محترم حکیم محمد قاسم عینی سے میری پہلی ملاقات بلوچی اکیڈمی کے  الیکشنوں کے موقع پر ہوئی۔میں عبداللہ جان جمالدینی اور بشیر بلوچ کے پینل کا پولنگ ایجنٹ تھا اور عینی صاحب ہمارے مخالف پینل کا ووٹر تھا۔ میں نے اسے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ ایک بہت ہی مختصر وجود، لنگی نما پگڑی اور اکیلا بیٹھا ہوا شخص۔ گور کی ہوتا تو سب کچھ چھوڑ کر اُس پر افسانہ یا ناول ضرور لکھتا۔

میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے تو اکثریت ادیبوں شاعروں کی ایسی تھی جو اسے نہیں جانتی تھی۔ غالب اکثریت کی رائے میں وہ سونا بنانے والا حکیم محمد قاسم ہے۔ اور اسے خصوصی طور پر  شاید زندگی میں پہلی بار ووٹ ڈالنے لایا گیا ہے۔ اِن الیکشنوں میں ہم (اُس کے ووٹ کی وجہ سے بھی)ہار گئے تھے۔اس کے بعد ہم ایک ایک کر کے اکیڈمی سے نکال دیے گئے۔ پتہ نہیں وہاں قاسم صاحب کی مزید کوئی کار آمدی رہی تھی یا نہیں۔

سیاست کا اشتراک اگر ہٹالیا جائے تو بلوچستان معاشی معاشرتی طور پر ایک بہت ہی heterogenousسماج ہے۔ اور سوشل سائنسز میں یہ ایک دلچسپ مظہر ہے کہ ایک پوری قوم کو سیاسی اشتراک نے فیصلہ کن طورپر قوم بنایا۔ ریسرچ کا کتنا بڑا موضوع ہے یہ!۔

قاسم اسیheterogenous معاشرے کا ایسا فرد تھا جسے بلوچستان نہیں جانتاتھا۔ سیاسی نہیں تھا اس لیے۔ نام نہاد مین سٹریم میں نہیں تھا اس لیے۔ کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھاتاتھااس لیے۔ بڑی بڑی مونچھیں اور بندوقوں سے لیس لیویز سے مزین پجارو گاڑیاں ساتھ نہیں تھیں اس لیے۔ نواب، نواب زادہ،نواب پوتا اور نواب پڑپوتا نہیں تھا اس لیے۔

اس نے علم کا راستہ اختیار کیا۔ اور علم بھی سعدی ورومی والا، اخلاقیات اور پندو نصائح والا۔ وہ جو  اب کی دنیا میں ”آؤٹ آف کورس“ ہوچکے ہیں۔ عینی صاحب فکری طور پر آئیڈیلسٹ نظریے کے علم کی طرف چلا گیا۔ حالانکہ ہم جیسے رجعتی ملک میں اس شعبے میں بے شمار پیسہ ہے، بے شمار مراعات ہیں، حتی کہ مجلسِ شوری ہے، وزارت ہے۔مگر یہ شریف آدمی اس شعبے میں بھی بے شہرت رہا۔ اس لیے کہ وہ کسی ملّا ئی فرقہ بندی میں بھرتی نہ ہوا، وہ کسی ملّائی سیاسی پارٹی یا گروہ میں شامل نہ ہوا۔

دنیاوی جاہ وجلال، پیسہ ودولت اور شہرت و مقبولیت کی پرواہ اُسے یقینا نہ ہوگی۔ مگر علمی کاوشوں کا  نظر انداز ہونا ٹی بی کی موت مرنا ہوتا ہے۔قاسم کے دل سے پوچھو، اُس کے دماغ اور جذبات سے پوچھو، ایک ایک سیل اور فائبر نظر انداز کیے جانے کے دکھ میں ادھ موا پڑا ملے گا۔

میں نے چونکہ مولوی کے پاس فارسی اورعربی کے بنیادی اسباق چھوٹے سے آبائی مدرسے سے پڑھ لیے تھے اس لیے اندازہ کرسکتا ہوں کہ اگر ہم عالمی صنعتی نظام سے قبل کے معاشرے میں ہوتے تو محمد قاسم کی خوب آؤ بھگت ہوتی۔ اس شخص میں اتنی صلاحیت ضرور موجود تھی کہ وہ نصیر خان نوری یا احمد یار کی ریاست میں دربار کا تیسرا چوتھابڑا رتبہ ضرور پاتا۔

مگر صنعتی نظام تو اخلاقیات نہیں مانتا۔ کپٹلزم روایات کو بھی ٹھوکر پہ رکھتا ہے اور عقائد کو بھی خود سے پرے رکھتا ہے۔ گلا کاٹنے والی مقابلہ بازی میں سعدی ورومی و عینی کا کیا کام؟۔ ایسے تابڑ توڑمقابلہ بازی میں، ایسی منافقت اور چالاکی روباہی بے اصولی میں کمال خان شیرانی کا بیٹا نائب قاصد ہی رہے گا اور محمد قاسم بے شناخت ہی مرے گا۔

یہ تو شکر ہے کہ اُس کے بیٹے نے ایک شعبے میں دنیاوی نام کمایا تب، دنیا نے باپ کی طرف بھی دیکھا۔ اس نے خود بھی باپ کی تحریروں کو فضول نہیں گردانا۔ کچھ کو چھپوایا۔ ایک چھوٹی سی لائبریری اُسے دے دی اور پھر خود اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے والد کی علمی کاوشوں سے بے خبروں کو آگاہ کرسکنے کا کچھ وقت نکال سکا۔

اس کی 32کتابوں کتا بچوں میں سے آخری کا نام ہی ”مادرنہ زادے“ ہے۔ یہ اس نے بلاشبہ اپنے بارے میں نہیں لکھا مگر اس استحصالی سماج میں ہر اَن فِٹ شخص یہی کہتا پھرتا ہے کہ

مرا اے کاش کہ مادر نزادے

وگرمی زاد کس شیرم نہ دادے

(نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا)۔

ایک کتاب اُس نے عورتوں کے بارے میں بھی لکھی: ”گند جن وشیر زال“ اُس نام کے اوپر درج ذیلی نام نے مجھے جھنجلاہٹ ہوئی: پنت ونصیحت ئے کتاب۔

اس کتاب یا کتابچے کا جو مسودہ میرے پاس آیا وہ تو پروف کی غلطیوں سے لتھڑا ہوا ہے۔ ممکن ہے فائنل کاپی اس عیب سے مبرا کیا گیا ہو۔

طویل عمر ی ایک نعمت ہوتی ہے۔ مگر اُس بڑھاپے کے ساتھ ساتھ عینی صاحب کے نام میں بہت زیادہ تغیر وتنوع اور طوالت صرف عینی صاحب کے ہاں دیکھنے میں آئی۔ وہ ابو یحییٰ بھی تھا، العینی بھی رہا، بن العلامہ محمد عیسی بھی تھا، الخارانی بھی۔ اور پھر ان سب کا مجموعہ بھی تھا۔

وہ کبھی خود کو فیلسوف لکھتا ہے، کبھی علامہ، کبھی حکیم۔ عمروں میں ربع صدی کا فرق نہ ہوتا تو کہہ ہی ڈالتا ”تم کیا چیز ہو یار!“۔

اسی طرح اس کے ہاں موضوعات کا تنوع بھی دلچسپ ہے۔ اس نے 30، 30اور 40,40صفحات کے بے شمار کتابچے لکھے۔ (اور یہ بات مجھے زیادہ عملی لگتی ہے)۔بابو شورش کی طرح اس کی ایک اور خاصیت یہ تھی کہ وہ باقاعدہ چھ زبانوں کے الفاظ لے کر اُن کا مرکب بناتا تھا اور شعر میں ڈھالتا تھا۔ یعنی ایک شعر چھ زبانوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

”اقوال عینی“ اپنی نوعیت کی ایک منفرد تصنیف ہے۔ ریاضت و محنت اپنی جگہ،یہ خود ستائشی کی حد تک خود اعتمادی کا مظہر بھی ہے کہ آپ اپنے نام سے اپنے  ”اقوال“ مینو فیکچر کرلیں اور انہیں یکجا کرلیں اور اپنے اقوال ہی کے نام سے شائع کریں۔وہ  اِس عمر اور اِس قدر وسیع علمی کاوشوں کا آدمی نہ ہوتا تو میں اس کا پیش لفظ قسم کی چیز لکھنے کے بارے میں قلم تھامنے کا سوچتا تک نہ۔مگر:

سائیں کمال خان شیرانی سے ایک بار بحث کرتے ہوئے میں نے کہا”عجب آدمی ہو“۔اُس نے میرے دیے ہوئے اِس لقب چھوٹا سمجھ لیا اور یک دم تصحیح کر لی۔ ”عجب نہیں، میں ”میر عجب“ شخص ہوں۔

مجھے ”میر عجب“ لوگ اچھے لگتے ہیں۔ مجھے عینی صاحب اچھا لگتا تھا، اس کا ”اقوال عینی“ نامی کتابچہ اچھا لگتا تھا۔

کتاب کے مندرجات پہ بھی میں جابجا ٹھٹکا۔ اس نے بے شمار ایسے اقوال وضع کیے جو واقعتا مقبول عام ہوسکتے ہیں۔ انہیں یہاں دوہرانے سے میرا پیش لفظ بے وجہ طویل ہوجائے گا۔ اندر خود پڑھیے۔ مجھے تو بس اُس کے توکل،اُس کے عزم کی تعریف کرنی تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے