اب کے سواریاں بدل چکی تھیں۔سعدیہ بلوچ اپنی گاڑی چھوڑ کرہمارے ساتھ جیئند خان کی گاڑی میں آگئیں۔ سعدیہ پرانی دوست ہیں ۔ ملتان کے میرے ساتھی میاں اقبال سے کسی سیمینار وغیرہ میں ملی تھیں۔اُسی حوالے سے مجھ سے فون پر باتیں ہوئی ہوں گی۔ ہم یقیناً ملے بھی ہوں گے۔ مگر جب کوئٹہ دوستوں کے ساتھ ملنے میرے لیب آئیں او رآمنے سامنے بیٹھ گئیں ، دوستوں کی طرح باتیں کرنے لگیں تو مجھے معلوم ہوگیا کہ میرے دماغ کے کمپیوٹر میں یادداشت والا حصہ کرپٹ سا ہوگیا۔ بجائے اس کے کہ موقع کو سنبھالتا، میں بے صبرے نے پوچھا ،” سعدیہ جی، ہم پہلے مل چکے ہیں ناں؟“۔ اس نے سب کے سامنے کھڑاک سے جواب دیا ، ” شاہ محمد، شرم کرو“……..۔ اور میں شرم اور تکلف میں آج تک نہ پوچھ سکا کہ ہم پہلی بار کب ملے تھے۔ ایک عمر میں جا کر آپ دماغ کو کھرچتے بھی زیادہ نہیں ہیں۔چیزوں کو سنجیدہ لینا ترک کردیتے ہیں۔بس ملے ہوں گے۔…….. ہم ہر اُس ذی روح سے ملے ہوں گے جو ظلمتوں سے نفرت کرتا ہو۔

بعد میں سعدیہ کوئٹہ روزگار کے لیے بھی آئیں اور دو چار ماہ ٹھہریں۔ لوگوں سے میل جول رکھا، ہم بس اپنے بے برکت، مگر برحق ادبی سیاسی کاموں میں جتے رہے۔کبھی ملاقات ہوئی،کبھی فون ہوا،یا کسی کے ہاتھ سلام دعا ….
اور آج ہم جادو نگری میں پھر آن ملے تھے، بلوچ نگر میں ، افسانوں کی سرزمین میں، آزمانکوں کے دیس میں، مائتھالوجی کے گڑھ میں……..
مگر اب سعدیہ کی بولتی زبان بھی خود کو لگام دے چکی تھی ۔ ایسے خوش گوار حیرت کدہ دیکھ چکنے کے بعد جس طرح کی خاموشی بنتی ہے، وہی خاموشی ہماری تھی۔ ایک طرح کا تاسف ، ایک احساسِ زیاں کہ ہم کیوں پورابلوچستان دیکھ نہ پائے۔کیوں زیادہ گھومے نہیں۔ ایسی بابرکت جگہیں پہلے کیوں نہ دیکھ پائے، مگراچھا ہوا ہم پہلے یہاں نہ آئے۔ ہمارا سر، جو آج اِس عمر میں بھی مغز سے خالی ہے،تو نوجوانی میں ہم بھلا ہنگول مائتھالوجیکل سائٹ کی قدروقیمت کیا جان پاتے۔
اچھا کیا خدا نے مجھے بادشاہ اور حاکم نہیں بنایا۔ وگرنہ میں بلوچستان کے بہت سارے پیسے” ضائع “کرتا۔میں یقینا انٹرنیشنل لیول کا ایک بہت بڑا میوزیم بناتا جہاں ہنگول سے متعلق اپنے آباﺅ اجداد کے بنائے ہوئے اس سارے افسانوی داستانوں کے مجموعے کو متجسم کرتا۔ ملینوں ڈالر اس پہ خرچ کرتا ۔ میں نصاب میں ساری بلوچ مائتھالوجی شامل کرتا۔بین الاقوامی ریسرچ والوں کو بلواتا۔ ٹورازم کوترقی دیتا …….. اور، اوراور …….. (ہے کوئی جواںمرد جو مجھ شیخ چلی کی ان خواہشات کی پیاس بجھائے؟!)۔
سعیدہ سگریٹ پیتی ہے۔ اس کے کش لینے کی رفتار اور طوالت سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کس قدر گہری سوچ میں ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ہماری طرح غیر رومانی سوچوں میں بالکل محو نہ تھی۔ وہ یقینا دیویوں اور دیوتاﺅں کووصل کی حالت میں دیکھ رہی تھی۔حیرانی ہوتی ہے کہ پیاسی ارواح اور رومانس سے سرشار خطے میں آنکھیں تو ہم بقیہ سواریوں نے کھولیں، مگر ہم سے ہزار گنا ووکل اور بولڈ و بہادر سعدیہ ہے۔

کار موٹر میں ہم سب زائرین ، خاموشی میں حصہ دار تھے۔ ہم ہنگول میں غرق تھے۔ بہت وقت چپ رہنے کے بعدکہیں جاکر ہم بولنے لگے۔ کار میں جب سعدیہ موجود ہو تو باقی تین سواریاں کیا بول پائیں گی۔ وہ کراچی کے صنعتی سماج کی بے تکلفی کی روح تھی اور ہم ابھی غاروں کے سماج کے حجاب کے متعدی مرض میں مبتلا فرسودگی میں گردن گردن ڈوبے ہوئے۔ شاعر، دانش ور اور نئے نئے خیالات بھری وہ لڑکی باتیں کررہی تھی۔ ہم بھیڑ پال لوگ، سعدیہ سے حجاب کے تاثر میں اپنے قبائلی ہم سفروں سے حجاب کے ہاتھوں خاموش تھے۔ ہم سب جنگ زدہ بلوچوں کو احساس تھا کہ ایک اور دُرگوش مہیری کو شتر بچوں کے قتلِ عام کا سبب نہیں بننا چاہےے۔ہم خاران اور نوشکی میں سے کسی کو بھی رامین لاشاری بننے نہیں دینا چاہتے تھے۔
وہ بولتی جاتی ہے، بولتی جاتی ہے۔اور جب موضوع ختم ہوتے ہیں تو ہم مشاعرہ سجا لیتے ہیں۔ اس کار موٹر میں دو شاعر ہیں، سعدیہ اور ضیا۔مجھے توشاعروں سے یاری کی بدولت کچھ واہ واہ کرنا آتا ہے لیکن عزیزم جیئند خان تو ایسا بھی نہیں کرتا ۔ وہ کار موٹر چلاتا جاتا ہے اور جب تک شاعر اُس کا نام لے کر اُسے شعر نہ سنائے، وہ کچھ بولے بغیر بس سنتا جاتا ہے۔چنا نچہ میں ہی ”ہاں ہاں،ہو ں ہوں، دوبارہ پڑھو“ ،کہتے رہنے کے تکلف میں ڈال دیا گیا ہوں۔ محبت اور مروت میں بہت فرق ہوتا ہے ناں! ۔مشرقی بلوچستان میں واہ واہ کہنا شاعر کی توہین میں شمار ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ کھانسنے سے بھی شاعر برا مناتا ہے۔ یہاں الٹا حساب ہے۔ آپ کو شاعر سے بھی زیادہ بولنا پڑتا ہے: ”واہ واہ، بہت خوب، کیا کہنے مکرر……..“۔
سعدیہ ہی سنا رہی تھی۔ ہمہ زاویہ ، ہمہ پہلو…….. ایک سٹائل ایک اسلوب،اور ایک سلیقہ والی شاعری جو جدید سے بھی جدید تھی۔ وہ اپنے موبائل سے ہمیں شاعری پڑھ کر سنارہی تھی، ہم مہذب سے بھی مہذب سامعین بنے اُسے سنے جارہے تھے۔ چھوٹی مگر بھرپور اور پُر معنی نظمیں۔ استعارات، تشبیہات، ادائیگی کا انداز …….. انوکھی نرالی نظمیں۔ خود کلامی میں جگ ترجمانی۔ اشاروں کنایوں سے لے کر بھرپور قیسی عریانیت تک۔پرت در پرت معانی ،شدت بھرا، ایک ایک لفظ جاندار، ایک ایک لفظ پُر سوزو پُر درد ۔مکھن نظمیں جو ” واہ واہ“ کی آواز میں پگھل جائیں۔
ضیا شفیع کی شاعری نما چیز بلوچی میں تھی مگر یہاں ایک سواری یعنی سعدیہ بلوچی نہیں جانتی۔لہٰذا ،ا ُس ایک سواری کی خاطر ہم تین لوگ اپنی مادری قومی زبان نہیں بولے……..بلوچ کی رواداری نے بلوچی کو کتنا نقصان پہنچایا!!۔
ہنگول دریا سے کوسٹل ہائی وے پر آگے بڑھیں تو آپ کُنڈ ملیر ساحل پہ آئیں گے۔اسے ”اگور“ بھی کہتے ہیں۔ وہاں سے درہِ بُزی آئے گا۔
ہمیں اندازہ تھا کہ اب ہمیں ایک اور منظر دیکھنے کو ملے گا ۔ نعمت کدہ ہے میرا وطن۔ جہاں مٹی جیسی ” بے کار“ چیز نے وہ کارآمدی دکھائی کہ صرف اُسے دور سے دیکھنے کے لےے سالانہ اتنے پیسے ملنے تھے جس سے پورے بلوچستان کا بجٹ چلایا جاسکتا ہے۔
اور ایک موڑ مڑتے ہی ہمارے اوسان سلامت نہ رہے۔ …….. یہا ں سکوت میں ڈوبا بلوچستان ایک اور منظر نامہ دکھانے لگا ، بالکل ہی اجنبی، نا آشنا منظر نامہ ۔یہاں ہزاروں سالوں کی بارشوں اور ہوا کی تعمیر کردہ عظیم الجثہ عمارتیں ہیں، مجسمے ہیں، قلعے ہیں۔ بالکل حیرت ہورہی تھی کہ ہم آئے کہاں پہ ہیں۔لگتا تھا وطن آج اپنے بیٹوں پہ ہمیشہ سے زیادہ مہربان ہوچلا ہے ۔یہا ں آپ کے اندر جمالیات کے مختلف قبائل، جنگ شروع کرتے ہیں۔ یوں تو آنکھ والاقبیلہ جیت جاتا ہے، مگر کان اور ناک کی حسیات کبھی ہار نہیں مانتیں۔ بالآخر ایک دوسرے کی تکمیل کرتے رہنے پر صلح ہوجاتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ہم نے چند برس قبل ہالی وڈ کی حسین اور کمال فن رکھنے والی ایکٹریس انجلینا جولی کی تصویر سے اپنے ماہنامہ” سنگت“ کا ٹائٹل منور کیا تھا۔ انسان دوست، امن و خیر کی سفیرانجلینا جولی۔بے حد حسین ، باصلاحیت اور ہالی وڈکی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ادا کارہ انجلینا جولی۔ اُسے جائزطور طورپر”دنیا کی حسین ترین عورت “قرار دیاگیا۔میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ وہ ”چپڑ“ ہے۔ چَپ ہاتھ سے کام کرتی ہے۔ اُس کا دایاں ہاتھ، ایسا جیسا ہمارا بایاں ہاتھ۔
ہماری یہ ممدوحہ انجلینا معروف اداکارہ اور دنیا کی حسین ترین خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی بھلائی اورخیرکے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیتی ہے ۔ وہ سیلاب و زلزلہ جیسی آفات میں گھرے ضرورت مندوں پہ خود کو وقف کیے رکھتی ہے ۔ وہ سیر الیون اور تنزانیہ گئی ، کمپو چیا اورسوڈان کے جنگ زدہ علاقے گئی، ڈار فر، اورخانہ جنگی والے چاڈ پہنچی، جنگ میں جھونکے ہوئے عراق ، آتش ولہومیں ڈوبے لیبیا میں جا موجود ہوئی……..وہ خود روتے ہوئے اپنی خدا ترس فطرت میں تیس ممالک میں آفت زدگان کے آنسوپونچھتی رہی ۔وہ بے شمار فلاحی اداروں کو چندہ دیتی ہے۔ وہ ایشیااور افریقہ سے بے شمار غریب و بے وارث و بیماربچوں کو لے پالک بناکرامریکہ لے گئی ،اور وہاں انہیں ماں بن کرپال رہی ہے ۔
یہ دلچسپ خاتون جب سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے پاکستان آئی تھی تو یہاں یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھا۔ اُس نے انجلینا کو ظہرانہ دیا ۔ انجلینا نے بعد میں کہا کہ کھانے کی میز پر اس قدر شان دار اور وافر کھانا دیکھ کر وہ نہایت آزردہ رہی۔ آٹے کی ایک تھیلی اور پانی کی ایک بوتل کے پیچھے دوڑتے ہوئے سیکڑوں سیلاب متاثرین کے لیے یہی کھانا کافی تھا۔ وزیراعظم ہاﺅس کے شاہانہ اخراجات ، نجی چارٹرڈ طیاروں میں سفر اور دیگر ایسی تعیشات آپ کو بے چین تو کرتی ہی ہیں جب کہ آپ کے سامنے ایک المیہ موجود ہو۔چنانچہ انجلینا نے اقوام متحدہ میں اپنی رپورٹ میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ اقوام متحدہ پاکستان کو مجبور کرے کہ کسی قسم کی عالمی امداد طلب کرنے سے قبل حکومت اور اس کے اعلیٰ حکام اپنی تعیشات اور شاہ خرچیوں میں کمی کریں۔ ……..ہے نا بڑی عورت!!۔

اُسی زمانے میں ہم نے اپنے رسالے میں اِسی ہنگول علاقے کے قدرتی سیکڑوں میٹر بڑے نسوانی مجسمے کو ٹائٹل بنایا تھا۔ ارے ہمارے دائیں جانب افق کے پس منظر میں وہی حیرت کدہ تھی۔ بلوچستان کی براعظمی وسعتوں میں تنہا کھڑی ایک طویل قامت نازک دبلی پتلی، مہین چٹان ہے جو ایک باوقار خاتون سے مشابہت رکھتی ہے۔ ہم بلوچستان کو بخشی ہوئی فطرت کے سب سے حسین منظر کا نظارہ کررہے تھے۔

اقوام متحدہ کی ” خیر خواہی“ کی سفیر ،محترمہ انجلینا جولی 2002ءمیں اس علاقے سے گزری تھی۔ دراز قد،بلند بخت ، پرہ چہرہ ،اورحسین بدن والی اس پری کے حسین دماغ نے عورت کے اس بہت بڑے مجسمے کودیکھا توہم تصور کرسکتے ہیں کہ حیرت سے اس کی موٹی اور متحیر آنکھوں کو کتنی خوب صورتی عطا ہوئی ہوگی۔ استعجاب سے اس نے دراز و بہشتی انگلی اپنے صدف صورت دانتوں میں دبائے بلوچ ارض مقدس کی تقدیس میں اپنی نرم دلی ڈال دی ہوگی…….. اس نے اُس قدرتی طور پر بنے ہوئے مجسمے کا نام دُہرایا اورلعل و گوہر جیسے یہ الفاظ بولے :Princess of Good Hope۔ کتنامعتبر و محبوب نام ہے یہ !!۔
مجھے فیس بک پہ امجد نامی ایک صاحب نے اس کی ایک وضاحت کردی۔ اس کا کہنا ہے کہ” پرنسس آف ہوپ“ دراصل بلوچی نام ” امیتانی بانک“ کا ترجمہ ہے۔ صدیوں سے اس علاقے میں اس مجسمے کو ” امیتانی بانک“ کہا جاتا ہے، کہ بے اولاد عورتوں کی امیدیں اس مجسمے کے سائے میں برآئیں۔ اُس کے خیال میں انجلینا جولی نے بلوچوں کی ” امیتانی بانک“ کا ترجمہ کرکے اسے ”پرنسس آف ہوپ“ کہا۔ یعنی یہ صرف امید کی شہزادی نہیں ، یہ خیر کی امید کی شہزادی ہے ۔ ” اچھی امید کی رانی …. ھیرہ اومیثہ بانک“۔الفاظ اتنے بھی بے توقیر نہیں ہوتے کہ اُن کے آگے پیچھے کرنے ،یا حذف کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتاہو۔ بھئی ہنگول کی ہماری یہ شہزادی خیر اور نیکی کی امید کی علامت ہے۔ خیر ہو وطن کی ، خیر ہو بلوچستان کی، خیر ہو کُل جہان کی !!

انجلینا جولی ہمارا شکریہ کوئی نہ کوئی تو تمہیں پہنچادے گا۔نام تو بے نامی، گم نامی کا الٹ ہوتا ہے۔ تم نے ہمیں گم نام رہنے نہ دیا۔اس عجوبہ قدرت کواُس وقت نہ صرف انسانی آنکھ نے دیکھاتھابلکہ ایک اور آلے کی آنکھ نے بھی، جسے انسان، کیمرہ کہتا ہے۔تب ہمارے کوہستانوں کی یہ رانی ، امید کی یہ شہزادی اچانک مشہور ہوئی، پورے لولاک میں۔ ایک نیلا بورڈ لگ گیا۔ جس پر اُس کا نام لکھا تھا: ”امید کی رانی“ ۔
مجھے پھر اچھا لگا ۔ ایک اور مائتھالوجی۔
وہیں میر ا دل خود اپنے ساتھ چھیڑ خانی میں لگ گیا: کہ آج زندہ انسانوں میں” اچھی امید کی رانی “کو ن ہو سکتی ہے؟ ۔ انجیلینا جولی کی عظمت ، دانش ورانہ بر تری اور اچھے فیصلے کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہو ئے میں نے شش و پنچ میں”رتھ فاﺅ“ کا نا م واپس دل کی جیب میں رکھ دیا ۔ نہ ہم انسانیت کی اس محسن رتھ فائو کو نوبل پرائز دلا سکتے ہیں ، نہ اس کے نام کا کوئی مجسمہ کھڑا کر سکتے ہیں ۔ کاش ہم کسی ہسپتا ل کا نام ہی اُس پر رکھ سکتے۔…….. ”رتھ فاﺅ ہاسپٹل“!!
اور آج،ہم تقدس کی قدموں میں تھے۔ میرا وطن ایسا شان دار کہ اپنے مظاہر کے آگے جھکا جھکا کر غیر کے آگے جھکنے کے سارے امکانات ختم کردیتا ہے، ہاں مگر باضمیروں کو۔ ہم ”پرنسس آف گڈ ہوپ“ کی عظمت میں حیران تھے ۔ ہم لولاکی احترام میں ایک دوسرے سے لفظ بھی کہے بغیر، گاڑی سے نیچے اترے۔ سانس تھامے، ساری توجہ اُسی عظیم ساخت کی شہزادی کی طرف۔ اب ہم بہ یک وقت ساٹھ سالہ بچے بھی تھے، اوردھرتی کے کلچر اور سولائزیشن کے ذمے دار ترجمان بھی۔ہم اسی مٹی کے عاشق بھی تھے ،اورمحبوب بھی۔ ہم منظر ہم ناظر۔سامع بھی ناطق بھی، عکس بھی عکاس بھی، حیرت بھی حیران بھی، خمار بھی مخمور بھی۔ ہم اس کے محافظ بھی تھے تباہ کن بھی…….. سرزمین تیرے ساتھ کتنا پیچیدہ رشتہ ہے ہمارا۔
اگر یہ منظر امریکہ میں ہوتا تو ” سونے کی تلاش“ اور” میکاناز گولڈ“نامی بے شمار ناول لکھے جاتے، کئی فلمیں یہاںبنائی جاتیں۔ کئی امین مالوف کتنے جبل الموت تخلیق کرتے ۔ بلوچ! تو نے کتنے مواقع ضائع کردیے، تیری کتنی صدیاں خالی گزر گئیں!!

ہم نے توقیر کی ، ادب احترام کیا، نشے کی اتاہ حالت میں موجود فطرت کو سلام کیا، ہم جتنا قریب جاسکتے تھے گئے، مگر امید کی دیوی کا دامن پھر بھی سوڈیڑھ سو میٹر دور ہی رہا۔
نہ جانے وہ کب سے اُس بیا بان میں بے نام کھڑی تھی۔ ہوا کی تھپیڑیں کھاتی ہوئی ، یا پھر اُس کی موسیقی سنتی ہوئی ۔ ہوا جو ریت سے آلودہ رہتی ہے۔جب راہ ،شاہراہ نہ تھی تو وہ کس قدر تنہائی محسوس کرتی ہوگی۔ نظر اندازی کا غم بہت اندوہ ناک ہوتا ہے۔ بس ایک عظیم الجثہSplinx (ابوالہول) ہی اُس کا پڑوسی تھا مگر وہ بھی اس حال میں کہ خود بھی گِل اوراس کے پا بھی بہ گل ۔ارددگرد تو بس مٹی کے مٹیالے رنگ کی عجیب اور بڑی بڑی بے ترتیب سیکڑوں میٹر طویل ڈھیریاں ہیں۔ سیکڑوں میٹر بلند اشکال۔ یہیں سوگنا بڑا ابوالہول کا مجسمہ فطرت نے بنایا ہوا ہے۔
سیکڑوں میٹر بڑایہ Sphinx مٹی کے بہت اونچے پلیٹ فارم پہ بنا ہے۔ اتنا دیو ہیکل کہ انسان دنگ رہ جائے۔ ایسا لگتا ہے جیسے سر عورت کا اور بدن شیر کا ہو۔ فطرت کی شاہ کار۔ سب سے بڑا انسان کا بنایا ابو الہول تو مصر میں ہے۔ سالانہ ہزاروں لوگ دنیا بھر سے اِسے دیکھنے آتے ہیں اور اس کے بنانے والوں کی تعریف کرتے ہیں۔حیرانی ہوتی ہے کہ بلوچستان کے ساحلی علاقے میں ایک قدرتی Sphinx موجود ہے جو مصر والے سے عظیم مشابہت رکھتا ہے۔

صدیاں اور ہزاریاں اسی طرح گزرگئیں تب چین نامی ملک کو بہت بھوک نے ستایا۔ بلوچی زبان میں ” آف ڈھاگ“ ایک ایسی حالت کو کہتے ہیں جب آپ پانی پیتے جاﺅ ، پیتے جاﺅ مگر پیاس مٹتی نہیں۔ چین بھی ایک ایسی حالت سے دو چار ہوگیا ہے ۔ بحیثیت ملک اُسے ” زر ڈھاگ“ ہوگیا ہے۔زرکی پیا س ، پیسہ جمع کر نے کی لت ۔پیسہ پیسہ!!!۔ اسے سونے چاندی سے دفنا دو ،تب اُس دَم گُھٹی کیفیت میں بھی وہ ” پیسہ پیسہ “ مانگے گا، آکسیجن نہیں۔

وہ زمانہ گیا، یا پھر جانور میں فرق ہے، جب ہم کہا کرتے تھے کہ ڈائن بھی پڑوس کے سات گھر چھوڑ کے تباہی مچاتی ہے۔لگتا ہے کہ ڈائن اور ڈریگن میں فرق ہے۔ ڈریگن کے لیے اڑوس پڑوس، حلال حرام، ذبیحہ جھٹکا سب بکواس۔ چنانچہ زر و جواہر کے لیے بھوکے چین نے اپنے بہی خواہوں کی مدد سے اپنے ڈریگن کا منہ ہماری طرف کرکے اُس کا کانٹے دار لگام کھول پھینکا ۔ اُس اژدہا کے منہ سے نکلے آگ کے شعلے خالص نہ تھے ۔ اب کے وہاں سے ابلتا ہوا ایک سیاہ مائع نما زہر آتش فشاں کی طرح بہنے لگا ۔جس کا ایک سرا کاشغر تھا ، اوردوسرا گوادر ۔ راستے میں جو چیز بھی آئی، سلامت نہ بچی۔سب ہموار ۔ اِسے وہ ”شاہراہ “کہتے ہیں: ہائی وے ۔ کاشغر گوادر کا ہمارا حصہ ”کوسٹل ہائی وے “ کہلایا۔
اور یہ لا وا بالکل ”اچھی امید کی شہزادی “کے مجسمے کے قریب سے گزرا۔ اچھا ہوا شاہزادی محض مجسمہ ہے۔ اگر یہ ذرا بھی حرکت کرتی ہوتی تو آج وہ بھی چین کے ڈریگن کے بے انت و مہیب پیٹ کے کسی کونے میں ہوتی۔ سرمایہ داری نظام سے بڑا اژدھا کیا ہوسکتا ہے۔ سامراجیت سے بڑا ڈریگن ابھی تک دنیا نے نہ دیکھا۔
اس شہزادی کے پا س سے گز رتے ہو ئے اس جمے ہوئے لاوا کو کوسٹل ہائی وے کہتے ہیں۔ اور اِس کے اوپر کاروں، ٹرکوں، ویگنوں، اور بسوں کی” گوش و ہوش شکن“ ریل پیل ہے۔

آج ہم اکیسویں صدی کی مغربی دنیا کی شہزادی کے متبرک ذہن و دہن سے مشہور کردہ نام والی قدیم سے بھی قدیم اپنی مشرقی شہزادی کے درشن کررہے تھے۔ اس درشن میں ہم سب ا پنے ہوش و ہواس کی گم شدگی سے بھی بے خبر کھڑ ے تھے۔
بلوچستان آفاقی مصور کا ورکشاپ ہے۔ اس کی ہوا آزر، اس کی مٹی پکاسو، اس کا پا نی وان گوغ ،اور اس کا سورج صادقین ۔ ایک وسیع کینوس ہے بلوچستان۔ یہ اپنے بچو ں سے بھی سکلپچر بنواتا ہے، اور خود بھی خوب صورت پینٹنگز کرتا ہے…. بس آپ ہنگول ہو آئیں،شرطیہ طور پر آپ بلو چستا ن کی جمالیاتی حس کی تکریم کرنے لگیں گے۔
ہم حکومت کو ” خدارا ، خدارا“ والا غلامی بھرا لفظ نہیں کہیں گے، ہم اُسے اپنی فولادی کُوھلی (مٹکے نما بہت بڑا مٹی کا برتن جس میں اناج ذخیرہ کیا جاتا ہے) سے پیسہ نکالنے کوبھی نہیں کہیں گے۔ ہم اُس کے ورلڈ بینکی سوچ سے عاری پولٹری فارمی چہروں اورنازک دماغوں پہ زور دینے کی بات بھی نہیں کریں گے۔ وہ کچھ نہ کرے ۔ بس ” اے سکندرِ اعظم، تم موسمِ سرما کی سردی میں فلاسفر، ڈایوجنیز اور دھوپ کے بیچ کھڑا مت ہو“۔بس اے حکومت ! تم انسانوں اوراِن مناظر کے بیچ رکاوٹ نہ بنو۔
یہ ہم اس لیے کہہ رہے ہےں کہ ہنگلاج کو پیسوں، دماغوں، مددگاروں ، ماہروں کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ ہنگلاج اب محض مقامی عجوبہ نہیں رہا۔ ٹوراِزم کا یہ وسیع و عریض خطہ اس قدر اہم اور زرآور ہے کہ پاکستان نے اِسے صوبائی نہیں، مرکزی کنٹرول میں دے رکھا ہے۔ اس کی دیکھ بحال کے لیے ورلڈ بنک پیسہ دیتا ہے ،بے شمار این جی اوز اِس پہ پل رہے ہیں۔ اس لیے یہ ایک بین الاقوامی درجے کی جگہ ہے۔…….. یہ جگہ اس قدر خوب صورت ہے کہ ملین ڈالروں کی سالانہ آمدن ٹورازم سے ہو سکتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کالج اور یونیورسٹی طلبا کے ہنگو ل پا رک کی بہ نسبت بہت کم خوب صورت اور کم دلچسپ علاقوں کے مطالعاتی دوروں پر حکومت ِبلوچستان ہر سال کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے، کوئی اسے یہ سمجھائے کہ ذرا یہ مناظر بھی تو دیکھو، ورطہِ حیرت میں رہتے ہوئے ساری زندگی، زندگی سے محبت کرتے رہو گے۔
ہما را مشا ہدہ ہے کہ آپ جب بھی مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کی سڑاند بھری محفلوں میں بیٹھتے ہیں تو آپ کواُن کی گفتگو میں دبئی، فرانس اور امریکہ کے حرام کے ذرائع سے کیے گئے متعفن دوروں کی قے آور دوہرائی ملے گی۔ جہازوں ، ایر پورٹوں ، کافی ہاﺅسوں ،لفٹوں ٹراموں ، اور ٹائیوں کی خریداری کے قصے ملیں گے۔جب کہ یہاں اپنے وطن میں محض آواز لگانے کے فاصلے پر بین الاقوامی معیار کے عجوبے موجود ہیں۔ بالکل پڑوس میں۔جہاں فطرت بھرپور شان اور جوانی اور حسن میں جلوہ افروز ہے ۔ سینما ہال میں نہیں، لیپ ٹاپ میں نہیں بلکہ پہاڑوں دریاﺅں کے پیچ و خم میں۔ یہاں فیس بک اور ٹوئیٹر آپ کو کچھ نہیں دے سکتے، بلکہ الٹا آپ انہیں مالا مال کرسکتے ہیں ۔ نہ یہاں ڈوبتے ٹائی ٹانک پہ آئس برگ کی بولیاں لگتی ہیں نہ ٹی وی ریٹنگ کے لیے کھردری بھدی بھاری آوازوں کو گلیمرائز کیا جاسکتا ہے ۔ یہاں انفرادی گلیمر چلتا ہی نہیں۔ ضم ہوجائیے فطرت میں، حصہ بن جائیے بلوچستان کا ،حسن وشان و تمکنت و بھاری پن آپ کو گود لے گا۔
ہم گود لیے ہوئےچار بچے نہ تھے ،ہم تو ماں جائے بچے ہیں، سمو کی ماں بلوچستان کے۔

ہم نے اُس روز قلم کو نہیں چھوا، ہم کیمرے کی عظیم ترین نعمت سے مزین و مسلح تھے۔ ہم آج سب سے زیادہ مقرو ض تھے عراق کے سائنس دان ابن الہیشم کے جس نے پہلا کیمرہ ایجاد کیاتھا ۔ ہم نے کتنی تصویریں اتروائیں۔ نیلگوں آسمان کی ، مٹیالے دیو ہیکل قلعوں مجسموں کی، ساتھ ہی موجود شفاف نیلے سمندر کی۔عجیب زمانہ آگیا کہ اب اپنے سارے جذبات کا اظہار موبائل فون کے کیمرے سے فوٹو کھچوا کر کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ہیشم صاحب کے بیٹے کی ایجاد اب بہت بہتر بنائی جا چکی ہے۔ہم اِس زبردست ایجاد کی نعمت (فوٹو گرا فس) کو وہیں سے دنیا کے کسی بھی کونے، جی ہاں کسی بھی کونے کو بھیج سکتے تھے۔ اور وہ بھی پلک جھپکتے میں۔ سرمایہ داری نظام برباد بھی بڑا کرتا ہے، مگر آسائشیں بھی بڑی دیتا ہے!!۔

ہم ٹکنالوجی کی نعمت پر شکر و صبر کرنا چاہتے تھے کہ ایک بارپھر نظر پُر شکوہ شہزادی پر پڑی۔ وہ ابھی تک دور دیکھ رہی تھی۔ یعنی ابھی انسانی علم نے مزیدبے شمار ایجادات کرنا تھی۔ مگرمجھے یقین ہے کہ شہزادی اُس وقت بھی نیچے نہیں دیکھے گی۔ ارے بلوچو! چلتے ہی جاﺅ، کوئی سٹاپ ، فل سٹاپ نہیں۔ اچھی امید کی شہزادی کا حکم ہے کہ سائنس اور علم کے حصول کے لیے نگاہیں دور افق پر ٹکا ئے چلتے جاﺅ۔ سچ، سائنس اوراِنسا نو ں کے لیے سہولتو ں کی جستجو اور تقسیم میں کوئی آرام ، کوئی سستانا نہیں۔

ہم نے شہزادی کی منشا پڑھ لی، اُس کا فرمان پلو میں باندھا ، اور نہ رکنے کے لیے چل پڑے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے