ان پر رات رانی کی بیلیں چڑھادی گئی تھیں۔بڑی بیگم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں جمیلہ کو جانچنا اور آنکنا شروع کیا جیسے جوہری جڑ نے سے پہلے ہیرے کو پرکھتے ہیں۔اس کا اٹھنا،بیٹھنا،بولنا،چلنا،کپڑے پہننے کا سلیقہ اور کھانے کے آداب تک ہر بات ہر ادا بڑی بیگم کی ترازو میں تل رہی تھی۔

تحصیل دار صاحب تک بات پہونچ چکی تھی وہ خالہ کی کہانی سننے کو تو نہیں بیٹھے مگر ایک دن جب سب کی درخواست پر خالہ میلاد شریف پڑھ رہی تھیں وہ بھی اندر آگئے اور جب جمیلہ نے اپنی بے حد سریلی آواز میں سلام پڑھنا شروع کیا تو جھومنے لگے، جمیلہ ان کو عرش سے اتری ہوئی حور دکھائی دے رہی تھی۔ انھوں نے دل ہی دل میں حامد میاں کے انتخاب کی داد دی اور باہر نکل گئے۔

خالہ کے جانے میں کچھ دن رہ گئے تھے جب بڑی بیگم نے تحصیل دار صاحب سے کہا

”آپ کہیں تو لڑکی کو انگوٹھی پہنا دی جائے،بڑی رسم بعد میں کر دی جائے گی۔!“

تحصیل دار صاحب دیر تک داڑھی کھجاتے رہے اور سوچتے رہے پھر بولے۔

”ہاں بظاہر تو سب ٹھیک ہے،لڑکی بھی اچھی ہے مگر شادی بیاہ کا معاملہ ہے جلد بازی نہیں کرنی چاہئیے۔لڑکی کے خاندانی حالات کی تفصیل مل جاتی تو اچھا رہتا۔“

”تو گلشن بیگم سے پوچھ لیجئے نا۔!“

”کیسی باتیں کرتی ہو۔ہم ان سے شجرہ مانگیں تو انھیں بُرا نہیں لگے گا کیا۔؟“

”تو پھر۔؟“

”میں اپنے خاص آدمی فرزند علی کو لکھنؤ بھیجونگا۔وہ اِن معاملوں میں بہت تیز ہے۔گلشن بیگم کے سارے خاندان کی ہسٹری نکال لائے گا۔“

خوشی او ر غم کی خبریں بھرے پیالے کی طرح ہوتی ہیں،ٹھیس لگی اور چھلکا۔یہی حال بڑی بیگم کا تھا۔اتنی بڑی خبر تھی،گھر میں پہلی بڑی خوشی ہونے والی تھی اور وہ اس خوشی کو کسی سے بانٹ بھی نہیں سکتی تھیں مگر جس دن خالہ لکھنؤ جانے کے لئے تیار ہوئیں اور بڑی بیگم صاحب کی محبت اور عنایت کا شکریہ ادا کرنے کے لئے آئیں تو بڑی بیگم چھلک ہی پڑیں۔ خالہ کو گلے لگا لیا،خالہ نے کہا

”اللہ بیلی بیگم صاحب۔ زندگی رہی تو اگلے برس پھر حاضری دینگے۔!“

بڑی بیگم کی مسکراہٹ سارے چہرے پر پھیل گئی انھوں نے کہا

”اور اگر میں جانے ہی نہ دوں تو۔؟“

خالہ کی سمجھ میں نہیں آیا بولیں

”جی ہم سمجھے نہیں۔!“

بڑی بیگم نے پیچھے کھڑی جمیلہ کو بڑے پیار سے دیکھا اور کہا

”اچھا تمہیں جانا ہے تو چلی جاؤ مگر جمیلہ کو تو نہیں جانے دونگی۔!“

خالہ سچ مچ پریشان ہوگئیں

”جی۔؟“ انھوں نے حیران ہو کر پوچھا۔

بڑی بیگم کھل کھلا کر ہنس پڑیں

”سوچ لو گلشن بیگم۔تمہاری جمیلہ کو مجھ سے اچھی ساس نہیں ملے گی۔!“

خالہ کو بات سمجھتے دیر نہیں لگی اور جب سمجھیں تو رو پڑیں۔انھوں نے ہاتھ جوڑ دئیے اور لرزتی ہوئی آواز میں کہا

”آپ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا رہی ہیں بیگم صاحب۔ ہم آپ کے برابر کے نہیں ہیں۔جمیلہ یتیم بچی ہے اس کے پاس ہماری دعاؤں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔!“

بڑی بیگم نے اپنے دو پٹّے سے خالہ کے آنسو پونچھے اور کہا

”تمہاری دعاؤں سے زیادہ کچھ چاہئیے بھی نہیں۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔بس تم ہاں کہدو۔!‘‘

خالہ نے بیگم صاحب کے ہاتھ پکڑ لئے انھیں چوما اور کہا

”اتنا بڑا احسان کرنے سے پہلے اگر آپ ہماری کہانی سن لیتیں تو بہتر ہوتا۔!“

”کتنی کہانیاں سناؤ گی گلشن۔اب بس بھی کرو۔ میرا ارادہ محرم بعد منگنی کرنے کا ہے۔تمہیں کوئی پریشانی تو نہیں ہوگی نا۔؟“

خالہ کی عجیب حالت تھی وہ کبھی بڑی بیگم کو دیکھتیں کبھی جمیلہ کو جس کی آنکھیں آنسو روکنے کی کوشش میں ترشے ہوئے نیلم کی طرح چمک رہی تھیں۔وہ بڑی بیگم کے قد موں پر جھک گئیں اور بڑی بیگم نے گلے لگا کر کہا

”ابھی یہ بات اپنے تک ہی رکھنا تحصیل دار صاحب جیسے ہی تاریخ طے کرینگے میں خبر بھیجوا دونگی۔“

ٹرین دوسرے دن بہت سویرے کی تھی اس لئے سب لوگ جلدی سونے چلے گئے مگر جمیلہ کو نیند نہیں آئی۔وہ اندھیرے میں ہر طرف حامد میاں کو دیکھتی رہی چمکتی ہوئی شریر آنکھیں،ماتھے پر بکھرے بال اورپتلی مونچھوں کے نیچے بھرے بھرے سرخ ہونٹ۔ اس نے کروٹ بدلی تو کھڑکی کے پاس باغیچے میں کوئی کھڑا دکھائی دیا۔وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔اسے پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔کھٹی نارنگیوں کی جھاڑیوں کے پاس حامد میاں کھڑے تھے۔جمیلہ انھیں دیر تک دیکھتی رہی اور کچھ سوچتی رہی پھر دھیرے سے اٹھی،دیوان خانے کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔آہٹ ہوئی تو خالہ نے آنکھیں کھول دیں۔انھوں نے جمیلہ کو حامد میاں کی طرف بڑھتے دیکھا۔ایک پل کو کچھ سوچا پھر مسکرا کے آنکھیں بند کر لیں۔

حامد میاں نے بانہیں پھیلا دیں اور جمیلہ ان میں سمٹ گئی۔ اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا اور ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈے تھے۔حامد میاں نے اس کی بند آ نکھیں چومیں اور سر گوشی کی

”ڈر لگ رہا ہے۔؟“

جمیلہ نے سر ہلا دیا۔

”اماں نے سب کچھ بتا دیا نا۔؟“

جمیلہ نے پھر سر ہلادیا۔

”منہ میں زبان ہے۔؟“

جمیلہ نے پھر سر ہلایا۔

”تو بولو۔!“

”کیا بولیں۔؟“ جمیلہ نے آنکھیں کھول دیں۔حامد میاں اپنے سارے سوال بھول گئے اور نیلی جھیلوں میں غرق ہو گئے!

بڑی بیگم اس قدر مصروف تھیں کہ سانس لینے کی فرصت نہیں تھی۔ شادی بیاہ کوئی ہنسی کھیل تھوڑی ہو تا ہے۔محرّم سر پر ہے اور ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہوا ہے کہ منگنی میں کتنے جوڑے جائینگے۔زیوروں کی کمی نہیں ہے مگر کون سے دینے ہیں کون سے رکھنے ہیں سمجھ میں نہیں آتا،کس سے مشورہ کریں۔حویلی میں درجنوں رشتے دار اور نوکر بھرے پڑے ہیں مگر سب بیکار۔ چچا میاں کی بیوی بیمار نہ ہوتیں تو کتنا کام کرتیں مگر اب تو سارا کام انھیں کو کرنا پڑے گا۔ انھوں نے اپنی منگنی کا ٹیکا نکالا اور ہتھیلی پر رکھ کر سوچنے لگیں کہ جمیلہ کے ماتھے پر کیسا لگے گا۔اچانک دروازہ دھماکے سے کھلا۔تحصیل دار صاحب،چچا میاں اور فرزند علی اندر گھس آئے۔تحصیل دار صاحب کی حالت دیکھ کر بڑی بیگم کے ہاتھ سے زیور گر پڑے وہ کھڑے ہو کر چیخیں۔

”ارے کیا ہو ا۔؟“

تحصیل دار صاحب نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا یا جو چچا میاں پکڑے ہوئے تھے اور اتنی زور سے چیخے کہ آواز پھٹ گئی۔

”وہ طوائف ہے۔حرامزادی۔رنڈی ہے۔“

بڑی بیگم کا منہ کھلا رہ گیا۔

”کون۔؟کس کی بات کر رہے ہیں۔؟“

”وہ ٹکیائی آپ جس کی بیٹی کو اپنی بہو بنا رہی تھیں۔ وہ گلشن بیگم نہیں گلشن بائی ہے۔ نواب طالب کی رکھیل تھی سور کی بچّی۔ اس کی اتنی ہمت۔گولی مار دونگا۔ چھوڑونگا نہیں۔میرے بیٹے کو پھنسا رہی تھی۔سالی،بد ذات،ویشیا…“

چچا میاں نے کندھے پر ہاتھ رکھا

”بس کیجئے بھائی صاحب۔ آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی۔اللہ نے بڑی خیر کی کہ رسم سے پہلے ہی اصلیت معلوم ہو گئی ورنہ سارا شہر ہم پر ہنس رہا ہوتا۔“

”نہیں۔“ تحصیل دار صاحب دہاڑے۔میں اس حرافہ کو زندہ نہیں چھوڑونگا۔کہانیاں سنانے کے نام پر گھر گھر جا کے دھندا کرتی تھی حرامزادی۔!“

”بھول جائیے حضور۔ میں نے اس کے دروازے پر کھڑے ہو کر اتنی گالیاں دی ہیں کہ کوئی عزت دار ہو تا تو زہر کھا لیتا۔پورا محلہ جمع ہو گیا تھا۔!“

”بس اتنا کا فی ہے۔فرزند علی کو انعام دیجئے۔اس نے خاندان کی عزت بچا لی۔!“ چچا میاں نے کہا

بڑی بیگم پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک ایک کی صورت دیکھ رہی تھیں اچانک انھوں نے اپنا سینہ پکڑ کے کہا۔

”ہائے میرا بچہ۔!“اور بے ہوش ہو گئیں۔

حامد میاں کو خبر ہوئی تو دوڑے ہوئے آئے۔گھر کی عجیب حالت تھی،نوکر کونوں میں دبکے ہوئے کھڑے تھے۔ بڑی بیگم جا نماز بچھائے قرآن پڑھ رہی تھیں اور دیوان خانہ تحصیل دار صاحب کی گالیوں کی گرج چمک سے لرز رہا تھا۔حامد میاں نے پوچھا

”یہ کیا ہوا اماں۔؟“

بڑی بیگم نے اطمینان سے قرآن شریف بند کیا اسے بوسہ دیا اورٹھہرے تھمے لہجے میں بولیں۔

”جو ہوا ٹھیک ہوا۔اللہ نے بال بال بچا لیا ورنہ اس گھر کی عزت چوراہے پر نیلام ہو جاتی۔!“

حامد میاں اس طرح اپنی ماں کا منہ دیکھتے رہے جیسے وہ اجنبی زبان بول رہی ہوں۔ پھر ماں کا ماتھا چوما۔ گیراج سے گاڑی نکالی اور اندھیرے میں غائب ہو گئے۔ رات بھر ڈرائیو کرنے کے بعد جب لکھنؤ پہونچے تو فجر کی اذان ہو رہی تھی،صبح ہونے میں تھوڑی دیر تھی مگر ہلکا اجالا پھیلنے لگا تھا۔ خالہ کے دروازے پر اندھیرا تھا مگر اس پر لگا ہوا بڑا سا تالا صاف دکھائی دے رہا تھا۔حامد میاں نے تالے کو دو تین بار ہلایا۔دروازے پر لگی گھنٹی کے بٹن کو بار باردبایا مگر کچھ بھی نہ ہوا تو تھکے قدموں سے واپس جانے لگے۔اچانک ان کی نظر سفید داڑھی والے ایک بزرگ پر پڑی جو شاید مسجد جانے کے لئے گھر سے نکل رہے تھے۔حامد میاں نے سلام کر کے پوچھا

”کیا آپ کو معلوم ہے کہ گلشن بیگم جو اس گھر میں رہتی ہیں کہاں گئی ہیں۔؟“

بڑے میاں نے انھیں سر سے پاؤں تک دیکھا پھر خالہ کے بند دروازے پر نظر ڈالی اور سر ہلا کر کہا۔

”کیا بتائیں بیٹا۔زمانہ بڑا خراب ہے،کب کہاں کیا ہو جائے کچھ کہہ نہیں سکتے،دو دن پہلے کچھ غنڈے آئے تھے۔ اس نیک بخت بیوہ اور اس کی بیٹی کو گندی گندی گالیاں دے رہے تھے۔ پتہ نہیں کون لوگ تھے کہاں سے آئے تھے۔اور کیوں دھمکی گالی دے رہے تھے۔وہ لوگ تو چلے گئے مگر دونوں ماں بیٹیاں بھی راتوں رات کہیں چلی گئیں۔!“

”کچھ اندازہ ہے کہ وہ کہاں گئی ہونگی؟“

حامد میاں نے ہمت کر کے پوچھا

”ارے۔کسی کو کچھ نہیں معلوم ہے بھیّا۔ہماری بیگم تو ڈر رہی ہیں کہ کہیں خود کشی نہ کر لی ہو۔دونوں بڑی نیک اور خود دار تھیں۔!“

حامد میاں سے اور نہ سنا گیا،گاڑی میں آکر بیٹھے۔اسٹیرنگ پر سر رکھا اور بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے۔!

حامد میاں کو کہانی والی خالہ کی کہانی معلوم ہو چکی تھی پھر بھی وہ ایک بار ان سے ملنا چاہتے تھے ان کی زبان سے سننا چاہتے تھے کہ جو کچھ ابّا جان اور فرزند علی کہہ رہے ہیں وہ کتنا سچ ہے۔ وہ ایک بار جمیلہ کی نیلی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھنا چاہتے تھے مگر وہ دونوں ماں بیٹیاں پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئی تھیں۔ حامد میاں نے ہر اُ س دروازے پر دستک دی جہاں خالہ جایاکرتی تھیں مگر وہ تو اس طرح غائب تھیں جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ کبھی کبھی تو وہ ڈر جاتے انھیں خالہ کے پڑوسی کی بات یاد آتی۔

”عزّت دار عورتیں تھیں،اتنی بے عزّتی کے بعد کہیں خود کشی نہ کرلی ہو۔!“

وہ جمیلہ کی سبزی مائل نیل گوں آنکھوں میں موت کی بے نوری دیکھتے اور لرز کر اپنی آنکھیں بند کر لیتے۔مہینے بھر تک شہروں شہروں خاک چھاننے کے بعد گھر واپس آئے تو چہرے پر ایک عجیب سا سکون تھا بے قرار آنکھوں میں ٹھہراؤ آگیاتھا۔ایک دن بہت دیر تک کھٹی نارنگیوں کی جھاڑیوں کے پاس کھڑے رہے ایک نارنگی توڑ کر دانتوں سے کاٹی تیز کھٹاس زبان کو لگی تو پھینک دی۔ پیچھے سے آواز آئی۔

”نمک مرچ سے کھائینگے تو کھٹاس نہیں لگے گی۔“

پلٹ کر دیکھا تو وہاں دوپہر کے سناٹے کے سوا کوئی نہیں تھا۔ اس شام حامد میاں نے اعلان کیاکہ انھوں نے لندن کے امپیریل کالج میں داخلہ لے لیا ہے اور وہ اگلے ہفتے روانہ ہو جائینگے۔بڑی بیگم نے رو رو کر روکنے کی کوشش کی چچامیاں نے بھی سمجھایا مگر حامدمیاں اپنی ضد پر قائم رہے۔آخر تحصیل دا ر صاحب نے سب کو یہ کہہ کر چپ کرادیا کہ

”جوان بچہ ہے۔گہری چوٹ لگی ہے، باہر جائے گا،دل بہلائے گا تو سب بھول جا ئے گا۔اسے جانے دو۔!“

حامدمیاں لندن گئے اور ایسے گئے کہ پلٹ کر آنے کا نام تک نہ لیا۔ اور اگر بڑی بیگم بیمار نہ ہو جاتیں تو شاید کبھی بھی نہ آتے۔ماں نے آٹھ برس بعد بیٹے کا منہ دیکھا تو جیسے مردہ جسم میں جان آگئی،اُٹھ کر بیٹھ گئیں۔حامد میاں کافی بدل گئے تھے۔ مونچھیں غائب ہو چکی تھیں اور کنپٹیوں پر سفید بال دکھائی دے رہے تھے بڑی بیگم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُس ذلیل طوائف زادی کی وجہ سے میرے بچے کی کیا حالت ہو گئی۔انھوں نے سر پر ہاتھ پھیرا اور آنسو بھری آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا

”اب ہمیں چھوڑ کے مت جانا بیٹا۔اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔اپنا گھر بساؤ،بڑا ارمان ہے مرنے سے پہلے پوتے پوتیاں دیکھنے کا۔“

حامد میاں نے ماں کو گلے لگایا، پیار کیا اور باہر چلے گئے۔

گرمی آچکی تھی۔شام کو آنگن میں چھڑ کاؤ کیا گیا۔سفید مچھر دانیوں والے پلنگ لگائے گئے رات رانی اور موگرے کی خوشبو میں بسی ہوئی رات میں کھلے آسمان کے نیچے سونا کتنا اچھا لگتا ہے۔ بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی اور دنیا میں چلے آئے ہوں۔ایسی ہی ایک رات تھی جب لندن سے حامد میاں کے دوست رینڈی کا فون آیا۔اس کا اصلی نام رندھیر سنگھ راناوت تھا مگر لندن میں رینڈی کہلاتاتھا۔ رینڈی جے پور کے شاہی گھرانے سے تعلق رکھتاتھا اور حامد میاں کے بہترین دوستوں میں سے تھا۔لندن میں دونوں ساتھ ہی رہاکرتے تھے۔رینڈی نے بتایا کہ اس کی شادی طے ہو چکی ہے۔وہ جے پور کے لئے روانہ ہو رہا ہے اور چاہتا ہے کہ حامد میاں بھی شادی سے پہلے جے پور پہونچ جائیں۔

رینڈی کی شادی کیا تھی ایک جشن تھا جو صبح سے شروع ہوتا تھا اور اس وقت تک جاری رہتا تھا جب تک لوگ تھک کر گرنے نہ لگیں۔ رینڈی کے ہندوستانی دوست تو تھے ہی لندن سے بھی بہت سے آئے تھے۔تمام مہمانوں کے لئے بہت سے پروگرام رکھے گئے تھے۔ شکار،پکنک،رات میں ریگستان کی سیر،بوٹ ریس اور نہ جانے کیاکیا۔ سارے مہمان ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرائے گئے تھے اس لئے کسی کو کوئی پریشانی نہیں تھی دوستوں کی مستیوں میں کسی کو اپنے کمرے میں جانے تک کا وقت بھی نہیں ملتا تھا۔ جاتے بھی تھے تو تھوڑی دیر آرام کرنے یا کپڑے بدلنے کے لئے۔!

شادی سے ایک دن پہلے جب حامد میاں نیچے اترے تو رینڈی نے روک لیا۔

”تم ہال میں نہیں جا سکتے۔!“

”کیوں۔؟“ حامد میاں نے حیران ہو کر پوچھا

”ارے سالے،دولہا تو تم معلوم ہو رہے ہو۔دلہن والوں کو غلط فہمی ہوگئی تو کیا ہوگا۔!“

سیاہ شیروانی اور چوری دار میں وہ سچ مچ دولہا ہی معلوم ہو رہے تھے۔بس سہرے کی کمی تھی۔ایک زور دار قہقہہ پڑا۔حامد میاں نے رینڈی کو ایک دھپ مارا۔

”سالے نظر لگا رہا ہے۔؟ارے کوئی ہے میری نظر توڑ نے کے لئے مرچیں لاؤ۔!“

ایک اور قہقہہ پڑا۔

سنگیت سبھا شروع ہو چکی تھی اندر سے سازوں کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھیں حامد میاں نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئے تو جم کر رہ گئے۔سامنے جمیلہ ناچ رہی تھی۔

تیز میوزک پر اس کا بل کھا تا جسم،ہاتھوں کی جنبش،آنکھوں کے اشارے اور ہونٹوں پر پھیلی ہوئی ایک بڑی سی مسکراہٹ اور ایک بے حد سیکسی آواز۔

”ہمار کہی مانو راجا جی۔ ہمار کہی مانو او راجا جی…“

لوگ فدا ہوئے جا رہے تھے۔ ایک لڑکے نے نوٹوں کی گڈی نکال کر اپنے ہونٹوں سے لگائی پھر سارے نوٹ جمیلہ کے اوپر نچھاور کر دئیے۔

حامد میاں کو ایسا لگا جیسے ان کی گلے میں کچھ پھنس گیا ہے۔ سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہے۔ انھوں نے گھبرا کے چاروں طرف نظر دوڑائی،سازندوں کے پیچھے ایک دیوان پر خالہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ وہ خالہ نہیں تھیں جو سر پر سفید دو پٹہ لپیٹ کر کہانیاں سنایا کر تی تھیں۔یہ تو کوئی پرانی نائکہ تھی جس نے بھڑک دار ساڑی پہن رکھی تھی،زیوروں سے لدی ہوئی تھی اور ہونٹوں کی لپ اسٹک تازہ خون سے زیادہ سرخ تھی۔ جمیلہ نے حامد میاں کو دیکھ لیا۔ وہ مسکرائی،رُکی۔جھک کر آداب کیا اور پھر گانے لگی۔

حامد میاں کا دم گھٹنے لگا وہ جلدی سے ہال کا دروازہ کھول کر باہر نکلے اور کوریڈور میں کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔ اچانک پیچھے سے آواز آئی۔

”حامد میاں۔!“

انھوں نے پلٹ کر دیکھا۔خالہ کھڑی تھیں۔ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہیں۔بس چپ چاپ خالہ کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔خالہ ذرا سا آگے آئیں اور ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں

”آپ کچھ پوچھینگے نہیں۔؟“

”کیا پوچھیں۔؟“حامد میاں کو اپنی آواز کہیں بہت دور سے آتی ہوئی لگی۔

خالہ پھر مسکرائیں۔

”تو ہم بتا دیتے ہیں۔“

وہ تھوڑی دیر اس طرح کھڑی رہیں جیسے آنسو روکنے کی کوشش کر رہی ہوں پھر دھیرے سے بولیں۔

”شریف بننے کی بہت کوشش کی تھی میاں مگر خاندانی شریفوں نے بننے نہیں دیا۔تو کیا کرتے، جس کوٹھے سے اُترے تھے پھر وہیں واپس آگئے۔“

حامد میاں اس طرح ساکت کھڑے رہے جیسے پتھر بن گئے ہوں۔ پتھر جو نہ سن سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ محسوس کر سکتا ہے۔خالہ بہت دیر تک کچھ بولتی رہیں پھر اندر چلی گئیں۔

پتھر وہیں کھڑا رہا۔اندر سے جمیلہ کی آواز آرہی تھی۔ہمار کہی مانو راجا جی…

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے