نذرِ غالب

دل کو دَم سادھ کے سنا کیجئے
پھر کہے جو وہی کیا کیجئے

آپ کا دل جو مضمحل ہو کبھی
میرے حصے کا رو لیا کیجئے

ٹوٹ کر گِر چکے ہیں ہاتھ مرے
آپ میرے لیئے دعا کیجئے

یوں مجھے زندگی نہیں کرنی
میرے حصے کا فیصلہ کیجئے

حرف خود راستہ بنائیں گے
اپنے اندر کا دکھ لکھا کیجئے

شعر تازہ رہیں گے غزلوں میں
ہر گھڑی ٹوٹتے رہا کیجئے

ہم تو بس آپ سے مخاطب ہیں
“آپ سنتے نہیں تو کیا کیجئے ”

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے