میں گزشتہ دو سالوں سے جیل میں قید ہوں۔ جیل کے بیرکوں کی دیواریں ، "مجھے انصاف دو ” _ "مجھے چھوڑ دو ” _ میں بے گناہ ہوں”_ "میں ، میں پاگل نہیں ہوں” _ "تم لوگ مجھے چھوڑتے کیوں نہیں ہو؟ ” _ کا راگ آلاپنے والوں کو سن سن کر تنگ آچکی ہیں۔ یہاں روز بدبودار بدن ، گھٹن زدہ لاشوں کی مانند کَٹے پَھٹے چہروں اور خوشحالی سے کہیں دور کسی انجان قبر پر سوئے نشہ آور ادویات لئے انسان سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ لیکن میں اپنے بیرک میں بہت سکون سے رہتا ہوں۔ روز صبح چھت سے اوور فلو ہو جانے والا پانی میرے بیرک میں آجاتا ہے۔ اور میری چھت چاروں کونوں سے ٹپکنے لگ جاتی ہے۔ اس کی ٹِپ ٹِپ مجھے ریمائنڈر کا کام دیتی ہے۔اکثر پانی پینے والا مٹکا بھی اسی سے بھر جاتا ہے۔ اور بعد میں وہی پانی پینے اور غسل کرنے کے کام آتا ہے۔ اسی ریمائنڈر کی بدولت میں فجر کی نماز کھڑے ہوکر پڑھ پاتا ہوں۔
تین فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی یہ زمین میں نے جرم کر کے خریدی ہے۔ بیرکوں سے متصل غسل خانوں سے چیخنے کی آوازیں آتی ہیں۔ نئے آنے والے نومولود قیدی ہر دوسرے دن پرانے قیدیوں کی طرف سے زیادتی کا نشانہ بنا دئیے جاتے ہیں۔ جس بیرک میں میں رہتا ہوں اب اس سے لگائو ہوگیا ہے۔ جس کا کوئی بھاڑہ نہیں ہے۔ جس میں میرے سوا کوئی نہیں سما سکتا۔ جس میں رات کے وقت تیز روشنی اور دن میں سخت اندھیرا کر دیا جاتا ہے۔ صبح ہوتے ہی جیل انتظامیہ کی جانب سے ناشتہ تقسیم کرنے کے لئے گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں۔ اور اگر ناشتے میں تاخیر ہو تو قیدیوں کی جانب سے برتوں کا اتنا شور کیا جاتا ہے کہ کان کے پردے پھٹنے پہ آجاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر قیدی سر کھجاتے ، بیرکوں کی سختیاں جھیلتے ، گندگی ، جنسی حوس ، بیچارگی اور لاپرواہی کی وجہ سے جہالت کے اندھیروں میں غرق اپنا گھر ، دوست احباب حتاکہ اپنے آپ کو بھی بھول چکے ہیں۔ میں روز ناشتہ لینے کے لئے ان کے ساتھ کھڑا کسی عجوبے سے کم نہیں لگتا کیونکہ میں نے زندگی کو چھت سے ٹپکتے ریمائنڈر اور حَبس زدہ بیرک تک محدود کر لیا ہے۔مجھے چند ہم خیال قیدیوں کی جانب سے روز بیرک سے رِہا ہونے پر اکسایا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ ” تم تو بے گناہ ہو ” تم ہاہاہاہا تم بھاگ جائو ” ، ان قیدیوں کے بدبودار دانت اور ان سے نکلنی والی پانی کی پھنوار اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر اپنے اگلے دو دو دانٹ توڑڈا لے ہیں۔ مجھے اب یقین ہوگیا ہے کہ میں ایک ایسی ریل کا مسافر ہوں جسں میں بیٹھے مسافروں کو زندگی کی رمق سے دور دھکیلنے والوں میں ان قیدیوں کا بھی ہاتھ ہے۔ جو مجھ جیسے سادہ لوگوں کو اس نظام کا حصہ بنا دینا چاہتے ہیں جس میں وہ خود بھی شامل ہیں۔
لیکن میں صرف ناشتے کے وقت ہی ان سے بات کرنا پسند کرتا ہوں۔ یعنی کہ” آج کیا پکا ہے؟” ، ” آج دال تھوڑی کچی رہ گئی ہے”۔ _ "کمبخت جیل کا باورچی روز چاولوں میں کَنی رکھ دیتا ہے۔”_۔۔۔
بیرک میں واپسی پر دَھکے لگنے کی وجہ سے اب پلیٹ میں چار دانے چاول رہ جاتے ہیں۔ میں بظاہر پیٹ بھرنے کی ادکاری کرتا ہوا ، سارا دن ہَشاش بَشاس بیرک کی اینٹوں کو محسوس کرتا رہتا ہوں سب سے بڑی اینٹ میری بیوی اور بیرک کی درمیانی دو اینٹیں مجھے میری دو بیٹیاں معلوم ہوتی ہیں۔ وکیل کہتا ہے کہ مجھے چند روز بعد پھانسی دے دی جائے گی۔ اسی لئے خواہشات اکھٹی کر رہا ہوں کہ موت کے فرشتے کو یہ کہوں گا وہ کہوں گا کہ میری بیٹیوں اور بیوی سے ملاوا دو، یا مجھے اس قید سے رہائی دلوا دو۔اور یہ سب سوچتا ہوا ہنس پڑتا ہوں کہ ہم قیدی بھی کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں جلّاد خود موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔ اور ہم موت کی سزا کا انتظار کرتے ہوئے اپنے موت کے فرشتے کو عین سامنے انسان کی صورت میں دیکھ لیتے ہیں۔ قیدیوں کے لئے موت کا فرشتہ ، دراصل خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ نہیں ہوتا بلکہ خدا دنیا کے گناہوں کی سزا دینے کے لئے دینا کا فرشتہ ہی مقرر کرتا ہے جسے ہم جلّاد کہتے ہیں۔ انسان کی موت اسی دن ہوجاتی ہے۔ جس دن اسے یہ پتہ چل جائے کہ میں نے اِس مخصوص دن اس دنیا سے چلے جانا ہے۔ میں بھی بیرک میں بیٹھا زندگی کے احساسات سے انجان چھت سے اوور فلو ہوتے مٹکے میں گرتے پانی کی طرح اس کی نقل اتارتے ہوئے اپنے منہ سے ٹِپ ٹِپ کی آواز نکالنے لگ جاتا ہوں۔ مجھے بنا کچھ کھائے پیئے ، گھڑے کو دیکھتے اور ٹِپ ٹِپ کی آواز لگاتے آج تین دن ہوچکے ہیں۔ میرے کچھ ہم خیال دوستوں کو گمان ہونے لگا ہے کہ شاید میں پاگل ہو چکا ہوں۔
میں چیختا ہوں چلاتا ہوں۔ "مجھے انصاف دو” _ ” مجھے چھوڑ دو ” _ ” میں بے گناہ ہوں ” _ ” میں ، میں پاگل نہیں ہوں” _ ” تم لوگ مجھے چھوڑتے کیوں نہیں ہو؟ "_۔۔۔
ساتھی بیرکوں کے قیدی میرے بیرک کے گِرد اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ میں انہیں دیکھ کر پھر سے ٹِپ ٹِپ کی آواز نکالنا شروع کر دیتا ہوں۔ اور بیرک کی دیواروں پر لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ٹِپ ٹِپ میری موت کے آخری لمحات تک میرا ریمائنڈر بن کر زندہ رہے گی کہ اس بیرک میں فجر کے وقت ایک ریمائنڈر بجا کرتا تھا۔ 9 اکتوبر 1998 بروز بدھ میری پھانسی کا دن ہے۔ میرے نیم مردہ جسم کو ہاتھوں میں لیے دو سپاہی کھینچتے ہوئے پھانسی گھاٹ کی جانب لے جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بیرک میں ریمائنڈر بجنے لگتا ہے اور میں جاگ کر دفتر کی تیاری کرنے لگتا ہوں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے