یہ کہانی ہے گل محمد کی جو چاغی کی پہاڑیوں کے دامن میں اپنی بیوی مینا اور چالیس بکریوں کے ساتھ برسوں سے ایک ہی طرح کی زندگی جی رہا ہے۔ روزانہ صبح سویرے اٹھ کر اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ اپنے پڑوسیوں اور جاننے والوں کے مویشی بھی اکھٹا کرتا ہے اور پہاڑی کے دوسری طرف ایک کھلے میدان کا رخ کرتا ہے جہاں برائے نام ہی گھاس رہ گئی ہے مگر اس کے لئے وہاں جانا ہی اس کی روزی کا واحد ذریعہ ہے –
اسے گزشتہ کئی ماہ سے کھانسی کی شکایت ہے ۔اکثر رات کو بخار بھی ہو جاتا ہے ۔لیکن وہ اپنی دیکھ بھال کی طرف سے غافل رہتا ہے ۔حالانکہ آج تو کھانسی کا دورہ خاصا شدید تھا اور قریبی جھاڑیوں میں بلغم تھوکتے ہوئے اس نے اپنے تھوک میں خون کی آمیزش بھی دیکھی – ایک لمحے کو چونک سا گیا پھر فورا ہی اسے معمول کی بات سمجھ کر نظر انداز کر کے بکریوں کے پیچھے چل پڑا جو گھاس کی تلاش میں کافی دور نکل گئی تھیں –
شام ہو چلی تھی گھر کی طرف پلٹتے ہوئے گل محمد اپنے ذہن میں پیر صاحب کے ڈیرے کی طرف جانے کا منصوبہ بنا رہا تھا – وہ سوچ رہا تھا ضرور کسی پہاڑی بدروح کا سایہ اسے تکلیف میں مبتلا کررہا ہے ۔ صدیوں اس کے آباو¿ اجداد مسلمان ہونے کے باوجود اسی عقیدے پر کاربند تھے ۔گل محمد تو اپنے ساتھ اپنی بھیڑوں تک کے لئے پیر صاحب سے تعویز لاتا تھا اور عجیب بات ہے کہ وہ تعویز پی کر ٹھیک بھی ہو جاتیں لیکن گل محمد کی بیوی مینا اس کی ان باتوں کو توہم پرستی قرار دیتی اور اپنے لئے چھپ چھپا کر علاقے کی کریانہ کے دکاندار کی بیوی سے کہہ کر پیناڈول منگوا لیتی مگر گل محمد سے بات کرنا تو ایسا ہی تھا جیسے کسی بھیڑ سے بات کر رہی ہو لیکن رات کو گل محمد کو مسلسل کھانستے دیکھ کر اسے فکر سی ہوئی
مینا : گل محمد میں دیکھ رہی ہوں تمہاری کھانسی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے شہر کے ہسپتال جاو¿ اور کسی ڈاکٹر کو دکھائو
کئی سال پہلے میری چاچی کو بھی ایسے ہی کھانسی ہوئی تھی تو شہر کے ہسپتال سے ٹھیک ہو گئی تھی
گل محمد نے اس کی طرف غصے سے دیکھا مگر کھانسی کے دورے نے کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا جب کھانسی کا زور کچھ کم ہوا تو مینا کی طرف متوجہ ہوا جو کچے صحن میں بیری کے درخت کے نیچے پڑی چارپائیوں پر رلی بچھا رہی تھی
گل محمد کو مینا پر غصہ کم ہی آتا مگر ڈاکٹر والی بات اسے بری لگی تھی
اپنے لہجے میں نرمی لاتے ہوئے بولا ” اری نیک بخت تو تیس سال سے میرے گھر میں ہے کبھی دیکھا ہے کسی نے بھی کوئی دوا لی ہو یہ سب پہاڑیوں کا آسیب ہے جب ہی تو یہاں کوئی ڈاکٹر بھی کبھی نہیں ٹکا ۔
میں کل ہی پیر صاحب کے ڈیرے پر جائوں گا اب کی مرتبہ بہت بھاری اثر ہوا ہے جو کھانسی بڑھ رہی ہے
مینا نے گل محمد کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا ۔وہ خاموشی سے سر جھکائے تکیہ سے بوسیدہ غلاف اتار کر نیا کشیدہ کاری والا غلاف چڑھا رہی تھی جو اس کی کئی دن کی محنت کے بعد مکمل ہوا –
اچانک اس نے سر اٹھایا اور کچھ سوچ کر بولی
گل محمد تمہارے بچپن کا کوئی دوست آیا تھا نور محمد نام بتا رہا تھا وہ کل پھر آئے گا تم سے ملنا چاہتا ہے
گل محمد سوچ میں پڑ گیا کون نور محمد ؟
پھر اپنے سر پر ہاتھ مار کر بولا "ارے وہ تو بہت سال پہلے گھر سے بھاگ گیا تھا وہ ہر وقت شہر جانے کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔ مجھے بھی اکساتا تھا پھر اچانک ہی غائب ہو گیا اور اس کے بعد کوئی خیر خبر نہ ملی آج اتنے سالوں بعد کہاں سے آگیا
گل محمد کافی پرجوش ہوگیا تھا وہ دیر تک مینا سے اپنے اور نور محمد کے بچپن کے قصے دہراتے جانے کس وقت نیند کی وادی میں چلا گیا
اگلے دن نور محمد اسے دروازے پر ہی مل گیا
دونوں دوست بے تابی سے گلے ملے
کہ دفعتاً ”گل محمد کو پھر سے کھانسی اٹھنے لگی
نور محمد چونک کر تھوڑا فاصلے سے ہو گیا چند لمحے خاموش رہنے کے بعد فکر مندی سے بولا
دیکھو گل محمد ہم دونوں ہم عمر ہیں لیکن تم مجھ سے کتنے بوڑھے دکھائی دے رہے ہو
گل محمد نے ہنس کر جواب دیا ” شہر کی آب وہوا تمہیں راس آگئی ہے اسی لئے تم بجائے بوڑھے ہونے کے جوان ہوتے جا رہے ہو ”
نور محمد نے کہا ہاں شہر جا کر میں نے بہت محنت کی کتنی دکانوں اور ہوٹلوں پر کام کیا چائے کے کھوکے سے موٹر مکینک تک کتنے سال لگے لیکن آخر کار اب میری اپنی ورکشاپ ہے اور رہنے کو چھوٹا سے کواٹر بھی ۔
گل محمد اس کی طرف دیکھ کر حسرت سے بولا چلو اچھا ہوا تمہارے ماں باپ تو تمہارے لئے بہت تڑپے مگر تم نے پلٹ کر خبر ہی نہ لی
نور محمد کے لہجے میں تلخی اتر آئی۔ وہ تنک کر بولا جیسے تم جانتے نہیں۔ بابا کتنا مارتا تھا ماں کی باتوں میں آکر ۔
ہاں یاد ہے وہ کچھ بتانا چاہتا تھا لیکن پھر سر جھکا کر اپنے پاو¿ں کے انگوٹھے سے ریتیلی زمین کریدنے لگا
کچھ دیر بالکل خاموشی رہی بس بکریوں کے منمنانے کی آواز نے ماحول کو زندگی سے معمور رکھا ہوا تھا
پگڈنڈی کے اونچے نیچے راستے پر آگے بڑھتے دونوں دوست پرانی یادوں میں کھو سے گئے
ابھی وہ چڑھائی کے دوسری طرف نہ پہنچے تھے کہ گل محمد کو کھانسی نے بے حال کر دیا
نور محمد نے حتمی انداز میں اپنا فیصلہ سنا یا
” بس تم آج ہی میرے ساتھ شہر جا رہے ہو ” گل محمد کہتا رہ گیا بہت سے کام ہیں پھر کسی دن میں ضرور تمہارے گھر جاو¿ں گا لیکن نور محمد نے اس کی ایک نہ سنی اور وہ دونوں دوپہر کو اس کی سیکنڈ ہینڈ ویگن میں شہر کی طرف جا رہے تھے
نور محمد نے ٹی بی ہسپتال میں اس کا سارا چیک کروایا اور کئی ٹیسٹ کے بعد اس کا شک یقین میں بدل چکا تھا۔ گل محمد کو ٹی بی تھی لیکن ابھی ان مراحل میں تھی کہ مسلسل علاج کے بعد وہ مکمل طور پر صحت مند ہو سکتا تھا – وہیں ایک ہیلتھ وزٹر سے ان کی ملاقات ہوئی جو ان کے علاقے میں ٹی بی کے بارے میں تحقیق کر رہا تھا۔ گل محمد شہر میں کئی دن گزار کر گاو¿ں واپس آ گیا اور پھر اپنی سست رفتار زندگی میں مصروف ہو کر دوا دارو سے ایک بار پھر بےگانہ ہو چکا تھا البتہ پیر صاحب کے تعویزوں پر اس کا اندھا اعتقاد اسے باقاعدگی سے ان کے ڈیرے پر لے جاتا ۔
مگر دوسری طرف ہیلتھ وزیٹر جو اپنے کام میں دیوانہ وار پوری تندہی سے ٹی بی کے خاتمے کی کوششوں میں لگا تھا ۔
پہاڑوں کے دشوار گزار راستوں سے گزرتا اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر چلتا ان کے گاو¿ں آ پہنچا تھا۔ اس نے گاو¿ں کے سردار اور پنچایت کے سرکردہ افراد سے ملاقات کی ۔ہیلتھ وزیٹر زین بلوچ نے آج تک جرگے سے متعلق جو منفی کہانیاں سنی تھیں ان بزرگوں اور نوجوانوں سے مل کر اس کا یہ تاثر زائل ہو گیا ۔زین بلوچ نے اپنا منصوبہ ان کے سامنے رکھا تھوڑے پس و پیش کے بعد وہ اس کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ ہو گئے اس نے اور بھی کئی لوگوں کے تھوک اور بلغم کے سیمپل لے لئے تھے رپورٹ کے مطابق علاقہ میں ٹی بی تیزی سے پھیل رہی تھی جس کے انسداد کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت تھی
گل محمد جیسی سوچ والے مریضوں کو سمجھانا ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی جو اس علاقے کی صدیوں سے جمی ہوئی پسماندگی کا نتیجہ تھی لیکن زین محمد کو جرگے کے لوگوں کا ساتھ مل گیا تھا سو کافی پر امید و پر عزم تھا۔
مگر یہ کیا گل محمد کسی ڈاکٹر کے کلینک یا زین بلوچ کے بنائے ہوئے کیمپ میں جانے کے بجائے اپنے پیر صاحب کے ڈیرے پر ہی جا پہنچا تھا اس کے ساتھ اور بھی کئی لوگ تھے جو اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے تھے
کافی دیر گزرنے کے بعد گل محمد ڈیرے سے باہر نکلا اس کے ہاتھ میں تعویزوں کا تھیلا تھا اور ایک اور پیکٹ بھی تھا پیر صاحب کی ہدایت کے مطابق اسے تعویز کے ساتھ ایک گولی صبح اور شام کھانی تھی اور تعویز کے پانی میں ایک چمچہ کو کڑوا پاوڈر بھی گھول کر پینا تھا
ڈیرے کے باہر زین بلوچ کا کیمپ خالی تھا لیکن وہ کنکھیوں سے گل محمد اور اس کے ساتھیوں کو پیر صاحب کے ڈیرے کی طرف سے آتے دیکھ کر مسکرا رہا تھا اس کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تھا ادھر گل محمد بھی حیران تھا اس مرتبہ پیر صاحب کے تعویز معجزاتی طور پر کھانسی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہے تھے ۔مگر پیر صاحب نے سختی سے ہدایت کی تھی اگر کوئی بکری بیمار ہو جائے تو یہ پاوڈر اور گولی نہ دے ہاں البتہ تعویز پلا سکتا ہے –