بلوچی میں اچانک برپا ہونے والی قضا کو ’ ناغمان ‘ کہتے ہیں ۔فہمیدہ ریاض نامی خاتون (1946۔2018)ہماری ’نا غمان دانش ور‘ ہے ۔ناغمان اس لیے کہ وہ بڑی سے بڑی اور غیر متعلق ترین لوگوں کی کا نفر نس وسےمینا ر ومجمع میں اچانک وہ مو¿قف بتا دے گی جوہم عامی لوگ اپنے بند حلقے میں بھی نہیں کہہ سکتے ۔اللہ جانتا ہے کہ جھوٹ، ہم بھی نہیں بولتے ۔ مگر طالبان زدہ ، اور بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کی تلخ فضا میںکم ازکم الفاظ کا استعمال اس طرح کرتے ہیں کہ موقف بھی جائے اور حاضرین کو ذرا ساہضم بھی ہو جائے۔ مگر فہمیدہ ایسا نہیں کرتی، وہ ایسا کرنہیں سکتی۔وہ ڈنکے کی چوٹ پر سچ بولتی ہے اور ہم ،بغیر کسی پیشگی خبر اور انتظام کے اس اچانک کی گرج چمک کے دفا ع پر خود کو موجود پا تے ہیں ، ایڈرینلین کے زیر اثر دل کی دھڑ کنیں بڑھا تے ہوئے ، الرٹ رہتے ہو ئے ….”ناغمان انقلابی، فہمید ہ ریاض “۔
وہ قلم کے مقد س اسلحہ کی مشاق ہوتے ہوئے سیاست سے کبھی لادعویٰ نہیں رہتی۔ وہ سیاست کو سماجی زندگی کا لازمی جزو سمجھتی تھی ۔ وہ سیاسی سماجی اور معاشی معاملات پر رائے دینا اپنا بنیادی حق اور فریضہ گردانتی تھی ۔ عورتوں کے حقوق کا معاملہ ہویا بلوچوں کی نجات کا ، شیعہ قتل ِعام کی مخالفت ہویا طالبان کی دہشت ووحشت پر احتجاج، فہمیدہ آپ کو ڈرائنگ روم کے بجائے گلی میں نعرے لگاتی ملے گی۔ جی ہاں حتما۔ً اور نعروں کے بارے میں تو وہ خود کہتی ہے : ”جن لوگوں نے کبھی احتجاج کا نعرہ نہ لگا یا ہو،وہ کبھی یہ جان نہیں سکتے یہ کیسی جگر خراش صدا ہوتی ہے ۔ یہ نعر ہ بلند کرنا کتنا مشکل ہوتاہے ، محسوس کرنے اور صدائے احتجا ج کے لب تک آنے کے دوران آدمی پر کیا گزرتی ہے “۔
فہمیدہ کبھی کبھی تو ایسی جگہ پہ اور ایسے موضوع پہ اایکٹوازم یا بحث چھیڑ دیتی ہے کہ اگر میری لمبی داڑھی ہوتی تو میں غصے سے اپنی داڑھی کب کا نوچ چکا ہوتا۔ وہ ایسے خالی اور مہمل موضوع و مکان میں جدوجہد شروع کرتی ہے کہ جہاں شعلہ تو کیا راکھ بھی موجود نہیں ہوتی۔ ہم اُس سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرکے اُس وقت تک چپ رہتے ہیں جب تک کہ خود اسے احساس نہیں ہو جاتا۔ بس پھر وہ ایک آدھ فون کر ڈالتی ہے یا فیس بک پہ ایک آدھ’ کا نفی ڈننس بلڈنگ ‘فقرہ لکھ دیتی ہے۔ یہ اشارہ ہوتا ہے کہ ”مٹی ڈال ،اَگے چل“۔
میں اُسے زندگی کی کسی چوکھا ٹ، کسی شعبے میں رکھنے کے لےے بہت مصیبت میں پڑ ا ہوں۔حیران رہا کہ اس ”مٹی کی مورت “کو برفاب و سنگاب کا شاعر عطا شاد لکھوں،سیاست دان ولکھاری و مقرر و ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ کا مجموعہ حبیب جالب لکھوں،جلا وطنی کے سپیشلسٹوں کا امام ٹام پین کہوں،یا شاہ عنایت مکتب فکر سے وابستہ کسی مبارزسے مشابہت دے دوں۔ فہمیدہ ان سب کی خصوصیات جورکھتی ہے۔ اسی لےے تو تقریب میں کمپیئر نے تعارف کراتے ہوئے کہا تھا ”یہ ہیں فہمیدہ ریاض۔ لیکھک ، کوتری، فیمنسٹ اور ایک بدھی جیوی ( دانش ور)“۔وہ کمپیئرسیاسی ورکر، جلا وطن ،اور رائے کی مالک کہنا بھول گئی تھی۔
آپ حسن ، گریس اور نسوانیت دیکھنا چاہیں تو فہمیدہ ریاض کو دیکھےے:اس کے متوازن ومتناسب و موافق وگندمی وحسین چہر ے پر بِن کاجل اچھی لگتی بڑی زنگی ناوڑ سی آنکھیں ہیں۔ آپ حسین چال کے لیے عالمی ز بانوں میںمستعمل سارے الفاظ ڈھونڈ دیکھیں تو اُس کا مجموعہ آپ کوخرام قدم ، اور ایک ہلکے سے جھٹکے میں چلتی ہوئی فہمیدہ میں ملے گا۔ آپ کو گفتار میں عورت پن سُننا ہو تواُسی کوشعر پڑھتے ہوئے ،اپنا افسانہ سنا تے ہوئے سنےے ، جیسے بول نہ رہی ہو غزل پڑھ رہی ہو….بلا مبا لغہ۔مگر وہ اپنی سکون آور، اور شا نت کرنے والی آواز سے صرف غزل الغزال ہی نہیں پڑھتی، انقلاب پڑھتی ہے ۔ اس قدر میٹھی آواز سماج کے دھتکا رے ہو ﺅں کی طرف داری میں بولتی ہے ، عورت کے لےے، اقلیتوں کے ےے، مزدوروں کے لےے اور بے تعلیم رہ گئے بچوں کے لےے۔
خالدہ حسین نے ٹھیک کہا تھا کہ فہمیدہ شاید اردو میں وہ پہلی شاعرہ ہے جس نے نظریاتی طور پر انقلاب ، اور وہ بھی سرخ انقلاب کے خواب دیکھے ہیں۔
اور اگر آپ کو عقل و خرد ، دانش و شعور اور علمیت و تخلیقیت سے سرشار روح سے ملنا ہو تو کراچی کے طارق روڈ کے پاس کرائے کے مکان کے اوپری حصے کے گیٹ پہ سرجھکائیے ، فہمیدہ وہیں ملے گی۔عورت وہیں ملے گی ، عورت پن وہیں ملے گا۔اور یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے عہد میں جن بڑے دانش وروں کے چراغِ شوق کو ہوائے تُندراس ہے تو اُن میں فہمیدہ سرفہرست ہو گی۔
اُس نے زندگی بھر کوشش کی کہ ہر بات کو زمین سے،میڑ سے، اوراستدلال سے جوڑے ر کھے۔ اس نے اپنی کثیرالجہتی اصناف میں سے ہرایک میں ثا بت کیا کہ وہ اپنے سماج وعصر کی اولاد ہے۔نہ خود فرار اختیار کرتی ہے اور نہ اپنے قاری کو بھنگ پی کر سونے دیتی ہے ۔ اگر ٹی وی چینلوں کی بنائی ہوئی بڑی شخصیتوں سے آپ کی توجہ ذرا ہٹ جائے،یا تمغوں ایوارڈوںکے سرکاری اعزازات پانے کے لیے مر جانے کی حد تک واری واری ہونے والے”آدھے سر“ ادیبوں سے فراغت مل جائے تو سنےے،میںآپ سے بڑے دعوے سے کہتا ہوں کہ فہمیدہ اس وقت پاکستان میں ایک بہت بڑی دانش ور ہے۔(” سب سے بڑی دانش ور“ اس لیے نہیں لکھ رہا کہ مجھے دانش کامقابلہ ِ حسن رچانے سے گھن آتی ہے) ۔
ہم بتا چکے ہیں کہ فہمیدہ جو سوچتی ہے بول دیتی ہے،جوسوچتی ہے لکھ دیتی ہے۔چونکہ وہ ایک جینوئن دانش ور ہے اس لیے عام روسے ہٹ کر، مروج سے الگ ہوکر’ اُلٹی ‘باتیں لکھتی ہے۔فہمیدہ کو موقع ملے تو وہ، وہ باتیں ہمیں سیدھا کرکے بتاتی ہے جو ہمیں الٹی بنا کر بتائی گئی ہیں۔ وہ ہمےں فرق بتلاتی ہے کہ ہمارے سماج میں اصل کیا ہے، نقل کیا ہے۔ اصل، یہ ہے کہ یہاں جبروظلم و لوٹ و مارو کذب و ریا کا دور دورہ ہے اور ضمیر و ایمان و وطن فروشی کی ساری سرحدیں پھلانگی جاچکی ہیں۔ ماسٹر پیسے دے کر ہیڈ ماسٹر بنتے ہیں ، بچے نقل کرکے پاس ہوجاتے ہیں۔ کرپٹ، کرپٹوں کو رشوت دے کر نوکریاں لے جاتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹیوں، کالجوں سے باہر قے کردہ جمِ غفیر روزگار نہ پاکر ثریاتک کج عمارت کو اونچا کرتے جاتے ہیں۔ جنہیں روزگار ملتا ہے، وہ صبح سے شام تک جائز ناجائز پر محنت کرکے اس قدر بھی نہیں کماتے کہ زندگی کی اشد ضروریات پوری کرسکیں۔ بوڑھے زندگی، زندگانی اور زندگانی کی نعمتوں سے ریٹائر ہوکر عبادت گاہوں کے ہول ٹائمر بن جاتے ہیں۔ غربت ،معاشی بحران میں ڈھل چکی ہے۔ سماج تقسیم درتقسیم ہوکر ایک ایسے نکتے تک پہنچ چکا ہے ،جہاں تقسیم اب چپقلش بن چکی ہے ،بلکہ وہاںسے بڑھ کر رنجش اور وہاں سے کھلی جنگ میں ڈھل چکی ہے ۔ مذہبی جنگیں، ایک مذہب کے بیچ فرقوں کی جنگیں، زبان کی جنگیں، نسل کی جنگیں…….. الغرض سوائے طبقاتی جنگ کے ہر طرح کی جنگیں ہورہی ہیں۔ ( اُسی کو انگریزی میں انارکزم کہتے ہیں)۔
اور اِس سب کے خلاف بولنا، لکھنا گویا گناہِ کبیرہ بنا دیا گیا ہے۔ اکثریت لکھنے والے اسی گناہ سے تھر تھر کانپنے کے خوف میں ڈال دےے گئے ہیں۔ صرف فہمیدہ اور اُس کی پارٹی ہے جولکھتی ہے ، لکھتی جاتی ہے ،نتائج سے بے پرواہ ہوکر۔ نثر میں، شاعری میں، فیس بک پہ، ایس ایم پس پہ۔فہمیدہ ایک مستقل اور لگاتار لکھاری ہے ، ”ہول ٹائم “ لکھاری!۔ فہمیدہ سچ کو کبھی سورج میں تلاش کرتی ہے ، کبھی تاروں اور چاند میں۔یہ شریف روح کبھی ایم کیو ایم کے نوجوانوں سے خطاب پہ بے تاب ہوتی ہے، کبھی پیپلز پارٹی کے ہاں اپنا سارا علم رہن رکھنا چاہتی ہے …….. بلوچستان تو ویسے ہی اس کی امیدوں ،تمناﺅں اور خواہشوں چاہتوں کا مرکز ہے۔وہ تو محفلوں کے لیے بھی مِس فٹ ہے ۔ نہ صرف اپنی بے چینی میں، بلکہ گفتگو میں بھی کہ اُسے احمقانہ بات لاجواب نہیں، ’ترکی بہ ترکی‘بنا دیتی ہے ۔ کوئی کہے کہ’ منٹو پاکستان میں آکر تخلیقی موت کا شکار ہوگیا تھا‘ تو ہم آپ تو یہ سوچ کر چپ ہوسکتے ہیں کہ یہ بات بڑا ادیب حسن منظر کہہ رہا ہے۔ مگر فہمیدہ ایسی مصلحت کبھی نہیں کرتی ۔ فہمیدہ مصلحت نہیں کرتی…….. ذات میں بھی، اجتماع میں بھی، مجلس میں بھی اور سماج میں بھی ۔ سرکش فہمیدہ!
اسی لےے تو اوپری طبقہ اسے’ دماغ کاکھسکا ہوا‘قرار دیتا ہے۔ اور ہم بھی حسبِ توفیق اُسے اتنا ہی بددماغ قرار دیتے ہیں، جتنا کہ وہ ظالم چاہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم کئی بار خود بھی اپنے احبا ب کی ایک خاص عاد ت کو اس طرح بیان کرجاتے ہیں کہ وہ عادت اچھی نہیں ہے ۔ بس اُس کے آگے اُس کا جواز ڈال کر موصوف کو ناراض ہونے نہیں دیتے ۔ دراصل ہم خود بھی اُسے اُسی طرح پیش کرنے دیتے ہیں جس طرح کہ مخالفین اسے پیش کرتے ہیں ۔حالانکہ ایک زمانے میںہم سب دعاکیا کرتے تھے کہ اے خالق، اپنے بندوں پر ظلم تم ہم سے لاکھوں گنا زیادہ نا پسند کرتے ہو، اس لیے اے باری تعالیٰ سر پھروں کی تعداد میں اضافہ فرما۔۔۔۔قیامت کی گھڑی دیکھےے کہ یہی سر پھرے اب ہماری صفوں میں سے بہت سوں کو اچھے نہیں لگتے۔ اور ہم بھی اپنے طبقاتی دشمنوں کے پروپیگنڈے میں آکر اس کی بے باکی کو کوسنے لگ جاتے ہیں۔ گندے تالاب میںلوٹس کا یہ پھول کئی باراس پر خود بھی خودکو برا بھلا کہہ دیتی ہے ۔ مگرپھر کچھ سوچ کر بولتی ہے:” کیا کروں…. ایسی ہی ہوں……..“ (1)
تنہا کردہ اور مس فٹ فہمیدہ سارادن تو شاعری نہیں کرسکتی ۔کیا کرے ؟۔ملنے جلنے والے ویسے بھی کم ہوتے جارہے ہیں کہ عزرائیل سے ملاقات انہیں فہمید ہ سے ملنے سے زیادہ محبوب ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈاکٹر خدائے دادمرحوم کی طرح ہلا گلا پسند کرتی ہے۔کوئی ادبی سیمینارہو، ادبی سفر بالخصوص غیر ملکی ، اورادبی بحثیںہوں۔ وہ جیسے آدم زاد کے اکٹھ کی کو لمبس ہو۔ ڈھونڈ ھتی رہتی ہیںاس کی آنکھیں ، سونگھتی رہتی ہے اس کی ناک کہ کہا ں لوگ ہیں ؟ ۔ پہنچ جاتی ہے۔ بات کرتی ہے، اپنا موقف سناتی ہے ۔اورمخالفین کی تعداد بڑھاکر سکون کے دوچارکش لگا کر گھر لوٹ جاتی ہے ۔
مجھے اندازہ نہیں کہ وہ پہلے کیسی تھی ۔مگر اب وہ ایک ’ بے چین روح‘ ہے۔ کوئی چیز ذہن میں سما جائے تو وہ آسمان سر پر اٹھائے گی۔ ایسے جیسے گھبراہٹ کا شکار ہوگئی ہو۔ وہ اس وقت تک بے چین رہے گی جب تک اُسے کر نہیں لیتی۔ میں نے دیکھا کہ فہمیدہ سفر کرنے پہ خوش ، بلکہ بہت پُرجوش ہوتی ہے ،بد حواسی کی حدتک۔ بد حواس کیا وہ توہراساں ہوجاتی ہے۔ حیدر آباد تک بھی جانا ہو تو گھر کی الماریوں، سوٹ کیسوں، بیگوں میں سونامی برپا کرتی ہے۔……..اور اس کے بعد بھی میزبان کے لیے پیک کردہ تحفہ بھول جائے گی ، مشاعرہ میں سنا نے والا کاغذگم کردے گی ،یا اپنی عینک کمرے میں ہی چھو ڑ جائے گی۔

حوالہ جات
-1 ریاض ، فہمیدہ۔ شیشہِ دل ۔ کتابی سلسلہ، آج 39، کراچی ۔ صفحہ93

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے