بلوچستان ایک مرتبہ پھر ارضی و سماوی آفات کی گرفت میں ہے۔ ہم نے بار ہا بے خانماؤں کو مرتے، بے گور و کفن دفناتے، بھوک سے بلکتے، بیماریوں کی نذر ہوتے،اپنوں سے بچھڑتے ہوؤں کو ماتم کرتے، تڑپتے، لٹیروں کے ہاتھوں لٹتے، کسی اور آفت کے لئے بچ جانے والوں کو خود کو ایک نئی تباہی کے لئے تیار ہوتے دیکھا ہے۔ اور ہر بار حکمرانوں کی بے حسی کا رونا روتے ہیں۔ ہر وقت کسی نہ کسی نازک صورت حال سے دوچار ہوکر یہاں سے وہاں بے سرو سامانی میں ہجرت کرتے رہتے ہیں۔قبائلی سربراہوں، وڈیروں، سرمایہ داروں کے در پر سرٹیکتے ہیں، ان کی جھڑکیاں کھاتے ہیں جبکہ مکار، چالاک لوگ ان بے کسوں،مہقورو مجبور لوگوں کو بے آسرا چھوڑتے ہیں۔ یہ سب ان کے لئے آنے والی عطیات پر عیاشیاں کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں عقل نہیں آئی۔ ظالموں کے چنگل سے نجات پانے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی۔ جب بھی انتخابات آئے پھر سے بلیک میل ہوتے رہے۔ چند روپوں کے عوض ہم اپناوو ٹ بیچتے ہیں۔ موقع پرست،نام و نہاد رہنما ء کی سرکاری نوکریوں اور روزگار کا جھانسہ دیتے ہیں۔ آپس میں قبائلی جھگڑوں کو ہوا دیتے ہیں۔تعصب پر مبنی نعرے اچھالتے ہیں۔ اس کے بعد تو خود ساختہ مہنگائی کے خلاف اتحاد و اتفاق کا فقدان ہی رہے گا۔اسی طرح یقینا صحت و تعلیم کی سہولت پر ہم آوا زبلند ہونے میں رکاوٹیں پیدا ہونگی۔ برسوں کے بعد اعلان شدہ چند آسامیوں پر بولیاں لگتی رہیں گی۔

عزتیں لٹتی رہیں گی، چھینا جھپٹی اور ڈکیتیاں ہوتی رہیں گی۔ نہ جانے با اثر افراد کی موچڑیاں سیدھی کرنے والوں کو اپنے حقوق کے حصول کا شعور کب آئے گا ……؟نہ جانے بے گناہی میں مارے جانے والے جنت اور دوزخ کے سر ٹیفکیٹ بانٹنے والوں سے کب چھٹکارہ حاصل کریں گے……؟ ایسی جہالت کہ اب اشیائے خوردنی، پوشاک اور تعلقات پر بھی شیعہ، سنی اور کافر کے مہر ثبت ہونے لگے ہیں۔ کرونا کے بعد ایک مرتبہ پھر موجودہ سیلاب کے بڑے پیمانے پر تباہ کاری نے بچوں، بزرگوں،خواتین اور نوجوانوں کو بھکاری بنا دیا ہے۔ ایسے موقعوں پر نہ تو ہم نے مزدور تنظیموں کو نہ ہی کسان تنظیموں کوفعال دیکھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ یوم مزدور منانے تک محدود ہیں۔ یا سرکاری ملازمین کی تنخواؤں میں اضافہ اور مراعات کے لئے جدوجہد کرنا ہی ان کا مقصد و محور ہے۔ سوال یہ ہے کہ دیہاڑی دار محنت کش طبقے کی نمائندگی کون کرے گا……؟۔ شاپنگ مال، مارکیٹوں، مختلف کمپنیوں اور نجی کارخانوں میں کم اجرت پر کام کرنے والوں کی سرپرستی ان کے مسائل کا حل کیسے ممکن ہوگا……؟۔ ٹیکسوں کے انبار سے عام عوام کو چھٹکارہ حاصل کرنے کی سبیل کون فراہم کرے گا……؟۔ ہمیں اب غور کرنا ہوگا۔ عوام کی طاقت کرم خوردہ کیوں ثابت ہورہی ہے۔ ان کے غضباک آنکھوں میں ظلم برداشت کرنے کا سرمہ کون ڈال رہا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ لوگ جہالت کی سلائیاں خود پھیرنے کے نشہ میں مبتلا ہیں۔ وہ سیاستدان جو اسمبلی میں ایک دوسرے کو غیرت، شرم و حیاء کا طعنہ دیتے ہیں۔ ان معصوموں کے حقوق غضب کرنے والوں کے خلاف ایسے جملے کیوں نہیں دہراتے۔ اس وقت بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں نوے فیصد زیادہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے دورہ کے بعد یہ کہا تھا کہ میں نے اس سے قبل ایسی تباہ کاری نہیں دیکھی ہے۔اس کے باوجود قومی میڈیا پر ایسا کوئی تاثر نہیں پایاجاتا ہے نہ ہی حکومت اور 33 اضلاع کی انتظامیہ کی جانب سے ہلاکتوں اور نقصانات، تباہ شدہ املاک کی صحیح اعداد و شمار پیش کیے جارہے ہیں۔ عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ سیلاب متاثرین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ سیلاب کے بعد باقی ماندہ انسان بھوک، بیماری سے ہلاک ہوسکتے ہیں۔ا ن خدشات کے باوجود حکمرانوں کا رٹہ رٹایا جملہ، کریں گے، ہونگے، دیں  گے، نکالیں گے ……پر مکمل ہوتا ہے۔ صحیح اعداد و شمار پیش نہ کرنے کی ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ موجودہ تباہی سے حکمرانوں کی کارکردگی کی قلعی کھل سکتی ہے۔جبھی تو اس مقصد کے لئے قائم ادارے بے بسی کا شکار ہیں۔

سیاسی دباؤ کا شکار انتظامیہ نا اہلی کے زخم چاٹ رہا ہے۔ چونکہ قومی ادارے بلوچستان میں برائے نام وجود رکھتے ہیں۔اس لئے ابھی تک فیصلہ نہیں ہوپارہا کہ عطیات و امداد کی تقسیم کس طرح ہو۔سیاسی، سماجی اداروں تنظیموں میں سے کس کو کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ جب تک امدادی کاموں کو سیاسی تعلق سے ہٹ کر نہیں سوچا جائے گا۔ امدادی عطیات ماضی کی طرح بد عنوانی کی نذر ہوجائیں گے۔ ایسی ہی بے اعتباری کی وجہ سے دوست ممالک اب رقم کی صورت میں عطیات دینے سے کترا رہے ہیں۔ اس صورت حال میں سات ہزار کلو میٹر سڑکیں نہ جانے کب تعمیر ہوں گی۔ آئندہ کے لئے معیاری پل و ڈیم کیسے تعمیر ہوں گے۔ریل کا نظام دوبارہ کیسے درست ہوگا۔ گیس اور بجلی کی ترسیل میں آئندہ رکاوٹوں یا کھمبوں اور پائپ لائنوں کو کیسے محفوظ بنایاجاسکے گا۔سیلابی راستوں پر قائم آبادیوں کو کس طرح دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے گا۔ کیونکہ موسمیاتی رپورٹ کے مطابق آئندہ آنے والی بارشوں میں زیادہ شدت ہوگی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت نقصانات کے ازالے کے لئے 15ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ جبکہ حکومتی اعلان کے بعد محض تین ارب جمع ہوچکے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایک مدت کے بعد غذائی قلت کا سامنا ہوگا۔ تسلیوں پر کام چلاتے ہوئے نہ جانے چند کلو آٹا، دالیں، منرل واٹر تقسیم کرنے کا سلسلہ کب تک چلے گا۔ دیر پا حل کی جانب کسی کی توجہ نہیں۔ لگتا ہے ماضی میں میرانی ڈیم کے متاثرین کی زر تلافی کی طرح یہ معاملہ بھی برسوں چلے گا۔

آئندہ آنے والی کسی آفت تک لوگ اسی طرح اپنے کلیم کے لئے در بدر کی ٹوکریں کھاتے رہیں گے۔ واویلہ کرتے رہیں گے۔ان کی یہی مجبوری آئندہ انتخابات میں اہم نعرہ ثابت ہوگا۔ بس ایک ہی چارہ ہے کہ عوام دوست نظریاتی لوگ یکجا ہوکر اس ظالمانہ نظام کو دفع دور کرنے کی سعی کریں۔جس کے لئے مزدور اور بے کسوں کو بھی موجود ہ نظام کی خرابیوں سے با خبر اہل علم و دانش کا ساتھ دینا ہوگا۔ تاکہ آنے والی نسلوں کو ایسی ذلالت سے دور رکھا جاسکے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا چارپائیوں پر پانی میں خواتین، بچوں اور بزرگوں کا تیرنا، آبادیوں کے ساتھ ساتھ قبرستانوں کے نشانات کامٹ جانا، ایل پی جی گیس، جلانے کے لئے لکڑی کا ناپید ہوجانا، تیار فصلوں کا تباہ ہوجانا، اشیائے خورد نوش کی قلت، مصنوعی مہنگائی، سیلاب زدگان کی ادویات اور ڈاکٹروں کی مسلسل راہ تکنا، مسافروں کا کئی دنوں تک بے یارو مدد گار راستوں کے کھل جانے کا منتظر رہنا، کسی گہری کھائی یا کنویں میں گرے انسانوں کی لاشیں نکالنے کے لئے بے بسی کا تماشہ لگنا ایک قیامت سے کم نہیں؟اور کیا ایک ناقابل تسخیر ملک ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے لئے یہ سوچنے کا مقام نہیں؟

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے