ایک مخلص دوست کے ساتھ بلوچستان کے موجودہ حالات پر گفتگو کر کرتے ہوئے کافی دور نکل گئے۔ کبھی بلوچ عوام کے ابھرتے ہوئے جزبات و تحریکوں کو کریدتے رہے تو کبھی حکومتی بے ڈھنگے پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے دل بہلاتے رہیں۔
کچھ توقف کے بعد دوست نے پہلوں بدلتے ہوئے پوچھا کہ یار کیا وجہ ہے کہ بی وائی سے ( بلوچ یکجہتی کمیٹی) کی موجودہ تحریک میں وہ لوگ بھی جوک درجوق شامل ہورہے ہیں جو پچھلے ایک دہائی سے مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے؟
ہم دونوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ بلوچستان جیسے نوآبادیاتی قسم کے علاقوں میں لوگوں کو ریاست یا اسکی کسی بھی طرح کی کارفرمائی سے دل لگی ہو۔ بلکہ کچھ لوگ ریاست کی "ماروں اور پھینکو” جیسی پالیسوں سے خوف کھاکر کچھ وقت کیلے ہی خاموشی اِختیار کر لیتے ہیں۔ اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو موجودہ حالات سے اپنے کان، انکھیں اور تمام تر حسیات بند کرکے اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں تاکہ محفوظ رہہ سکیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بلوچستان کی کہی دہائیوں سے جاری حالات کا جس کسی کو بھنک بھی پڑی تو وہ خاموش نہیں رہہ سکتا۔
سچ کہا ہے کسی نے کہ:

شعور نا ہو تو بہشت ہے دنیا
بڑے عزاب سے گزری ہے اگہی کے ساتھ

سچ پوچھوں تو باشعور بلوچ کیلئے جینا محال ہے۔ اسی لئے عام بلوچ کبھی کبھار گنگے بہرے اور اندھے ہی رہنا پسند کرتا ہے۔
اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شعور و آگہی بلوچ کو محب وطن (بلوچستان) محبت بلوچ اور ایک مظلوم، محکوم قوم ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے کہی دیگر خیالات سے سرشار کرتی ہے کہ وہ ریاست اور اسکے ہر اقدام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگتی ہے۔
البتہ چند ایک دو ضمیر فروشوں اور دولت کی لالچ میں ڈوبے ہووں کی بات الگ ہے جو اپنے ہی جگر گوشوں کے خون سے ہاتھ رنگا کر مالا مال ہوتے ہیں۔

دوست نے بات کا رخ دوسری جانب موڑتے ہوئے کہا کہ حقیقتاً بلوچ کے ساتھ اتنی زیادتی ہورہی ہے کہ وہ ڈرے سہمے دل کے ساتھ بھی برسوں سے موجود نفرت کو دل سے نہیں نکال سکتا۔
اور اس نفرت کو ایک عظیم رہنما ہی دلوں سے نکال کر زبان زد عام کردینے میں معاون ثابت ہوسکتی تھی جو کہ ہو کر رہی۔

دوست کے سوال پر میں چونک سا گیا تھا جو دھیمے انداز میں پوچھ رہے تھے کہ کیا تم بھی باقی مردوں کی طرح ایک عورت کی رہنمائی پسند کرکے اس کے پیچھے چلنا پسند کروگے؟
یقیناً یہ سوال میرے لئے نیا نہیں تھا تاہم اپنی دل سے بہت ہی قریب دوست کو ذرا سخت لہجے میں کہنا پڑا تھا کہ اہلیت اور نااہلی کسی جنس کی محتاج نہیں ہوتی۔ جس شخص میں رہنمائی کے راز چھپے ہوتے ہیں انہیں ماننا ہی عقل مندی ہے۔ اور رہی بات عورتوں کی یا تو اسلامی تعلیمات کی تو یاد رہے حضرت بی بی عائشہ صدیقہ نے بھی ایک مکمل جنگ کو لیڈ کیا تھا اور انہیں لیڈر مان کر انکے پیچھے بھی ہزاروں اصحاب رسول دوڑے چلے تھے۔ نا جانے میں جوش میں آکر کیا کیا کہتا رہا اور وہ سنتے رہیں۔ میں نے کہا محمد صلی علیہ وسلم کے پھوپھی، حضرت حفصہ (رض) نے تو کسی جنگ میں ایک کافر کو اپنے ہاتھوں سے قتل کردی تھی اور ابوبکر صدیق (رض) کی بیٹی حضرت اسماء ( رض) غار ثور میں حضور پاک اور اپنے بابا جان کیلئے تین دن تک کھانا لے جاتی رہی۔۔۔ میں شاید بہت زیادہ بول چکا تھا کہ دوست نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
یار البتہ یہاں ریاست کیلئے ایک بہت بڑی فائدے کی بات یہ ہے کہ ایک عام بلوچ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی قوم کی محرومیوں کو نہیں جانچ سکتا۔ وہ جہا کہی ہے بس اسی کی خبر رکھتا ہے۔
مثلاً؛ تعلیمی نظام سے جڑے لوگ صرف تعلیم ہی کی محرومیوں سے واقف ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار ہی صرف لوگوں کے لخت جگر اور پیاروں کی درد کو محسوس کر سکتے ہیں
گھریلو عورت ہی یہ سمجھ سکتی ہے اسے کس حد تک محرومیوں کا سامنا ہے جس کی بنیادی وجہ تعلیم کا نا ہونا اور بلوچستان میں بلوچستان یونیورسٹی کی طرح کے چندے پہ چلنے والے ادارے ہیں۔ اسی طرح ایک کمانے والا شخص ہی صرف گھر چلانے کے تمام حربوں کو استعمال میں لانے کے بعد کی تھکاوٹ اور نیستی کو محسوس کرسکتا ہے۔
میں حقیقتاً دوست کی اس بات سے متفق تھا اور اپنی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تبصراتی انداز میں دوبارہ بولنے لگا کہ بی وائی سی کے کارکنان کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر مارنگ بلوچ اور انکی ٹیم نے ہر طبقہ فکر کے بلوچ کو جگانے کی کوشش کی احساس دلایا ہے کہ انکی محرومیوں کی اصل وجہ کون ہے اور ان کی خاموشی کی سبب کیا ہے۔

یہ چیز تو طے ہے کہ بلوچستان کی محکوم عوام کو اپنی محرومیوں کی بھنک پڑنے پہ وہ کبھی خاموش نہیں رہ سکتے یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں میڈیا، جرنلزم، خبریں اور دیگر ایسے سرگرمیاں سردخانوں کی نذر کردی گئی ہے۔
دوست نے موبائل فون ہاتھ میں لئے مزاق اڑاتے ہوئے کہا کہ جی جی
یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں ہفتوں تک آپ اپنے ایک وائس نوٹ کو سننے کیلئے تڑپتے رہتے ہیں۔

دونوں کی ہنسی کی گونج ہر بار کی طرح اس بار بھی اندر ہی اندر کہی گم ہوگئی۔
عجیب بات ہے نا، بلوچ اپنی سرزمین پر نا گونجتی آواز میں ہنس سکتا ہے نا گڑ گڑا کر رو سکتا ہے۔ نا میڈیا ہے اسکے پاس، نا بولنے کیلئے الفاظ اور نا ہی چیخنے کیلے آواز۔۔۔۔

ناجانے کیا سوچتے ہوئے دوست نے آہ بھری اور کہا "یار میں گھٹ گھٹ کر نہیں جی سکتا” میں اپنے قوم کے فرزندوں کو یوں بےبس، بے سہارا اور بے آواز نہیں دیکھ سکتا۔
ایک دفعہ پھر اسکی ڈوبتی ہوئی آواز میرے کانوں کو یوں چوں کر گزری کہ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکا، وہ کہتے رہے "میں برسہا برس گمنام زندگی جینے سے گم شدگی کی زندگی جینے کو پسند کروں گا”
جب اسکی ڈوبتی آواز میرے کانوں میں گونجی کہ "میں گمنامی کی زندگی پہ گمشدگی کی زندگی کو فوقیت دیتا ہوں "تو میرے سارے حسیات سن ہو گئے کیونکہ میں خود کو انتظار کی اذیت میں مبتلا دیکھنے لگی، تو کبھی خود کو اسکی آمد پر چہکتے ہوئے۔۔
وہ بولتے اور روتے رہیں اور میں مزید ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکا۔ مجھ میں بولنے کی سکت باقی تھی نا ہی جستجو۔ تمام الفاظ وہ کہہ چکے تھے اور میں سن چکا تھا۔ میرے پاس آنکھیں تھی نا زبان، میرے الفاظ بھی ختم ہوگئے تھے اور میری تمام تر حرکات و سکنات بھی تھم گئے تھے۔ تب مجھے لگا کہ میں آج اصل بلوچستان میں داخل ہوچکا ہوں جہا سچ بولا سنا اور دیکھا نہیں جاسکتا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے