فیکٹری کا چکر لگا کر میں جونہی اپنے آفس کے شاندار کمرے میں آیا تو میری نظر سیدھی میز پر رکھے کلینڈر پر پڑی جس میں جون کی چھ تاریخ نمایاں تھی۔ تاریخ پر نظر ڈالتے ہی چارلس نورمن کی صورت میری آنکھوں کے سامنے آگئی جس کی بدولت یہ دن میرے لیے یادگار بن گیا ہے۔چارلس نورمن کون تھا اور میری زندگی میں اس کی اوراس دن کی اہمیت کیوں ہے ؟ یہ جاننے کے لیے آپ کو میری کہانی سننی پڑے گی۔
یہ آج سے سولہ سال پہلے کی بات ہے ،میں، عامر قریشی پاکستان کے ایک پسماندہ علاقے سانگھڑ سے اس ترقی یافتہ مغربی یورپ کے ملک سویڈن کے شہر اپسالا میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آیا تھا۔ میرے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین نے اپنی ساری جمع پونجی اس امید پر میرے اوپر صرف کردی تھی کہ میں باہر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے جب کسی اچھی جگہ افسر لگ جاو¿ں گا تو پورے کنبے کے دلدّر دور ہوجائیں گے۔
جنوری سنہ دو ہزار آٹھ میں، میں یہاں آیا تھا۔ میرا روز کا معمول کچھ یوں تھا کہ صبح یونیورسٹی جانا ، سہہ پہر تک واپس آکر کمرے کی صفائی ستھرائی کرنا اور کھانے وغیرہ کی تیاری کرنا، کھانے کے بعد کچھ دیر پڑھائی کرنا اور پھر سویرے سوجانا تاکہ آدھی رات کو اٹھ سکوں۔دراصل اپنے ذاتی اخراجات پورے کرنے کے لئے میں اخبار ڈالنے کا کام کرتا تھا جس کے لئے مجھے آدھی رات کو اٹھ کر جانا پڑتا تھا۔ گو کہ یہ ایک سخت نوکری تھی خاص کر سردیوں کے زمانے میں کہ جب درجہ حرارت منفی میں ہو تو ایسے میں گرم رضاعی سے نکلنا ہی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا چہ جائیکہ گھر سے باہر جانا لیکن میرے لئے یہ نوکری یہاں میری بقاءکا باعث تھی۔
زندگی کے شب و روز اسی طرح گزر رہے تھے کہ میری زندگی میں وہ دن آگیا کہ جس دن میری چارلس سے پہلی ملاقات ہوئی ۔ وہ جون کی چھ تاریخ تھی۔ مجھے یہاں آئے ایک سال سے کچھ اوپر ہی ہوچلا تھا لیکن ابھی تک میرا دل یہاں پوری طرح نہیں لگ پایا تھا حالانکہ اس شہر کی خوبصورتی ہر موسم میں اپنی مثال آپ ہی دکھتی تھی مگر موسم بہار میں تو ہر سو پھیلے سبزے اور رنگ برنگے پھولوں کے باعث منظر ہی کچھ اور ہوتا ۔ بہار کی آمد کے ساتھ ہی یہاں نہ صرف زمین اپنا چولا بدل لیتی بلکہ یہاں کے باسیوں کے چہروں پر بھی موسمِ بہار کا بھرپور عکس دکھائی دینے لگتا ہے ۔ لیکن کیا کیجئے کہ میری آنکھوں میں تو میرے اپنے گھر کا کچا آنگن بسا ہوا تھا ۔ جہاں سہہ پہر ہوتے ہی میری اماں پانی کا چھڑکاﺅ کردیتی تھیں جس سے مٹی کی بھینی بھینی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی تھی۔ صحن میں بابا کے ہاتھوں کے لگے بیلے، موتیا اور ہار سنگھار کے پھولوں کی خوشبو میرے وجود میں بسی ہوئی تھی ۔میں ان پھولوں کو چن کر مٹھی میں بھر کر گھنٹوں سونگھتا رہتا تھا اور میری چھوٹی بہن ،نرجس ان کے ہار بنا کر گھڑے اور صراحی پر ڈال دیتی تھی۔صحن کے کونے میں کھڑا وہ سالوں پرانا بوڑھا برگد بھی پردیس میں ہر دم میرے ساتھ رہتا تھا۔ گرمیوں کی حبس زدہ شاموں میںجس کی چھاﺅں میں پڑی چارپائی پرلیٹنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔
اپسالا میں، میں ہوسٹل کے جس کمرے میں رہتا تھا اس میں ایک بالکونی بھی میسر نہیں تھی البتہ مسہری کے داہنے طرف دیوار میں ایک دو پٹ کی کھڑکی تھی جو لبِ سڑک کھلتی تھی۔ سڑک کے اس پار ایک خاصہ بڑا عوامی پارک تھا جس میں گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی علاقہ مکین اور ہوسٹل میں رہنے والے طلباءو طالبات روز بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔
یہ چھ جون سنہ دو ہزار نو کی بات ہے۔ ان دنوں یونیورسٹی میں امتحانات سے فراغت کے بعد تعطیلات چل رہی تھیں۔ میرے دوست اور کئی ہم جماعت چھٹیاں منانے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوچکے تھے مگر میں پیسے کما کر گھر بھیجنے کی خاطر وہیں رکا ہوا تھا۔ اس دن میں تنہائی سے اکتا کرکھڑکی میں کھڑا تھا کہ میری نظر پارک میں آتے جاتے لوگوں پر پڑی اور اسی دم میں نے بھی پارک کی کھلی فضا میں جاکر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا۔
میں نے تھرموس میں چائے ڈالی اور رضا علی عابدی صاحب کی ” شیر دریا “لیکر پارک میں چلا آیا ۔ پارک میں بچے ، بوڑھے اور جوان سب ہی موجود تھے اور خوب گہما گہمی کا سا سماں تھا۔ میں لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا کسی پرسکون گوشے کی تلاش میں چاروں طرف دیکھ رہا تھا کہ پارک کے دوسرے سرے پر ذرا نشیب میںایک بنچ پر مجھے ایک بوڑھا شخص اکیلے بیٹھا دکھائی دیا ۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ سوائے اس ایک بنچ کے کوئی بنچ ایسی نہیں تھی کہ جس میں کوئی اکیلے بیٹھا ہوا ہو۔ میں تیز تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ کر وہاں پہنچا اور مسکرا کر اس بوڑھے شخص کو دیکھتے ہوئے ” ہیلو “کہہ کر ذرا فاصلہ رکھ کربیٹھ گیا ۔ میرے بیٹھتے ہی آس پاس موجود کئی لوگوں نے مجھے حیرت بھری نظروں سے دیکھا گویا میں نے کوئی معیوب کام کردیا ہو۔ میرے برابر میں بیٹھے بوڑھے شخص نے بھی اچٹتی ہوئی سپاٹ نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر رخ موڑ کے انہماک سے سامنے بنے ہوئے تالاب میں بطخوں کو تیرتے ہوئے دیکھنے لگا۔میں نے تھرموس سے اپنے لئے چائے نکالی اور اخلاقی مظاہرے کے طور پر اس سے پوچھا کہ کیا وہ چائے پینا پسند کرے گا؟اس نے میری پیشکش سنی ان سنی کردی ۔ میں بھی سر جھٹک کر کتاب پڑھنے میں مشغول ہوگیا ۔ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ مجھے محسوس ہوا کہ برابر میں بیٹھا بوڑھا شخص مجھے دیکھ رہا ہے ۔ میں نے کتاب بند کی اور مسکرا کر اس کی سمت دیکھا تو نظریں ملنے پر وہ ایک دم گھبرا گیا اور تیزی سے اٹھ کر ایک جانب چل دیا۔
اس دن کے بعدسے میں روز ہی پارک میں جانے لگا اور پتہ نہیں کیوں مجھے نشیب میں بنی اس بنچ پر بیٹھنا بھی اچھا لگنے لگا تھا جس پر کبھی بھی اس بوڑھے شخص کے علاوہ کوئی نہیں بیٹھتا تھا ۔ وہ ہمیشہ مجھ سے پہلے وہاں موجود ہوتا تھا مگر مجھ سے کبھی بات نہیں کرتا تھاالبتہ کن اکھیوں سے میری جانب دیکھتا رہتا تھا۔ اسی معمول میں ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ گزر گیا ۔ ایک دن بڑی عجیب بات ہوئی ۔ میں حسبِ معمول بنچ پر بیٹھ کر اپنی کتاب کھول ہی رہا تھا کہ بوڑھے شخص نے میری طرف دیکھا اور شستہ انگریزی میں کہنے لگا۔” میں چارلس نورمن ہوں۔“
میں مسکرایا اور جلدی سے بولا۔ ” میرا نام عامر قریشی ہے اور میں پاکستان سے یہاں تعلیم حاصل کرنے آیا ہوں۔“
” اچھا “ کہہ کر وہ پھر خاموش ہوگیا اور نظریں سامنے تالاب پر جمادیں۔میں دوبارہ اپنی کتاب کھولنے ہی لگا تھا کہ وہ پھر مجھ سے مخاطب ہوا ۔ ” تم پاکستان سے آئے ہو مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تم کہاں سے ہو۔ اہم بات تو یہ ہے کہ تم ابھی یہاں ہو۔“
میں نے بلاسوچے سمجھے سر ہلا کر اس کی تائید کی اور بات بڑھانے کی خاطر بولا ” تمہارا شہربہت خوبصورت ہے ۔ یہ پارک بھی بہت اچھا اور خوبصورت ہے۔ یہاں بیٹھنا اچھا لگتا ہے۔ تم بھی شاید اسی لئے روز یہاں آتے ہو ؟“
اس نے ” ہوں“ کہہ کر سر ہلایا اور مجھ سے پوچھنے لگا ۔” تمہارے نزدیک خوبصورتی کیاہے؟
میں نے کہا” ہر وہ چیز جو آنکھوں کو بھلی لگے۔“
میرے جواب پر وہ کہنے لگا ” کیا خوبصورتی یہ نہیں کہ جو چیز جس مقصد کے لئے بنائی گئی ہو وہ اس پر پوری اترے؟“
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا اور کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور میری جانب دیکھے بغیر بولا ۔” کل ملیں گے“ اور پھر ایک طرف چل دیا۔
اگلے دن جب میں پارک میں پہنچا تو وہ بنچ پر آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔سورج کی چمکیلی کرنیں اس کے چہرے پر براہ راست پڑ رہی تھیں ۔یوں لگ رہا تھا کہ وہ مراقبے کی حالت میں ہے۔میں آہستہ سے بنچ پر بیٹھا اورہاتھ میں پکڑی کتاب کھول ہی رہا تھا کہ وہ بولا۔ ” آج تم اپنا چائے کا تھرموس نہیں لائے؟ “
میں نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا اور پھر مسکرا کر بولا۔ ” نہیں ! دراصل چائے کی پتی ختم ہوگئی تھی اور میں بازار نہیںجا سکالیکن۔۔۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تم مجھ سے اتنے بھی انجان نہیں ہو جتنا میں سمجھ رہا تھا۔“
اس نے اپنے پیروں کے پاس پڑے ایک کپڑے کے تھیلے میں سے ایک تھرموس اور دوپلاسٹک کے کپ نکالے اور تھرموس سے سیاہ کافی انڈیل کر ایک کپ میری جانب بڑھا دیا۔ گو کہ مجھے سیاہ کافی پسند نہیں تھی مگر اس کا دل رکھنے کی خاطر میں نے شکریہ کہہ کر کپ تھام لیا۔کافی پینے کے دوران میں کئی بار اس امید پر اس کی جانب دیکھتا رہا کہ شاید وہ کوئی اور بات کرے لیکن وہ پورے انہماک سے کافی پینے اور تالاب میں کھیلتی بطخوں کو دیکھنے میں مصروف رہا۔ اُس کے اس طرح سے نظر انداز کردیئے جانے پر میں بھی رخ موڑ کر ارد گرد لگے رنگ برنگے پھولوں اور اونچے اونچے درختوں پر شور مچاتی چڑیوں کو دیکھنے میں لگ گیا۔میں اس خوبصورت منظر میں مگن تھا کہ اچانک چارلس نورمن نے میرے کندھے پراپنا ہاتھ رکھا اور کہنے لگا۔” کسی بھی چیز کی خوبصورتی یہ ہے کہ جو چیز جس مقصد کے لئے بنی ہووہ اس پر پوری اترے۔ ۔۔اور پھر مجھ سے پوچھنے لگا ۔”کیا تم سقراط کو جانتے ہو ؟ “
اس سے پہلے کہ میں کچھ جواب دیتاوہ کہنے لگا ۔ ” سقراط کو بہت کم لوگ جانتے ہیں ہاں البتہ واقف شاید بہت سے ہوں۔“
میں جلدی سے بولا۔ ” میں جانتا ہوں۔ سقراط ایک یونانی فلسفی تھا جو ۰۷۴قبل مسیح میں ایتھنز میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے باپ کا نام سوفرونسکس اور ماں کا نام فیتے ریتی تھا ۔ اس کا باپ مجسمہ ساز اور ماں دایہ تھی اور ہاں یہ کہ اس کی موت زہر کا پیالہ پینے سے ہوئی تھی جو ۔۔۔ ۔“
” اچھا! تو تم بھی سقراط سے واقف ہو۔“ میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی اس نے مجھے ٹوکا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔ ” سقراط کی نظر میں ہر چیز میں خوبصورتی ہے بس ہمیں اس مآخذ کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے جو خوبصورتی کو آشکار کرتی ہے۔ کیا تم نے کبھی کمہار کو چاک پر برتن بناتے دیکھا ہے کہ وہ کس طرح وہ چاک کو گھما گھما کر مٹی کے لوندے میں چھپا خوبصورت برتن نکال لیتا ہے ۔جانتے ہو! سقراط کو ایتھنز کا بدصورت ترین شخص کہا جاتا تھا اور وہ ہمیشہ اپنے لئے یہ دعا مانگا کرتا تھا کہ خدا میرے باطن کو خوبصورت بنادے۔“
اس دن میں نے چارلس سے سقراط کے بارے میں بہت کچھ جانا ۔ پھر تو یہ ہمارا معمول ہی بن گیا۔ ہم ہر روز گھنٹہ دو گھنٹہ مختلف موضوعات پر باتیں کیا کرتے ۔فلسفہ، تاریخ، معیشت، سیاست، جغرافیہ ، سائنس اور ادب ، کون سا ایسا موضوع تھا جس پر وہ دسترس نہیں رکھتا تھا۔ اس کی صحبت مجھے بہت مزہ دیتی تھی حالانکہ ہماری عمروں میں کافی فرق تھا ۔میری اس بات پر ایک دفعہ اس نے کہا تھا۔ ” عمروں کا فرق کچھ نہیں ہوتا عقلوں کا فرق خلا پیدا کردیتا ہے۔ “
مجھے بس اس کی ایک بات پریشان کیے رہتی تھی اور وہ یہ کہ وہ دنیا جہاں کی بات کرتا تھا مگر کبھی بھی اپنے متعلق کوئی بات نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کبھی میرے بارے میں کچھ جاننے کا متمنی ہوتا تھا۔ اس کا یہ اندازبھی عجیب تھا کہ وہ باتیں کرتے کرتے اچانک جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا اور پھر یہ کہہ کر چل دیتا ” کل ملیں گے۔“
ہماری ملاقات کا یہ سلسلہ ڈیڑھ ماہ تک یونہی چلتا رہا ۔ اس دوران میں نے اسے کھانے کی دعوت بھی دی مگر اس نے معذرت کرلی اور کبھی یوں بھی ہوا کہ میں نے چاہا کہ اس کے ساتھ اس کے گھر تک چلوں مگر اس نے خاصی رکھائی سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ کبھی اس نے میری پیش کی ہوئی چائے بھی نہیں پی جبکہ میں کئی بار اس کی لائی ہوئی سیاہ کافی سے مستفید ہوتا رہا تھا۔
یہ جولائی کے آخری دنوں کی بات تھی کہ میں ایک روز حسبِ معمول پارک میں پہنچا تو وہ مجھے کہیںنظر نہیں آیا۔ اتنے عرصے میں آج پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے موجود نہیں تھا ۔ میں دیرتک وہاں بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہا اور پھر مایوس ہوکر واپس چلا آیا۔
اگلے دن میں وقتِ مقررہ سے پہلے ہی پارک میںپہنچ گیا مگر وہ اس دن بھی نہیں آیا۔ تیسرے دن بھی وہ جب نہیں آیا تو میں نے پارک میں ارد گردبیٹھے لوگوں سے اس کی بابت دریافت کیا تو سب نے لاعلمی کا اظہار کیا کہ انہیں اس کے بارے میںکچھ معلوم نہیں البتہ برگتا نامی ایک ادھیڑ عمر کی عورت جو اپنے کتے کے ساتھ پارک میں آتی تھی ،کہنے لگی ۔” چارلس ایک تنہائی پسند انسان ہے ۔ وہ اُدھر پارک کے پیچھے والی عمارت میں پہلی منزل پر رہتا ہے اور کئی سالوں سے میرا پڑوسی ہے لیکن وہ کسی سے بھی ملنا جلنا پسند نہیں کرتا ہے، خاص طور پر وہ تم ایشیائی لوگوں سے تو بالکل بھی میل جول پسند نہیں کرتا ہے ۔ مجھے تو حیرت ہے کہ وہ کیسے یہاں تمہارے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتا رہا ہے ۔ اس سے پہلے اس نے ایسا کبھی نہیں کیا شاید تم میں کوئی خاص بات ہے۔“
میں نے مسکرا کر اس کا شکریہ ادا کیا اور یہ سوچتا ہوا آگے بڑھ گیاکہ تم اس کی کئی سالوں سے پڑوسی ہونے کے باوجود شاید اس سے صرف واقف ہی ہو اس کے بارے میں جانتی نہیں ہو۔“
اگلے دن میں تازہ پھولوں کا گلدستہ لیکر اس عمارت کی طرف چل پڑا جہاںبرگتا کے مطابق چارلس کی رہائش تھی۔ داخلی دروازے پر کھڑے ہوکر میں نے مکینوں کے ناموں کی تختی پر اس کا نام تلاش کیا اور اس کے ساتھ لگی گھنٹی بجادی ۔ چند لمحے گزرنے کے بعد سپیکر سے ایک نسوانی آواز سنائی دی” دروازے پر کون ہے؟“ میں نے اسپیکر کے قریب جا کر اپنا تعارف کرایا اور چارلس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ دوسری جانب کچھ دیر خاموشی طاری رہی اور پھر وہی آواز سنائی دی۔ ” میں معذرت چاہتی ہوں کہ محترم چارلس اس وقت آپ سے ملاقات کے خواہاں نہیں ہیں۔“ اور اس کے بعد رابطہ منقطع ہوگیا۔
یہ الفاظ سن کر مجھ پر تو جیسے سکتہ طاری ہوگیا ۔ کیا واقعی اس نے مجھ سے ملنے سے انکار کردیا ۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے مراسم بہت پرانے نہیں ہیں مگر ہم بہت دنوں سے اچھے دوستوں کی مانند تو ہیں ۔ کیا برگتا صحیح کہہ رہی تھی کہ چارلس لوگوں سے اور خاص طور پر ایشیائی لوگوںسے میل جول پسند نہیں کرتا ہے۔
یہ سب سوچتے ہوئے میں خاصہ دلبرداشتہ ہوکر وہاں سے چلا آیا۔ ہوسٹل پہنچنے پر نیچے لاﺅنج میں مجھے ہوسٹل کی منتظم اعلیٰ مسز ہیلین مل گئیں ۔ وہ ایک برطانوی خاتون تھیںاور یہاں بیس سال پہلے شادی کرکے اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھیں۔ ہیلین ایک خوش مزاج خاتون تھیں ۔ ویسے تو وہ سب کے ساتھ اچھے سے پیش آتی تھیں مگر میرے ساتھ خاصی شفقت دکھاتی تھیں ۔ میرا حال احوال پوچھتی رہتی تھیں اور اکثر مجھے انگلش چائے کے لئے مدعو کرتی رہتی تھیں۔ میں نے مسزہیلین کو ہیلو کہا اور ان کی خیریت دریافت کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا میں ان سے کچھ دیر بات کرسکتا ہوں۔ وہ شفقت سے مسکرا کر بولیں” کیوں نہیں ! مجھے تمہارے ساتھ بات کرکے ہمیشہ اچھا لگتا ہے ۔آﺅ وہاں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔“ انہوں نے سامنے رکھے صوفوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ چند رسمی گفتگو کے بعد میں نے ان سے پوچھا ” ہیلین آپ تو یہاں بہت عرصے سے ہیں کیا یہ بات سچ ہے کہ یہاں کے لوگ ہم باہر والوں کو پسند نہیں کرتے ،خاص طور پر ہم ایشیائی لوگوں کو؟ “
میری بات سن کر وہ مسکرائیں اور بولیں” ایسا کیوں کہا تم نے؟ “
میں نے چارلس کی بابت ان کو بتایا تو وہ کہنے لگیں۔” میں کسی انفرادی شخص کے بارے میں تو نہیں کہہ سکتی لیکن اپنے پیشے کے لحاظ سے میرا مختلف لوگوں سے ہمیشہ ملنا جلنا رہتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ یہاں کے لوگ منافقت نہیں کرتے اگر چارلس تم کو ناپسند کرتا تو کبھی تم سے مراسم پیدا نہ کرتا۔ ضرور کوئی اور بات ہے۔ تم بدگمان نہ ہو اور دوبارہ جاکر معلوم کرو۔“
میں ان کا شکریہ ادا کرکے کمرے میں آگیا۔نامعلوم کیوں مگر رات بھر مجھے چارلس کا ہی خیال ستاتا رہا۔ اگلے دن ناشتے کے بعد میں دوبارہ تازہ بھولوں کا گلدستہ لیکر چارلس کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ ایک ایمبولینس اُسی وقت وہاں سے روانہ ہوئی ۔ میں ابھی ایمبولینس کو جاتے دیکھ ہی رہا تھا کہ اتنے میں عمارت کا داخلی دروازہ کھلا اور ایک عورت باہر آئی اور مجھے مخاطب کرکے کہنے لگی ” کیا آپ کا نام عامر قریشی ہے؟“
” جی ہاں! مگر آپ مجھے کیسے جانتی ہیں۔“ میں نے سر ہلا کرحیرت سے کہا۔
وہ کہنے لگی۔” میں محترم چارلس نورمن کی نرس ہوں اور ان کی دیکھ بھال پر مامور تھی ۔وہ اسی ایمبولینس میں تھے جو ابھی آپ نے جاتے ہوئے دیکھی ہے۔۔۔آپ کے لیے انہوں نے ایک پیغام دیا ہے۔“
” میرے لئے ؟وہ کیا؟ “ میں نے بے صبری سے کہا ۔
اس نے ایک لفافہ میری طرف بڑھایا اور اداسی سے مسکرا کربولی۔ ” انہیں یقین تھا کہ آپ ضرور آئیں گے۔“
میں نے شکریہ کہہ کرلفافہ اس کے ہاتھ سے لے لیا اور بیقراری سے کھولا تو اندر ایک کاغذ تھا جس پر لکھا تھا۔ ” اب ہم نہیں ملیں گے۔“
میں نے کاغذ تہہ کرکے جیب میں ڈال لیا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہمارے درمیان یہ کیسا تعلق تھا؟ میں اس کے لئے کیوں اتنا پریشان ہورہا ہوں ؟ اس کے لئے جس نے کبھی مجھے اپنے گھر بھی نہیں بلایا اور جب میں خود آیا تو ملنے سے ہی انکار کرکے مجھے دروازے سے ہی لوٹا دیا۔اور پھر اسے آج میرے آنے کا یقین بھی تھا؟ مگر کیوں؟‘ ‘
میں بوجھل دل کے ساتھیہ سب سوچتا ہوا ہوسٹل واپس آگیا ۔ کوشش کے باوجود میں چارلس کو کسی صورت بھلا نہیں پارہا تھا ۔ کئی مرتبہ پارک میں اس امید کے ساتھ گیا کہ شاید وہ وہاں بیٹھا ہومگر ہر بار مایوسی ہوئی۔
گرمیاں رخصت ہورہی تھیں اور سردیوں کی چاپ سنائی دینے لگی تھی ۔ تعلیمی مصروفیات بھی بڑھ گئی تھی کیونکہ امتحانات میں دو ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا تھا۔ اس کے بعد مجھے پاکستان چلے جانا تھا لہذا میں نے اپنا سارا دھیان پڑھائی کی جانب موڑ لیا۔ ایک دن میں یونیورسٹی سے آکر کھانا کھانے بیٹھا ہی تھا کہ میرے فون کی گھنٹی بجی ۔ میرے ہیلو کہنے پر دوسری جانب سے ایک مردآنہ آواز آئی کہ وہ برٹل سیون سون بول رہا ہے اور پھر اس نے پوچھا ۔” کیا آپ عامر قریشی بات کررہے ہیں؟ “
میں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا۔” جی! میں عامر قریشی بات کررہا ہوں۔“
وہ کہنے لگا۔ ” ہمارے موکل محترم چارلس نورمن نے آپ کے نام ایک وصیت چھوڑی ہے۔“
” میرے نام وصیت۔“ میں نے حیرانگی سے کہا۔
” جی ہاں! آپ کے نام۔ کیا آپ کل دس بجے ہمارے دفتر تشریف لاسکتے ہیں؟ “ اس نے پوچھا ۔
” جی میں پہنچ جاﺅں گا۔ آپ مجھے پتہ بھیج دیجئے۔“ میں نے کہا۔
اگلے دن جب میں وکیل کے دفتر پہنچا تو اسے اپنا منتظر پایا ۔ اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور بیٹھنے کو کرسی پیش کی۔ اس سے پہلے کہ میںاس سے چارلس کی وصیت کے بارے میں کچھ پوچھتا ، اس نے میرے سامنے ایک بھورے رنگ کا چھوٹا سا بریف کیس رکھا اوربولا۔” ہمارے موکل محترم چارلس نورمن صاحب نے آپ کواس کا وارث قرار دیا ہے۔ کچھ قانونی کاروائی کے بعد یہ سب کچھ آپ کے حوالے کردیا جائے گا۔“
ساتھ ہی اس نے ایک بند لفافہ بھی میری جانب بڑھایا کہ چارلس نورمن کی جانب سے اس میں میرے لئے کوئی پیغام ہے ۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے لفافہ اس سے لیکر کوٹ کی جیب میں رکھ لیا۔
ہوسٹل پہنچ کر میں نے بیقراری سے بریف کیس کھولا تو اندر ایک فائل اور دو پرانی تصاویر رکھی تھیں۔ ایک تصویر میں وہ ایک بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے ساتھ درمیان میں کھڑا تھا جس کے نیچے لکھا تھا۔ ” والدین “ جبکہ دوسری تصویر میں وہ ایک ایشیائی عورت کے شانے پرمحبت سے ہاتھ رکھے کھڑا تھا جس کا آدھا چہرہ جھلسا ہوا تھا ۔ تصویر کے پیچھے لکھا تھا ” خوبصورت نسیم کے ساتھ۔“
میں نے بریف کیس میں رکھی فائل کھولی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ چارلس کی طبی نتائج تھے جن کے مطابق وہ ایک ایسی جان لیوا لاعلاج بیماری میں مبتلا تھاجس میں اس کی زندگی کے دن بہت کم رہ گئے تھے۔میں نے اس کی آخری رپورٹ پر لکھی تاریخ دیکھی تومیری آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ چھ جون سنہ دوہزار نو ۔ اچانک مجھے اس لفافے کا خیال آیا جو چارلس کے وکیل نے مجھے دیا تھا ۔ میں نے کوٹ کی جیب سے لفافہ نکال کر کھولا تو اس میں ایک اچھی خاصی رقم کا بنک چیک اور ایک تہہ کیا ہوا کاغذ رکھا تھا۔ میں نے کاغذ کھولا تو اس میں لکھا تھا ” عامر ! ہم اب نہیں ملیں گے مگر ہمارا تعلق کبھی نہیں ٹوٹے گا۔ “

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے