سرمایہ داری نظام کے بطن سے بازاری معاشرہ جنم لیتا ہے ۔ ایسے معاشروں کے افراد حرص و ہوس میں مبتلا ہوکر مال ودولت بنانے کو مقصد حیات بنالیتے ہیں۔ ہر فائدہ، ہر آسائش اور ہر مسرت کا حصول زندگی کا بڑا مقصد بن جاتا ہے ۔ دوسرے لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہیں اس سے کسی کو سروکار نہیں رہتا ۔ ایسے معاشروں میں رحم دلی، ہمدردی، دیانت داری اور راستی درستی بے معنی باتیں سمجھی جاتی ہیں۔ حتی کہ دوسروں کو برباد کرکے خود کو آباد کرنا بھی جرم نہیں رہتا۔ بازاری معاشروں کے افراد کی وقتی اہداف تک رسائی کا ذریعہ دروغ گوئی ،مکر ،فریب ،ریا کاری اور دھوکہ دہی بنتا ہے۔ اور جب رفتہ رفتہ حمام میں سارے ننگے ہوجاتے ہیں تو شرم و حیاء سے مبرا آنکھیں پھتر بن جاتی ہیں۔ پھر ایسے ماحول میں اعلی انسانی اور سماجی قدریں معدوم ہونا شروع ہوکر رفتہ رفتہ ختم ہوجاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلاء کو بناوٹ سجاوٹ کے مصنوعی کلچر سے پّر کیا جاتا ہیں۔ بقول ممتاز دانشور  ممتاز احمد ; مصنوعی پن کا شکار معاشروں کے ہر فرد کا اخلاق جھوٹا، تہذیب جھوٹی، شرافت جھوٹی حتی کہ مذہب کا لبادہ بھی جھوٹا ہوتا ہے جو اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ ہوتے ہیں۔ ان کے پیمانے وقت اور حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ان کے نظریات بدلتے موسموں سے بھی زیادہ نا پائیدار ہوتے ہیں۔ ان کا دین اور دھرم ہوا کا جھونکا ثابت ہوتا ھے جو بس آیا اور گیا۔ ہر نئے سانس کے ساتھ ان کا خدا بھی نیا ہوتا ہے ۔ثبات ان کی کسی چیز کو حاصل نہیں ہوتا،،

یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ مصنوعی پن کی بیماری کے شکار معاشروں کو قحط الرجال کا سامنا رہتا ھے۔ کیونکہ عالم ،ادیب، مفکر اور آرٹسٹ بننے کا کوئی شارٹ کٹ راستہ نہیں ہوتا ۔ اس لیے افلاس فکری میں مبتلا معاشروں میں جعل سازی کے ذریعے قیادت تخلیق کی جاتی ہیں۔ یہاں جاہل کو عالم ،مفاد پرست کو مخلص، پیدا گیر کو خدمت گزار اور بصیرت و بصارت سے محروم کو رہنما بنا کر پیش کیا جانے لگتا ھے۔ چھینا چھپٹی اور سستی شہرت کے دلدادہ معاشروں کے لوگ چالاک اور مکار افراد کے دام فریب میں پھنس جاتے ہیں اور پھر جنت الا حمقا کے یہ مکین سراب کے تعاقب میں اپنی عمریں گنوا دیتے ہیں۔ نجات کے لیے ان کی ہر کوشش اور کاوش نقش بر آب ثابت ہونے لگتی ہیں۔ ایسے فریب خوردہ معاشروں کے لوگ اپنے منطقی انجام سے دوچار ہونے تک کے سفر میں بے اطمینانی، بے یقینی اور بیزاری کی اذیت ناک کیفیت سے دوچار رہ کر تاریخ کے لئے قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔

آیئے عرض گزاریں کہ نگار ہستی

زبرِ امروز میں شیرینی فردا بھر دے

وہ جنہیں تاب گراں باری ایام نہیں

ان پلکوں پہ شب و روز کو  ہلکا  کردے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے