اس فلسفیانہ بحث سے قطعِ نظر کہ جمالیات انسان کے داخل میں ہے یا خارج میں، ہر شخص جمال کا بے حد پرستار ہے، اور تو اور اسے تو ایک بد شکل (عام) موت بھی ناپسند ہے۔ حالاں کہ یہ بات بالکل بھی متنازع نہیں کہ موت میں کوئی حسن ہے کہ نہیں۔ جمال کا یہ احساس کہ ہر انسان خوبصورت چیزیں اپنے  اپنے جمالیاتی احساس اور معیار کے مطابق پسند کرتا ہے، اِس کا شعور کی بلوغت کے (زمانے کے) ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ شروع   ہی سے جب انسان کی پوری دنیا ماں کے شکم تک محدود ہوتی ہے پھر بھی فطرتاً وہ روشنی تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے اور ماضی سے ایک قسم کی بیزاری  و ناراضی کا اظہار۔ میرے  خیال میں روشنی حسن کی پہچان کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اس کے بغیر ایک با نظر شخص ایسے ہی اندھیرے میں گھرا ہوتا ہے جسے ازلی یا اتفاقی اندھا۔ اس تناظر میں روشنی کی اعلی اور مثالی شکل "نور” جس کے متعلق آسمانی صحیفے جتنا زیادہ بولتے ہیں اور وحدت الوجود اور وحدت الشہود سے  لے کر بدھ مت اور ہندومت تک روشنی اور "گیان” کے جتنے تصورات  علامتی و غیر علامتی، کتابی و غیر کتابی صورت میں موجود ہیں، ان سب کا ماخذ ایک ایسا حسن ہے کہ وہ بذات خود روشنی ہے یا روشنی کے ساتھ بے حد قریبی یعنی روح اور جسم جیسا تعلق رکھتا ہے۔  جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ گاہے گاہے ہم اندھیروں میں سکون کس لیے محسوس کرتے ہیں تو میں کہوں گا کہ ہم خود سے اور اپنے ماحول سے کسی طور تھک چکے ہوتے ہیں اور اپنے مسائل کا حل عقل اور جارجی عناصر کی مدد و مراد تک پہنچ جانے میں نہیں پاتے ہیں تو ایسے میں ہم مجبوراً اپنے تخیل سے مدد مانگتے ہیں اور نارسیدہ مرادیں داخلی قوت سے زبردستی اپنی گرفت و دسترس میں لاتے ہیں۔ یعنی کوئی دوسری روشنی جو خارج میں موجود روشنی سے زیادہ قوی ہے، زندگی کی ظلمتوں اور مایوسیوں میں ہماری دنیا روشن کرنا شروع کر دیتی ہے اور ہمیں اندھیرے کے شیطان کے پنجوں  سے نجات دلاتی ہے۔

یہ کہنا قطعی طور پر غلط ہو گا کہ تخیل محض شاعروں، ادیبوں اور مفکروں کے ساتھ مخصوص ہے اور باقی کسی کا اس میں کوئی حصہ نہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پہاڑ کی چوٹی پر بکرے چرانے والا چرواہا بھی تخیل سے اتنا ہی معمور ہے جتنا کہ علم کے مدرسے سے نکلنے والا ایک بڑا مفکر۔ اس کے بجائے کہ ہم کس کو تخیل رکھنے (ہونے) کا کریڈٹ دیں اور کس کو نہیں، یہ کہنا زیادہ معقول ہو گا کہ تخیل کے ہونے سے زیادہ اس کے استعمال میں فرق ہے۔ ایک شاعر تخیل کا جتنے ترتیب، توازن اور اعتدال کے ساتھ استعمال کر سکتا ہے وہ ایک چرواہے کے بس کی بات نہیں۔ تخیل اگر امیدوں، مایوسیوں اور خارجی موافق و غیر موافق عناصر کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو سکے تو اس کے کام کا دائرہ ِکار یا تو سرے سے بن ہی نہیں پائے گا یا اتنا بجھا اور پھیکا پھیکا ہوگا کہ خارجی ماحول اور ذہنی مایوسی کے اندھیرے اسے شکست کھانے پر مجبور کر دیں گے۔ اسی لیے اس طرح کا استعمال چیزوں کے ساتھ جتنا ہم آہنگ، بہ ترتیب و اعتدال کے ساتھ ہو گا اس کا اثر اتنا ہی قوی ہو گا اور فعالیت مسلّم۔ اچھا ادیب اور مفکر اِس کا (تخیل) استعمال بخوبی جانتا ہے اور وہ تخیل کا گھوڑا ایک اچھے گھڑ سوار کی طرح دوڑاتا ہے۔ مجال ہے کہ اس سے گھوڑے کی لگام چھوٹ سکے یا اس کی منشا کے خلاف گھوڑے کی رفتار میں کوئی فرق آسکے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ تخیل کا پورا استعمال چیزوں کو خوبصورت بناتا ہے اور ہمارے لیے ایک ایسی روشنی کے حصول کا کام انجام کو پہنچاتا ہے جس سے ہم "ایک آنکھ والے دیو” کی اسیری میں زندہ رہ سکتے ہیں اور زیوس (Zeus) کی سزا کے باوجود اپنی خواہشوں کا پرومیتھیس (Prometheus) آزاد چھوڑ سکتے ہیں اسلیے ہر جگہ ادیب یہ کام تخیل کی مدد سے کرتے ہیں اور الفاظ میں فلسفے اور نظریات کے برعکس ایک ایسا خیال پیش کرتے ہیں کہ "خوبصورتی تخیل سے ہے نہ کہ خارجی عناصر کے ترتیب و توازن سے، اور یہ جو خارجی عناصر میں ترتیب، توازن اور ہم آہنگی ہے یہ بھی اصل میں ہمارے اپنے تخیل میں ہے ورنہ تو عناصر بے تربیب ہیں جیسے سنگ ریزے بکھرے پڑے ہیں "، اگر میرے اس خیال کی صداقت مشتبہ ہو بھی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ ہمارے تخیل کی اہمیت اور فعالیت سے اس حد تک آشنا ہوتا ہے جتنی ہمارے تمام عمر کی عقلی ریاضت اور "ذوقی عمل”، دونوں موجود ہوتے ہیں۔  ان دونوں کا امتزاج وہ غیر محسوس عنصر ہے جو اشیا کو رنگ اور توازن فراہم کرتا ہے۔ اس غرض سے "لفظوں، "سروں ” اور "رنگوں ” کا استعمال اگر اس کے اپنے طبعی توازن اور خواہش کے مطابق نہ ہو تو ایک فن پارے میں نقص ہونا ناگریز ہوجاتا ہے۔ "تاج محل” اسی لیے خوب صورت ہے کہ اس میں تخیل کی رنگ آمیزی اتنی ہی کوشش سے ہوئی ہے اور اس ہونے کا (کتنا) تقاضا جو ہمارے خیال میں بنانے والے کے تخیل نے کیا ہوگا۔  اب اگر یہی تاج محل، تخیل کے استعمال سے  ناآشنا آدمی دیکھ لے تو وہ اسے فقط اینٹوں اور مرمر سے بنا محل سمجھے گا۔ لیکن جمالیاتی بصیرت رکھنے والے اسے جو سمجھیں گے اس کا اندازہ اس جرمن ماہرِ تعمیر کی بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ جو جرمن تعمیرکاروں کے نقص نکالنے پر اپنے معتقدین سے ناراض ہوگئے۔ اب پریس میں جاری بحث کے دوران تاج محل کے ذکر میں اس نے یہ کہا کہ جب میں (آگرہ) جا کے واپس آؤں گا تو اس عمارت کی خامیاں تمہیں بتاؤں گا۔ اس شخص نے دو ماہ آگرہ میں گزار کر، اس عالیشان مقبرے کے ایک ایک گوشے کا معائنہ کیا اور واپس لوٹنے پر لکھا کہ میں نے ایک خامی نکالی ہے وہ یہ کہ اس عمارت پر شیشہ پوشی بھی کی گئی ہے۔ یہ آدمی یقیناً بہ قول حالی غالب کی طرح "حیوان ظریف” تھا، آخر غالب نے بھی تو کہا ہے:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

 

اب اگر اس شعر کے مطابق جرمن ماہر تعمیر کی تاج محل کے بارے میں کہی گئی بات کو یکجا کیا جائے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان دو باتوں میں کوئی ایسا جمال ظاہراً نہیں چمکتا (روشن ہوتا) جس کے بارے میں ایک فن کار کی کوششیں کہیں عمر کے کسی ایک مرحلے میں اور خوش بختی کی کسی ایک گھڑی میں کامیابی تک پہنچتی ہیں۔ ورنہ تو تمام عمر شعر کہنے اور عمارات بنانے میں گزر جاتی ہے۔ خوشحال خان کی تلوار اور وقار (عزت) کی تاریخی شہادتوں سے ہٹ کر، اس کی شاعری میں کچھ ایسے حسین حقائق موجود ہیں کہ وہ لا شعوری طور پر ذہن میں آنے لگتے ہیں، جیسے وہ کہتا ہے:

زاہد کی عبادت گاہ سے دل تنگ ہو گیا ہے

پس اس کے، میں مے فروشوں کی خدمت کروں گا

 

ہر چیز میں نظارہ اسی چہرے کا کر رہا ہوں

جو بہت زیادہ دِکھنے سے ناپید ہوگیا ہے

 

یہ جمالیاتی افکار محض خوشحال خان ہی کے ساتھ مخصوص نہیں تھا۔رحمان بابا بھی جمالیات کا بڑا مصور تھا اور اس کا زیادہ تر دیوان جمالیاتی ذوق کی ان مثبت اقدار پر مشتمل ہے جو انسان کی سب سے بڑی آرزو ہوتی ہیں اور بڑی فطرت کا سب سے بڑا خراج۔ اس کے دو اشعار پیش کرتا ہوں:

ظاہر  ہر ایک پر ہوں میں اپنی ہی شکل میں

بے رْو و بے ریا ہوں  میں آئینے کی طرح

 

عاشق ہوں سروکار میرا عشق ہی سے ہے

نہ میں خلیل ہوں، نہ داؤدزئی، نہ ہوں مومند

 

یقیناً یہ ا ور ایسے اور اشعار انسانی زندگی کی مثبت قدروں کا وہ جمالیاتی ورثہ ہیں جو کسی لحاظ سے  اور کسی بھی زمانے میں ہماری توجہ سے نہیں ہٹ سکتے۔اور اب اس طرف آجاتے ہیں کہ آج کے حمزہ شینواری کا کہنا کتنا خوبصورت ہے۔

آجاتے ہیں آنکھوں میں دید کے وقت

آنسو کتنے ناسمجھ رقیب ہیں

 

اسی طرح خارجی کیفیت، اطراف اور کائنات کے ساتھ ہم آہنگ باتیں اور تخلیقی تصورات شیرازہ حیات ہیں اور ہم سردی، گرمی، سختی، آسودگی، اجڑے اور بنے ہوئے، غرض ہر حال میں فنونِ لطیفہ کے ساتھ اپنی محبت قائم رکھنے پر مجبور ہیں۔ اگر یہ خیال پارے اور احساس کی زبان میں نظم ہوئے خوبصورت اور موزوں الفاظ نہ ہوتے تو ہماری زندگی کو جن ارضی و سماوی، سماجی و جغرافیائی مصیبتوں کا  سامنا ہے ان سے بچ پانا کسی صورت ممکن نہ ہوتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں زندگی دو بڑی عالمی جنگوں جیسی مصیبت کے بعد بھی برقرار ہے، زلزلے اور آتش فشاں لاوے کے بعد بھی، سا ئیکلونوں کے بعد بھی۔

نثر میں بھی جمالیاتی اقدار کے آنے کی پوری گنجائش موجود ہے۔ ہمارے برصغیر میں محمد حسین آزاد کا”شہرتِ عام بقائے دوام کا دربار“  اس کی اچھی مثال ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ”قدر“ کب پیدا ہوتی ہے؟ اس وقت جب کوئی چیز یا فن پارہ اپنی اصلیت کے لحاظ سے ایک ابدی نشانی بن جائے اور ایسا توازن، اعتدال اور ہم آہنگی، یعنی کششِ ثقل کا انتظام  اگر ہر دو کے مابین نہ ہوتا تو کائنات ذرے ذرے ہونے سے کون بچا سکتا تھا۔ کسی چیز یا فن پارے کی اصلیت سے مراد ”صداقت“ ہے اور یہ وہ صفت ہے جو تاریخ کے ابتدا سے ہمارا افتخار ہے۔  ابراہیم ؑ کو آگ تک کس نے پہنچایا بس یہی صفت، سقراط کو کس نے زہر کے ذریعے قتل کیا بس یہی صفت، مسیح کو کس نے صلیب تک پہنچایا بس یہی صفت، حسین ؑ کو کس نے خون خون کیا بس یہی صفت، اور آج کے لوممبا اور سید قطب کو کس نے موت کے منہ کا نوالا بنایا ہاں بس یہی صفت۔ اگر حقیقت یہی ہے تو ”صداقت“ سب سے بڑی ”قدر“ کی حیثیت رکھتی ہے اور حسن کی ہم معنی شے ہے۔ بلکل کیٹس کے مطابق ”حسن صداقت ہے اور صداقت حسن یہی وجہ ہے کہ صعوبتوں، سختیوں، اموات اور خواہشات کے باوجود ہمارے دل اسی تصور کی طرف کھنچتے ہیں جو خوبصورت ہو، وہی شعر سراہتے ہیں جس میں حسن کا بیان ہو، وہی نغمہ دل کو بھاتا ہے جو درد کا حسین اظہار ہو۔

یونانیوں اور ہندوؤں کی اصنام پرستی، بدعات اور حاجات کے لیے نئے خدا کے ساتھ ساتھ انسان کا فن  یعنی صورت گری بھی مدد گار ثابت ہوئی۔ ہم مونالیزا کو نہیں جانتے نہ ہی اس کی تاریخ سے کوئی آگاہی رکھتے ہیں لیکن لیونارڈو ڈونچی جیسے مصور نے اسے ہماری آنکھوں میں جگہ دی اور قدیم (بڑے) نسائی کرداروں سے ہماری آنکھیں مسمی کر دیں۔ صداقت کے اظہار میں غلطی کا احتمال ہو سکتا ہے جیسے مہذب یونان یا آریائی ہندوستان سے ہوا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان تخیل کی صداقت سے آزاد ہو گیا یا اس کے ذریعے جو شبیھیں ہمارے ذہن میں آئی ہیں اس کی کوئی امکانی شکل دنیا میں نہیں یعنی جو ہمارے ہجری دور سے بھی قدیم چیزیں ہیں۔ فرق یہ قدر ہے کہ کوئی چیز جو کسی مخصوص وقت میں چند لوگوں کے لیے عام فہم اور دل پذیر ہو وہی باقیوں کے لیے فضول ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پکاسو کی مصوری، سلامت علی اور نزاکت علی کے پکے راگ، عبدالرحمن چغتائی کے مغل آرٹ اور فیض احمد فیض کی شاعری۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ چیزیں شروع ہی سے بے معنی تھیں یا ان میں آفاقیت نہیں تھی یا کسی صداقت کا اظہار ان میں نہیں تھا۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخء تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

 

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ شعر مہمل ہے لیکن اس شعر کے پسِ منظر سے آشنا لوگ اسے واقعی غالب کے دیوان کا مطلع اول بننے کا حق دار سمجھتے ہیں۔ اسی طرح گرجا سینٹ پیٹر عیسائیوں کے بغیر کسی بھی قوم کے لیے محض ایک عمارت ہے بہت خوبصورت یا کم۔ لیکن عیسائیوں کے لیے یہ ناقابل بیان تقدس کی حامل ہے اس لیے کہ فنی صداقت میں کوئی اور صداقت جو نظریاتی ہے اور دین جیسی ہے، بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سینٹ پیٹر کی جو اہمیت ان کے لیے ہے وہ ہمارے لیے نہیں۔ فن جب عقیدے کی حد تک محکم ہوجائے یا عقیدے کی روح بن جائے تو بلند ہو جاتا ہے۔ ہر حال میں حسن سچا ہے اور بیکراں کشش کا مالک ہے اور یہ ہر چیز کو خوبصورت سمجھتا ہے۔ ایک فن پارہ جب حسن کا حامل ہوجائے تو پھر عین صداقت بن جاتا ہے اور عین صداقت ہونے پر عین حسن۔

کچھ لوگ نئی شاعری کے قائل نہیں اور تو اور وہ شاعری میں سڑک ہوا اور ایسی کئی چیزوں کا استعمال شجرِ ممنوعہ سمجھتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ نا انصافی کرتے ہیں اور اگر ان چیزوں کا انہیں کسی کی تخلیق میں لطف نہیں آیا، تو یہ اس کے بیان کا عجز، ”غرابت“ اور کمزوری ہوگی ورنہ ہر چیز حسین ہے۔ خس و خاشاک سے لے کر ستاروں اور آسمان تک یہ بات عیب دکھائی دینے کے باوجود بری نہیں لگتی  کہ اپنی ایک نظم پیش کروں سڑک کے موضوع پر مشتمل، ہوا کی سرسراہٹ سے معمور، انسان کے نہ ہونے پر اداس، المیہ ہے اْنہیں معنوں میں جیسے ارسطو کا ”کتھارسس“ یعنی ”نظریہ تطہیر“ یا کہ عمومی نظم، یہ فیصلہ قارئین کریں گے۔ میرے خیال میں تو (جیسے اکثر لکھاریوں نے اپنی تخلیقات کے بارے میں لکھا ہے) یہ جمالیات کے ادنی سے اعلی تصور تک ایک مکمل تخلیق ہے۔ اختلاف بہر حال ہوسکتا ہے اور کچھ کو چند چیزوں کی  طرح اپنے تخیل سے مطابقت نہ ہونے کی وجہ سیایک بے معنی تحریر بھی لگ سکتی ہے۔ بہر حال نظم یہ ہے اور اس کا عنوان ”آرزو“ ہے۔

تارکول کی اس سڑک پر دور دور تک

ویرانی ہے خزان یا زمستان جیسی

سرسراہٹ ہے ہوا کی اور کچھ نہیں

آباد راستے پر بھی تنہا سفر ہے

جوانی کی خواہشات سے دل بھرا ہوا ہے

لیکن جہاں انسان نہ ہو وہاں کیا ہے

تارکول کی اس سڑک پر دور دور تک

یا تو دیکھتا ہوں شیاطین اپنے ساتھ ملے ہوئے

یا خاموشی جو زندگی کی بڑی نفی ہے

ہوا کی سرسراہٹ کے علاوہ بھی

ایک انسان تو راستے پر میرا ساتھی ہوتا

تارکول کی اس سڑک پر میرا دل خوش ہوتا

 

الغرض اپنے بارے میں لکھنا صرف خود ستائش نہیں ہوتی۔ کچھ ایسے زاویے بھی لوگوں کے سامنے لانا ہوتے ہیں کہ اگر وہ ایک طرف فن میں ظاہر ہوتے ہیں تو دوسری طرف اسی کی جڑیں شخصیت میں بھی پنہاں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابنِ خلدون کا ”مقدمہ“ تو بہت مشہور ہے لیکن تاریخ کے بارے میں کوئی جاننا نہیں چاہتا۔ مطلب یہ کہ ”روسو کا عمرانی فلسفہ“ کو اپنی جگہ اہم سمجھاجائے گا اور اس کے ”اعترافات“ اپنی جگہ۔ یہ اقبال کے اس مصرع کی مصداق ہے:

ایسی چنگاری بھی یا رب میرے خاکستر میں رکھ

مختصر یہ کہ جمالیات کا فلسفہ اور سائنس کے مقابلے میں ادب کے ساتھ زیادہ گہرا رشتہ ہے اس لیے کہ جمالیات سراپا تخیل کی مرہون منت ہے، فلسفہ ”تفکر“ اور سائنس ”الشکل“ کی۔ فلسفہ پتھر کے وجود سے بحث کرسکتا ہے، سائنس اس کے حجم اور وزن کے ساتھ،لیکن رنگ، حسن اور مقام کا تعین کرنا جمالیات کا کام ہے اور یہ کام شاعروں اور ادیبوں کے بغیر نہ تو رازی کے بس کی بات ہے نہ ہی ابنِ سینا یا ابنِ عربی کی۔ اس جمالیاتی عنصر یعنی ادب کے ذریعے بائرن نے  پورے یورپ میں انقلاب برپا کیا اور یونان کے سنگ ترکی کے خلاف برطانیہ سے روس تک سب میسحی ممالک کو جگایا۔ رودکی کی ایک نظم کے  رد عمل میں بادشاہ نے اپنا اٹل ارادہ بدل دیا اور بغیر جوتے پہنے گھوڑے پر سوار ہوکے وطن روا نہ ہوگیا۔ عرب کے اعشی نے بد صورت لڑکیوں پر قصیدے لکھ کر ان کی شادیاں عرب کے حسین اور رئیسوں سے کرادیں۔ کیا کیا بندہ یاد کرے، ہر نقش ہی پیکرِ تصویر ہے اور تصویر ایمبریان اور لیونارڈو ڈونچی کی تصاویر کی طرح خوبصورت۔ ایک آخری بات اس تناظر میں یہ کہی جاسکتی ہے کہ جمالیاتی تصویر ڈارون کے ”ارتقائے انواع“ کے مطابق کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکتا وہ اس لیے کہ سائنسی ارتقاء کے باوجود خودکشی کو آج بھی جاپان میں مقدس رسم کی حیثیت حاصل ہے۔ زندگی کی قیمت صرف حسن کے احساس اور حسن کے ساتھ محبت ہوسکتی ہے۔

اس کے لیے کیٹس کی یہ بات بے حد شیرین اور بہت کام کی ہے کہ ”حسن صداقت ہے اور صداقت حسن“۔ جو بھی ”مسرت“ ان چار حروف میں چاہتا ہے یعنی مسرت بول کر یا اس کی تکرار پر، وہ ڈلفی کے غیب دان کی نظر میں صادق (انسان) نہیں ہوسکتا اور نہ وہ سقراط کہلا سکتا ہے جس کا نام آج بھی زندہ ہے حالاں کہ قرن ہا قرن گزر چکے ہیں۔ نہ تو وہ عدالت ہے نہ وہ حاکم، حد تو یہ ہے کہ تاریخ بھی ان کو بھلا چکی ہے۔ اس سے ظاہر یہ ہوا  کہ حسن ظاہری ستائش کا قائل نہیں بلکہ اسے وطن دوست لوممبا جیسی محبت درکار ہے، جمیلہ بوہائری جیسا عشق چاہیے، اور گلیلو جیسی ریاضت، ورنہ تو فقط لفظوں سے مسرت کی چاہ سراب ہے، یوں حسن کا حصول اور اس کی تلاش بے معنی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بطور اکائی اپنی (ذات) اور کائنات کھوجیں اور وہ حسن تلاش کریں جو تخیل کی رنگینی کی تصاویر، گویائی اور شعری الہام جیسے لگیں اور موسیقی کی طرح دل میں اترنے کا باعث بنیں۔ اگر یہ تناسب، توازن اور ہم آہنگی ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو اور سماج کو ایک کردیں اور اپنی ذہنی اور سماجی اکائی کو دو مختلف چیزیں بن جانے کے لیے نہ چھوڑیں۔ اس کے لیے تھوڑی ”قناعت“ اور تھوڑا ”حرص“ دونوں ہماری وحشی فطرت اور خودی کی انا کی طبع کو متوازن کرسکتے ہیں اور ہم میں ایسی استقامت لاسکتے ہیں جیسے کششِ ثقل کے ذریعے زمین اور آسمان اپنی اپنی جگہ پر ہیں جیسے سقراط نے موت اور فرار کے مابین اپنی زندگی ختم کرنے کی حد تک ”صداقت“ کو مستقیم کیا اور اس کے درمیان کوئی دوسرا رستہ موجود نہیں۔

انسان جیسے شہروں اور اس کے شور شرابے سے تھک چکا ہے۔وہ آخر سردیوں میں آگ سیکے گا، قدیم لوگوں کے قصے سنے گا اور مغنی کا رباب، محبوبہ کا ذکر اور ہجر وصال کے حادثے۔ اسی لیے کہ یہ حسن کے ساتھ جڑے ہوئے وہ تاریخی سلسلے ہیں کہ سیزر جیسا جرنیل بھی اس کا مداح ہے اور نپولین جیسا فاتح بھی۔ انسان آخر حسن کی گود میں سکون ڈھونڈے گا اور اگر وہ محبت کو مسل دے اور نفرت کو اپنا لے، پھر بھی جب تک چرواہے کی بانسری، بھیڑوں کا کارواں اور گاؤں موجود ہیں نغمے پھیلیں گے، پیزار کا شور ہوگا اور دوپٹے افق سے افق  اور سواد سے سواد تک، ہر شے رنگین کر دیں گے۔

بے محنت کوئی راحت پا نہیں سکتا

وصال کی خوشی بہ مقدار ہجر ہوجاتی ہے

رحمان بابا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے