صنف۔ ناول
مصنفہ:سگرید اندسیت
تبصرہ نگار۔ ”مطربہ شیخ“
"مصنفہ کے بارے میں ”
” سگرید اندسیت” کی پیدائش ڈنمارک میں ہوئی تھی، لیکن جب وہ دو سال کی تھیں تو ان کا خاندان ناروے چلا گیا۔
سگرید کے ناولز نارویجین ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔
1928 میں سگرید کو ادب کا ” نوبل پرائز ” ملا۔
سب سے مشہور تین طویل حصوں پر مشتمل ناول "کرسٹن لاوران کی بیٹی ” ہے، جو قرون وسطیٰ میں ناروے میں زندگی کے بارے میں ایک دستاویزہے، جس میں پیدائش سے لے کر موت تک عورت کے تجربات کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس کی تین جلدیں 1920 اور 1922 کے درمیان شائع ہوئیں۔
سگرید اندسیت جرات مند و بہادر خاتون تھیں، ہٹلر کے خلاف قلم اٹھاتی رہیں، جنگ اور قتل عام کے خلاف تھیں۔ پہلی عالمی جنگ میں سخت معاشی پریشانیاں برداشت کیں۔دوسری عالمی جنگ میں بیٹے جاں بحق ہوئے، ایک سپیشل بچے کے ساتھ زندگی سے نبرد آزما رہیں، امریکہ کا سفر کیا، اٹلی کا سفر کیا، زندگی میں کئے جانے والے اسفار اور در آنے والے مصائب کے تجربات نے مشاہدے کو گہرائی بخشی۔
سگرید کے ناول ” ینی ” نے سکنڈے نیویا کے ممالک میں سگرید کی ادبی شناخت بنائی۔
” شگفتہ شاہ صاحبہ ” بھی ناروے میں مقیم ہیں اور انہوں نین ارویجین زبان سے براہ راست ناول کا ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ رواں دواں اور عام فہم ہے۔
ناول کے تین حصے ہیں۔
موضوع۔
ناول کا موضوع عورت کی تعلیم اور معاشی مضبوطی ہے۔ ناول حقائق اور جدو جہد پر روشنی ڈالتا ہے جو بیسیوں صدی کے آغاز میں یورپین خواتین خاص طور پر نوجوان خواتین کو درپیش تھے۔
ناول ایک مصورہ کی کہانی ہے۔ جو رومانوی بحران کے نتیجے میں یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی زندگی برباد کر رہی ہے اور آخر کار خودکشی کر لیتی ہے۔
ناول کی مرکزی کردار "ینی ” یا انگریزی میں ” جینی” ایک حساس انسان ہے، جو اپنے گھر کی کفیل بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ خود کو ایک مصورہ کے طور پر دنیا کے سامنے منوانے کی جد و جہد بھی کر رہی ہے۔
ناول شروع ہوتا ہے شہر روم کی منظر کشی اور پر پیچ گلیوں سے، جہاں ایک سیاح ہیلگے گھوم رہا ہے، جو وہاں کی زبان سے نابلد ہے، ہیلگے شہر کے کلیساوں۔مجسموں، نوادرات کی دکانوں اور فواروں کو دیکھتا ہوا پر پیچ گلیوں میں راستہ بھٹک جاتا ہے۔
وہ کسی سے راستہ پوچھنا چاہتا ہے لیکن کوئی راہ گیر اسے درست سمجھا نہیں پاتا ہے۔ زبان سے ناواقفیت کی بنا پر ہیلگے کوفت محسوس کرتا ہے کہ اچانک اس کے کانوں میں نارویجین زبان کے فقرے گونجتے ہیں، ہیلگے یہ فقرے کہنے والوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے، دو لڑکیاں راہ چلتے ہوئے نارویجین زبان میں گفتگو کر رہی تھیں، ہیلگے ہچکچاتے ہوئے ان سے راستہ پو چھتا ہے پہلے دونوں لڑکیاں اسے توجہ نہیں دیتیں، لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اسکی بات سمجھ جاتی ہیں اور اسکو راستہ سمجھا دیتی ہیں، لیکن اس سے پہلے وہ لوگ ایک کیفے میں کھانا کھاتے ہیں اور وائن پیتے ہیں اس دوران چند مزید دوست بھی ان کے ساتھ آ ملتے ہیں۔
یہ لڑکیاں جینی اور اس کی دوست فران چیسکا ہوتی ہیں۔ ان کے دیگر دوست گنار اور آبلین ہوتے ہیں۔
ناول میں کئی مقامات پر خواتین کے ملبوسات اور زیورات کا تفصیلی ذکر ہے، جو غیر ضروری محسوس ہوتا ہے، گو کہ جہاں خواتین موجود ہوں، وہاں لباس اور زیور لازم و ملزوم ہیں، لیکن مرد کردار بھی یہ باتیں کر رہے ہیں۔
ان تفصیلات کے باعث مجھے ڈی ایچ لارنس اور باربرا کارٹ لینڈ یاد آگئے۔
ان کے ناولز بھی انہی تفصیلات پر مشتمل ہیں۔
بہر کیف منظر کشی اور موضوع کا مرکز معاش ہی رہا ہے جو کہانی کا مثبت پہلو ہے۔
دوران تعلیم دوسرے شہر ہجرت، تعلیم اور رہن سہن کے اخراجات کے لئے تصاویر کی فروخت اور کھانے پینے، وائن پینے کے خرچے سب جزئیات کے ساتھ کہانی میں بیان کئے گئے ہیں۔
فران چیسکا ایک خوشحال خاندان کی نازک مزاج لڑکی ہے۔ وہ دنیا کو دریافت کرنے اور مصوری سیکھنے کے لئے روم میں موجود ہوتی ہے اور جینی مخلص دوست اور ساتھی کی طرح اسکی دلداری اور نازبرداری کرتی ہے۔ دونوں ساتھ ہی رہائش پذیر ہوتی ہیں۔
فران چیسکا سے کئی نوجوان شادی کے خواہش مند ہوتے ہیں مگر کوئی بھی اسکے معیار پر پورا نہیں اترتا۔
لیکن پھر وہ آبلین سے شادی کر لیتی ہے۔
جس مقام پر کردار موجود ہیں، اس مقام کی نہ صرف منظر کشی بلکہ موسم کا حال بھی سگرید نے دلچسپ انداز میں قلم بند کیا ہے۔
ہیلگے جینی اور اسکے دوستوں سے ملاقاتیں کرتا رہتا ہے، سب کے ساتھ سیاحت کرتا ہے اور اسی دوران جینی اور ہیلگے ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔
جینی اوسلو واپس جاتی ہے اپنی ماں اور بہنوں و بھائی کے پاس اور ہیلگے ملازمت کے سلسلے میں برلن۔
جینی ہیلگے کے والدین سے ملاقات کرتی ہے اور ہیلگے کا والد گیرٹ جینی سے لگاوٹ کا اظہار کرتا ہے وہ جینی سے اسکے اسٹوڈیو میں ملاقات کرنے آنے لگتا ہے۔ ہیلگے برلن سے چند دن کی چھٹیاں لے کر جینی سے ملنے آتا ہے جب اسے ان ملاقاتوں کا علم ہوتا ہے تو وہ خفگی ظاہر کرتا ہے۔
جینی اپنی نفسیاتی کجی کی وجہ سے گیرٹ کی طرف ملتفت ہو جاتی ہے۔
والد کے انتقال کے بعد جینی باپ شفقت سے محروم ہو جاتی ہے لیکن خوش قسمتی سے جینی کا سوتیلا باپ بھی بہت اچھے کردار کا مالک ہوتا ہے، وہ ایک شوقیہ ہائکر ہوتا ہے، جینی کو اپنے ساتھ جنگلات و پہاڑوں پر لئے گھومتا ہے۔اور جینی کو بھرپور پدرانہ محبت سے نوازتا ہے لیکن بد قسمتی سے وہ بھی اپنی ایک مہم میں اونچائی سے گر کر جاں بحق ہو جاتا ہے۔
جینی اور اس کا خاندان غربت و مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔
جینی لاشعوری طور پر اسی لئے ہیلگے کے والد گیرٹ کی طرف متوجہ ہوتی ہے کہ پدرانہ شفقت و محبت ملے گی، لیکن گیرٹ ایک مرد کی طرح اس کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے، یہاں تک کہ ان کے درمیان جسمانی تعلق قائم ہو جاتا ہے اور جینی حاملہ ہو جاتی ہے۔
بچے کی پیدائش کے بعد جینی اس بچے کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے اور اسکو اپنے بل بوتے پر ہی پروان چڑھانا چاہتی ہے۔ لیکن پیدائش کے چند ہفتوں کے بعد بچہ انتقال کر جاتا ہے۔
جینی اسکو اپنی غیر ذمہ داری سمجھتی ہے، اپنی زندگی کے لئے تعین کردہ اخلاقی اصول اسے احساس جرم، پچھتاوے اور شرمندگی میں غرق کر دیتے ہیں، اسی ذہنی کیفیت میں وہ خود کشی کر لیتی ہے۔
حالانکہ اسکا دوست گنار اور محبوب ہیلگے اس کے پاس آ جاتے ہیں۔
فران چیسکا بھی اسکو خطوط لکھتی ہے اور اپنی ازدواجی زندگی کی مشکلات اور ان پر قابو پانے کے طریقے بھی بیان کرتی ہے۔ لیکن سب بے سود رہتا ہے۔
ناول کا اختتامیہ ترقی پسند نظریات کی نفی کرتا نظر آتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنفہ نے عورت کو جذباتی طور پر کمزور دکھانے کی کوشش کی ہے۔
ناول کے اختتام سے ذہن میں سوالات بھی اٹھتے ہیں
۔ کیا عورت کی روح کبھی حقیقی زندگی کی آرزو پر قابو پا سکتی ہے؟
کیا عورتیں حقیقت میں بالکل ویسی ہی ہیں جیسے خواتین مصنفین اور سماجی منظر نامے پر عورتوں کی نمائندگی کرتی خواتین بیان کرتی ہیں؟
کیا عورتیں اتنی مضبوط ہیں کہ وہ تنہائی کی زندگی اور بچوں کی پرورش کی ذمہ داری اٹھا سکتی ہیں؟
یا پھر وہ جینی کی طرح جذباتی و کمزور اور ٹوٹنے والی ہیں؟
کیا عورتوں کی محبت کرنے والی فطرت، اور سچی محبت کی آرزو رکھنا ان کی زندگیوں کے لئے جرم بن جاتا ہے۔؟
کیا مرد شادی کے معاہدے کی پابندی نہیں کرتے ہیں بار بار بے وفائی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ حتی کہ اپنے بیٹے کی محبوبہ پر بھی نظر رکھ سکتے ہیں، اور تعلقات بھی استوار کر سکتے ہیں؟؟
ان سب سوالات کے جوابات اور الجھنوں کی گھتیاں ابھی تک حل طلب ہیں۔
تانیثی ادب کا مطالعہ کرنے والے قارئین کے لئے یہ ناول ایک تحفہ ہے۔
شگفتہ شاہ صاحبہ کا شکریہ کہ انہوں نے عالمی ادب سے یہ ناول اردو زبان میں ترجمہ کیا اور ادب کے سنجیدہ شائقین و طالب علموں تک پہنچایا۔