ہڑپہ سے تو بچپن سے شناسائی تھی ،کبھی گئے تو دیکھنے میں کچھ اجنبی نہ لگا بس ایک تہذیب یافتہ اجڑا ہوا گاﺅں۔ سکول کالج میں مطالعہ پاکستان کے ڈسے ہوئے تھے، اسی لیے ہڑپہ کے کھنڈرات دیکھتے ہوئے ہمیشہ ذرا اچنبھا ہوا کہ ہمارا زمین زاد اس زمانے کا انسان تو فن کوزہ گری ،فن مجسمہ سازی ،اور سنگ تراشی میں کمال مہارت رکھتا تھا ، پھر ایسے بد تہذیب کیسے ہو گئے کہ انگریز کو تہذیب سکھانے واسطے سات سمندر پار سے آنا پڑا۔ شاید انگریج ٹھگی کر گیا ، تہذیب شہذیب کیا وہ تو ہمیں لوٹ کر چلتا بنا۔
اب لونڑ دا جیونڑ گھر (رفعت عباس); کا ” لونڑکا "صدیوں سے گمشدہ ہے، اس لونڑکا کو ،اس لیونڑ کے جیونڑ گھر کو ایک بلوچ تلاشتا چلا آیا۔ یہ مہر گڑھ کی ریشمی ڈوریاں تھیں جو شال کو ساہی وال لے آئیں،اس ڈوری پر لگی ہوئیں کچھ سام راجی گانٹھیں تھیں جن کو کھولنے کی سعی میں کئی پیڑھیوں کی انگلیاں فگار ہوئیں۔ کئی نسلیں بے سر،بے دستار ہوئیں۔
شاہ محمد مری کی کتاب” ہڑپہ سے شناسائی ” پڑھتے ہوئے ہڑپہ کے کھنڈرات میں ایک مٹی ہوئی تہذیب سانس لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایک سو بارہ صفحات پر مشتمل یہ کتاب اتنی بھی مختصر نہیں کہ ایک نشست میں پڑھ لی جائے اورایک نشست میں بھی ایسے کہ چائے کی ایک چسکی لی جائے اور پھر چائے کی پیالی ویسے ہی لبریز میز پر دھری حیرت سے تکتی رہ جائے ،چائے سے بے اعتنائی ! استغفار ! اس کفر کا سب گناہ وثواب اس مہ جبیں کتاب "ہڑپہ سے شناسائی” کے ذمے ہے۔ یہ رپورتاژ پڑھتے ہوئے قاری لکھاری کا ہمجولی بن جاتا ہے ،ایسا بیلی جس سے دل کی باتیں بے دھڑک کی جا سکیں۔
بھئی! یہ ہڑپہ تو مہر گڑھ کا پوتا نکلا ، موہنجو داڑو کا بیٹا۔ ہم ایک سر زمین کے لوگ ہیں ، شجر جدا جدا سہی ہماری جڑیں ایک دوسرے سے پیوست ہیں ۔مہر گڑھ کی دریافت نے ہمارا ایک عقیدہ تو دھڑام سے گرا دیا کہ کوئی بہت بڑی مائیگریشن باہر سے ہوئی ہی نہیں ، ہمیں "چھکڑوں اور رہیڑوں پر لاد کر باہر سے نہیں لایا گیا”اسی زمین کی پیدا وار ہیں ہم ،اسی دھرتی کی مٹی ہیں۔
ہڑپہ کا اصل پنگھوڑا درہ بولان کے دہانے پر واقع مہر گڑھ سویلائزیشن ہے۔ ہمارے اباواجداد سورج دیوتا کو ماننے والے تھے۔ ہڑپہ میں مدفن ہڈیوں اور دانتوں پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مہر گڑھ کے باسیوں سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔
ہڑپہ کو ابھی دیکھ ہی رہے تھے کہ قرطاس پر ایک گھڑ سوار نمودار ہوتا ہے ، اپنی بدن بولی سے پنج آب کا لگتا ہے۔ سفید داڑھی بلند نگاہی کے ساتھ کیسا جی دار گھبرو ہے! فی زمانہ تو اس عمر میں زور زبردستی ہر طرح سے فارغ قرار دے کر ہاتھ میں تسبیح تھما کر مسجد کی طرف دوڑیں لگوا دی جاتی ہیں۔ ورنہ بستر پر چاروں شانے چت پڑے کھانستے رہو،اگر کھانسی نہ آئے تو بھی کھانستے رہو۔
اسی سالہ احمد خان کھرل ایک سامراج دشمن جنگ کا ہیرو، جس کو قلعہ فراموشی کا شہری بنا دیا گیا۔ لیکن ہسٹری اس دیہاتی بوڑھی کپتی عورت کی طرح ہے جو گنوانے پر آتی ہے تو اپنے تمام جاہ و جلال کے ساتھ نیک و بد کھرا کرتی ہوئی باوا آدم تک کی نسلیں گنوا جاتی ہے۔
پردہ پوش حقائق طشت از بام ہو کر رہ جاتے ہیں۔ احمد خان کھرل اپنی گھوڑی ساوی پر سوار پر آج بھی سر بلند ہے۔ انگریز نے احمد خان کے مبارک سر کو گوگیرہ جیل کے دروازے پر لٹکا دیا تھا۔ لوک بولیوں میں اب تک زندہ و جاوید ہے۔
تینوں ڈھوکاں یاد کریندیاں ہن
ہک واری مڑ آویں ہا رائے نتھو دیا احمد خاناں
وے راوی دیا لاہڑیا…
تیرے جہے پت جمن مانواں کدھرے کدھرے کوئی
یہ کٹا ہوا سر پنجابیوں کو آب آب ہونے سے آج بھی بچاتا ہے ورنہ سجادہ نشین پیر،مخدوم خاکوانی ڈاھا جاگیردار، سبھی وطن فروش تھے سبھی ماں فروش تھے۔۔۔۔۔سبھی قتل کروا رہے تھے اور جاگیریں نواب زدگیاں حاصل کر رہے تھے۔ شاہ محمد لکھتا ہے:” میں باپ دادا کا قصور ان کی نسلوں پر نہیں لادتا۔مگر پنجاب کے انگریز دوست خاندانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اب تک عوام دشمن چلے آرہے ہیں۔”
ہم فراموش کر چکے ہیں : اپنی دھرتی کی زبانیں ،اپنی رہتل بہتل ،اپنی دھرتی کے سورما،اپنی دھرتی کے دکھ۔ہم حملہ آوروں کے قصیدے لکھتے ہیں پڑھواتے ہیں،اپنے نسب بھی عربستان ایران توران قازقستان سے ملاتے ہیں۔
کانفرنس اور ایک گَراں قَدر مقالہ "پاکستانی ثقافتیں” کے موضوع پر اس کتاب کا جزو بدن ہے۔واحد کا لفظ اللہ ہی کو سجتا ہے، تنہا ہونا خدا ہی کو وارے کھاتا ہے۔ ثقافتیں ،زبانیں دھرتی کے گلہائے رنگا رنگ ہیں۔
کانفرنس کے بعد دوستوں کی محفل میں ہر موضوع پر بات ہوتی ہے:-” کشمیر کا غم ،فلسطین کا دکھ اور دور دراز چیچنیا Chechnya پہ تشویش” مصنف نم انکھوں سے مسکراتے ہوئے اپنے ہم رکاب قاری سے پوچھتا ہے: ” ایسے ماحول میں بھلا بلوچستان چھیڑنے کا مقام بنتا ہے؟”۔
تحریرکا حسن اس کا پر مغز ہونا تو ہے لیکن پَیراہَن دیدہ زیب ہو تو کیا کہنے!۔ تخلیقی نثر لکھنا خداداد ہے۔ لیکن اس کو سنوارنا نکھارنا یعنی بقول شاہ مری سرخی پاوڈر برابر کرنا ذرا سی بات نہیں ہے، جگر خون کرنا پڑتا ہے۔ شاہ محمد مری کا اسلوب فطانت، ذکاوت ، لطافت لیے ہوئے ہے ،چاہے فلسفہ یا سائنس کا کوئی دقیق موضوع ہو یا سوشل سائنسز اور آرکیالوجی ہو، بیان مزدک کا ہو یا مارکس کا یاسندھڑی کے شاہ عنایت شہید کا ،پنجاب کا کھرل ہو یا پختون خواہ کا کاکا جی صنوبر حسین یا بلوچستان کا دل مراد کھوسہ، شاہ محمد کا قلم کبھی علمی ادبی تاریخی بد دیانتی نہیں کرتا۔ وہ قاری کو بامراد، سرفراز کرتا ہے، ذہن و دل کشادہ کرتے ہوئے بند دریچے کھولتا چلا جاتا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے