سجے سجائے لشکتے وسیع کمرے میں کسی نہایت قیمتی ائیر فریشنر کی مہک پھیلی رہتی۔ سجاوٹی اشیا جگہ بے جگہ پڑی تھیں یوں لگتا تھا کہ جیسے ان قیمتی آرائشی اشیا کو رکھنے ہی کے لیے اس نشست گاہ کو بنایا گیا ہو۔دیواروں پر سنہری فریموں میں کلمے، چاروں قل ،کچھ عربی دعائیں نقش تھیں ۔ کسی ذی روح کی تصویر کہیں نہ تھی۔اورنگ زیب میاں صاحب ایک صوفے پر ساکت بیٹھا رہتا ، کشادہ پیشانی پر دو تین بل ،یونانی ناک کے بانسے پر ایک جھری ،ہونٹوں کے کنارے لٹکے ہوئے، جیسے ابھی بسور کر رو پڑیں گے۔ چہلم کو گزرے بھی کئی دن ہو گئے تھے پر اب بھی دن کے وقت تعزیت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ خود کاری سے ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے اور پھر گود میں گر جاتے تھے۔
میاں صوفہ اینڈ پردہ کلاتھ ہائوس میں کاروبار بظاہر زوروں پر تھا ،کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا ورنہ جب سے بیٹا قتل ہوا اورنگ زیب میاں صاحب نے عملاً دکان مینجر کے سپرد کر دی تھی۔رات کو مینجر گھر آکر دکان کے معاملات پر بات چیت کر جاتا۔
اورنگ زیب میاں صاحب کے باپ عبدالرحمان کو بادشاہوں کی کہانیاں بہت پسند تھی ، نسیم حجازی کو تو گھونٹ گھونٹ ایسے پیا تھا کہ کئی بار رات خواب میں سفید براق گھوڑے پر سوار کشتوں کے پشتے لگاتا ہوا پلنگ سے گر پڑتا تھا۔ پہلے بیٹے کے تولد ہونے پر سوچتا رہا کہ کس بادشاہ کا نام پر ولی عہد کا نام رکھا جائے بہت سوچ بچار کےبعد قرعہ فال اورنگزیب کے نام کا نکلا۔ فیشن میں تو ترکی فرنیچر اور ترک بادشاہ بھی تھے ، اس نے سوچا: ” رب خیر کرے پھر سہی۔”
ایک آوارہ لوفر سے ہوا کے جھونکے نے کانوں میں سرگوشی تو کی تھی: "عبدالرحمان! الحذر! الحذر! لیکن شفقت پدری اور بیٹے کا
جاہ و جلال دیکھنے کی تمنا نے نظر اندازی کرادی ،پھر بھی یہ سرگوشی کنکھجورا بن کر کانوں سے ہوتی ہوئی دماغ میں گھس کر کاٹتی ڈنگ مارتی رہی اور جب میاں عبدالرّحمان فالج سےلاچار چاروں شانے چت اسی پلنگ جا پڑا جہاں کبھی سفید گھوڑے پرسوار کشتوں کے پشتے لگایا کرتا تھا،تو یہ بے غیرت حرامی کنکھجورا پنجابی فلموں کے ولن کی طرح قہقہے لگانا بھی سیکھ گیا تھا، قہقہے بھی چھت پھاڑ ،دل چیر۔
اورنگ زیب کو شہزادوں کی کہانیاں پسند تھیں۔ وہ شہزادے جن کے سامنے غلام ہاتھ باندھے قطار در قطار کھڑے رہتے تھے۔ وہ سونے چاندی کے نہ سہی ، کسی قیمتی ڈنر سیٹ میں تو لازم طعام تناول فرماتے۔وہ شہزادے ،جن سے ساری خدائی کیا ! خود خدا بھی پوچھتا کہ بتا تیری رضا کیا ہے؟ شہزادے سر ہلا کر تمکنت سے جواب دیتے :
” زرا سوچ کر بتائیں گے”، پر سوچنے کا کام وہ ہمیشہ اپنے مشیروں کے سپرد کر دیتے ، ایسی فضول درد سری خود مول نہ لیتے۔اورنگ زیب میاں صاحب تو کتابوں میں درج شہزادوں سے کہیں بڑھ کر تھا۔ کنیزوں اور غلاموں کو کچھ دیر زیر استعمال رکھ کر آگے دان کر دیتا۔ زرا سی بے احتیاطی سے کنیزوں پر زرا فالتو خرچہ بھی ہو جاتا تو کیا! مڈوائف باقاعدہ تنخوہ دار ملازم تھی ، کہیں کوئی احتجاج پھوٹتا بھی تو سرکوبی کر دی جاتی۔دوستوں کے بیچ بیٹھ کر ٹھٹھا بھی اڑایا جاتا کہ عوام کی اوقات ہی کیا ہے بس قیمے والے نان! ہاہاہا!۔۔۔ شاعر سچ کہتے ہیں کہ انھیں چاند بھی روٹی ہی نظر آتا ہے احسان فراموش ! بھکی قوم !! "۔ اللہ کے فضل وکرم سے اورنگ زیب میاں صاحب کو بھوکا ہونے کا تجربہ کبھی نہیں ہوا۔اس کا تومشغلہ یعنی فیورٹ ہابی ہی ریسٹورنٹ گردی تھی ، مہنگے سے مہنگا ریسٹورنٹ سے لے کر ڈھابوں تک، اورنگ زیب میاں صاحب موجود ہوتا، سلاخوں میں پرویا ہوا انگاروں پر سنکا ہوا گوشت اس کا من پسند کھاجا تھا۔ ان تمام دلپشوریوی اور دل لگیوں کے باوجود پڑمردگی دل سے جانے کا نام ہی نہیں لیتی تھی ۔ سیل فون کے کنٹکٹ لسٹ میں گرل فرینڈز کی طویل فہرست تھی ، ہر ایک کو باقاعدگی سے "آئی مس یو کے ساتھ "جانی ! اداس بہت ہوں” کے میسج بھی جایا کرتے.پر اداسی کا درماں کسی کے پاس نہ تھا، سبھی آرائشِ گیسو، نوکِ ابرو سنوارنےاور غازہ شازہ لگا کر اپنی اپنی اداسیاں بہلانے میں مصروف تھیں ، کوئی اورنگ زیب کی اداسی کو گھاس نہیں ڈالتی تھی ۔”میاں عبدالرحمان کی دوسری اولاد میں یہ چھل بل نہ تھے۔ ایسے بھی میاں عبدالرحمان نے بڑے بیٹے کی شہزادگی سے بدک کر چھوٹے دونوں بیٹوں کے ناموں کے ساتھ غلام کا سابقہ لگا دیا تھا اور بیٹی کنیز فاطمہ تو خیر تھی ہی پرائے گھر کی لیکن دو بھائیوں کی شراکت کو برداشت کرنا بھی آسان نہیں تھا۔ غلام رسول کو تو پولیو کا حملہ ناکارہ کر گیا وہ تو اپنے جوگا بھی نہ رہا ، پہلے ماں اور پھر ایک ملازم مختص رہا جو اسے شکم سیری کرواتا ، حوائج ضروریہ سےفراغت میں بھی مدد کرتا۔غلام حیدر کو کتابوں کا چسکا پڑ گیا۔ وہ بڑے بھائی کی گفتہ ناگفتہ سرگرمیوں سے الگ تھلگ کتابوں میں محو ہو گیا۔ باپ کی الماری میں پڑی جہادی کتابوں میں تو اس کا جی نہ لگا ،کالج میں موجود لائیبریری اس کی پناہ گاہ رہی، پھر دوسرے شہر اعلیٰ تعلیم کے لیے گیا تو سالوں بعد پروفیسری کے ساتھ بیوی بچے بھی لے کر پلٹا ، اس کی بیوی بھی کالج میں پڑھاتی تھی۔شادی ماں باپ کی مرضی کے خلاف کی تھی اس لیے واپس تو آگیا لیکن الگ گھر لے کر رہنا پڑا۔ اس محبت کی شادی نے بوجہ معطل کیے گے اورنگ زیب کی شادی کے سلسلوں کو بھی بحال کر دیا ۔ اورنگ نے بھی کالج کی لیکچرار کی فرمائش کی۔ رنگ گورا ،عمر چھوٹی،قد لمبا، دبلی پتلی ، نیک سعادت مند سگھڑ منھ میں زبان نہ رکھتی ہو وغیرہ وغیرہ ایسی ہی کچھ اور خصوصیات بھی ہر آئے گئے کے سامنے گنوائی جاتیں جیسے مال کا آرڈرکسی فیکٹری میں بک کروایا گیا ہو، کمال یہ ہوا کہ ڈیمانڈ کے مطابق لڑکی دستیاب بھی ہو گئ۔ اورنگ زیب بھی ان پڑھ نہ تھا۔ سالوں شہر کے مہنگے ترین پرائیویٹ کالج میں جاتا رہا تھا ،پھر باپ کی لش پش دکان بھی تو اسی کی تھی یا کم ازکم اورنگ زیب میاں صاحب ایسا ہی سمجھتا تھا۔ گھر میں رزق کا ڈھیر تھا۔ ایک کیا اگر چاہتا تو چار کالج کی استانیاں بھی عقد میں لا سکتا تھا۔ شادی تو ہوگئی، اولادِ نرینہ کی چاہ کچھ سالوں کے بعد ہی پوری ہوئی۔ بیٹےکی پیدائش کی خوشی میں باٹنے کے لیے لڈو چارمغز، پستہ ،بادام ڈلوا کر تیار کروائے گئے۔اہلیہ ہسڑی کی لیکچرار تھی، بڑے چائو سے نومولود کا نام نوشیرواں عادل رکھا گیا۔دیورانی مبارک دینے آئی تو کہنے لگی : ” بھلا بادشاہ بھی کبھی عادل ہوئے!!!!”
اس کے جاتے ہی اہلیہ نے نخوت سے کہا: اونہہ نہ دین نہ ایمان ،اپنے آپ کو زیادہ ہی پڑھی لکھی سمجھتی ہے، جیسے ہم نے ڈگریاں نہیں حاصل کیں ،بھاڑ جھونکا ہے۔، نہ بارات نہ ولیمہ ،حیا نہ آئی بچوں سمیت سسرال میں منہ اٹھا کر آتے ہوئے اور پھر ماں باپ کی بددعائیں لے محبت کی شادی کرنے نتائج دیکھو ، ایک نہ دو پوری تین بیٹاں لم سَلَّمیاں ،نہ منھ نہ متّھا، نہ تمیز نہ سلیقہ، گلی محلے میں سائیکلیں چلاتی پھرتی ہیں نہ روک نہ ٹوک ،بھلا بیٹیاں پالنے کے یہ طریقے ہوتے ہیں ،ایسے لچھن توبہ استغفار، ہم نے بھی یونیورسٹی پڑھا ہے ، کبھی کسی کو آنکھ بھر کر نہ دیکھا ، کبھی کسی نے بے حجاب نہ دیکھا ، ایسی ھڑبونگ نہ مچائی کبھی۔۔۔۔۔ میرا بیٹا برداشت نہ ہوا ،جل گئی ، ابھی لال مرچوں کی دھونی دیتی ہوں۔۔۔
چشمِ بد دووور۔۔۔ آنکھوں سے نکال گئی میرے لال کو۔”
اورنگ زیب زور سے ہنسا بلکہ ہنستا ہی چلا گیا : ” میری ماں چِٹّی ان پڑھ اور تو ایم اے ، پی ایچ ڈی۔۔۔ ماشائ اللہ ! سبحان اللہ! پر سوچ کا لیول ایک سا، وہ بھی جب بھی میں گھر آتا تو مٹھی بھر لال مرچیں چولھے میں پھینک دیتی ،نظر نکالتی ،بیٹیاں مائوں پر جاتی ہیں تو بہو اپنی ساس پر چلی گئ،دھواں نہ دے ابھی چھوٹا ہے، مرچوں کی دھونی سہ نہ پائے گا اس کے باپ کی نظر اتار کیسا گھبرو ہے ! نطفہ طاقتور ہے نا ،نر اولاد ہی نے جنم لینا تھا۔ اہلیہ سے بھول ہو گئی ، اورنگ زیب میاں صاحب کو دھونی نہیں دی گئی،شاید اسی لیے نطفے کی طاقت وری دوبارہ کارگر نہ ہوئی، نوشیرواں عادل اکلوتا ہی رہ گیا۔
میاں عبدالرّحمان کو فالج کا اٹیک کمرے تک محدود کر گیا اب خوشحالی، ہوشیاری کاروبار سمیت اورنگ زیب کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ اورنگ زیب میاں صاحب کی ماں خوش قسمت تھی کہ جلد ہی اس موت برابر زندگی سے سبکدوش ہوگئی البتہ سجے سجائے کمرے میں میاں عبدالرحمان قید تنہائی سالوں بھگتتا رہاتھا۔ وراثت کے جھگڑے تو اس کی اپاہجی ہی میں شروع ہو گئے تھے۔ بہن خود سے نظریں چراتے ہوئے ،نہ چاہتے ہوئے بھی انکار کر گءکہ وہ باپ کی جائیداد دوسرے گھر میں نہیں لے جائے گی وہ پیکا گھر کوکھونا نہیں چاہتی تھی۔دوسرے گھر کی بھی خوب رہی ،رخصتی پر ہی سنا دیا گیا تھا کہ گھر بسانا عورت کے سر ہوتا ہے بھائیوں کی پگ کا خیال رکھنا۔ دوسرا گھر بھی جلدی سے حلق میں پانی اتارتے ہوئے پیاسے کے اچھو جیسا تھا ، اکھوں آکھوں لگائے رکھتا۔اپنے گھر سے یکلخت دست برداری سے دل پر چھائی یاسیت اور پرائے گھرمیں اپنی جگہ بنانے کی جدوجہد اسے ہر وقت حالت جنگ میں رکھتےتھے اور پھرماں باپ کا گھر میں اجنبیوں کی طرح پھوپھی بن کر آنا اور پھر پھوپھیوں پر بنائے گئے لطیفے بھی سننا آسان کام تھوڑی ہے ۔ وہ اپنائیت کی چاہ دل میں چھپائے غیریت کے زخم لیے ایک ادھ دن گزار کر واپس سسرال لوٹ جاتی۔ وہ ایک آدھ دن بھی باپ کی بے بسی کا تماشا دیکھتے ہوئے صدی بن جاتا تھا۔”بڈھا ہو گیا اے ابا! تھوڑا کھایا کر۔۔۔چوہڑا بھی تجھے صاف کرنے پر راضی نہیں ہوتا کہتا ہے: "صاب! بزرگوار ساری رات سینٹری پیڈ میں ہگتا رہتا ہے۔گوہ گوند کی طرح ساتھ چپک جاتا ہے،اتارنا مشکل ہوتا ہے ، پھر تنخواہ بڑھائو کی رٹ، ادھر میں نے ٹکسال جو لگا رکھی ہے کہ روز تنخواہ بڑھائوں!۔کھانے کو زرا کم دو تو شور سارے گھر میں گونجتا :” اورنگ زیبا! تو نے مجھے بھوکا مار دیا۔”۔
سات سال ہو گئے بیڈ پر ،کروٹ تک نہیں بدلتی خود سے، پر جینے کا شوق ہے ختم ہونے کو نہیں آتا ۔۔۔۔۔ ابا تو مرتا کیوں نہیں؟” جیسے کوڑے شڑاپ شڑاپ لگ رہے ہوں۔ اورنگ زیب میاں صاحب کے لفظ کوڑوں سے کم تو نہیں تھے ,وہ اپنی ساری خوش اخلاقی دکان پر خرچ کر آتا ، گھر آکر باپ سے اصرار شروع ہو جاتا۔”ابا! تو مرتاکیوں نہیں ؟”
میاں عبدالرحمان نے پاس کھڑے نوکر سے ملتجی آواز میں کہا : ” منھ پر تکیہ رکھ کر سانس روک دے ،منت کرتا ہوں تیری۔” نوکر نے جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو منھ پھیر کر چل دیا۔ خدا خدا کر کے، بالاآخر سانس رک ہی گیا۔ پھر نیا لفڑا شروع ہوگیا۔غلام حیدر نے جائیداد سے حصہ مانگنا شروع کردیا کہتا کہ دکان میں بھی میرا حصہ ہے۔اورنگ زیب میاں صاحب کی گرج سے کوٹھی کی دیواریں لرزنے لگتیں۔” اباجی کو میں نے سنبھالا، نامراد لولے لنگڑے کی رکھ رکھیل میں کروں اور کاروبار تو سنبھالے واہ جی واہ!۔” روز کی تکرار سے تنگ آکر ایک دن غلام حیدر خاموشی سے ابا جی کے کمرے پر الوداعی نظریں ڈالتا ہوا گھرسے باہر نکل گیا۔لیکن خاموشی برقرار نہ رکھی ،دعوی دائر کر دیا گیا سمن آنے لگے۔سال گزرتے گئے۔
نوشیرواں عادل نے تیزی سے قد کاٹھ نکالا تھا۔پڑھائی میں بھی اچھا تھااور منصوبہ سازی کا بھی ماہر تھا۔ کالج کے بعد دکان کا بھی چکر لگاتا تھا۔باپ کو کاروبار بڑھانے کے زود اثر نسخے بھی سجھاتا رہتا۔’ کہنے لگا: ” ایک طریقہ ہے سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے” اورنگ زیب نے بھنویں سکیڑ کر گھبرو بیٹے کی طرف فخریہ دیکھا۔
"نہ یار! خدانخواستہ۔۔۔۔ ،” نوشیرواں عادل ہموار آواز میں بولا: "بابا! آپ ٹینشن نہ لیں میں لمحہ لمحہ پلان کروں گا، ایک اعتباری بندہ بھی نظروں میں ہے،ایسے معاملات میں حوصلے بڑے رکھنے پڑتے ہیں ،ماہر نشانہ باز ہے گولی ٹانگوں کو چھوتے ہوئے گزر جائے گی باقی رپورٹ میڈیکل افسر سے لکھوا لیں گے۔اورنگ زیب میاں صاحب کے خدشات لفظوں میں لرز رہے تھے۔ "یار دیکھنا۔۔زرا خیال رکھنا ،
خدا نخواستہ۔۔”
اوہ ! فادر !ٹینشن نہ لیں جی ! دیکھتے جائیں، ہوتا کیا ہے ! دیکھتے ہی دیکھتے ٹینشن کیا ، آسمان ہی سر پر ٹوٹ پڑا۔
تفتیشی افسر نے وائس میسج سنتے ہوئے اورنگ زیب میاں صاحب کو کہا: ” مقتول کی آواز میں ایسا اطمینان اور سر خوشی ہے جیسےقاتل کو نہیں محبوبہ کو دیکھ رہا ہے۔”
نوٹوں کی گڈیاں تفتیشی افسر کےدراز میں تھی اسلیے دبدبہ ہنوز اورنگ زیب کی دکھ سے کپکپکاتی آواز میں موجود تھا،” باقی باتیں چھوڑیں جناب ! آپ بیان پرغور کریں یہ ہی آخری میسج ہے جو نوشیرواں عادل نے اپنے سیل فون سے مجھے سینڈ کیا۔” تفتیشی افسر نےپھر سےمیسج سننے لگا۔نوشیراں کی آواز کمرے میں سرسرا رہی تھی۔ "بابا ! میں زمینوں پر آیا ہوں ،ٹیوب ویل کی طرف جارہا ہوں ،چچا موٹر سائیکل پر میرا پیچھا کررہا ہے اس کےہاتھ پسٹل بھی ہے۔”
"صرف گرفتار نہیں کرنا بےعزتی بھی کرنی ہے چپیڑیں بھی لگانی ہیں۔” ہدایات جاری کر دی گئیں۔
یہ پیسے کی طاقت تھی کہ پولیس بوہے باریاں پھلانگ کر نہیں، توڑ کر پروفیسر غلام حیدر کے گھرمیں گھسی ، وہ قسمیں اٹھاتارہا ،: "میں تو کالج بھی نہیں گیا طبیعت خراب تھی سارا دن گھر پڑا رہا” لیکن بھین چود، دھی چود کی قے کرتے ہوئے ، تھپڑ مکے مارتےہوئے بیوی بیٹیوں کے سامنے غلام حیدر کو گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا۔پروفیسر کی عینک فرش پر گر پڑی تھی کسی بوٹ تلے آکر کچلی گئ۔بیٹی نے سسکتے ہوئے کہا : "بابا کو تو عینک کے بغیر نظر نہیں آتا ،اب وہ کیا کریں گے۔؟؟” پولیس ریمانڈ پر ریمانڈ لیتی رہی ، پر کچھ ہفتوں یا مہینوں بعد غلام حیدر چھوٹ کر گھر آگیا اور پھر کچھ دنوں بعد ہی کسی چاپ کا رات گئے گلیوں میں پھیرا شروع ہوگیا۔ رات جیسے جیسے بھیگتی جاتی، ایک سایہ سا دیوانہ وار گھومتا،وہ ہر رات کسی گھر کے گیٹ کےباہر دیوار سے کان لگائے دیر تک کھڑا رہتا تھا ، چار دیواری کے مقیم جانتے تھے کہ وہ کون ہے !کیا ہے اور کیوں ہے !! لیکن خاموشی اوڑھے رہتے تھے۔ دن کی روشنی میں تو کئیوں کاپانج بار مسجد میں اورنگ زیب میاں صاحب سے ٹاکرا ہوتا ،علیک سلیک ہوتی، ہر بار خیر خیریت بھی پوچھی جاتی ،پر رات کی بات نہ ہوتی تھی۔ رات گئی بات گیا والا معاملہ بھی نہیں تھا۔ بات تو جاتی ہی نہیں تھی، بات تو ایسی لاش بن گئی تھی جو بیچ چوراہے کے پڑی ہو،پٹریفیکشن شروع ہو، کیڑے کلبلا رہے ہو لیکن اسے دفنایا نہ جارہا ہو یا دفنایا نہ جا سکتا ہو تعفن چاروں سَمت پھیلتا جارہا تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے