مزدُوروں میں مقبُول ہونے کا صِرف ایک ہی راز ہوسکتا ہے،کہ آدمی حقیقت میں مُخلِص ہو۔ورنہ خالی پیٹ والے لوگ کِسی کی تعریف کرنے میں رواداری سے کام لینے کے قائل نہیں ہوتے۔ یہاںمَیں نے جِتنے لوگوں سے بات کی، سب نے اُس کے قصیدے ہی بیان کیے۔ حالانکہ اس طبقے کے بیانات کے بارے میں،مَیں کُچھ مشکُوک ہی رہا ہُوں کہ بھُوک بیان بدلوانے پر بھی بہُت قادر ہوتی ہے۔
کبھی کبھار چودھری صاحب سے بھی مُلاقات ہوجاتی تھی۔خلافِ توقّع مجھے دیکھ کر اُن کے چِہرے پر مہربان سی مُسکراہٹ بِکھر جاتی جو مجھے کبھی بھی اُن کی شخصیّت سے میل کھاتی نہ لگتی تھی۔ بہر حال اُن کے تمام ماتحت اُن سے مُطمئن تھے، اِس لیے خواہ مخواہ مسائل پیدا کرتے پِھرنا میری عادت نہیں تھی۔ مَیں یُوں ہی مزدُوروں سے گپ شپ لگایا کرتا اورواپس ہو لیتا۔سیاہ کُولتار کی سڑ ک پر چلتے ہوئے، جو فیکٹری کی عمارت سے باہر گیٹ تک جاتی تھی، مَیں ہمیشہ چودھری صاحب کی قِسمت پر رشک کرتا ہُواجاتا۔اُن کی سیاہ چمکدار گاڑی، اُن کی پُروقار اور رُعب دار شخصیّت کے ساتھ بہُت جچتی تھی۔ اُونچا،لمبا قد، بھرا بھرا جِسم،خُوب صُورت سیاہ بال جِن میں اب سفیدی جھلکنے لگی تھی اور وُہ اُن کی مہربان سی مُسکراہٹ !!۔انسان چند لمحے کے لیے متاثر ضرور ہوتا۔یُوں تو متاثر کرنے کی ایک ہزار ایک وجُوہات تھیں اُن کے پاس !!۔ بے حِساب دولت، چمچماتی گاڑیاں،بڑی بڑی فیکٹریاں اور اُس پر اُن کی سجی سنوری شخصیّت اور دھیما لہجہ !! ۔پہلے مَیں بھی سمجھتا تھا کہ مزدُوروں کو تو ہر پتّھر کے صنم کو دیوتا بنانے کی عادت ہوتی ہے مگر اب یہ گاہے بگاہے کی مُلاقاتیں گو تعصُّب کی اُس دیوار کو توڑ تونہیں پائی تھیں جو ایک سچّے صحافی کو ایک اپر کلاس کے شخص سے ہوتا ہے مگر اُس میں دراڑیں ضرور پڑنے لگی تھیں۔
آج بھی حسبِ عادت مَیں نے بظاہر مزدُوروں سے گپ شپ لگائی۔ مگر دِل ہی دِل میں کِسی ایڈونچر کی تلاش میں فیکٹری آیا ہُوا تھا۔ یہاں چند مزدُوروں سے میری باقاعدہ دوستی ہوگئی تھی جو مجھے اندر تک کی کہانیاں بھی سُنا دیتے تھے۔ اِس لیے جب اُن کی زبانی بھی مجھے کِسی خطرے کی گھنٹی بجتی ہوئی سنائی نہ دی تو مَیںنے بھی مسیحا بننے کی کوششیں کم کرکے محض اُن کا دکھ درد سننے تک ہی اِکتفا کرلِیا۔ لیکن احمد سے باتیں کرتے کرتے میری زُبان کو یکدم بریک سی لگ گئی، جب مَیں نے ہجُومِ دُشمناں میں ایک تن تنہا کمزور اور پُر اَسرار سے وُجُود کو دیکھا۔مَیں اُسے لڑکی یا عورت نہیں کہہ سکتا تھا کیوں کہ وُہ بہر حال اپنے وُجُود سے بھی بڑی چادرمیں لِپٹی ہُوئی تھی۔خزانے کہِیں بھی چِھپے ہوں اپنے ہونے کے کُچھ نہ کُچھ آثار ضرور چھوڑ جاتے ہَیں!اِس لیے کامِل طور پرچادر میں چِھپی ہونے کے باوُجُود اُس کاوُجُود درخت میں دُبکی ہُوئی کِسی سہمی فاختہ کی یاددلاتا تھا جِسے پیٹ کی خاطر ہر صُورت نیچے اُترنا ہی پڑتا ہے۔ چاہے وُہ جانتی بھی ہوکہ نیچے دامِ فریب بِچھا ہے۔ وُہ اُفق پرٹُوٹے تارے کی طرح صِرف ایک لمحہ کو نمُودار ہُوئی اور غائب ہو گئی۔مگر اپنے پیچھے روشنی کی ایک لمبی لکیر چھوڑ گئی تھی۔ہاں، مَیں نے شاید چادر میں سے نِکلا ہُوا اُس کا ہاتھ ہی دیکھا تھا۔مگر میری نِگاہوں میں اب تک روشنی جِھلملا رہی تھی۔ مَیں نے سوالیہ نظروں سے احمد کو دیکھا؟ ”رحیم بابا کی بیٹی ہے۔فیکٹری کے ساتھ ہی گھر ہے۔ روز دوپہر کو بابا کی روٹی لے کر آتی ہے“۔
مَیں نے رحیم بابا کی طرف دیکھا۔برف کی طرح سفید بال،خمیدہ کمر، جُھریوں سے بھرا چہرہ اور ہاتھوں کی پُشت پر نیلی رگوں کاجال۔اُس شخص کا نوبجے سے پانچ بجے تک فیکٹری میں کام کرنا! میری آنکھوں کے سامنے بہُت بڑا سوالیہ نشان بن گیاتھا۔مگر ایسے کئی ہزار سوالیہ نشان اِس مُلک کے ہر شہر میں ہر چوراہے پربِکھرے نظر آتے تھے۔
”لیکن بابا صبح روٹی لے کر کیوں نہیں آتا“؟مُجھے روشنی کا فیکٹری آنا سخت بُرا لگ رہا تھا۔ اُس کی چمک دمک دیکھ کر مَیں نے خُود ہی اُس کو روشنی کہنا شُرُوع کر دیا تھا۔ یار، ایک تو تُم سوال بہُت کرتے ہو۔دیکھ نہیں سکتے کہ وُہ کتنا بُوڑھا ہے۔صبح کی پکی ہُوئی روٹی کھاسکتا ہے؟“ اور دوسرا بابا کا کہنا ہے کہ لڑکی بہُت ضِدی ہے، اُسے صبح روٹی لانے بھی نہیں دیتی کہ اُسی وقت پکا کرلائے گی تاکہ ساتھ کوئی سبزی بھی لا سکے” یہ لڑکی پانچ سال کی تھی جب اِس کی ماں کا انتقال ہوگیا تھا۔ اِس سے چھوٹی بہن اورایک بھائی ہے۔خُود مُشکل سے سولہ سال کی ہوگی۔ بابا نے ماںبن کرپالا ہے اِسے۔یار عامر! یہ بابا اِتنا بُوڑھا نہیں ہے۔یہ تو غم اور حالات نے اِسے عمر رسیدہ کردیا ہے۔ مجھے اِس سے زیادہ معلُوم نہیں، یہ بھی بابا نے خُودہی بتایا تھا، ورنہ اُس کی بیٹی کے بارے میںکبھی کِسی نے کوئی سوال نہیں کِیا۔تم چودھری صاحب کو جانتے ہونا! اِس مُعاملے میں بڑے سخت ہَیں۔اُن کی وجہ،سے کبھی کِسی نے اِس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔شاید اِس لیے بھی وُہ بے خطر ہر روز چلی آتی ہے۔سب بابا کی اور اُس کی بڑی عزّت کرتے ہَیں۔مگر جانتے ہو آج تک کِسی نے اِس کی شکل نہیں دیکھی“۔ مَیں نے دوبار بڑے غور سے بابا کا جائزہ لِیا۔ اُس کے ماتھے سے پسینے کی لکیریں بہہ، رہی تھیں۔ جِسم محنت سے چُور چُور نظر آتا تھا مگر آنکھوں میں کُچھ کرگُذرنے کی لگن تھی۔مجھے اُس لمحہ وُہ بڑا ہی عظیم لگا۔ اُس کی آنکھیں بڑی مُعتبر لگیںجِن میں یقینا اُس لڑکی کے لیے بہُت اُونچے اور حسین خواب ہوںگے۔مَیں نے دِل ہی دِل میں اُسے ڈھیر دعائیں دیں اور چلا آیا۔ میرا آنا جانا یُوں ہی لگا رہا اور ایسے میں سہمی ہُوئی فاختہ اور روشنی کی لکیر اُبھرتی اور ڈُوبتی رہی یہاں تک کہ ایک صبح جب میں فیکٹری گیا تو ایک دِل ہلادینے والی خبر میری مُنتظرتھی۔ ”بابا کی بیٹی مر گئی ہے“ میرا دِل چاہا احمد کا مُنہ نوچ لُوں۔فاختہ اُڑے گی نہیں تو اُس کے سفید پر آسمان کی نیلاہٹوں کو کیسے اُجاگر کرےں گے؟ اُفق پر سِتارہ نہیں جِھلملائے گا تو روشنی کی لکیریں لوگوں کی رہنمائی کیسے کریںگی؟….
گُلابوں کو کُچھ دیر تو مہکنا چاہیے ۔ہوائیں جُھوم کر نہ چلیں تو حبس کیسے کم ہو گا؟خُوشبُو کیسے پھیلے گی؟ سبز پتّوں والے درخت سُوکھ گئے تو بھٹکے ہوئے مُسافر کہاں ٹھہریں گے؟ نہیں یُوں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ نہیں ہوسکتا،مَیں سر جھٹک جھٹک کر کہہ رہا تھا مگر آسمان کی سُرخی اور گرد آلُود ہوائیں مُجھ سے کہہ رہی تھیں کہ ایسا ہُوا ہے ایسا ہوگیا ہے ۔میرا دِل موم بن کر بہہ جانا چاہتا تھا ” مگر ایسا ہُواکیسے؟ “ مَیں نے احمد سے پُوچھا۔ ” بابا کہتا ہے کہ رات وُہ حسبِ معمول سوئی تھی مگر صبح جب وُہ اُسے جگانے گیا تو وُہ جا چکی تھی!!“،”اِتنی آسانی سے؟؟“ میرے حلق میں کُچھ اٹک کر رہ گیا۔ من من بھر قدم اُٹھائے واپس آیا۔ فضا اِتنی تاریک تھی کہ مجھے کُچھ دِکھائی نہیں دے رہا تھا یا پِھر میری آنکھیں ابھی تک اُس کی روشنی سے چُندھیائی ہُوئی تھیں۔ ہاں میرے لیے وُہ لڑکی روشنی کا مینارہ ہی تھی، جِس نے بُوڑھے باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے اپنے ریشم جیسے وُجُود کو قربان گاہ پر رکھ دیا تھا ۔ابھی تو مَیں اس کے عزم و ہمت کی داستاں بابا سے سننے کی ہمت جمع کر رہاتھا۔ کہ کونج ڈار سے بِچھڑ گئی تھی۔ سر ہاتھوں میں دیے مَیں کافی دیر سے بابا کے متعلّق سوچ رہا تھا جِس کی ساری مزدُوری ایک لمحے میں چِھن گئی تھی۔ جِس کی آنکھوں سے خواب پَل بھر میں کانچ کے برتن کی طرح ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئے تھے۔ وُہ سوچتا ہو گا کہ جانے کے دِن تو میرے تھے روشنی کے تو یہ سُرخ جوڑا پہننے کے دِن تھے پِھر اُس نے سفید لِباس کیوں مُنتخب کر لِیا۔ مَیں نے سوچا، مَیں ضرور اُس کو تسلّی دینے جاو¿ں گا۔اور اِس اچانک موت کی وجہ، بھی جان کر رہُوں گا۔
اِس بات کو تین دِن گُذر چکے تھے۔بُجھے دِل سے مَیں احمد کو ساتھ لیے بابا کے گھر چلا گیا۔گھر کے باہر کی فضا سخت ویران دُھندلائی ہُوئی اور تنی تنی سی تھی۔ ہوائیں بین کر رہی رہی تھیں اور بادل ماتم کناں تھے۔ بابا کی کمر کُچھ اور جُھک گئی تھی۔چِہرے کی جُھریوں میں بے پناہ اضافہ لگ رہا تھا اور ہاتھوں کی پُشت پر نیلی رگوں کاجال کُچھ اور پھیل گیا تھا۔اُس نے اِتنی زخمی نظروں سے مجھے دیکھا کہ مجھے اپنی رُوح تک چھلنی ہوتی ہُوئی محسُوس ہُوئی۔مَیں نے بابا کے کندھوں پر ہاتھ رکھے مگر کوشش کے باوُجُود ایک لفظ بھی میرے مُنہ، سے نِکل نہ سکا۔ بڑی گُھٹن اور خاموشی کے بعد بمشکل وُہ ہی گویا ہُوا” وُہ ایک فرشتہ تھی، بیٹے۔ نیکی، نُور اور مہربانیوں کا فرشتہ۔اُس نے میرے آنگن کو روشنی اور خُوشبُو سے بھر دِیا تھا مگر بیٹا فرشتے کبھی زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے، وُہ خُوشیوں اور امن کا پیغام دیتے ہَیں،روشنی اور خُوشبُو پھیلاتے ہَیںاور چلے جاتے ہَیں“۔ اُس کے بعد وُہ کُچھ دیر تک چودھری حشمت کی بڑائی اور عظمت کے گُن گاتا رہا ” ہماری اِنتہائی غُربت کے باوُجُودصاحب نے میری بیٹی کے شایانِ شان اُس کا جنازہ کروایا تھا۔ بیٹا مَیں تو اُس کی رُخصتی پر بھی اِتنا خرچ نہیں کرسکتا تھاجِتنا اُنھوں نے اُس کی موت پر کر دیا!“ ۔بابا کو اَن کہی کہانیاں سُناتا چھوڑ کر مَیں اپنے دفتر چلا آیا۔کیوں کہ مُجھے سُنی ہُوئی کہانیوں اور روشنی کی زندگی میں کوئی مُطابقت نظر نہ آتی تھی۔ دفتر میں میری میز پر انجانی تحریر والاایک لفافہ پڑا تھا۔مَیں نے خط کھولااور پڑھنے لگا۔
” عامر صاحب! مَیں آپ کے لیے اجنبی ہُوں مگر آپ میرے لیے اجنبی نہیں کیوں کہ اخبار میں اکثر آپ کے کالم پڑھتی ہُوں۔مَیں نے دسویں جماعت تک پڑھا ہے۔ اگر یہ لِکھنے بیٹھوں کہ کیسے پڑھا ہے تو رات بِیت جائے گی اور میرا سفر ادُھورا رہ جائے گا۔ مَیں اِس صبح کا مُنہ نہیں دیکھنا چاہتی جِس کے اُجالے میں ہم جیسی اُجلی لڑکیوں کے مُنہ کالے ہوجاتے ہَیں۔اِس لیے مَیں جِتنا لِکھوں گی اِس کو ہی بہُت بہت سمجھ لینا۔ویسے بھی میری تحریر شاید میری ہی طرح کمزور ہوگی مگر میری کہانی کمزور نہیں، یہ اتنی جاندار ہے کہ بڑے بڑے سورماو¿ں کے دِل ہِلا دے گی۔اور رشتوں کی شہ رگ کو کاٹ کے رکھ دے گی۔ میرے لیے محبتوں اور شفقتوں کا ایک ہی نام تھا اور ایک ہی چہرہ….بابا!!!….چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے تو یہ چہرہ مَیں ہی تھی (جب یہ چہرہ ہی نہیں رہا تو مَیں کیوں رہُوں؟)ہمیں زندہ رکھنے کے لیے بابا کو اپنا خُونِ جگر جلانا پڑا جبھی تو اُنھوں نے میلوںکی مسافتیں لمحوں میں طے کرلی ہَیںورنہ میرے بابا کی عُمر ِاتنی نہیں ہے۔ میرا ایمان تو صِرف بابا ہے، کیوں کہ میری آنکھوں نے صِرف اُسے اور اُس کی سچائیوں کو ہی دیکھاہے اور چُھوّا ہے۔ میری ضرُورتیں اُس نے ہی مر مر کے پُوری کی ہَیںاِس لیے مَیں اُسے ہی دیوتا مانتی ہُوں۔میرے چھوٹے بہن بھائی ابھی تک جنگل میں کھِلنے والے پھُولوں کی طرح ہَیںجنھیں لہلہاتے اور بڑھتے جانے کے سِوا اور کوئی کام نہیں۔
مگرمیرے دِل میں اُن کی فِکر کے ساتھ ساتھ بابا کی محنتوں کا غم بھی ہر روز جوان ہوتا جاتاتھا۔ سو مَیں نے جی جان سے اُن کی خِدمت کو اپنا ایمان بنالیا۔ بابا چودھری حشمت علی کے گُن گاتے نہیں تھکتا تھا اُنھیںفرشتہ سمجھتا تھا۔ چُوں کہ بابا خُود خُدائی صِفات رکھتا ہے، اِس لیے دُوسروں کو فرشتہ سمجھنے میں دیر نہیں کرتا۔اُنہی کی زُبانی یہ قصیدے سُنتے سُنتے مَیں بھی اُنھیں ”فرشتہ“سمجھنے لگی۔اِسی لیے جب اُس صبح بابا نے خلافِ توقّع فیکٹری سے جلدی واپس آکر مجھے بتایا کہ فرشتے کی بیوی سخت بیمار تھی اور اتفاق سے آج اُن کے نوکروں کی فو ج بھی چھٹی پر ہے (عامر صاحب نوکروں کی فوج کو چھٹی کروائی گئی تھی) اِس لیے اگر بابا بُرا نہ منائیں تو مجھے اُن کی بیوی کے پاس شام تک بھیج دیں۔ بھلا دیوتاو¿ں کو بھی کوئی ناراض کرتاہے؟ بابا کا سفید سراُن کے اِحسانوں کے بوجھ تلے دبا ہُوا تھا۔اُنھوں نے اِس خدمت کو عین عبادت سمجھ کر مجھے اُن کے ساتھ بھیج دیا۔یہ فرشتہ نُما آدمی مجھے اور بابا کو گاڑی میں بٹھا کر اپنے وسیع و عریض بنگلے پر لے گیا، مجھے گھر کے اندر داخل کرکے اُس نے بابا کو وَہیں سامنے بٹھا کر مُجھے کچن دِکھایا ،کام بتایا اور پِھر وُہ بابا کے ساتھ ہی فیکٹری لوٹ گیا۔
مَیں جب کمرے میں داخل ہُوئی تو وہاں پُورے گھر میں کوئی نہیں تھا۔ مَیں نے دروازے کو دیکھا، وُہ بند تھااور عامر صاحب! مجھے اُن کے بُلند و بالا دروازے کھولنے کی ترکیب نہیں آتی تھی کیوں کہ ہمارے گھر میں تو صِرف کمزور سی کُنڈیاں ہی لگاتے تھے۔ مَیں جلدی جلدی کام ختم کرنے کے چکّر میں برتن دھونے لگی۔ کوئی پینتالیس منٹ کے بعدیہ شخص واپس آگیا،مجھے کچن سے باہر بُلایا اورایک خُوب صُورت پیکٹ دیا، اِس میں نیا لِباس ہے وُہ پہن لو۔تم اِن کاموں کے لیے نہیں بنی ہو۔ اُس نے برتنوں کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہا۔ بابا کی طرح مَیں نے بھی مِیلوں کی مسافتیں لمحوں میں طے کرڈالیں۔اگر اُس وقت آپ مجھے دیکھتے تو میرا سر بھی آپ کو سفید نظر آتا اور کمر خمیدہ، مُجھے ہر طرف فاختائیں اور باز اُڑتے ہوئے نظر آنے لگے!!! مَیں نے اُونچی اُونچی دیواروں کو دیکھا اور بند کھڑکیوں سے دُور پرے آسمان سے باتیں کرتی دیواروں کو!! چیلیں اُڑتی ہُوئی آسمان کی وسعتوں میں گُم ہو رہی تھیں۔مَیں جنموں تک بھی روتی رہتی تو کوئی میری آواز نہ سُنتا۔اُس نے مجھے بتایا کہ مَیں اُس کی پانچ سالوں کی ریاضت ہُوں۔اُس نے ہر دِن مجھے کھانا لاتے اور واپس جاتے دیکھاتھا۔اُس نے میرے ہاتھوں اور پیروں کو دیکھ کر ہی میری ساری ہڈیاں گن لی تھیں۔ عامر صاحب! میری محبت نے بابا کو مار ڈالا۔کاش مَیں اُن کی بات مان لیتی اور اُنھیں صبح ہی کھانا لے جانے دیا کرتی۔ مگر مُجھ پر تو بابا کی محبت کا بُھوت سوار تھا۔عِشق کِسی بھی رنگ میں ہومار ڈالتاہے!۔اُس نے مجھے بتایا کہ ُاس کی ایک بیٹی میرے برابر ہے مگر مَیں اُس کی مجبوری تھی وُہ کیا کرتا وہ دِل کے ہاتھوں بہُت مجبور تھا۔ بےچارہ یہ بڑے لوگ اور اُن کی مجبوریاں؟؟ میرے سپنے میرا وُجُود، میرا رنگ، میرا رُوپ اُسے کِسی لمحے جینے نہیں دیتا، وُہ تصوُّر میں ہرپَل میرے ساتھ رہتا تھا۔ اُس کی بیوی خُوب صُورت مگر بد مزاج ہے(لڑکیوں کو پھنسانے کے لیے مردوں کا مخصوص بہانہ) اُسے کبھی دُوسری شادی کی اجازت نہیں دے گی، اِس لیے مجبوراً مجھے اُسے یُوں ہی مِلنا پڑا کرے گا مگر اُس کے عِوض وُہ مُجھے سونے میں تول دے گا۔ اور میرے گھر والوں کو زمین سے آسمان پر بٹھا دے گا۔ اور میرے توسب خواب پُورے کرے گا خوابوں کا مطلب نہیں جانتا تھا وہ پِھر اُس کمرے نے،اُس بنگلے نے اور اُس کی دیواروں نے جو کُچھ سُنا اور جو کُچھ دیکھا آپ کبھی اُن سے ضرور پُوچھ لینا مجھے یقین ہے کہ وُہ کُچھ نہ کہہ پائیں گی۔ دیواریں اِتنی سنگدِل نہیں ہو سکتیںکہ اِتنی رُوح فرسا کہانی کو لفظوں میں بیان کردیں۔ ہاں، دیکھ لینااُن کی رگوں سے خُون ضرُور بہنے لگے گا۔اور اُن کے بین آپ کو کُچھ بھی سُننے نہیں دیں گے۔ دِل چیر دینے والی کہانیوں میں لفظ کہاں، لہو ساتھ دیتا ہے۔اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کی بیوی کی خِدمت کے لیے مجھے آتے جاتے رہناپڑے گا۔کیوں کہ وُہ میرے بغیر جینے کا تصوُّر بھی نہیں کر سکتا،اُس کی بیوی اکثر بیمار رہا کرے گی یعنی جب بھی وُہ کہیں جائے گی۔فرشتہ بابا کو اُس کی بیماری کی خبر دے گا۔ یُوں بابا کو اس بات کی ہَوا بھی نہیں لگے گی اور مَیں اُس کے اور وُہ میرے سارے سپنے بھی پورے کر دے گا۔ ضرورتوں کا سر کچل کر مجھ جیسی کتنی لڑکیاں مصلحت کا زہر پی لیتی ہَیں۔
مَیں نے ایک لمحے کے لیے اِن ساری پیش کشوں پر غور کِیا۔ جو جگ مگ جگ مگ کرتے ہیروں کے تھال میں رکھ کرمیرے سامنے رکھی گئی تھیں۔ پِھر بابا کی آنکھوں اور اپنے دِل میں جھانکا…. ہم دونوں نے لات مار کر تھال کو دور پھینک دیا تھا۔اِنکار کی صُورت میں اُس نے جو کہانیاں مجھے سنائیں، وُہ بھی آپ اُس حویلی کی دیواروں سے سُن لیجیے گا۔ کیوں کہ رات کے نالے اتنے بلند ہونے لگے ہَیںکہ مجھے ڈر ہے اُن کی آوازوں سے ہمارے کچّے مکان کی دیواریں نہ ڈھے جائیں۔آسمان کا چہرہ اِتنا سیاہ ہونے لگا کہ مجھے خدشہ ہے اِس تاریکی میں کُچھ اور فاختائیں رستے سے نہ بھٹک جائیں۔عامر صاحب! مَیں بُزدِل نہیں ہُوں۔ مَیںنے بڑے ہی سخت دِن دیکھے ہَیں۔ بھوکا رہنے کا دُکھ، عیدپراُترن پہننے کا دُکھ، بالی عُمر میں اپنے ہی بہن بھائیوں کی ماں بن جانے کا دُکھ اور ہستی سے نیستی میں ڈھل جانے کا دُکھ۔مگر آپ بتائیں! مَیں بابا کو کیا بتاتی؟؟۔ مَیں کیسے ہر روز اُس کی بیوی کی عیادت کو جاتی؟ ؟اور بابا کیا کر لیتا؟ وُہ تو اُس کو فرشتہ سمجھتا تھا۔ مَیں کِس اُمِّیدپر صبح کا اِنتظارکرتی؟؟ عامر صاحب! ایسی کئی سُہانی صبحوں میں مرنا توپِھر بھی ہم جیسی لڑکیوں کو ہی پڑتا ہے، پِھر میرا یقین بھی کون کرتا؟فرشتے ضمانتوں اورجھوٹے الزاموں کا دُکھ مُنہ پر سجا کر آزاد پِھرتے رہتے ہَیں۔مَیں اپنی تصویر بھی آپ کو بھیج رہی ہُوں۔دیکھ لیجیے کہ مَیں کتنی خُوب صُورت ہُوں اور لوگوں کو بتادیجیے گا کہ دولت کے انبار پر کھڑے ہوئے فرعون حُسن کو سونے کی زنجیروں میں جکڑ کر سزا بنادیتے ہَیں۔ یہ بھی لِکھیے گا کہ لوگ بے چارے اپنی خباثت پُوری کرنے کے لیے جِتنی چاہیں شادیاں کر لیا کریں۔ مگر معصُوم پرندوں کے پر نہ نوچیں ۔مگر عامر صاحب! میرانام مت لِکھیے گا کیوں کہ ہم دونوں میں سے ایک کو تو بہر حال مرنا ہی تھا اور مَیں نے زندگی بابا کو بخش دی ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے