سنگت نشست کے آخری لمحوں میں ڈاکٹر عطااللہ کی نگاہیں نوجوان لکھاری کے نام پر کسی ناتجربہ کار کو ڈھونڈنے لگتی ہیں۔اب مجھ سے بڑا ناتجربے کاربھلا کون ہوسکتا تھا۔لہذٰاڈاکٹرنے میری طرف اشارہ کر کہ کہا”اگلا ریویو تم لکھوگے“۔ڈاکٹر مری نے ’تئی تیر بجثہ‘ جیسے تصدیقی الفاظ کہے تومیں بھی قلم کاغذ لے کر بیٹھ گیا۔کاش کسی تحریر کی شروعات بھی انجینئرنگ جتنی آسان ہوتی کہ ہم Sin Cos لگا تے اور ایک زاویہ ملتا کہ لو بھئی اس زا ویے سے شروع کر لو۔ لیکن یہ ہمشہ NASA کے کسی ستارے کھوجنے جتنا مشکل ہوتا ہے۔ خیر NASA کے اس سٹلائیٹ کے بارے میں سوچتے ہوئے میری نظر سنگت کے ٹائیٹل پر پڑی اور بقول ڈاکٹر مری ’عورت تم تو مہر گڑھ کے زمانے سے ہمیں پال رہی ہو‘۔

سیما سردار زہی کی ڈیزائن کی ہوئی لباس میں ملبوس سنگت مہتاک کی شروعات کاکا صنوبر کی نظم کے ترجمے سے ہوتی ہے۔پشتو ادب کی تاریخ کو چھیڑنے والی اس نظم کا ترجمہ ہمارے شان گل نے کیا اور مست تؤکلی کی زبان میں کیا۔

”اومنی ادیب ایں براث

ہمے طبقہ جذائیں

ہمے مدرسہ جذائیں

تئی ارمان جذائیں

آنہانی نشہ جذائیں

مئے اغر کعبہ  وثی ایں

آنہانی کعبہ جذائیں“

سنگت ایڈیٹوریل نے عمران خان کو ”بت“ مینوفیکچرنگ کمپنی کی اب تک کی سب سے اپ ڈیٹڈ بت اور پنجاب کی حقیقت قرار دیا۔مزید یہ کہ پنجاب کی حقیقت بننے کیلئے بنیادی فیکٹر پاپولزم ہے جو کہ جہالت،تکبر اور انا پرستی کی بنیاد ہے۔پچھلی پاپولسٹ حکومت ملک کے کئی اثاثے بیچ چکی ہے جبکہ بچا کچا موجودہ حکومت کے ذمے ہیں۔ایسے میں انتخابات عام ہوں یا ضمنی،ہار عوام کا مقدر ہے۔آخر میں ان سب مسائل کے دو ایسے حل بتائے گئے جن پہ کئی سوا ل تو پیدا ہوتے ہیں البتہ ان کے لاگو ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

چی گویرا کی موت پرفیڈل کاسٹرو کے خطاب کاترجمہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کیا۔اپنی خطاب میں فیڈل نے کئی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کیسے چے اپنی قابلیت کی بنا پر فوج کا ڈاکٹر بنا،سپاہی بنا،لیڈر بنا اور کیوبا انقلاب کے بعد کئی ذمہ داریاں بخوبی نبھاتارہا۔ایسے فکری،بہادر،ڈسپلنڈ،کازسے مخلص، اور حساس انسان کی مثال ملنا ہرگز آسان نہیں۔چے کا قتل اسے جسمانی طورپرتوختم کر سکتا ہے لیکن اس کی سوچ اور نظریات کو ختم کرنا ناممکن ہے۔

آگے میر ساگر کی افسردہ کر دینے والی نظم ’خواب کا نوحہ‘ ہے۔ جس کے Cordinates اگر گوگل میں اپ لوڈ کیئے جائیں تو جی پی ایس بلوچستان کو ٹریک کر لے گی۔اس خواب ٹوٹنے کی داستان کے مطالعہ کے بعد عبداللہ جان جمالدینی کے مضمون میں بلوچی دھاگوں سے بنی قوس و قزح چہلکنے لگتی ہے۔ جمالدینی صاحب اپنے مضمون ’بلوچی دوچ‘ میں بلوچی دوچ کی اہمیت سمجھاتے ہوئے امریکہ،انگلینڈ،چائنہ، ازبکستان،تاجکستان اور ایران سے ہوتے ہوئے بلوچستان کی وادیوں میں لوٹ آتے ہیں۔ جو کام مصور پینسل اور برش سے لیتا ہے ہماری بہنیں وہی کام سوئی دھاگے سے انجام دیتی ہیں۔مزید یہ کہ پڑھے لکھے طبقے کو اس آرٹ کی قدر جاننی ہوگی اور اسے پروموٹ کرنا ہوگا۔آخر میں مصنف خاران و مکران کے کشیدوں کے کئی اقسام کا ذکر کرتا ہے البتہ سلیمان بیلٹ کا خالی جگہ خالی ہی رہا۔

امام بخش کی خوبصورت شاعری میں شاہ مر یدو مائی ہانی ایک بار پھر بطور تشبیہہ استعمال ہوئے۔

’بیامنی مائیں ھانی ء ِدرور

تئی امام مریدءئِ مثال انت‘

بعدازاں ”ڈاکٹر حئی بلوچ‘‘ پر محمد شعیب نے اپنے مضمون میں ڈاکٹر صاحب کی زندگی اور مخلص رویے کا تفصیلی جائزہ لیا۔ساتھ ہی صدام بلوچ کا بانک گوہر کی انسپائرنگ لائف اور بلوچی ادب کے مختلف حصوں میں ان کے کار ناموں پر مختصر مضمون ہے۔

اگلے صفحے پر احمد علی مشال ”مرزا ابراہیم“ پر مضمون لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کا شمار برصغیر میں مزدور تحریک کے بانیوں میں ہوتا ہے۔مرزا صاحب ایک سوشلسٹ نظام کے لئے عمر بھر لڑتے رہے۔ لیکن مشال صاحب نے ایسے اچھے انسان کی یادوں کی کھڑکی ابھی تک پوری طرح کھولی بھی نہیں کہ واپس بند کر دی۔

احمد نواز مری اپنی تحریر میں قومی شاعر”رحم علی مری“ کی مشکل زندگی اور خوبصورت شاعر ی کا ذکر کرتے ہیں۔ اوربتاتے ہیں کہ اس خطے میں ایک ایسی رات بھی گزری ہے جب مست تؤکلی اور رحم علی ایک ہی آگ سیکنے بیٹھے تھے۔یقیاًآسمانوں کو اس رات بلوچستان دنیا کا روشن ترین حصہ نظر آیا ہوگا۔چلیں رحم علی کے ایک شعرکا لطف لے کے ا ٓگے بڑھتے ہیں۔

’نیم کٹانی سرئیں نیم ٹلی نیم شفاں

نیم دفی زمبے نہ غیندی نیم داری نوکراں‘

”گوریلا جنگ“ کے نام سے ڈاکٹر خالد سہیل کے مضمون میں گوریلا جنگوں کی تاریخ سے لے کر گوریلافتوحات تک ہرمرحلے پہ بخوبی غور کیا گیا ہے۔خالد سہیل لکھتے ہیں کہ نیپولین کے خلاف سپین میں اور فرانسس کی سربراہی میں امریکہ میں گوریلا جنگین لڑی گئیں۔چین،ویت نام،کیوبا اور جنوبی امریکہ گوریلا جنگوں کی فتح کی نشانیاں ہیں۔چلیں ان فتوحات پر ایک فتحانہ مسکراہٹ دھرکر جاوید اختر کے مضمون ”کمیونزم کا بھوت“ کے طرف چلتے ہیں۔یہ مضمون”کمیونسٹ مینی فسٹو“ کے چند جملوں کے انتخاب سے شروع ہوتا ہے۔جن میں یورپ پر کمیونزم کے بھوت منڈلانے کا ذکر ہے۔بورژوا دانشوروں نے کمیونزم کے خاتمے کے بھرپور پروپگینڈے کئیے لیکن مارکسٹ دانشور ہمیشہ سے ان کے جواب دیتے آئے ہیں۔آگے چل کر مضمون وجاہت مسعودکا کمیونزم سے خوف،اسکی بزدلی کے واقعات اور جاوید اختر صاحب کے غصے پر محیط ہے۔

سیاچان تیابی کی تحریر ”من و سلے و زندگی“ زندگی کا فلسفہ بیان کرنے میں،حسین منظرکشی کرنے میں اوراکسپریشن دینے میں ہر طرح کامیاب رہی۔بہرحال ختم ہونے سے قبل یہ تحریر دوستو کی جدائی کا دکھ دل میں چھوڑجاتی ہے۔

کلنٹن کے افتتاحی تقریب میں پڑھی جانے والی مایاانجیلیو کی نظم”صبح کی دھڑکن“ کا ترجمہ نودان ناصر نے کیا۔نظم قرونِ اولٰی میں اگتے سورج سے شروع ہو کر روزِحاضر میں امید کے کرن پر ختم ہوتی ہے۔ فروغ فر خ زاد کی نظم ”تولددیگر“ کا ترجمہ ازہر ندیم نے ”نئی پیدائش“ کے نام سے کیا جو کافی اداس رہی۔

شاعرہ بننے کی غمگین داستان کو جسے کبھی سارہ شگفتہ نے قلم بند کیا تھا میر ساگر نے بلوچی ترجمہ کر کہ اس غم کو تازہ کردیا۔مضمون شاعرہ اور انکے شوہر کے درمیان علم اور بے حسی کے گھنگھرو پہنے رقصاں نظر آتی ہے۔ شاعرہ بتاتی ہیں کہ کیسے جس درد کو ڈاکٹر،نرس اور بس کنڈیکٹر تک سمجھ جاتے ہیں انکا شاعر خاوند علم کے دو پیگ لگا کر سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔جب یہ بے حسی اس قدر شدید ہو جاتی ہے کہ اس کے باعث شاعرہ اپنے بچے کو کہو دیتی ہیں تب وہ غم ذدہ دل شاعری پہ اتر آتا ہے۔ ضرور میر ساگرقاری کے افسردہ ہونے کا کفارہ ادا کرنے کے اہل ہونگے جو اس قدر افسردہ مضامین کے مترجم بن رہے ہیں۔

شائستہ طارق جمالدینی اپنے مضمون ”موجودہ نسل اوروالدین کے تحفظات“ میں لکھتی ہیں کہ نئی نسل بزرگوں کی محفلوں سے زیادہ وقت انٹرنیٹ پرسرف کرتی ہے۔والدین معاشرے کے بنائے ٹرینڈ نامی جال میں پھنس چکے ہیں۔مزید لکھتی ہیں کہ والدین ہمشہ اپنے بچے کو بہترین بنانے کی دوڑ میں رہتے ہیں نا کہ اچھا انسان بنانے کے۔البتہ شائستہ طارق ان مسائل کا حل بتائے بنا ختم شدہ کی سیڑھی چڑھ جاتی ہیں۔

محمد ریاض بلوچ ”شاہ لطیف“ پہ اپنے مضمون میں سندھی ادب کے اتار چڑھاؤ اورشاہ لطیف کے تعلیمات کا ذکر کرتے ہیں۔شاہ لطیف ہمیشہ اپنی شاعری میں ظالم حکمران کے خلاف عوام کو یکجا ہو کر عقلمندی سے لڑکے غلامی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کاشعوردیتے رہے۔اس کے علاوہ مصنف نے شاہ لطیف کے ترتیب دیئے سروں پر بھی کافی تفصیل سے لکھا۔

قصوں کی قطار میں ”لومڑ ی ا ورکوا“سب سے آگے کھڑا ملتاہے۔جس میں ایک لومڑی اپنے چالاکی کے بلبوطے پر کوے کو مات دیتی ہے،ریوڑ حاصل کرتی ہے اوریہاں تک کہ بھیڑیئے تک کو موت کی نیند سلا دیتی ہے۔ڈاکٹر مری نے قصے کو اس قدر خوبصورت اندازمیں بیان کیا کہ ہر جملے کے آخر میں ’ہوبلی‘ کہنے کوجی چاہا(اگر کسی بلوچ سے آپ کہانی سننے کی خواہش رکھتے ہیں تو ہر جملے کے آخر میں ’ہوبلی‘فیس کے طور پہ کہنا پڑتا ہے)۔

”لومڑی اور کوا“کے بعد رفیق مغیری کا ترجمہ کیا ہوا ایک گیدڑ کی کہانی ہے۔جس میں گیدڑ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ اب ان کیلئے انگور کھٹے نہیں رہے کیونکہ انہوں نے سیڑھیاں خرید لی ہیں۔اب خدا جانے رفیق مغیری کا گیدڑ سے مراد کون لوگ ہیں ہمیں تو بس کہانی کے مزے لینے تھے سو ہم نے۔۔۔۔لیے۔

عبدالعزیزبگٹی کے ”شرا“ کے کردار افسانوی ضرورہو سکتے ہیں لیکن کہانی،پوری طرح سے سچائی پر مبنی ہے۔جہاں شاہ مراد نامی شخص بارش ہونے پر اپنی فصل میں پانی روکنے کا بندوبست کرتاہے لیکن اس کے جانے کے بعد اس کے ناخوذات(Cousin) آکر اس کے بنائے بند کو توڑ دیتے ہیں اور فصل سے ساراپانی بہہ جاتا ہے۔فصل تباہ، یعنی ایک سال کے خوراک کی پلیننگ تباہ۔اب جب کچھ نہیں بچا تو وہ انصاف لینے چیف جسٹس (وڈیرہ) کے پاس جاتا ہے۔وڈیرہ چند پیسوں کے عوض شاہ مراد کے خلاف فیصلہ سناتا ہے۔یوں اس معاشرے کی ہر کہانی کی طرح اس کہانی کے کلایمکس میں بھی ویلن خوشی خوشی رہنے لگتا ہے۔

رسول حمزہ توف کی کتاب ”میراداغستان“ (مترجم۔اجمل اجملی) کے ترجمے سے مہمان نوازی پہ لکھی جانے والی ایک نظم کا انتخاب کیا گیا ہے۔بس یہی کہہ کہ آگے بڑھیں گے کہ کیا ہی خوبصورت کتاب ہے اور کیا ہی خوبصورت ترجمہ۔

جاوید صدیقی کی تحریر ”نوٹنکی والی“ دو الگ کرداروں کی کہانی ہے۔پہلا ساجد جو بیڑی بنانے کے کارخانے میں کام کرتا تھا اورنوٹنکی دیکھنے کا بڑا شوقین تھا۔

ساجد کی لاٹری تو تب لگی جب آزادبھارت نوٹنکی والے اس کے شہر آئے۔اس نے تو جانا ہی تھا۔قسمت سے نوٹنکی کے آخری دن اسے اپنے پسندیدہ اداکارہ سروج رانی سے ملنے کا موقع بھی ملا اور اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی بیڑی پیلانے کا بھی۔ سروج کو بیڑی پسند آتی ہے اور وہ ساجد کو خودکا چھوٹاکارخانا بنانے کا مشورہ دیتی ہے۔ساجد بناتا ہے اوربیڑی چل جاتی ہے۔کئی سالوں بعد اسے خیال آتا ہے کہ جس کے مشورے سے میں کامیاب ہوا اس کا تو کبھی شکریہ تک ادا نہیں کیاتو وہ چند پیسے تحفے کے شکل میں بوڑھی سروج کو دینے جاتاہے۔لیکن سروج خودداری میں انکار کرجاتی ہے اور کہانی کے آخرکی یہ خودداری اسے سائیڈ رول سے مرکزی کردار بنا دیتی ہے۔

کتاب پچار میں Sheila Jeffery کی کتاب ”The Industrial Vagina“کا ریویو سمیع ساحل بلوچ نے لکھا۔شیلا اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ’Prostitution Industry’ عالمی تجارت کا حصہ بن چکی ہے۔یہاں تک کہ کئی ممالک کے GDPمیں ‘Prostitution Industry’کا Contribution کسی بھی دوسرے شعبے سے زیادہ ہوتا ہے۔یورپ،لاطینی امریکہ اور ایسے کئی ممالک جو تہذیب یافتہ ہونے کے دعویدار ہیں وہ Prostitution Industry جیسے غیر انسانی فعل کو قانونی حیثیت دینے کے بھرپورحمایتی رہے ہیں۔آخر میں شیلا ان مسائل کا حل بتاتے ہوئے مردوں کو مکمل طور پر ذمیدار ٹھراتی ہیں۔سمیع ساحل کےمطابق شیلا جو بھی کہتی ہیں فیکٹ اور ثبوتوں کے ساتھ کہتی ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے