سنگت اکیڈمی آف سائنسزکوئٹہ کی  پوہ زانت نشست 25 ستمبر 2022 کو صبح  گیارہ بجے پرفیشنل اکیڈمی میں منعقد ہوئی۔ نشست کی صدارت سنگت اکیڈمی کے مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض سنگت اکیڈمی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری نجیب سائر نے ادا کیے۔

عبدالستار مری نے سنگت رسالے  کے اگست شمارے پر اپنا رویو پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا  کہ کاش کسی تحریر کی شروعات بھی انجینئر نگ جتنی آسان ہوتی کہ ہم سائن اور کاز تھیٹا لگاتے اور ایک زاویہ ملتا لیکن یہ لکھنے کا کام  ہمیشہ کسی ستارے کھوجنے جتنا مشکل ہوتا ہے۔ سنگت  مہتاک جو کہ سیما بانو کی ڈیزائن میں ملبوس ہے  کی شروعات کاکا صنوبر کی نظم کے ترجمے سے ہوتی ہے۔ جبکہ سنگت ایڈیٹوریل نے عمران خان کو بت مینوفیکچرنگ کمپنی کی اب تک کی سب سے اپ ڈیٹڈبت اور پنجاب کی حقیقت قرار دیا۔ چی گویرا کی موت پر فیڈرل کاسٹر و کا ترجمہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کیا، کہ چے کا قتل اسے جسمانی طور پر تو ختم کر سکتا ہے لیکن اس کی سوچ اور نظریات کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ عبدالستار ہمیں آگے چل کر میر ساگر کی نظم خواب کا نوحہ کے بارے میں بتاتے ہیں۔  عبداللہ جان جمالدینی کے مضمون بلوچی دھاگوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں  کہ بلوچی دوچ کی اہمیت سمجھاتے ہوئے امریکہ انگلینڈ، چائنہ  ازبکستان، تاجکستان اور ایران سے ہوتے ہوئے بلوچستان کی وادیوں میں لوٹ آتے ہیں۔امام بخش کی خوبصورت شاعری میں شاہ مرید و مائی ہانی بطور تشبیہہ استعمال ہوئے۔ اسی طرح محمد شعیب کا مضمون ڈاکٹر حئی بلوچ نے ڈاکٹر صاحب کی زندگی اور مخلص رویے کا تفصیلی جائززہ لیا۔  مرزا ابراہیم پر مضمون میں احمد مشال نے انہیں برصغیر کے بانیوں میں شمار کیا۔ احمد نواز کی تحریر میں قومی شاعر رحم علی مری کی مشکل زندگی کا ذکر ہے۔گوریلا جنگ کے نام سے ڈاکٹر خالد سہیل کے مضمون میں گوریلا جنگوں کی تاریخ سے لے کر گوریلا فتوحات تک ہر مرحلے پہ بخوبی غور کیا گیا ہے۔  جاوید اختر کا مضمون کمیونزم کا بھوت میں کہتے ہیں کہ  بورژوا دانشوروں نے کمیونزم کے خاتمے کے بھرپور پروپگینڈے کیئے۔ اسی طرح دوسرے مضامین پر بتاتے ہوئے آخر میں کتاب پچار میں شیلا جیفری کی کتاب انڈسٹریل وجینا کا رویو کے بارے میں بتاتا ہے کہ اس کتاب میں یہ بتایا گیا ہے کہ  پروسٹیٹیوشن انڈسٹری عالمی تجارت کا حصہ بن چکی ہے۔

عابد میر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان نے بہت ہی شاندار رویو پیش کیا ہے۔ تاہم اگر شاعری پر بھی  اسی طرح کا تجزیہ آتا تو بہت اچھا ہوتا۔

اس کے بعد عابدہ رحمان نے اپنا افسانہ ‘انصاف کا لاشہ’پڑھا۔یہ افسانہ حالیہ سیلاب میں جاگیرداروں کے مکروہ اعمال کا احاطہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر منیر صاحب کے مطابق یہ ایک براہ راست اظہار ہے اور عابدہ رحمن نے زبردست اندار میں اپنی تخلیق کاری کااظہار کیا۔

ڈاکٹر شاہ  محمد مری نے کہا کیپٹلسٹ نظام کموڈٹی پر بھروسہ کرتا ہے اور وہ یہ کموڈٹی پیسے سے خریدتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام بغیر سرمایہ کے نہیں ہوگا خام مال کو پراڈکٹ میں بدلنے کے لیے انسانی محنت یعنی مزدور کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مزدور کو کم اجرت دی جاتی ہے جبکہ اس کی محنت کا زائد حصہ سرپلس ولیو کی صورت میں سرمایہ دار کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ سرپلس ویلیو وہ محور ہے جس کے گرد سرمایہ دارانہ نظام گھومتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام اپنے ساتھ ناانصافی پر مبنی نظام کا جال بھی بچھاتا ہے جیسے یہ مزدوروں کی محنت کا استحصال کرکے ناجائز دولت اکھٹی کرتا ہے پھر اپنی فیکٹری یا کارخانے کو بچانے کی رشوت دیتا ہے اور سفارش کرواتا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ یہ ہر جگہ بچت کرتا ہے۔ خام مال لیتے ہوئے بچت کرتا ہے، مزدوروں کو کم اجرت پر رکھ کر یا زیادہ دورانیہ کام کروا کر بچت کرتاہے، اور پھر خام مال سے ایک پراڈکٹ بنا کر مہنگے داموں بیچ کر بھی پیسے کماتا ہے۔

یورپ نے مشینوں یا ٹیکنالوجی کا استعمال ہم سے پہلے کیا اور ترقی کرتا چلا گیا۔  ڈویلپنگ کنٹریز کی فیکٹروں اور کارخانوں کو زبردستی بند کروایا۔ اور ان ممالک سے سستے داموں خام مال لے کر جو پڑاڈکٹ بنا تا پھر ان ہی ڈویلپنگ کنٹریز پر مہنگے داموں بیچتا ہے۔ تاکہ یہ ترقی پذیر ممالک اسی طرح ڈپینڈنٹ رہیں اور پھر قرضوں کے نام پر انہیں مزید غلام بناتا ہے۔ لہذا اب یہ صرف ایک معاشی معاملے میں دوسروں کو غلام نہیں بناتا بلکہ ان کے سیاسی، خارجی معاملات اور تایخ بھی اپنی مرضی کا طے کرتا ہے، یہ ظالم نظام ہمسایہ  ممالک کو آپس میں لڑتا ہے اور وار انڈسٹری کی کمائی سے اپنے اثاثے بڑھاتا چلا جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے قتل و غارت والا نظام کٹ تھروٹ کیپٹلزم ہے جس میں وہ مقابلے میں آکر ایسی ایسی جنگیں لڑتا ہے کہ انسان تو کیا زمین پر رہنے والی پوری زندگی کو مفلوج کر دیتی ہے۔ جس انداز میں جنگیں کپیٹل سسٹم میں وحشی ہوگئی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس سسٹم میں مفاہمت یا ٹرانزیشن حالت ممکن ہی نہیں ہے۔

کیپٹلسٹ کے ہاتھ ایک اور مہلک چیز لگی وہ اشتہار بازی ہے۔  یہ اس چیز کو بھی آپ کی ضرورت بناتا ہے جس کی آپ کو ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے گھر میں آرٹیفیشل ضرورت پیدا کرتا ہے اور نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ جو رقم ہم ان چیزوں پر خرچ کرتے ہیں اس نقصان کا ہمیں پتہ تک نہیں ہوتا۔ ٹی وی کی اشہار بازی نے بوڑھے بچے، مرد عورت غرض ہر ایک کو ایک کمپیٹشن میں لگا دیا ہے۔

نجیب سائر نے سمیع ساحل کو قراردادیں پیش کرنے اور سامعین سے ان کی منظوری لینے کی درخواست کی۔ سمیع ساحل نے درج ذیل قراردادیں پیش کیں:

۔1 آج کا سنگت پوہ زانت سیلاب زدگان کے نقصانات کا ازالہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور ساتھ ہی حکومت کی لاپرواہی اور نااہلی پر گہر ی تشویش کا اظہار کرتا ہے۔

۔2 بلوچستان کے سیاسی و معاشی مسائل کو حقیقی بنیادوں پر حل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے

۔3  بے روزگاری کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے اور جب تک کوئی بے روزگار ہے  اسے بے روزگار وظیفہ دیا جائے۔

۔4 کسانوں کو مفت بیج کھاد اور  زرعی ادویات اور زرعی آلات کی فراہمی کا مطالبہ کرتا ہے

۔5  مسنگ پرسنز کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے

۔6 مہنگائی کے خاتمے اور روزمراہ اشیائے خوردونوش کی سستے داموں دستیابی کا مطالبہ کرتا ہے

۔7 سرائیکی کے عظیم عوامی شاعر شاکر شجاع آبادی کی وفات کو قومی سانحہ قرار دیتا ہے اور اس کے لواحقین و پسماندگان سے گہری ہمدردی کا اظہار کرتا ہے

۔

اس کے بعد ڈاکٹر منیر رئیسانی نے اردو جبکہ حسن بلوچ نے براہوئی شاعری پیش کی  اور سامعین نے  بھرپور داد دی۔

آخر میں ڈاکٹر عطائاللہ بزنجو نے صدارتی کلمات ادا کیے: انہوں نے نئے آنے والے دوستوں کو خوش آمدید کہا۔  انہوں نے کہا بلاشبہ عبدالستار مری نے اچھا رویو پیش کیا اور یہ رویو اس لیے پیش کیا جاتا ہے کہ دوست سنگت کے ماہانہ رسالے کا مطالعہ کریں۔ عابدہ رحمن نے اپنے افسانے میں جبری گمشدگیوں، قبائلی سرداروں کا ایک حقیقی منظر پیش کیا جس پر دوستوں نے کافی بحث کی۔

انہوں   نے مزید کہا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے پورے ملک کا نظام مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ متاثرہ افراد ابھی تک کھلے آسمان تلے اور سٹرکوں کے کنارے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ متاثرہ افراد تک خاطر خواہ امدادی کاروائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس حوالے سے ماہنامہ سنگت کے اداریہ نے موجودہ سیلابی تباہ کاریوں کا بخوبی جائزہ لیا ہے اور ان پر کھل کر بات کی ہے۔ ساحر کے دو مصرعوں کے ساتھ ہی جنا ب صد ر نے اپنی بات کا اختتام کیا

ہم جو انسانوں کے تہذیب لیے پھرتے ہیں

ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

 

یوں پوہ زانت کا ایک بھرپور نشت اختتام پذیر ہوا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے