شام کے دھندلکوں میں
عکس تو مزیّن ہے
درد بھی نمایاں ہے
ہائے اُن نگاہوں میں
دید و بصارت کی
روشنی کہاں باقی!
چار دن کی چا ہت کا
قصّہ مختصر لیکن
ہجرتوں کی موسم کا
درد و فغاں با قی
دوریوں کی دیوی نے
فرقتوں کی وادی میں
خواب کر دیئے صیقل
سب طلب جلائے پَر
درد کے نکھرنے کو
اور امتحان با قی
یاد کے دریچے سب
بند کر لیے کب کے
نیم وا نگاہیں کیوں
اب تلک کھٹکتی ہیں۔۔؟
اُن حسین آنکھوں کی
کیوں رہے نشاں باقی۔۔؟
شے مرید ہارا دل
جیت تو گیا چاکر
عشق کب مکمل ہے
اب بھی داستاں باقی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے