کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ آپ بالکل خاموش ہو جاتے ہیں ۔ان کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ دلی اور دماغی طور پر زندہ باشعور انسان دکھ اور تکلیف سے نڈھال محسوس کرتا ہے۔اس وقت دنیا ایسے قتل عام کو روز اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ اس کے بعد سب کچھ سوچ کا انداز زاویہ ہر چیز بدل گئی ہے۔فلسطین میں برپا قتل عام دنیا میں پہلا قتل عام نہیں لیکن یہ وہ پہلا قتل عام ہے جس کو مقتولوں نے ریکاڈ کر کے ساری دنیا کو دکھایا اور یہی وہ بنیادی فرق ہے ۔اسی طرح کا قتل عام اس وقت یوگنڈا میں جاری ہے ۔بلکہ افریقہ میں تو یہ ان انسانی حقوق کے ”علمبرداروں “ کے ہاتھوں صدیوں سے جاری ہے لیکن فرق صرف اس کے ریکاڈ اور نشر ہونے کا ہے۔اس ایک فرق نے دنیا کو بدل دیا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں اپنے سامنے احتجاج کرتی اس نوجوان نسل کو جس کے گلے میں ہر وقت ہم صلواتوں کے میڈل پہناتے ہیں کہ یہ ہر وقت اپنے فونوں لیپ ٹاپوں میں گھسے ہیں ۔ان کی بدولت ہی اس نسل میں آگہی اور اتنی ہمت پیدا ہوئی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کو خطرے میں ڈال کر دنیا کی بہترین مانے جانےوالی یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر نتائج کی پرواہ کیے بغیر احتجاج کر رہے ہیں۔یہ معمولی بات نہیں۔ امریکہ اور کینڈا میں ایک عام انڈرگریڈ اور گریڈ سٹوڈنٹ کی زندگی سٹوڈنٹ لون سے ہزاروں ڈالر کے ڈیٹ میں دبی ہوتی ہے اور یہ لون گلے کا طوق ہوتا ہے۔احتجاج کرنے والے طالب علموں کو بخوبی علم تھا کہ ان کا احتجاج ان کے کرمنل ریکاڈ کا حصہ بنا دیا جائے گا اور ان کے اوپر اچھے مستقبل کے دروازے بند کرنے کی تمام تر کوششیں کی جائیں گی اور ایسا ہی ہوا۔

4 جولائی کو امریکہ نے اپنا یوم آزادی منایا ۔لیکن اسی 4 جولائی کو اونٹاریو کورٹ نے یورنیورسٹی آف ٹورنٹو کے ڈائون ٹائون کیمپس میں جاری پرو فلسطینی مظاہرے کے خلاف فیصیلہ سنایا اور مظاہرین کو کنگ گرائونڈ خالی کرنے کا حکم دیا گیا ۔دو ماہ سے جاری اس مظاہرے میں ٹورنٹو یورنیورسٹی میں ہر نسل اور زبان سے تعلق رکھنے والے طلباءشامل تھے جنہوں نے اس احتجاج کو دھرنے کی شکل دی تھی اور دو سو سے زائد کیمپ لگا رکھے تھے۔کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ان طلبا ءکو شام 6بجے کا وقت دیا گیا گرائونڈ خالی کرنے کے لیے ۔نہیں تو ان کو الٹی میٹم دیا گیا کہ پولیس کے ذریعے یہ گرائونڈ خالی کرایا جائے گا۔اس سے پہلے یورک یونیورسٹی کا احتجاجی دھرنا پولیس کے ذریعے پر تشدد طریقے سے ختم کیا گیا تھا جس میں متعدد طلباءزخمی ہوئے تھے۔ان احتجاجی دھرنوں میں صرف یہ دو تعلیمی ادارے شامل نہیں بلکہ یہ احتجاجی مظاہرے اور دھرنوں کا آغاز اپریل سے کولمبیا یورنیورسٹی سے ہوا اور اسکے بعد 130 امریکہ کی یونیورسٹیوں میں یہ احتجاجی دھرنے دیے گئے جن میں طلبا نے یورنیوسٹیوں کے گرائونڈ میں خیمہ استادہ کیے اور دن رات وہاں رہے۔ ان دھرنوں میں سوائے ایک دو واقعات کے طلبا بالکل پرامن رہے ۔لیکن یونوسٹی انتظامیہ کی طرف سے رویہ بہت جارحانہ رہا اور ان طلبا پر پولیس کی بجائے اسپیشل رائوٹ فورس بلائی گئی اور ان کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور گرفتار کیا گیا۔امریکہ میں ہونے والے ان مظاہروں اوراحتجاجی دھرنوں کے اثرات کینڈا میں بھی دیکھے گئے اور کینڈا کی بیشتر یورنیورسٹیوں میں یہ احتجاجی دھرنے دیے گئے۔کینڈا میں بیشتر یورنیورسٹیوں نے مذاکرات کو ترجیح دی لیکن کچھ یونیورسٹیوں نے پولیس اور عدالت کی مدد سے اس احتجاجی دھرنے کو روکنے کی کوشش کی۔جس میں یورک یونیورسٹی اور ٹورنٹو یونیورسٹی سرفہرست ہیں کیونکہ یورک یورنیورسٹی کی انتظامیہ کو پہلے سے بے حد تنقید کا سامنا تھا کہ اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد یورک یونیورسٹی کی طلباءیونین ان پہلی طلباءیونین میں شامل ہیں جنہوں نے اس حملے کی مذمت کی اور اسرائیل کو جنوبی افریقہ کے regime apartheid کے ساتھ تشبیہ دی اور اسرائیل کو ایک state apartheid کہا اور اس حملے کو جنگ نہیں genocide کہا۔یہ احتجاج اور دھرنے کہاں ہوئے اور ان میں کیا ہوا اس پر اخباروں میں رپورٹنگ ہو چکی ہے لیکن اس سارے احتجاج اور دھرنوں میں اہم یہ ہے کہ یہ احتجاجی دھرنے اپریل سے کیوں شروع ہوئے جبکہ اسرائیلی حملہ اکتوبر سے جاری ہے ؟۔ ان احتجاجی دھرنوں کا مقصد کیا ہے اور حکومتیں اور یونیورسٹی انتظامیہ ان سے اتنی نالاں اور ان کی طرف اتنی پرتشدد کیوں ہے ؟

ان احتجاجی دھرنوں کا تعلق BDS کی تحریک سے ہے جو Sanctions Ban,divest and کا مخفف ہے۔اس تحریک کا باقاعدہ آغاز 2005 سے ہوا اور اس کو ساﺅتھ افریقہ کی Apartheid Anti movement کی طرز پر تشکیل دیا گیا۔ Apartheid movement Anti کو جون 1959 میں اس وقت کی ساو¿تھافریقی کے ظالمانہ وائٹ رجیم کےخلاف لندن میں تشکیل دیا گیا تھا اور اس کے بنانے والوں میں نیلسن منڈیلا شامل تھے اور اس کا مقصد لوگوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ ان اشیا کا بائیکاٹ کریں جو ساو¿تھ افریقہ میں بنتی ہیں تاکہ ساو¿تھ افریقہ کی حکومت کے اوپر معاشی پریشر ڈالا جا سکے۔اسی نظریے کے ساتھ BDS کی تنظیم اور تحریک کو 2005 میں تشکیل دیا گیا لیکن اصل میں اس کا آغاز 2001 میں جنوبی افریقہ میں ہونے والی World conference against racismسے ہوا جہاں پر فلسطینی وفد کی ملاقات ساو¿تھ افریقہ کی آزادی کی جدوجہد میں شامل کامریڈز سے ہوئی اور انہوں نے اس خیال کی ترویج کی کہ فلسطینیوں کو اپنے موقف کی حمایت کے لیے ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو معاشی اور کلچرل پریشر بنا سکے۔2005 میں اس کی تنظیم کے تین مقاصد بیان کیے گئے کہ اسرائیل ان تین زیادتیوں کا ازلہ کرے :

1۔ 1967 سے اسرائیل نے جن عرب علاقوں پر قبضہ کیا ہے اس کو ختم کرے اور دیوار جو غزہ ویسٹ بنک اور اسرائیلی علاقوں کے درمیان بنائی گئی ہے اس کو ختم کرے ۔

2۔ تمام فلسطینی عرب جو اسرائیل میں رہ رہے ہیں ان کو عام یہودی اسرائیلیوں کی طرح کے مساوی حقوق دیے جائیں ۔

3۔ فلسطینی مہاجروں کو واپسی کا حق دیا جائے ۔ اس پیغام کو لیفٹ اور فلسطین کے پڑھے لکھے طبقوں سے پذیرائی ملی اور ان مقاصد کے حصول کے لیے جو طریقہ کار وضع کیا گیا وہ ان اشیاءکا بائیکاٹ تھا جو اسرائیل میں بنتی ہیں اور ان کمپنیوں کا بائیکاٹ تھا جن سے اسرائیلی حکومت کو منافع ملتا ہے کہ اس کا فائدہ ان کی فوج کو پہنچتا ہے ، دوسرا اس تمام تعاون کا خاتمہ ہے جو امریکہ کینڈا یورپ کی یونیورسٹیوں کا اسرائیلی یونیورسٹیوں سے ہے اور تیسرا اسرائیل پر تجارتی پابندیوں کا مطالبہ ہے تاکہ ہتھیاروں کی خریدنے کی اسرائیلی طاقت کی روک تھام کی جا سکے۔یہ ایک لمبا اور تکلیف سے بھرا ہوا عمل ہے لیکن اس کے اوپر 2005 سے کام کیا جارہا ہے اگرچہ اس کو تنقید کا سامنا رہا ہے لیکن بہت سی امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں کی طلبا تنظیموں میں کئی بار یہ قراردادیں پیش کی گئیں کہ یونیورسٹیوں کو اپنی آمدنی اور اثاثوں کو پبلک کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ طلباء کے پیسے ہیں اور ان کو کسی بھی قوم کے اوپر ظلم ڈھانے کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی ان قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ یونیورسٹیوں کو ان تمام کمپنیوں میں انوسٹمنٹ ختم کرنے کی ضرورت ہے جن کاتعلق اسرائیل سے ہے۔2009 میںcollege Hampshire پہلا امریکی کالج تھا جس نے اسرائیلی کمپنیوں سے divestment کا اعلان کیا۔2010 میں Berkeley UC کی طلباءیونین نے یہ قرارداد منظور کی اگرچہ یونیوسٹی نے ماننے سے انکار کر دیا ۔ کافی ساری یونیورسٹیوں میں صرف اس بارے میں قرارداد اسٹوڈنٹ یونین کی باڈیز میں پاس کروانے کے لیے دو دہائی کا عرصہ لگا یورنیورسٹی آف مشیگن میں 2002 سے اس مقصد کے لیے کام کیا گیا اور 2017 میں یہ قراداد گیارہویں دفعہ میں یونیوسٹی کی تاریخ کی طویل ترین بحث کے بعد سٹوڈنٹ یونین نے اسرائیل سے divestment کی قرارداد پاس کی۔ جس کو بورڈ آف گورنر نے مکمل طور پر رد کر دیا۔کولمبیا یونیورسٹی میں لیفٹ سے تعلق رکھنے والے سٹوڈنٹ اور اساتذہ نے اس مقصد کے لیے 2002 سے مہم اور قراردادوں کا آغاز کیا اور 2020 میں ان کو پہلی کامیابی ملی جب سٹوڈنٹ یونین نے اس قرارداد کو منظور کیا جسکو کولمبیا یونیورسٹی کی گورننگ بوڈی نے رد کر دیا۔

یہ ایک مختصر سی تاریخ ہے اس لمبی اور پرخطر جدوجہد کی جس کے مناظر دنیا نے اپریل میں دیکھے۔لیکن یہاں اس بات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ اساتذہ اور طلباء جنہوں نے احتجاج کیا انہوں نے انتہائی پر خطر ماحول میں اس کام کا بیڑہ اٹھایا کہ یونیورسٹی اور پورا یورپ امریکہ کینڈا انتہائی سخت گیر حساس اداروں کے ذریعے ان کی مانٹیرنگ کریں گے۔ ان کے کریمنل ریکاڈ بنائیں جائیں گے اور لون میں دبے ہوئے طلبا کی خاص کر زندگی مشکل کر دی جائے گی اور اساتذہ پہ ترقی اور نوکریوں کے دروازے بند کر دیے جائیں گے۔اپنی بے پناہ جنگی طاقت اوراندھا دھند قتل عام کے بعد بھی اسرائیل اور زیونسٹ یہودی ایک لفظ اپنے خلاف سننے کو تیار نہیں۔ ان کی ایروگنس کا یہ عالم ہے کہ ان کے غرور کو گورا نہیں کہ جن انسانوں کو وہ چیونٹیوں کی طرح روند رہے ہیں وہ اپنے حق میں یا کوئی ان کے حق میں اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے۔ایک طرف قتل عام جاری ہے اور دوسری طرف صرف آواز اٹھانے سے ان کے احساسات مجروح ہوتے ہیں اور یہ اپنے آپکو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔

اپریل کا انتخاب اس تحریک کے مظاہروں اوراحتجاج کے لیے اس لیے کیا گیا کہ اس مہینے سے یونیورسٹیوں میں گریجویشن کی تقاریب کا آغاز ہو جاتا ہے اور یہ سال کی سب سے بڑی تقریب ہوتی ہے جس کا پورے شہر کو انتظار ہوتا ہے ۔اس لیے نہ صرف ان احتجاجی دھرنوں کا آ آغاز کیاگیا بلکہ گریجویشن کے دوران بھی سٹوڈنٹس نے اپنی تقریر کے دوران سخت الفاظ میں اسرائیل کے ظلم کی مذمت کی اس کو ایک apartheid state اور اس کے قتل عام کو genocide قرار دیا۔اس کا مقصد نہ صرف اسرائیل کے مظالم کی مذمت تھی بلکہ ان فلسطینی نوجوانوں کو یاد کرنا تھا جنہوں نے 2024میں گریجویٹ کرنا تھا اور ان سب کو مار دیا گیا ، ان اساتذہ کو یاد رکھنا تھا جن کو فلسطین میں قتل کر دیا اور دنیا کو فلسطین اور اس کے اوپر جاری مظالم سے آگاہ کرنا تھا کہ آج کی دنیا میں سب سے طاقتور میڈیا سوشل میڈیا ہے اور اسپر اپنی آواز اجاگر کرنے کا اس سے بہترین موقع دستیاب نہیں ہونا تھا۔اس کے ذریعے Ban ,divest اور sanctions کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ کس طرح سے Starbucks کو اس بائیکاٹ کی وجہ سے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔اپنی بھرپور طاقت اور absolute اتھارٹی کے باوجود اسرائیل ،امریکہ انتہا پسند رائٹ ونگ اور زیونسٹ ان طلباء سے اور اساتذہ سے سخت نفرت کرتے ہیں ان کے لیے مسئلہ صرف فلسطین پر آواز اٹھانے کا نہیں بلکہ ان اساتذہ اور طلبا ء کی سوچ کی وسعت ،گہرائی ،ہمت استقامت دلیری اور انسان دوستی ہے۔ان کو ان کے نظریات میں کارل مارکس کی بو اور ساری دنیا کے مظلوموں کی حمایت سے ان کے دماغوں میں چے گویرا بسا نظر آتا ہے اور ان کے ہاتھوں میں اس دفعہ سوشل میڈیا کا ہتھیار ہے جس سے وہ کپٹیلزم ،فری اکانومی ، نام نہاد انسانی حقوق کے دعوں اور فریڈم آف سپیچ کے جھوٹ کے پرخچے اپنے علم اور قابلیت سے اڑا رہے ہیں۔اس سب میں کہیں مذہب اور قومیت نہیں ان کے لیے چے کی طرح سارے مظلوموں کے لیے ہمدردی اور آواز اٹھانے کا جذبہ ہے اور پوری دنیا کا علم ان کی انگلیوں کی کلک میں ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ بیشتر ممالک جہاں اس قسم کے سخت حالات کا سامنا نہیں کرناپڑا وہاں ہمیں مکمل خاموشی نظر آتی ہے۔اسلام کے لیے جہاد کو ساری دنیا میں ایکسپورٹ کر کے خود جنت کے مزے لوٹنے والے عرب ممالک میں کوئی احتجاج نہیں ،نہ ہی حج کے موقع پر کوئی آواز کوئی خطبہ اس ظلم کے خلاف آیا حالانکہ بلین ڈالر اس سے سعودی عرب نے کمایا ہے۔نہ ہی افغانستان کو اسلام اور جہاد کے نام پر تباہ کرنے والے پاکستان میں ہمیں ایک مستقل احتجاج نظر آیا ۔بات پھر ان سرپھرے جوانوں تک جاپہنچی جن کے کندھوں سے سر اتارنے کو مذہب اور رایٹ ونگ دونوں مشتاق رہتے ہیں اور ان کو رہا سہا crucify کپٹیلزم کی مرتی ہوئی اکانومی اور سہولیات کی عدم دستیابی کر رہی کہ بقول نورمن فریکسٹائن “میں ان نوجوان طلباءکے حوصلے کی داد دیتا ہوں ان کو بے تحاشا مسائل کا سامنا ہے۔کلائمیٹ چینج ، نوکریوں کی عدم دستیابی اور غیر یقینی مسقبل کے درپیش چیلنج میں ان کے پاس احتجاج نہ کرنے کے لیے ایک ہزار کاز موجود تھے لیکن انہوں نے فلسطین اور غزہ کو اپنے احتجاج کے لیے منتخب کر کے اپنی انسان دوستی کا ثبوت دیا ۔ان کی ہمت کو میں سلام کرتا ہوں “۔نورمن فرینکسٹائن 70 سال کے یہودی امریکی پولیٹیکل سائنس کے مایہ ناز استاد اور سیاسی کارکن ہیں جنہوں نے ساری عمر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔امریکہ کینڈا اور یورپ کا لیفٹ اور نوجوان تمام تر مشکلات ،ہراسمنٹ اور سرولینس کے بعد بھی احتجاج کر سکتا ہے تو پاکستان میں بھی کر سکتے۔ اب نہیں تو کبھی نہیں۔یہ یاد رکھا جائے گا کہ فلسطین میں جنگ روکنے کے لیے مسلمان ممالک یا سعودی عرب نے اسرائیل کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں نہیں گھسیٹا تھا بلکہ یہ ساو¿تھ افریقہ تھا جس نے اسرائیل کے مظالم اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف اسرائیل کو برسرعام چیلنج کیا اور ان کے وکیلوں نے بدترین اسرائیلی دھمکیوں کا سامنا کیا۔ یہ مار کھاتے اساتذہ اور نوجوان بچے اس دنیا کی آخری امید ہیں کیونکہ ہم نے اس نوجوان نسل کے لیے فلسطین میں صرف فلسطنیوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا بلکہ خدا،مذہب ، انسانیت اور محبت کا بھی قتل عام کیا ہے ۔خاموش رہ کر اپنی اپنی زندگیوں میں مگن رہ کر ۔

“نئی دنیا وہ لوگ نہیں تشکیل دیتے جو ہاتھ باندھ کر ایک فاصلے پر کھڑے ہو کر اپنے سامنے ہونے والی نظریاتی لڑائی کو تماش بین کی طرح دیکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ تشکیل دیتے ہیں جو مقابلے میں اترتے ہیں ۔جن کے کپڑے اس لڑائی میں تار تار ہو جاتے ہیں اور جن کے جسم اس نظریے کی لڑائی میں لہولہان ہو جاتے ہیں “(نیلسن منڈیلا )

اگر مجھے لازماً مرنا ہے

تو تم زندہ رہو

تاکہ میری کہانی سنا سکو

میری چیزیں بیچ سکو

اور کپڑے کا ایک ٹکڑا

اور کچھ دھاگے خرید سکو

اور پتنگ بنائو

وہ سفید ہو

اور اس کی لمبی سی دم ہو

تاکہ غزہ میں کوئی بچہ

آسمان کی طرف تکتے ہوئے

اسے دیکھے

جب وہ اپنے باپ کا انتظار کر رہا ہو

جو اس برستی ہوئی آگ میں

اپنے پیاروں کو خداحافظ کہے بغیر مار دیا گیا

وہ بچہ یہ پتنگ دیکھے

میری پتنگ

آسمان میں اونچی اڑتی ہوئی

اور ایک لمحے کو اسے لگے

کہ کوئی فرشتہ محبت کا پیغام لے کر

زمین پر اتر رہا ہے

اگر مجھے لازمی مرنا ہے

تو میرا مرنا کسی کے لیے امید کا پیام بنے

ایک کہانی بنے

(رفعت العریر )

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے