یہ یونانی الفاظ philo( عشق) اور Sophia( دانائی، خرد ، فہم) سے مل کر بنا ہے ۔ یعنی خرد سے عشق۔
یہ وجود اور زندگانی کے قوانین کی سائنس ہے۔ اور یہی تمام علوم کی ماسٹر یونیورسٹی ہے ۔دانائی ، حکمت اور جاننے پہ عاشق ہونا”فلسفہ “سے یاری کرنا ہوتا ہے۔
فلسفہ کے بارے میں متفقہ بات یہ ہے کہ یہ وجود وہستی کے عمومی قوانین ( نیچر اور سماج ) ، انسانی تفکر ، اور علم کے پراسیس کی سائنس ہے ۔ یہ سماجی شعور کے فارموں میں سے ایک ہے ۔ یہ بالآخر سماج کے معاشی رشتوں سے متعین ہوتا ہے ۔ ایک خصوصی سائنس کے بطور فلسفہ کا بنیادی سوال سوچنے اور وجود کے بیچ تعلق کا ہے ، شعور کا مادہ کے ساتھ تعلق کا ہے ۔
فلسفہ سے انفرادی سائنسز کی شاخیں نکلیں جوکہ پھر ہوتے ہوتے آزاد سائنسوںکے بطور سامنے آئیں۔ فلسفہ بطور سائنس دنیا کے ایک عمومی خیال کی تشریح کی ضرورت سے ابھرا، اس کے عمومی عناصر اور قوانین کے مطالعہ کے لیے ، سوچنے کے ایک استدلالی طریقہ کے لیے ، منطق کے لیے۔ یہ ضرورت فلسفہ میں ”سوچنے “ اور ”وجود“ کے بیچ رشتے کو نمایاں مقام پہ لاکھڑا کردیتی ہے ۔ اس لیے کہ اس کاحل سارے فلسفے کو اور علم کے میتھڈ اور منطق کی بنیادوں کو اساس مہیا کرتا ہے ۔ یہی فلسفہ کو دو مخالف رجحانات یعنی میٹریلزم اور آئیڈیلزم کی تقسیم اور پولرائزیشن پہ لے جاتا ہے۔
میٹریلزم اور آئیڈیلزم کے بیچ جدوجہد فلسفہ کی ساری تاریخ پہ اپنے نشانات چھوڑتی ہے ، اور یہ جدوجہد اس کی متحرکہ قوتوں میں سے اہم ہے۔ یہ جدوجہد سماج کی ترقی، اور طبقات کے معاشی سیاسی اور نظریاتی مفادات سے قریبی طور پر جڑی ہوئی ہے۔ فلسفہ کے مخصوص مسائل کی تشریح مختلف پہلوﺅں کو آزاد سائنسوں کی شکل اختیار کرواتی رہی ہے ۔ مثلاًآنٹولوجی ، epistemology، لاجک ،علم ethics، aesthetics، سائیکالوجی ، سوشیالوجی، اور فلسفہ کی تاریخ۔ بہ یک وقت ٹھوس علم کے ناکامی پن کے تصورِ فلسفہ نے دنیا کی گم شدہ کڑیوں اور قوانین کو ایجاد کردہ اوں سے بدل دینے کی کوشش کی، چنانچہ وہ ایک سپیشل” سائنسوں کی سائنس “ بن جانے ، ساری دوسری سائنسوں سے اوپر جاموجود ہوا۔ نیچر سے تعلق میں یہ نیچرل فلسفہ تھا، اور تاریخ کے تعلق میں تاریخ کا فلسفہ بنا۔ مگر جوں جوں علم مرکوز ہوتا گیا ان میں فرق پیدا ہوتا گیا۔ تو فلسفہ کا ”سائنسوں کی سائنس“ کے بطور وجود کے سارے میدان غائب ہوگئے ۔
آس پاس کی دنیا کے مظہر کا تھیورٹیکل علم ازروئے منطق ترقی یافتہ سوچ کے بغیر ناممکن ہے ۔ مگر یہ فلسفہ تھا جس نے سائنسوں کے درمیان تاریخی طور پر متشکل شدہ تقسیمِ محنت کے سبب منطقی طور پر کیٹگریوں اور قوانین کی تشریح کی ۔
انسانی کلچر کی ترقی کے اندر فلسفہ کے رول، زیر غور موضوع اور اس کے فرائض کی تفہیم پہ مبنی فلسفہ انسان کے علم اور سرگرمی کا ایک طاقتور آلہ ہے ، علم اور عمل کی مزید ترقی میں ایک متحرک عنصر ہے ۔
چنانچہ وہ بات کہ فلسفہ بطور سائنس واقعتا منسوخ ہوچکا ہے۔ اس رجحان کی جدلیاتی مادیت مخالفت کرتی ہے جو عالمی فلسفہ کی عمدہ ترین روایات کو جاری رکھتی ہے ۔
جدلیاتی مادیت فلسفہ کو ایک خصوصی سائنس کے بطور ترقی دیتا ہے ۔ جو انسان کی خود آگاہی کو ، انسانی کلچر کی عمومی ترقی میں سائنسی دریافتوں کے مقام اور رول کے بارے میں ،اس کی تفہیم کو ترقی دیتا ہے “اور اس وجہ سے انہیں ایک واحد عالمی نقطہ نگاہ کے اندر علم کی الگ کڑیوں کو ملانے میں اور ان کا اندازہ لگانے کے لیے ایک معیار مہیا کرتا ہے۔

آج کی ترقی یافتہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے کی الگ سائنس اور الگ سپیشلٹی ہوتی ہے ۔ اِن ساری سپیشلٹیوںکے بنیادی عمومی قوانین میں ہم آہنگی پیدا کرنے والے علم کو ”فلسفہ “کہتے ہیں۔ فلسفہ سارے علوم (سائنسز)کے قوانین کے ہار کو اکٹھا رکھنے والا دھاگہ ہے ۔
بلاشبہ،سیاست بھی بے شمار سائنسوں کو ملا کر چلتی ہے ۔مگر فلسفہ سیاست سے بھی زیادہ علوم کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ موٹی موٹی بات کی جائے تو سیاست فلسفہ کے بغیر دُم بھی نہیں ہلا سکتی ہے۔ اِن دونوں کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔بلکہ فلسفہ کو کسی بھی علم وسائنس سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے