کئ افراد کا مل کر کسی شخص کے کام کی تکمیل میں مدد دینا اس کام میں رقم یا عوض نہیں لیا جاتا تھا ۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے! صبح آزان کے فوراً بعد کسان

(راحق ) کے گھر سے بیل کی گھنٹیوں(شب ،یا گھنگروو) کی منفرد سی آواز سنائی دی جاتی تھیں۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ کسان کا رخ کھیتوں کی جانب ہے ۔صبح صبح ہلکی سی خنک ،چاروں اطراف سبز کھیتوں کا لہلاہانا ،پتوں کی سرسراہٹ کی آواز ، مخمل گھاس کی مہک ، تراٹ کی آواز سے پرندوں کی ضد، وہ بچپن کے سنہری یادیں درد بن کر لپٹ جاتی ہیں۔

بات ہورہی تھی وانگار کی ۔بعض اوقات زیادہ کام کی وجہ سے پڑوسی دوست، احباب مدد کے لیئے جان و دل سے حاضر ہوتے یہ باہمی محبت اور انسیت تو ہر وقت دیکھنے کو ملتا تھا البتہ کھیتوں سے جڑی محبت بہت پرکشش اور یاد گار ہوتے ہیں ۔بالخصوص کٹائی کے دنوں یا پھر گوئیٹ کے دن یہ محبت ایک نئی رنگ بکھیرتی ہیں ۔

ہماری ملاقات اکثر کسانوں سے اس وقت ہوتی جب ہم ونگار والوں کے لیئے کھانا لے جایا کرتے تھے۔

کھانے میں کیا ہونا تھا یہی پتلی شوربہ والی دال مشکل سے دیسی مرغی کا شوربہ لسی کے دو تین بوتلیں، دسترخوان کے اندر چار پانچ پیاز کے دانے ،تنور کی روٹی ، ، بڑے پرخلوص نیت سے پیش کیا جاتا تھا۔ تھکے بیل پسینے سے شرابور ، کسانوں کے پشت گرد اور مٹی سے بھرے ہوتے تھے پسینے کی وجہ سے قمیض اکڑا ہوا کرتا تھا۔چہروں پر تھکاوٹ کے جھریاں مگر ان جھریوں میں بھی کمال کی روحانی کشش اور خوشی دوڑ رہی ہوتی تھی ۔وہ محفل کی صورت میں خوب ہنستے تھے

وہ بیلوں کا مقابلہ کراتے تھے ایک دوسرے سے ضد کرتے تھے محبت اور وفاداری کے گیت بیلوں کو سناتے تھے کام چور بیلوں کا خوب تنقید کرتے تھے ۔ان سے غصہ کرتے تھے اور پھر ان کے پیشانی سے بوسہ لیکر خوش کرتے تھے ۔

وہ محبت کے گیت آج بھی پہاڑوں سے گونجتی ہیں!

 

ہلے ہو دانا دھڑو،لاکی و بھورا وثئ ٹھگیاں گو گار باثئے ،

مخماڑۓ شما روشئے ہور

تئ شذا کشی او شاہجی ڈھور

 

۔یہ محبتوں کا وقت تھا خوشیوں کا وقت تھا, محنت کرکہ محدود وسائل کو مل کہ بانٹتے تھے خوشی غمی میں ایک ساتھ ہوتے تھے زندگی کو رکس کرکہ گزارتے تھے ۔

۔ہم زمانے کی وہ سادگی اور خوبصورتی پھر سے دیکھنا چاہتے ہیں ان احساسات کو پھر سے زندہ دیکھنا چاہتے ہیں سندھ اور پنجاب کے مریوں کو واپس وطن آنے کی دعوت دیتے ہیں۔مریستان کے کالے پہاڑ آپ کے لوریوں کے منتظر ہیں ،پرندے مایوس ہوچکے ہیں ،درخت مرجھا گئے ہیں بے چین چٹانوں کی یہی خواہش ہے کہ واپس لوٹ کہ آئیں ،پھر سے زندگی کی نئ شروعات کریں گے بہاروں کو خوش آمدید کہیں گے اور کھل کے جیئے گے۔

۔خیالات کی ڈور کو جتنا ہی کھینچ کہ رکھوں مگر یادیں بہت مگر الفاظ کم پڑجاتے ہیں ۔ محبتیں سلامت رہیں

اگرچہ یہ دن چلے گئے ہیں لیکن وہ ہمیشہ ہمارے ورثے کے حصے رہیں گے۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے