۔1917کا اکتوبر انقلاب واقعتا دنیا کی ایک خوش کن تبدیلی تھی۔ اُس سال روس میں تین سو برس سے قائم رومانوف سلطنت الٹ دی گئی تھی  اور عوام الناس نے اپنی پارٹی کی قیادت میں حکومت سنبھال لی۔ ظاہر ہے کہ ایسا آٹو میٹک طور پہ نہیں ہوا تھا۔ سینکڑوں برسوں سے عاشقان ِ حیات غیر فطری موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے رہے، ٹارچر سیلوں کی تاریکی میں بے شمار جواں سال شمعیں گُل کر دی گئیں۔ کوئی نام نہیں کوئی نشان نہیں، کوئی گواہ نہیں کوئی وکیل نہیں۔ ایک پورا ملک قتل گاہ بن چکا تھا۔ درد کا دبستان تھا روس!!

اکتوبر انقلاب نے اشرافیہ، پیشوائیت، اور بادشاہت کا ہر نشان جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ عوام کے ذہنوں پر سینکڑوں برسوں سے پڑے فرسودہ پردوں کو بھسم کردیا، استبداد کے جیل خانوں کی گیٹیں مسمار کردیں۔ ملک میں شغرب تا مغرب پھیلی اندھی روایتوں کے فصیل ڈھا دیے گئے۔ سرقبیلوی اور فیوڈل نقش ہائے کہن ابد تک کے لیے روند ڈالے گئے۔ غلامی، محکومی اور زیر دستی کی ساری ظاہر ہ اور پوشیدہ زنجیریں اٹھا دی گئیں۔۔۔۔انسان دوبارہ انسان بن گئے۔ اس کے نعرے، اُس کی پلاننگ، اور اُس کے عزائم فرد ا کی شاہراہ بن گئے۔ شاہی روس کی جگہ معاشی کلاسز سے پاک سماج اور ایک نیا عوامی کلچر لاگو کردیاگیا۔

اب یہ روس نہ تھا بلکہ سوویت یونین تھا۔ قائد بادشاہ نہیں، لینن تھا۔ ایک منظم اور دُکھ چکھی سیاسی پارٹی کی سربراہی تھی۔ اور اس انقلاب کا باضابطہ نام عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب تھا۔ یہ خان و سلطان و بھوتار کے لیے موت تھا، یہ فیوڈل کو فنا کرنے کا مقدر تھا، اس نے سونا چاندی کے بتوں کو بڑے پیمانے پہ ڈھا دیا۔ یہ انقلاب رنجیدہ ارواح اور آہ بھرے دلوں کی دوا تھا۔ اس لیے کہ اس نے کرپشن، لوٹ مار، اورقتل و قتال کی مشین ہی کو مسمار کردیا تھا۔ یہ انقلاب انسانی مستقبل میں اس بات کی مثال بن گیا کہ دنیا میں ناانصافی سے آزادی ممکن ہے۔

پون صدی تک یہ انقلاب ترقی و ارتقا چھلانگتا پھلانگتا رہا۔ ایک بادشاہت زدہ پسماندہ فیوڈل ملک سے انڈسٹری، انفراسٹرکچر اور ڈیفنس  میں سپر پاور کا درجہ پایا۔ قوموں کو معاشی اور کلچرل آزادیاں نصیب ہوئیں۔اناج ملنے لگا اور سستا ملنے لگا اور ”مٹکے مکھن سے بھر پور ہوگئے“۔ چکلے معدوم ہوئے، منشیات گھر ویران ہوئے۔۔۔ اور بھوک بھاگ گئی۔

۔ 1917کا روسی انقلاب دنیا بھر کے انقلابیوں کا inspirationتھا۔ یہ انقلاب اپنے پورے عرصے تک تقدیر پرستی، بے آسرائی، اور ناممکن جیسے تصورات پہ تباہ کن حملے کرتا رہا۔ جس بھوک و بے عزتی کو انسان فطرت کی مرضی سمجھتا تھا وہ اب غیر فطری بن گیا۔ اور غیر فطری کے خلاف لڑنا تو بہت آسان ہوتا ہے۔ سامراج غیر فطری تھا اس لیے ہمارے سمیت بے شمار ملک آزاد ہوگئے۔ فاشزم غیر فطری تھا اس لیے عوامی جمہوریت رقصاں رقصاں ممالک کو سرفراز کرتی رہی، بادشاہت یعنی فیوڈلزم غیر فطری تھا تو بورژوازی کی حکومتیں جابجا نمودار ہونے لگیں۔ نسلی منافرت غیر فطری تھی تو جنوبی افریکہ سمیت دنیا میں سیاہ فاموں کی آزادی ممکن ہوتی رہی۔ کپٹلزم غیر فطری تھا تو سوشلزم والے ممالک تعداد میں ربع سینکڑہ اور رقبے میں دنیا کی چوتھائی تک پہنچ گئے۔جنگ غیر فطری تھی تو امن سرفراز ہوتا گیا، اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ ایٹمی جنگ کے امکانات والی ساری سوراخیں بند دکھائی دینے لگیں۔

الغرض زندگانی کے رنگ جاذبِ نظر ہوتے گئے۔ خوشبوئیں لطیف ہوتی گئیں۔ سائنس عروج کے آسمانوں میں رقصاں رہی، فائن آرٹس نازکی کی انتہاؤں کی طرف سافٹ لہروں کی صورت مچلتی رہی۔ زیرِ زمین کھوج و تحقیق بڑھتی رہی، زمین پر آسائشیں کُل انسان کی ہونے لگیں اور خلا مسخر ہوتی رہی۔

۔۔۔ اور پھر 1991میں رد انقلاب ہوا۔ ناکام کپٹلزم نے کامیاب سوشلزم کو ناکام قرار دیا۔

رد انقلاب کو ہسٹری کی چابکدستیوں اور ہنر کاریوں کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ہسٹری کے پاس اپنے بہاؤ کو جاری رکھنے کی کئی تدابیر ہوتی ہیں۔ ہسٹری غلط سمت کھڑے لوگوں کو ذلت کے کیچڑ میں تاابد پھینک دیتی ہے۔

۔1917سے 1991تک کے زمانے کو سادگی سے انسانی تاریخ کی کتاب سے پھاڑ پھینکنے کی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ اربوں کی تعداد میں مزدور کسان عورتیں اور محکوم اقوام کے افراد کی زخمی ارواح اُس زمانے، اور اس زمانے کی حاصلات کے ساتھ ہیں۔ وہی اُسے تا ابد بدرِ منیر کی طرح تاباں رکھیں گے۔

آج روس مکمل طور پر ایک کپٹلسٹ ملک ہے۔ موجودہ صدر پوٹن اور اس کی حکومت نے اس انقلاب کے دن کی اہمیت، پبلک ہائی ڈے اور جشن پر یڈ ختم کر کے اس کی تاریخ مٹانے کی کوشش کی۔ اُن بے چاروں نے تین چوتھائی صدی طویل اُس واقعہ کی تاریخ مٹانے کی کوشش کی جس نے پوری بورژوا دنیا کو ہلائے  رکھا تھا۔ وہ اُس روس کو خاموش کرنے کی ٹھانے بیٹھا ہے جس روس نے پورے گلوب کو ابالے رکھا تھا۔ اُس نے دیگر کپٹلسٹ ممالک کی طرح کمیونسٹ تحریک کو بہت نقصان پہنچایا۔ سوویت یونین سے الگ ہوئے سارے ملک بھی کپٹلسٹ ہیں۔

کپٹلسٹ امریکہ نے کپٹلسٹ روس کو چاروں طرف سے فوجی اڈوں کے ذریعے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ وہ روسی سرحد پہ واقع یوکرین میں بھی یہی کچھ کرنا چاہ رہا تھا کہ روس نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا اور یوکرین پر حملہ کردیا۔ لہذا، سمجھنے کی بات ہے کہ جنگ روس اور امریکہ کے بیچ ہے، یوکرین تو محض اس کامیدان ہے۔ نیٹو کے ممالک  بے پناہ جدید اسلحہ سے روس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اور روس بے پناہ وسائل اور ایٹمی اسلحہ کی موجودگی میں یہ جنگ لڑ رہا ہے۔ دنیا بھر کے عوام بری طرح سے اس جنگ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ معاشی ناکہ بندیوں اور ترسیل کی راہیں مسدود ہونے سے گیس و تیل اور گندم کی کمی عام انسان کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔

اس برباد کرنے والی جنگ کو مذاکرات کے ذریعے روکنے کی کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں ہو رہیں۔ آرام کرسیوں پہ براجمان جنگجو دانشور اس جنگ کو بھڑکا نے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ امن پسند افراد گروہوں، پارٹیوں اور ممالک کو جنگ بندی اور مذاکرات کے لیے دباؤ بڑھاتے رہنا چاہیے۔

آج امریکہ تاریخ کے خوفناک ترین سٹیج پہ ہے۔ وہ ممالک کے ممالک برباد کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ شام، عراق، افغانستان،اور فلسطین کو کھنڈر میں تبدیل کر چکا ہے۔ سری لنکا اور پاکستان روٹی کے لقمے لقمے کے  محتاج بنا دیے گئے ہیں۔ آمریت مصرو برما،ایران و سعودی اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی تقدیر بن چکی ہے۔ ہمارے ہاں فیوڈلزم کے اکھڑے قدموں کو آکسیجن مہیا ہے۔ قوموں کے اختیار سلب ہیں اور رجعت حکمران ہے۔ بجلی اور گیس نہ ہونے کے سبب فیکٹریاں بند اور مزدور بے روزگار ہیں۔ جمہوریت کا گلا گُھٹا ہوا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی جڑواں ڈائنیں سماج پہ منحوس سائے ڈالے بربادی کا ساماں کیے ہوئی ہیں۔ ریاست صحت و تعلیم حتی کہ  زندگی کی حفاظت والی اپنی ذمہ داری سے بھی پسپا ہوچکی ہے۔ کمیشن،رشوت اور سفارش اصل حکمران ہیں۔ پاپولزم والی فاشزم کا تسلط بڑھتا جاتا ہے۔

اب تقریباً تقریباً دنیا بھر میں کپٹلزم رائج ہے۔ کپٹلزم جس کے سجدے بہت طویل ہوچکے ہیں۔ جس کے اعضا مضمحل ہوچکے ہیں۔ کپٹلزم جس کی ناکامی روز بروز واضح ہوتی جارہی ہے۔ اسے بحرانوں سے نکلنا نصیب ہی نہیں کہ یہ اِس کی ”اِن بِلٹ“ خرابی ہے۔ اور اب کپٹلزم کے بحران معمولی نہ رہے۔ یہ کرونا بیماری کی صورت آتے ہیں، یہ سیلاب ِ عظیم اور وسیع قحط کی صورت آتے ہیں۔ یہ تباہ کن جنگوں کی صورت آتے ہیں۔ اور یہ ایٹمی بربادی کی صورت انسانیت کی گردن دبوچنے پہ تیار کھڑے ہیں۔

کپٹلزم مر رہا ہے اور نئی دنیا جنم لینے کی سٹرگل میں ہے۔ نئی یا متبادل دنیا کیا ہے؟۔یقینا یہ امیری غریبی والی نہیں ہے۔یہ ترقی یا فتگی اور ترقی پذیری کی دنیا نہیں ہے۔ متبادل دنیا اشراف دنیا ہوگی، ملائم، ملیح، مہذب اور مہین دنیا۔ جہاں طلبگاروں کے لیے نعمتیں بسیار اور آزادانہ دستیاب ہوں گی۔

اُس دنیا کا نام کچھ بھی ہو، مگر وہ ہوگی اکتوبر انقلاب کی تسلسل۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے