ہم رکھ کے اْسے چھجے پہ کہیں

بْھول گئے ہیں شاید۔۔۔۔

وہ چیز جسے یک جہتی کہا کرتے تھے!۔

اب تو آس بھی بھکارن لگتی ہے

برس آتے ہیں برس بیت جاتے ہیں

ہم رکھ کے اْسے چھجے پہ کہیں

بْھول گئے ہیں شاید۔۔۔۔

دو چار بہکی بہکی سی لکیریں

سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کو

گروہوں میں دیتی ہیں بانٹ

یہاں رکھ دیے ہیں چہرے کرکے چھانٹ

آس امید کے دیے بھی ہلکورے لیتے رہتے ہیں

یہ میرا ہے۔۔۔۔ یہ تیرا ہے۔۔۔۔

ہم رکھ کے اْسے چھجے پہ کہیں

بْھول گئے ہیں شاید۔۔۔۔

تم ایک وزیر بن گئے تو بْھول گئے اوقات

ارے جاؤ تم بھی بنو بس صرف تجزیہ کات

جاؤ چْپ! ارے چْپ! تم چْپ

میں یہ! میں وہ! بس تم کچھ نہیں

ہم رکھ کے اْسے چھجے پہ کہیں

بْھول گئے ہیں شاید۔۔۔۔

جمہوریت برابری اور انصاف کی تحریک

یہ ہی کھوکھلے سے نعرے چلتے ہیں یہا ں

در حقیقت تو یہاں ہر سْو

سرمایہ دارانہ نظام پلتا ہے

ہم رکھ کے اْسے چھجے پہ کہیں

بْھول گئے ہیں شاید۔۔۔۔

وہ چیزجسے یک جہتی کہا کرتے تھے!۔

عوام ہمارے نجانے کس موم سے بنے ہیں

پگھل رہے ہیں! بس! پگھل ہی رہے ہیں

دنوں تلک مزدوری بھی نہیں ملتی

غریب کے بچوں کو تعلیم نہیں ملتی

خریدنے سے بھی لیکن صحت نہیں ملتی

کام کر کے بھی مگر روٹی نہیں ملتی

ہم رکھ کے اْسے چھجے پہ کہیں

بْھول گئے ہیں شاید۔۔۔۔

کبھی ملٹری! کبھی جمہوریت! کبھی میثاقِ جمہوریت!

کہاں سے لائیں وہ ایمان تحاد اور تنظیم

جو بابا جناح نے ہم کو سکھلایا تھا

جو بابا جناح نے کرکے بتلایا تھا

کیا اس وطن کا غریب کسان کبھی

اپنے حصّے کا اناج لے پائے گا

علم حاصل کر سکے گا بچہ بچہ اس کا

وہ علم جو ہر مومن مرد و عورت پر فرض ہے

برابری اور جمہور کے خواب دکھانے والو

یک جہتی کو کہاں سے لائیں ہم

کہ ہم رکھ کے اْسے چھجے پہ کہیں

بْھول گئے ہیں شاید۔۔۔۔

وہ چیز جسے یک جہتی کہا کرتے تھے!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے