مست

خود فراموشی ہے آہنگِ فسوں
لمحہ لمحہ منفعل
عاشقی کارِ زیاں
آزار،روحِ اضطراب
جستجو ،ساری تگا پو بس عبث
پھول،بادل،موسموں کی نرم سانسیں
خشک پتے اور پروا
سرسراہٹ سے گریزاں
زندگی کا ہر نفس
ایک شاعر سر بریدہ منظروں سے مجتنب و محترز
پا برہنہ،خاک برسر
آرزوئے وصل سے ناآشنا
ہجر کی لذت سے ترشا بانکپن
ابر کی باگوں کو تھامے ۔
آسمان پہ لکھ رہا ہے
"گفتگو سے محو کر دو جنگ کامنحوس نام
زندگانی کی متاع میں ہے وہی سمو کا حق
جو تمہارے نام گروی کر گئی تھی ایک شام”
ایک شاعر
ایک سمو
اک ہیولا
اک صدائے لم یزل
کن فیکون
ہر طرف شورِ سلاسل
ہر گلی منصور ، سرمد
شئہ مریدوں کی نمود
خود شناسی کا وفورِ
احترام آدمیت،عشق،احساس و خرد
نئی فضاؤں کی
ہواؤں کی صدا
حرف و معنی کی بقا
مست،سمو
استعارے
محض افسوں سے سِوا

زندگی بہتے سمے میں
دیدہ و دل کا سفر
نامختمم
نا مختمم ،نا مختمم

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے