ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے کے لیے امید کی علامت ہے۔ تحریکیں جب بھی اٹھتی ہیں تو اُن کی صرف ایک وجہ نہیں ہوتی، بے شمار اسباب مل کر کسی ایک واقعہ کو اوڑھ کر چلنے لگتے ہیں۔
ایرانی تھیوکریسی کے خلا ف وہاں عورتوں کی قیادت میں حالیہ تحریک بظاہر استبدادی ملّاؤں کی رجیم کی طرف سے مہاسا امینی کے بے گناہ قتل کے بعد شروع ہوئی۔مگر اُس کے پیچھے بے شمار دوسری ناراضگیاں اور غصہ موجود ہے۔
انگلینڈ میں تھیچر، تھریسا مے، اور لز ٹرس نامی عورتیں وزیراعظم بن سکتی ہیں۔ اسرائیل میں گولڈ امیئر سربراہ بن سکتی ہے، جرمنی میں انجیلا مرکل چانسلر بن سکتی ہے، بنگلہ دیش میں حسینہ واجد، انڈیا میں اندرا گاندھی،اور پاکستان میں بے نظیر وزیراعظم بن سکتی ہیں مگر ملّاؤں کے ایران میں عورت کے سربراہ مملکت بننے پر پابندی ہے۔ وہاں عورت عدالت میں جج نہیں بن سکتی۔ گا نہیں سکتی، اکیلی سفر نہیں کرسکتی۔ اور وہاں عورت اپنا روایتی قومی لباس نہیں پہن سکتی۔۔۔ عورتیں بہت سی وجوہات کی بنا پر غصے میں ہیں۔
صرف عورتوں ہی کے لیے ایران ایک جیل خانہ نہیں ہے۔ نصف صدی سے پورا سماج قدامت و فاشزم کے نرغے میں ہے۔ ضمیر و شعور کی سانسوں پہ جبر کے خاردار تاروں کا باڑھ لگادیا گیا ہے۔ جبر آفریں بندشوں سے صحافت کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ عدالت کو بروئے حاکم کی جنبش کی منتظر رہنے کا نشئی بنا دیا گیا ہے۔ اکیسویں صدی سے خوفزدہ حاکم نے گلستان و بوستان کی تدریس جاہ کی آزادی کو روندے رکھا ہے، غریب جبر و استحصال کا نشانہ ہیں، بلوچ استبداد کی زد میں ہیں، زندگی بے قدرو بے قیمت ہے، ملا کا فکری زہر سماج کے ریشے ریشے میں پھیل چکا ہے، رگوں میں سر کشی مبہم ہوگئی تھی، قیدیوں کی نوحہ گیری سے بھی اُن کی تعداد معلوم کرنا ناممکن ہوگیا، عوام کو آزادی سے غیر فطری طور پر علیحدہ کرنے کی ملیچھ حرکت کو پانچ دہائیاں ہوچکی ہیں، حکمرانوں کی بددیانتی نے لچھے دار گفتگو کی صورت اختیار کر رکھی ہے۔ مظلوم کے پیچھے ریاست نہیں کھڑی ہوتی۔ سر اٹھاکے چلنا منع ہے۔ حکمرانوں میں کوئی غریب نہیں، ٹریڈ یونین میں ٹی بی کے جراثیم چھوڑ دیے گئے، ایرانی سماج کی روح کو قتل کردیا گیا ہے، آرٹ موسیقی اور رقص انسان سے چھین کر ابلیس کے حوالے کیے گئے ہیں، احترام کے سارے شیڈ ملّا نے اپنے حق میں ضبط کر رکھے ہیں، انسانی لطیف جذبات کو کچلتے رہنے کی دیوہیکل مشین ہمہ وقت چالو ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری نے حشر بپا کر رکھا ہے۔ نظام کی دستار کے ہر بَل میں ایک مقتل سجا ہے، انسان اُس قدر دبا دیا گیا کہ اب وہ قاتل کی ادا کی داد دیے پھرتا ہے، نیک اور صادق جہاں دیکھانا بود کردیا، سچ کی جان ہمہ وقت خطرے میں۔ الغرض پورا سماج ”پاسداران“ کی ٹھوکر میں۔
اُن احتجاجیوں نے خود پہ مسلط اخلاقیات کے خلاف جدوجہد میں بے انت بہادری دکھائی۔ یہ غلط اور استبدادی قوانین ہیں جو ہر عورت کی زندگی حتی کہ ذاتی پہلوؤں پر بھی حکمرانی کرتے ہیں۔ جبر و ظلم کے خلاف تحریکی عورتوں کے احتجاج کو جائز سمجھ کر اُن کے بھائی، باپ اور دوست بھی شامل ہوئے۔
مہسا امینی کا قتل احتجاجوں کو بھڑکا دینے والی چنگاری بنی۔ ملّاؤں کی معاشی سیاسی اور ثقافتی پالیسیوں کے خلاف یہ پہلی احتجاجی لہر نہیں ہے۔ اب کے فرق صرف یہ ہے کہ اس کی قیادت عورتیں کر رہی ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ یہ احتجاج زیادہ بڑے پیمانے کی ہے،اور تیسرا یہ کہ اس جدوجہد کا دورانیہ خوب طویل ہے۔
ہمارے خطے میں فاشسٹ حکومتوں نے عوام میں موجود امریکی سامراج کے خلاف نفرت کو اپنا ڈھال بنا رکھا ہے۔ ایرانی حکمرانوں نے بھی اس کارڈ کو عرصہ سے اپنی ڈھال بنا رکھا ہے۔ حالانکہ سارے مغربی ممالک منافق ہیں۔ وہ ایک طرف عورتوں کے حقوق کا چیمپین بنتے ہیں مگر ساتھ میں انہی حکومتوں کی مدد و امداد کرتے ہیں جو عورتوں مردوں، بچوں حتی کہ ساری آبادی پر پُر تشدد حکمرانی کرتی ہیں۔ پورا مشرق ِ وسطیٰ اور ہمارا خطہ اس بات کی گواہ ہے۔ کارپوریشنوں کے منافع اور وسائل پر لامحدود دسترس ملے تو وہ شاہی نظام کی بھی حمایت کرتے ہیں اور مارشل لا کی بھی رکھوالی کرتے ہیں۔ ساتھ میں منافقت میں عورتوں کے حقوق کی بات کا دکھاوا بھی کرتے ہیں۔
ایران میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ سامراج ایران پہ معاشی پابندیاں اس لیے لگاتا جاتا ہے تاکہ ایران بڑی تیل کمپنیوں کے لیے ایک غلام ریاست بن جائے۔امریکہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ عورتوں کی موجودہ ملک گیر اور پاپولر تحریک کا میاب ہو،اور ایران ترقی و خوشحالی اور آزادی کی طرف گامزن ہو۔ وہ زبانی کلامی ملاؤں کی حکومت کی سخت مخالف ہے مگر وہ اس بات کا سختی سے خیال رکھتا ہے کہ ایران ملا کے ہاتھ سے بھی نہ نکلے۔
قدامت کی حکمرانی ایک بار پھر خطرے میں ہے۔ مختلف نسلوں، قوموں کے مزدوروں کے بیچ نفرتیں پیدا کرنے والی حکومت خود عوامی نفرت کے شعلوں کی زد میں ہے۔ اپنے اور بورژوازی کے خلاف عوامی غصے کا رخ نسلی اور قومیتی اقلیتوں کی طرف موڑتی رہنی والی حکومت کا یہ حربہ اس بار ناکام ہے، فاشزم نامی مطلق العنانی ایک بار پھر بھنور میں ہے۔ کرپشن کو ایک بار پھر زلزلوں کا سامنا ہے۔ اس لیے کہ ایرانی عورتیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ ایران کی سڑکوں پہ زلفیں پرچم بن گئیں، عمر خیام قراۃ العین طاہرہ کے ساتھ ہوگیا ہے۔ گگوش فرغ فروزادہ کو گا رہی ہے۔ پہلی بار بڑے پیمانے پر عوامی اظہار ہوا کہ عوام اور رجیم ”ایک صفحے“ پر نہیں ہیں۔
بورژوا دانشور پیچھے رہ گئے ہیں۔جینڈر کی بنیاد پر، اور جینڈر کو بنیاد بنا کر سارے فرقہ گرد بس تھیوریاں ہی گھڑتے دیکھتے رہے اور عام انسان انقلاب کا مزاج سمجھ کر سڑکوں پہ ہے، جیلوں عقوبت خانوں میں ہے، گولی اور سنگین کی نوک پہ ہے۔
اب کی بار عوامی ناراضگی حقیقی ہے، غصہ گہرا اور بھرپور ہے،اور جلوس جائز اور مقبولِ عام عوامی استرداد پہ مبنی ہیں۔ ایران کی موجودہ رجیم کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف نفرت حقیقی اور وسیع البنیاد ہے۔ عوام اس رجعتی اور ظالم حکمرانی کا تختہ پلٹ دینا چاہتے ہیں۔ شعور تازہ پانی مانگتا ہے، عقل فریش آکسیجن چاہتا ہے،زنجیروں پنجروں میں بند ذہن خواب دیکھنے کو آزاد آسمانی وسعتیں چاہتا ہے۔ عورتیں ریاست کے ساتھ ایک نیا عہد نیا پیمان، دستخط کرنا چاہتی ہیں، وہ رسمِ ستم کا خاتمہ مانگتی ہیں، وہ استبداد کی مزید تائید سے انکاری ہیں، وہ اطاعت سے متنفر ہوچلی ہیں۔ انہوں نے اپنے خون سے انکار کا فرمان لکھ ڈالا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں، طالب علموں کو بھی ساتھ نکالا ہے۔ وہ نہ صرف خود کو بلکہ پورے سماج کو فاشزم کی نقابیات و حجابیات و چوغیات سے آزاد کرنے نکلی ہیں۔ اُن کے نعرے ہیں:
حق ِ ماکم نیست
بیشمار یم
مرگ برپیشوائیت
مزاحمت
مہسا
ساری دنیا کے روشن فکر لوگوں کو احتجاجیوں کی نیت اور جہد پر فخر ہونا چاہیے۔ عورتوں، نوجوانوں اور طالب علموں کی قیادت میں ایرانی عوام کی بلا خوف اور متحدہ مزاحمت پہ خوشی اور سراہنے کی تالیاں بجانی چاہییں۔اس جدوجہد کو مضبوط کرنے اور اس کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے دنیا بھر میں ورکنگ کلاس، اس کی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اس جدوجہد میں شامل ہونا چاہیے۔ اپنی آواز اُن کی آواز سے ملانی چاہیے جو پہلے ہی سڑکوں پہ ہیں۔ یا ہزاروں کی تعداد میں قید خانوں میں ہیں، اور یا 500تازہ قبروں میں ہیں۔ اُن کے مطالبات کووسیع پیمانے میں پھیلانا ہے۔ ایران کی عورتوں،سٹوڈنٹس اور یوتھ کے مطالبات کی حمایت کرنا ہے۔ تھیوکریٹک حکمرانوں کی طرف سے مسلط کردہ مستقل و مسلسل پابندیوں کے خلاف وہاں کی عورتوں کے ارمانوں اور تمناؤں کی حمایت کرنا ہے۔
ہماری خواہش ہے کہ وہاں بلاجواز حکومت سے تنگ دیگر حلقے بھی اس تحریک میں شامل ہوں، اور پورا عوام روشن خیال تبدیلی کے لیے متحد ہوں۔ہماری خواہش ہے کہ ایران میں فاشزم کی ماں مرجائے، اُس کا پتّا پیٹ کے اندر پھٹ جائے۔
رجعت کا سب سے طاقتور دشمن تو ورکنگ کلاس ہے، اس کا شامل ہونا اشد ضروری ہے۔ یہی ضمانت ہوگی کہ تحریک درست سمت رواں رہے۔ موجودہ تحریک جو بنیادی طور پر عورتوں، نوجوانوں، اور سٹوڈنٹس کی تحریک ہے اس میں مزدوروں اور دیگر محنت کش طبقات کی شمولیت لازمی ہے۔ تبھی اس قدامت پسند ظالم حکمرانوں کے خلاف یہ جدوجہد نتیجہ خیز ہوگی۔
ایرانی عوام کی فتح ہو جو کہ اُن کا حق ہے۔
ایرانی عورتوں کی فتح ہو جو کہ اُن کا حق ہے۔