مزدوروں کا جلوس نعرے لگاتا فیکٹری کی جانب بڑھ رہا تھا۔دیگر مزدور اور مزدور تنظیمیں بھی ان کی حمایت میں ساتھ شامل ہوئے جاتے تھے۔فرید فیکٹری میں دیگر مزدوروں والی وردی پہنتا مشینوں اور پروڈکشن کا جائزہ لیتا تو اکثر نہ پہچانتے کہ کون ہے۔وہ اسے سر پھرا سپروائزر سمجھتے۔جو لاپرواہی سے گھومتا پھرتا۔مزدوروں کے برعکس اس کا چہرہ بھی گڑھوں نشیبوں اور پریشانیوں سے مبرا رہتا۔
جرمنی سے تربیت حاصل کر کے لوٹا تو غلامی کے رویے اس کے ذہن سے نکل چکے تھے۔جرمن کبھی کسی کے غلام نہیں رہے۔جبکہ برصغیر ہزاروں برس سے غلام تھا کبھی اپنوں کا کبھی غیروں کا۔غلامی اور بھوک ان کے جینز کا حصّہ تھا،بلا سبب خوشامد کرنا جھکے جانا اور کھانا دیکھتے ہی ٹوٹ پڑنا۔وہ چاہتا تھا کہ نظام میں شامل ہو کر سمجھ کر فیکٹری کو مثالی بنائے۔لیکن ادھر گڑبڑ بہت تھی کچھ بھتہ تو بھائی لوگ اور سرکاری محکمہ لے جاتے۔جنت جنت الاپنے والے۔جنت بی بی کے نام پر بھتہ نما چندہ لے جاتے۔کارخانہ دار کچھ حیل حجت کرتا تو اسے قادیانی کا لیبل دکھاتے جو اس پہ فقہی ایلفی سے چسپاں ہو سکتا تھا۔جیسے سیاہ کار کا لیبل لگے تو اسے پھر قوم قبیلہ بھی بچا نہیں سکتا۔
سبھی کارخانہ دار ان کے ہاتھوں یرغمالی جون پور کا قاضی بنے رہتے۔کچھ تو رسہ تڑا کر بنگلہ دیش جا بسے تھے جہاں فیکٹری مالکان کو تحفظ دیا جاتا۔
پاکستان میں کامیاب رہنا ایک سائنس بھی ہے آرٹ بھی۔فرید کا گھرانہ بخوبی یہ فن جانتا تھا۔مزدور نعرے لگاتے بڑھتے چلے آئے تھے۔فیکٹری گھیر کے نعرے لگاتے دھرنا دیتے تو باہر نکلنا دشوار ہو جاتا۔اس لیے وہ جاوید کے ہمراہ اسکی آلٹو میں فیکٹری سے فرار ہوا تو سیکورٹی نے جاوید کے لیے گیٹ کھول دیا۔مزدوروں کی وردی پہنے وہ آلٹو میں گزرتے تو جلوس انہیں اپنا ساتھی سمجھ کر جانے دیتا۔فیکٹری مالک کی گاڑی تو وہ کبھی نکلنے نہ دیتے۔کیا عجب پتھرائو بھی کر کے گاڑی کا ملیدہ بنا دیتے۔
جلوس نے اسے راستہ دیا،مزدور پیدل ہی آہستہ خرامی سے چلے آ رہے تھے۔جلوس کے آگے مزدور لیڈر تھے،جن کے ساتھ ہی ایک حسینہ درگا دیوی کا جمال و جلال اوڑھے چل رہی تھی۔اس کے سر پہ بھگوان سا تاج تھا۔اس کی سندرتا دیکھ کر فرید وہیں ڈھیر ہو گیا۔” ہائے یاسین “ وہ زخمی دل سے کراہا۔
” جاوید یہ کون ہے؟“ جاوید سہم گیا۔
” باس اس کو نظر بھرکے نہ دیکھنا۔یہ شہر کی Heart Throb ہے۔قلو پطرہ، پتھر کی دیوی، یہ حسن کی تارا مسیح ہے۔اپنے گھائل کو لنڈی کی طرح کہتی ہے ’پراں مر‘۔اس کا مشہور نام البللی ہے۔کیونکہ بالکل البللی ہے۔نہ لباس کی پرواہ۔نہ میک اپ کا سلیقہ نہ ہی اپنے حسن کی طاقت کا اندازہ“
” گاڑی روکو“ فرید نے حکم دیا۔
” نہیں باس میں آپ کے خاندان کا وفادار ہوں۔بے موت نہیں مرنے دوں گا “
فرید نے گھونسا تانا” روکتا ہے کہ لگاو¿ں ایک بزناٹ وفادار کا پتر۔بات مانتا نہیں اور کرتا ہے وفاداری “
جلوس نے آلٹو سے مزدور نکلتے دیکھا تو ذرا بھر اچنبا نہ ہوا۔وہ بھی پہلی صف میں مزدور لیڈر ابراہیم کے بازو میں جگہ بنا کر چلنے لگا۔البللی عورتوں کے گروپ میں تھی۔اس کا حسن جہاں سوز راکھ کیے دے رہا تھا۔فیکٹری کے گیٹ بند تھے۔فرید نے مشورہ دیا کہ صرف تین لوگ اندر جائیں وہ ابراہیم،اس کی بیٹی بطور نمائندہ۔ابراہیم کے خطاب پر مزدور دھرنا دے کر سڑک پر ہی بیٹھ گئے۔یوں فیکٹری کے آمد و رفت کا راستہ بند کر کے بیٹھ رہے۔رضا کار پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی بھر بھر کے بانٹتے پھر رہے تھے۔
فرید نے گیٹ بجایا تو سیکورٹی نے چھوٹی کھڑکی سے جھانکا۔فرید کو دیکھ کر چھوٹا دروازہ کھول دیا۔
” ہم منیجر سے بات کرنا چاہتے ہیں “ فرید نے نرمی سے کہا۔
ذرا سی دیر میں منیجر دوڑا آیا۔موقعہ کی نزاکت کے تحت اس نے جمعہ خانی کی فرید کو نہ پہچانا۔
البللی اس پہ برس پڑی ” آپ نے تین مزدوروں کو نوکری سے نکال دیا ہے۔ان کی روزی روٹی کا کیا بنے گا؟ “ اشتعال میں وہ دمک اٹھی جیسے پندرہ کیرٹ کا قابلی یاقوت اچانک ہی جلتے سورج کے سامنے رکھ دیا جائے۔ابراہیم اپنی بیٹی کے جارہانہ رویے سے خوش نہ تھا۔نرمی سے بولا۔” ہم صرف درخواست کرتے ہیں کہ انہیں دوبارہ کام پر رکھ لیں گے۔ان کی تنخواہ سے کہیں زیادہ تو سیٹھ کے دفتر میں اے سی کا بل آتا ہوگا “
منیجر نے عالم بدحواسی میں بتیسی نکال دی ” دراصل نئی مشینوں اور روبوٹس کے باعث نفری کی ضرورت نہیں رہی…..؟“ البللی نے اسے فقرہ پورا نہ کرنے دیا۔” ہم آگ لگا دیں گے ان روبوٹوں کو جو مزدوروں کا حق چھینتے ہیں۔“
فرید محتاط انداز میں اس کے جلوو¿ں سے سرشار ہوتا رہا۔منیجر گھیگھیانے لگا ” یہ تو ممکن نہیں ہے “
البللی اندھیری راتوں کی طوفانی بجلیوں کی مانند کوند گئی” تو میں اپنے آپ کو اسی گیٹ پر آگ لگا لوں گی “
ماحول اچانک ہی اشتعال انگیز ہو گیا۔مزدور حملے کے لیے پر تولنے لگے۔فرید نے آواز لگائی ” جاوید لاو¿ پٹرول کی بوتل “ جاوید گاڑی ایک جانب لگا کر پانی کی بوتل لیے ساتھ ساتھ ہی چلا آیا تھا۔اس نے کچھ جھک کر پہلو بدل کر یوں لیبل اتارا کہ مجمع نہ دیکھ سکا اور پانی کی بوتل تھما دی۔فرید نے بوتل سر سے بلند کی۔
البللی چیخی ” نہیں میں مروں گی “ اس نے بوتل جھپٹنا چاہی۔مگر وہ بونی سی تھی ہاتھ اتنا بلند نہ کر پائی۔منیجر کے ہوش اڑ گئے۔مالک اس کے سامنے کھڑا ڈرامہ کر رہا تھا۔
” آپ کیا چاہتے ہیں “ منیجر رونے پہ آ گیا تھا۔
” ان تینوں مزدوروں کو کام پہ رکھ لیا جائے“
فرید نے گرج کر کہا۔منیجر جھک سا گیا۔ ” حکم کی تعمیل ہوگی۔اگر وہ جلوس میں موجود ہیں تو فیکٹری میں چلے آئیں “
زندہ باد کے نعرے بلند ہوئے مزدوروں نے فرید اور ابراہیم کو کندھوں پہ اٹھا لیا،عورتیں البللی کے لیے نعرے لگاتیں راہ لگیں،مین روڈ پہ جلوس منتشر ہوا تو ابراہیم نے فرید کو کھانے کی دعوت دی۔کچھ ہی دور ایک ڈھابے میں وہ چاروں بیٹھ گئے۔تعارف ہوا۔البللی کا نام کنزہ تھا،عجب سا نام تھا جیسے ریلوے کا انجن قریب سے تیز سیٹی بجاتا گزر جائے۔
البللی نے فرید کی بوتل کھول کر سونگھی ” میں بھی حیران تھی کہ تم راستے میں پٹرول پیتے آئے ہو“
فرید ذرا نہ جھینپا ” کیا کروں ظالموں سے حق تو لینا ہی پڑتا ہے “
ابراہیم نے عمر بھر مزدور تحریک نبھائی۔جیلوں میں رہا۔سڑکوں پہ بید اور آنسو گیس برداشت کرتا رہا۔مزدوروں کے علاقے میں دو کمرے کا کواٹر تھا۔جس میں کتابیں ہی کتابیں تھیں،گیان کی دیوی سرسوتی وہاں رہتی جس کے باعث دولت کی دیوی لکشمی پہلو بدل کے اس کوارٹر سے گزر جاتی،بھلا ایک ملک میں دو بادشاہ یا ایک نیام میں دو تلواریں رہی ہیں۔فرید تو منجھا ہوا Sapper تھا فصیلوں میں شگاف ڈالتا داخل ہو جاتا۔یہ لڑکی تھی تو بے حد دلکش مگر Lilliputian مخلوق تھی ننھی منی سی جسے سردی میں اوورکوٹ کی جیب میں بھی ڈالا جا سکے۔سامنے کافی کے دو پیالے اور عقب میں دو گلاو¿۔وہی بونی مخلوق جس نے سینڈریلا کی مدد کی تھی۔اب مزدوروں کے لیے کام کر رہی ہے۔فرید کو تاسف ہوا اسی کوشش میں جھلس جائے گی۔دادا امیر حیدر کی طرح ناکام و ناکارہ رہ کر بھی فیکٹریوں میں تقریریں کر کے سرمایہ داری نظام کو برا بھلا کہتی پھرے گی۔
پہلی ہی ملاقات میں وہ بے تکلف ہو گئے،اشارہ پاتے ہی جاوید کھسک چکا تھا۔
” کھانے کا بل میں دوں گی “ البللی مچل گئی۔
” ہمارا گھر ساتھ ہی ہے چلو گے؟ چائے پلاو¿ں گی؟“
ابراہیم نے دریا دلی دکھائی ” ہمارے گھر میں بہت کتابیں ہیں۔جو چاہے دے دوں گا یہ تو ہے بھی انگریزی ادب کی “ ۔
شکار خزہ کے قریب ہی چلا آ رہا تھا۔وہ بس میں بیٹھ کر دھول اگلتی مزدور بستی میں آ گئے۔وہاں غربت و بدحالی تھی جیسے قدیم غلام عبرانیوں کی مفتوحہ بستی رہی ہو۔فرش پہ دریاں بالشت ڈھیروں اخبار اور انگریزی ادب کی کتابیں بکھری پڑی تھیں۔گھر میں غربت کی جاتو نوکیلے خون آشام دانت نکوسے براجمان تھی۔ظاہر ہوئے بغیر وہ اپنا وجود منوا رہی تھی۔البللی نہایت ہی بے رحمی سے سچ بولنے کی عادی تھی۔
” میں تو کبھی کسی کو لفٹ نہیں کراتی مگر تمہاری دلیری سے میں عش عش کر اٹھی۔وہ مرد ہی کیا جو دلیر نہ ہو“
ابراہیم سگریٹ لینے باہر نکل گیا۔اسے اپنی بیٹی پہ بھروسہ تھا۔لیکن وہ اسے گفتگو کا موقعہ دینا چاہتا تھا۔اس کی دلی خواہش تھی کہ بیٹی شادی کر کے گھر بسائے۔
مگر شادی کے نام پہ وہ مرنے مارنے پہ تل جاتی۔خودکشی پہ آمادہ ہو جاتی۔کئی بار اس نے خودکشی بھی کرنا چاہی۔اس کی پاگلانہ الفت سے ابراہیم بھی سوختہ تھا۔فرید سے التفات دیکھ کر ابراہیم کی ہمت بندھی۔کنزہ کو پسند کا ساتھی تو ملا۔فرید دوستوں کے منع کرنے کے باوجود دھیرے دھیرے چاہت آگے نہ بڑھاتا۔بلکہ کسی مارشل لائی حکومت کی طرح بوٹوں سمیت دل میں در آتا۔
” میں تو بس تمہیں دیکھتے ہی ڈھیر ہو گیا۔دل گردے والا انسان ہوں ورنہ وہیں خاک ہو جاتا“
خلاف توقع البللی نہ شرمائی۔” ہاں میں نے تمہیں کار سے اترتے دیکھا تھا۔مگر تم کسی طور مزدور نہیں لگتے تمہارے ہاتھ بھی مزدوروں والے نہیں ہیں۔“ فرید نے موضوع بدل دیا۔
” صرف ایک کپ،سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم “ وہ رسوئی میں گئی تو فرید بھی پیڑھی گھسیٹ کر ساتھ آ بیٹھا۔
” سوموار تمہارا برتھ ڈے رہا ہوگا۔اتنی حسین لڑکی بنانے میں قدرت نے لونگ ویک اینڈ تو لیا ہی ہوگا “
اپنی تعریف وہ کسی سنتری کی مانند پتھریلے چہرے سے سنتی رہی عجیب سی Petrified لڑکی تھی۔کوہ ہر بوئی کی چار چشم جیسی جسکی ہر آنکھ لاتعلق تھی۔زندگی کی دمک سے عاری پتھر سی۔
پہلی ہی ملاقات میں ان کی دوستی ہوگئی۔ابراہیم بھی خوش تھا کہ کنزہ کو جیون ساتھی مل جائے گا۔ورنہ وہ تو ہمیشہ انکار کرتی آئی تھی۔اچھے اچھے رشتے ہاتھ سے گئے۔دو ایک تو شہر ہی چھوڑ گئے۔ایک نے تو نیند کی گولیاں پھانک کر خودکشی کی کوشش کی وہ تو کرم ہے جعلی دوائیاں بنانے والوں کا۔جو وہ بچ رہا۔
فرید بدستور غریب کا روپ دھارے آتا جاتا۔جاوید کی آلٹو سے اتر کر وہ اگلے اسٹاپ تک بس میں آتا۔پھر وہ البللی کے ساتھ ہی بس میں ساحل پہ جاتا اور نسبتاً سستے ریستورانت میں کھاتے پیتے۔یہ لڑکی فرید کو اہرام مصر کی طرح پراسرار سی لگتی اسے ٹارگٹ کرنا مارخور کے شکار سا مشکل تھا۔
شام میں اب اس کی یہی تفریح رہتی۔البللی بھی ہاتھ تھامے ساحل کی گیلی ریت پہ ساتھ چلتی پھر وہ بازو کمر پہ آنے لگا،بوس و کنار میں بھی کچھ ہی دن لگے مگر ہم آغوشیاں ممنوع رہیں۔
ایک سہ پہر جب آگ سہتی زمین بھوبھل بنی شام کی راہ دیکھ رہی تھی،جاوید سے برداشت نہ ہوسکا ” باس بہت بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ میں تو اس بدبودار بستی میں رانی مکھرجی کے لیے بھی نہ آو¿ں۔واقعی عشق خاک چھنواتا ہے۔مگر مجھے تسلی ہے کہ قلعہ فتح کر کے جھنڈا گاڑ کے پھر آپ دوبارہ مفتوحہ علاقے میں نہیں جاتے “
فرید مسکرایا ” کبھی دیکھا سنا کہ مائونٹ ایورسٹ فتح کر کے جھنڈا گاڑ کے کوئی وہی ڈیرہ ڈال بیٹھا ہو “
جاوید ہمدرد انسان تھا ” بلا تردد فون کرنے پر ہی آپ کی شام رنگین کر سکتا ہوں باس“
فرید کو اس کی سادگی اچھی لگی ” جب ہم شکار پہ جاتے ہیں تو ایک تیتر ہزاروں کا پڑتا ہے،کہاں شکار کرنا کہاں بازار سے خرید لانا۔تم یہ فرق نہیں سمجھو گے۔پہلے شکاری بنو“۔
جاوید نے اپنے دونوں کان پکڑ لیے ” یہ امیروں کے شوق ہیں مجھے تو اللہ نے بچا رکھا ہے،شکر ہے “
البللی کسی دھرنے میں اظہار یک جہتی کے لیے لیبر کالونی کی خواتین کے ساتھ گئی ہوئی تھی۔اس نے موبائل پہ یہی وقت دے رکھا تھا،مگر ٹریفک میں گروپ پھنس گیا ہو۔کیونکہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ ہی افورڈ کر سکتی تھی۔ابراہیم حسب معمول گرمجوشی سے ملا،بکھری ہوئی کتابیں اخبار سمیٹ کر بیٹھنے کی معقول جگہ بنائی۔اور رسوئی میں جا کر دو کوپ چائے بنا لایا۔
” فرید میں تمہیں آج حقیقت حال سے واقف کرنا چاہتا ہوں “ ابراہیم کا لہجہ پر اسرار ہو گیا۔وہ نظریں چرا کر بات کر رہا تھا۔فضاءکی تپش سے پنکھا بھی بجائے راحت دینے کے جسم پر استری کیے جا رہا تھا۔
” کنزہ میری اپنی بیٹی نہیں ہے “ فرید کے ہاتھ میں کوپ کانپ گیا۔وہ ایڈگر ایلن پو کی کہانی سن رہا تھا۔
” میری بے حد پیاری بیوی اور دو بچے ٹریفک حادثے میں جان سے گئے۔دل ویران ہو کے رہ گیا۔یوں تو مزدوروں کے جلسوں میں گرجتا برستا مگر دل ٹوٹ چکا تھا۔مجھے ویران ساحل اچھے لگتے۔فجر کی نماز کے بعد بائیک لیے ساحل پہ جا پہنچتا۔ایک صبح کاذب لہروں کے طلاطم میں چٹانوں کی جانب سے بچی کے رونے کی آواز سنی دوڑ پڑا۔دیکھا کہ ایک آدمی نے کوئی آٹھ نو برس کی بچی لہروں میں اچھال پھینکی لہر پلٹی اور دوبارہ ریت پہ دے مارا۔میں دیوانہ وار دوڑا وہ دوبارہ بچی کو پھینکنے کے لیے بانہوں میں بھر چکا تھا۔میں نے زور کا گھونسہ جڑا مزدور کے ہاتھوں کی طاقت تم جانتے ہو۔میں نے اسے ریت پہ دے مارا اور چاہا کہ فولادی مکے سے اسکا منہ توڑ دوں کہ وہ بچی اس پہ آن گری اور مجھے ننھے منے ہاتھوں سے پیٹنے لگی۔مت مارو میرے پاپا کو۔وہ بری طرح بلک رہی تھی میں نے اپنا ہاتھ روک دیا ہم لہروں کی زد میں تھے اچانک ایک بڑی لہر آئی میں تو ریت سے چپک گیا،واپس جاتی لہر بچی کو بھی ساتھ ہی لے چلی۔میں نے چھلانگ ماری اور موجوں سے لڑتا بچی کا پائوں پکڑنے میں کامیاب ہو گیا۔لگتا تھا کہ بچی کو بچانے میں خود بھی ڈوب جائوں گا،مگر میں نے ہمت نہ ہاری میں باآواز بلند اللہ کو پکار رہا تھا۔اس ادھ موئی بچی کو لے کر ساحل پہ آن گرا اسکا باپ غائب ہوچکا تھا۔میں بچی کو لیے گھر آیا۔میں نے دل کے زخم نہ کریدے۔کوئی سوال نہ کیا۔کنزہ اس نے اپنا نام بتایا تھا۔وہ خاموش رہتی کونوں میں دبک کر بلا آواز روتی رہتی۔رات کو بستر میں یوں آنسو بہاتی کہ مجھے بھی خبر نہ ہوتی۔صبح تکیہ بھیگا ہوتا۔چائے پیو ٹھنڈی ہو رہی ہے“ فرید خاموشی سے چائے پیتا رہا۔گرمی میں جلتا سلگتا وقت دم سادھے کمرے میں منجمد سا ہو گیا۔گرمی میں بھی فرید کا لہو سرد پڑ گیا۔
” میری دلی خواہش ہے کہ تم کنزہ سے شادی کر لو۔محبت نہیں کر سکتے تو رحم ہی کھائو ،تم لاکھ غریب بنو۔میں جانتا ہوں کہ تم کوئی بااثر متمول انسان ہو۔لوگ تمہیں دیکھ کر باادب ہو جاتے ہیں“
فرید بدستور خاموش رہا۔پھر ہزاروں سال بعد اس نے کہا ” اچھا چلتا ہوں،شاید کنزہ اس دھرنا کا حصّہ بن گئی ہے“ ابراہیم کی نمناک آنکھیں دیکھ کر اتنا ہی کہہ سکا۔
” وقت پر فیصلے چھوڑ دیں“
جاوید کی آلٹو میں پھنسا لوٹ رہا تھا کہ البللی کا فون آیا ” بے ایمان،فرار ہو گئے۔میرا انتظار بھی نہ کیا“ وہ لوٹ پڑا فرید کو Pensive دیکھ کر وہ سنجیدہ ہو گئی۔
” کل ہم حیدرآباد جا رہے ہیں،بڑا جلوس ہوگا۔ساتھ چلو گے ؟“
فرید پھانسی پہ جھولتا رہا ” ہاں چلوں گا “
اس نے پائوں گھاٹ پر ٹکا کر گلے سے رسہ اتار لیا۔کہیں یہ جذباتی لڑکی گلے میں ہی فٹ نہ ہو جائے۔
حیدرآباد کا سفر رومینٹک تھا۔آلٹو فرید چلا رہا تھا۔کلینڈر سائڈ پہ البللی ضوفشاں تھی۔پچھلی سیٹ پہ ابراہیم اور جاوید تھے۔البللی کے حسن سے سرشار وہ آلٹو بھی فراری کی طرح دوڑائے جا رہا تھا۔جاوید نے بکنگ کرا رکھی تھی،گیسٹ ہائوس دیکھ کر البللی ٹھٹھک گئی۔
” اس کا کرایہ کون دے گا “ جاوید مسکرایا۔
” میرے چچا کا ہے مفت ہے ہمارے لیے “ البللی کے لیے لان درخت اور پرسکون گیسٹ ہائوس خواب آگہیں تھا۔چار کمرے بک تھے۔وہ ایئر کنڈیشن کی سرد ہوائوں میں بستر پہ ڈھیر ہوگئی۔کھانا کھا کر ابراہیم مزدوروں سے ملنے جاوید کے ساتھ چلا گیا۔
فرید نے دروازہ بجایا اور اندر چلا آیا۔ پرسکون کمرے کی دھیمی روشنی میں البللی قدیم اپسراءسی لگ رہی تھی۔اچانک ہی فرید دیوانہ ہو کر سارے جھوٹے وعدے بھول بیٹھا۔ منٹو کے افسانے کالی شلوار اور وہی وہانوی کے ناول گیلی شلوار کے پنے الٹتا البللی کو وہ بے بس کر کے قابو کر چکا تھا کہ اچانک ہی اس کی چیخ بلند ہوئی۔وہ گھبرا کے یوں اچھلا کہ بدحواسی میں پشت دیوار سے جا ٹکرائی۔واسوکی کا زہر اس کے جسم میں پھیلتا ہی چلا گیا۔
اس نے خود کو سنبھالا اپنا لباس درست کیا اور گیسٹ ہائوس سے پیدل ہی نکل گیا۔جب اسے ہوش آیا تو دیکھا کہ وہ ایک ڈھابے میں بیٹھا ہے۔سامنے ٹھنڈی چائے دھری ہے۔موبائل تو البللی کے کمرے میں ہی گرچکا تھا۔اس نے رکشہ پکڑا اور گیسٹ ہاو¿س میں لوٹ آیا۔سبھی اس کے لیے پریشان تھے۔جلسہ کامیاب رہا تھا۔البللی کی تقریر نے تو آگ لگا دی تھی مزدوروں میں نئی روح پھونک دی تھی۔عورتوں کے نعرے مردوں سے بھی بلند ہو گئے تھے۔دبے ہوئے مزدور ایک بپھرے ہوئے طوفان میں منقلب ہوچکے تھے۔البللی کے چہرے پہ غم کے بادل تھے۔مگر رویے اور گفتگو ویسے ہی تھی۔رات کے کھانے کے بعد البللی نے بوٹنگ کی فرمائش کی ادھر روپے کی کیا کمی تھی۔کشتی دریا میں تیر رہی تھی،البللی کسی کی پرواہ کیے بغیر ہی فرید کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی۔ابراہیم نے خفت سے تاریک دریا پہ نظریں جمادیں۔دیگر مزدور لیڈر بھی بدحواس ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔
” فرید اپنی محبت واپس لے لو۔مجھے تکلیف دے گی “ البللی نے انگوٹھی اتار کر فرید کی جیب میں ڈال دی۔
” مجھے بچپن سے ہی ایک شعر بہت اچھا لگتا ہے۔
دفنانا دیکھ بھال کے حسرت زدہ کی لاش
لپٹی ہوئی کفن سے کوئی آرزو نہ ہو
یہ محبتیں یہ مایوسیاں کفن سے لپٹی چلی آئیں تو میں کیا کروں گی۔اسی لیے تو غالب نے ڈوبنے کی آرزو کی اور ورجینا ولف لباس میں پتھر بھر کر دریا میں جا ڈوبی تھی۔آئی لو یو فرید “
اس نے سب کے سامنے لپٹ کر فرید کا بوسہ لیا۔سبھی بھونچکے رہ گئے۔ابراہیم کے تو پسینے ہی چھوٹ گئے۔اس سے پہلے کہ کوئی ہوش میں آتا البللی اٹھی اور تلاطم زدہ اندھیرے دریا میں کود گئی۔ابراہیم کو دریا میں کودنے سے ملاحوں نے روکا ، ابراہیم کنزہ کنزہ پکارتا ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا۔ مزدور لیڈر کشتی میں جھک کر اندھیرے پانیوں میں آوازیں دے رہے تھے۔
جاوید یوں تو رو رہا تھا مگر فرط غیض سے اس نے فرید کا گریبان پکڑ لیا۔
” یہ کیا ہوگیا باس “ وہ فرید کو جھنجوڑ رہا تھا۔
” کیوں وہ دریا میں کود گئی“
وہ فرید کو ہی قاتل قرار دے رہا تھا۔فرید یوں تو پتھرا چکا تھا۔اس نے نرمی مگر طاقت سے جاوید کے ہاتھوں سے گریبان چھڑاتے ہوئے سرگوشی کی ” وہ خواجہ سرائ تھی “

البللی: Care Free
گلگت کے قریب وہ مقام جہاں قراقرم۔ہندوکش۔ہمالیہ آن ملتے ہیں۔مجازاً قدرت کا کمال۔
بزناٹ: زوردار مکہ
جمعہ خان: جان کر انجان بننا
گلاو: خربوزہ
خزہ: مورچہ
جاتو: چڑیل
۔ Petrified: درخت کا پتھر بن جانا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے