اس غمکدہ دہر میں ہزاروں لاکھوں غم ہیں۔۔۔ بلکہ کروڑوں اربوں! نہیں نہیں۔۔۔۔۔ ان گنت غم۔انسان کے جسم کا ہر عضو غم سے لبریز!ہر مسام میں غم ہیں۔ ایک وجود ہے اور بے شمار غم۔ غموں سے پروئے ہوئے انسانی وجود۔ غمکدہ جو ہوا! غمکدے میں غم ہی تو ہوتے ہیں اور بھلا یہاں ہو بھی کیا سکتا ہے۔آہ مرجھائے ہوئے چہرے اور درد سے ٹوٹتے ہوئے بدن پھر غموں کی یورش میں گھرا ہوا انگ انگ۔
یہ غم کبھی بادلوں کی صورت اپناتے ہیں اور آنکھوں کے راستے برس کر انسانی دل کو پگھلا کر باہر پھینک دینے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی آتشی دھوئیں کی شکل اختیار کر کے اس دل کو راکھ بنا ڈالنے کی سعی کرتے ہیں۔
غموں کے بادل!ہر سانس کے ساتھ غموں کے گہرے کالے بادل جو برسنا چاہتے ہیں پر برس نہیں سکتے۔افسوس ان بادلوں میں سے ایک بوند بھی باہر نہیں آ سکتی۔یہ بوندیں بے تاب ضرور ہیں آنکھوں کے راستے باہر آنے کے لئے مگر۔۔۔۔۔ رکاوٹ ہے یہ دنیا۔ کونسی دنیا؟ یہی دنیا جو خود غموں کی چار دیواری میں سانس لے رہی ہے۔وہ اٹھتے بادل وہیں سے منتشر ہو جاتے ہیں۔پھر اندر ہی اندر دو بارہ غموں کا اکٹھ ہونے لگتا ہے۔ سارا جسم بھر جاتا ہے۔ اندر باہر ہر طرف! دیکھنے والے کی نظر پڑتی ہے تو غم پر، انسانی وجود پر نہیں۔اگر کبھی کوئی بادل برسنے لگے تو پھر کس کو مجال ہے کہ اسے روک سکے۔پھر وہ بادل یوں برستے ہیں جیسے کبھی نہیں رکیں گے۔۔۔ لیکن آخر کار رک جاتے ہیں۔۔۔ انہیں رکنا پڑتا ہے۔۔۔ آخر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔مگر یہ دنیا والوں کے ڈر سے نہیں رکتے بلکہ انہیں خود ہی رکنا ہوتا ہے کیونکہ۔۔۔۔جب انسان کا سارا دل پگھل کر آنکھوں کے راستے باہر آ جاتا ہے تو برسنے کو کچھ رہ ہی نہیں جاتا۔پھر بھلا کیا برسے؟ اندر کچھ ہو گا تو برسے گا نا۔جب سب کچھ بہہ چکا تو پھر بادل تھم گئے۔ہاں بالآخر بادل تھم ہی جاتے ہیں! پھر خالی سفید بادل دوڑتے پھرتے ہیں ہر سو۔۔۔کبھی پہاڑوں کی چوٹیوں پر تو کبھی خشک صحراو¿ں کی وسعتوں کے اوپر!
اور غموں کا دھواں!یہ دھواں بڑا کڑوا ہوتا ہے، اتنا کڑوا جتنا سرخ مرچ کو آگ میں جھونکنے سے اٹھتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ کڑوا!مرچ سے پیدا شدہ دھواں صرف آنکھوں کو لال کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ آنکھوں کی بینائی متاثر کرتا ہے لیکن غموں کا دھواں تو بذاتِ خود آگ کا ایک پورا الائو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے،اس میں صرف کڑواہٹ ہی نہیں ہوتی بلکہ گرمی بھی ہوتی ہے، حرارت اور برقی تپش بھی ہوتی ہے اور پورے انسانی جسم کو جلا ڈالنے کی طاقت بھی۔یہ دھواں انسانی جسم کو ایسی راکھ بنا ڈالتا ہے کہ ڈھونڈنے سے بھی چنگاری نہیں ملتی۔یہ دھواں ایسی راکھ بناتا ہے جس کو اڑانے سے ہوا بھی انکار کر دیتی ہے۔جس کو بہانے سے پانی بھی انکار کر دیتا ہے۔اگر کہیں سے اس راکھ پر کوئی بادل برس بھی پڑے۔۔۔۔ کونسے بادل؟ وہی غموں کے گہرے کالے بادل۔۔۔۔ تو اس راکھ کو بہا وہ بھی نہیں سکتے۔ وہ برستے ہیں مسلسل۔۔۔بہت زیادہ۔۔۔کئی کئی پہر برستے ہیں، مہینوں برستے ہیں، برسوں برستے ہیں لیکن اس راکھ کو وہ کیسے بہائیں جس میں انسانی تمنائیں،ہزاروں ارمان اور ان گنت جستجوئیں جلی ہوئی موجود ہیں۔یہ راکھ بہنے کی نہیں۔یہ زمین کے ساتھ چپک جاتی ہے ہمیشہ کے لئے۔۔۔اور کبھی نہیں اٹھتی۔پھر خاک ا±ڑتی ہے۔۔۔ کہیں دور پار سے۔۔۔ اور اس راکھ کے اوپر جمنے لگتی ہے۔ بالآخر خاک کی تہہ راکھ کے ڈھیر پر یوں جم جاتی ہے کہ کسی کو کانوں کان اس راکھ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ لوگ پاس سے گزر جاتے ہیں لیکن انہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ اس خاک کے نیچے کتنا بڑا ڈھیر موجود ہے اس راکھ کا۔۔۔ جو انسانی دل کو جلا کر غموں کے آتشی دھوئیں نے بنائی ہے۔خاک کے نیچے چھپی راکھ کے پاس سے گزرتے ہوو¿ں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کل ہمارے دل کی راکھ پر بھی اسی طرح مٹی کا نقاب پڑا ہو گا۔
غموں میں گھرے ہوئے انسان نے آخر کچھ تو کرنا ہے۔وہ بے دست و پا اور بے بال و پر سہی لیکن جب تک سانسیں چل رہی ہیں اور روح اس خاکی وجود میں قید ہے تب تک وہ بھی ان غموں کو بھلانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرتا ہے۔۔۔ غموں کو بھلانے کے لئے! مگر بھولتے کب ہیں۔۔۔ ہاں تھوڑی دیر کے لئے! پر تھوڑی دیر کے لئے غموں سے چھٹکارا بہت بڑی دولت ہے۔۔۔ اگر مل جائے تو۔ یہ چھٹکارا ایک پل کے لئے ہی سہی لیکن جلتے وجود اور ڈوبتے جسم کے لئے سکون کا ایک پل بھی لاکھوں کروڑوں صدیوں جتنا ہوتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ راحت کے کئی برس آنکھ جھپکنے جتنی دیر میں گزر جاتے ہیں اور غموں کا ایک لمحہ صدیوں پر بھاری ہوتا ہے لیکن برف کی سلوں تلے یا تندور میں پڑا ہوا جسم سکون کا ایک پل بھی اپنے لئے کافی سمجھتا ہے اسی لئے وہ مختلف طریقوں سے خود کو سکون مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔وہ غموں کو بھولنا چاہتا ہے۔۔۔ پل بھر کے لئے۔اس ایک پل کو وہ سب کچھ لٹا کر حاصل کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کے لئے یہ پل بہت قیمتی ہے۔ اتنا قیمتی کہ۔۔۔ اس اس کے لئے انسان قیمتی سے قیمتی شے بھی لٹا سکتا ہے۔مادی اشیاء میں سے سب سے قیمتی تو انسان کی جان ہے۔۔۔وہ جان بھی داو¿ پر لگا دیتا ہے۔۔۔مگر۔۔۔ جان تو پہلے ہی جا رہی ہے۔۔۔ غموں کی وجہ سے۔پھر جان کو خطرے میں ڈال کر ایک گھڑی سکون کی خریدنے کو غموں میں مبتلا شخص کوئی گھاٹے کا سودا نہیں سمجھتا کیونکہ وہ تو دونوں صورتوں میں گھاٹے میں ہے۔اگر غم جان لیتے رہیں تو وہ بھی جان کا گھاٹا اور اگر غموں کو بھلانے کے لئے جان کی ڈَلی پگھلتی، ڈھلتی، گلتی اور سڑتی رہے تو یہ بھی جانی نقصان۔۔۔ لیکن غموں کی سیاہیوں میں ڈوبا ہوا وجود ثانی الذکر نقصان کو ترجیح دیتا ہے۔
دو صورتیں عام ہیں غموں کو بھلانے کے لئے۔پہلی صورت یہ ہے کہ انسان خواندہ ہے اور ادبی ذوق رکھتا ہے۔اس کے پاس قلم ہے، لغت ہے اور لفظوں کے بکھرے موتیوں کو نثر یا نظم میں پرونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جب غموں کے تلخ برفیلے بادل یا کڑوے گرم دھوئیں اس کے وجود کے ارد گرد منڈلانے لگتے ہیں تو وہ قلم کو سیاہی میں ڈبو ڈبو کر غموں کی سیاہیوں پر غلبے کی کوشش کرتا ہے۔اندر کی تکلیف کو کم کرنے کے لئے وہ مسلسل لکھتا ہے۔در حقیقت غم ادب تخلیق کرتا ہے۔انسان کاغذ پر اپنا غم اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ میں حروف، الفاظ، جملوں، عبارات اور کتابوں کی صورت میں اپنا غم کاغذ کے حوالے کر رہا ہوں اور یہ ہے بھی حقیقت کہ غم بانٹنے سے دل بہل جاتا ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ۔۔۔ غم زدہ انسان اپنا مال و متاع جام میں گھول کر پی جانا چاہتا ہے۔اس کا یہ خیال ہوتا ہے کہ پینے پلانے سے وہ غموں کی سیاہ پرچھائیوں سے نجات پا لے گا۔مے و مینا سے وہ دن رات کھیلتا ہے غموں کو بھلانے کے لئے۔وہ سمجھتا ہے کہ شیشہ و ساغر کے کھنکنے سے بادل چھٹ جائیں گے اور دھوئیں ذرہ ذرہ ہو کر فضاو¿ں میں بکھر جائیں گے۔۔۔پر نہ یہ پیمانہ بندوق ہے اور نہ وہ غم خاکی انسان ہیں جو ایک آواز پر ڈر جائیں۔۔۔ اور ہر انسان بھی بندوق سے کب ڈرتا ہے۔جب ہر انسان بندوق سے نہیں ڈرتا تو پھر۔۔۔مے کے بوتل سے جام میں گرنے سے ہر غم بھی ڈر کر بھاگا نہیں کرتا۔ہاں بعض غم بعض اوقات یوں مدہوشی کے باعث تھوڑی دیر کے لئے رفع ضرور ہو جاتے ہیں لیکن۔۔۔اس کو غموں کا رفع ہونا تو نہیں کہتے! غم تو وہیں پر موجود ہیں۔۔۔ آپ کے پاس، آپ کے دل میں!
غموں کو بھلانے کے لئے آپ کاغذوں کو بیساکھیاں بنائیں یا پیمانے کو عصا بنائیں درحقیقت یہ دونوں بڑے کمزور سہارے ہیں۔غموں کے بادل برسیں تو پیمانے پر خراشیں ڈال دیتے ہیں۔۔۔گہری خراشیں! اور کبھی کبھی تو شیشے کو توڑ دیتے ہیں اور ہر طرف مے لالہ رنگ بکھر جاتی ہے۔۔۔کالے بادل کے سائے تلے سرخ چھینٹے!اور اگر بادل نہ بھی برسیں تو اسے دھندلانے کے لئے ان بادلوں کا سایہ ہی کافی ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف غموں کے دھوئیں اپنے اندر وہ حدت رکھتے ہیں کہ کاغذ کو بھسم کر ڈالتے ہیں۔۔۔ جب کاغذ ہی خاکستر ہو گیا تو کاغذ پر موجود سیاہ موتی بھی کہیں گم ہو جاتے ہیں۔۔۔بہت دور۔۔۔ کاغذوں کی راکھ کے ڈھیر میں۔۔۔ نیچے۔۔۔ بہت نیچے!
یوں نہ تو لال بوندیں غموں کے بادلوں کو مستقلاً اڑا سکتی ہیں اور نہ ہی سیاہ حروف غموں کے دھوئوں سے فضائے دل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاک کر سکتے ہیں۔۔۔پر غموں کے بادلوں اور غموں کے دھوئیں سے پیدا شدہ شام بھی آخر ڈھل جاتی ہے۔۔۔اس دن جس دن خاک کا پ±تلا خاک میں مل جاتا ہے!

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے