(یادیں اور خاکے)

ڈاکٹر عصمت ناز "مروت و مودت کا پیکر وضعدار خاتون” علمی وادبی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔بہت سے علمی وادبی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں اردو،انگریزی،پنجابی ،سرائیکی ,عربی ،فارسی ،ہندی اور چینی زبا نوں پر عبور رکھتی ہیں لیکن ان کا امتیازی اور نمایاں کارنامہ اردو اور چینی زبان پہ لکھی جانے والی دنیا کی پہلی لغات ہے۔ سیمینار ز،کانفرنسزاور ورکشاپس میں ہمیشہ متحرک نظر آتی ہیں۔کچھ عرصہ وویمن یونیورسٹی ملتان کی وائس چانسلر بھی رہیں ہیں۔ زیر نظر کتاب کا نام”جن لمحوں میں ہم ساتھ رہے ” قاری کو ایک لمحے کے لئے چونکا ضرور دیتا ہے لیکن جلد ہی وہ نام کے رومانس سے نکل کر وقت کے ان لمحوں کے سحر میں مبتلا ہوجاتا ہے ،جو عصمت ناز نے بحیثیت طالبہ ،پروفیسر اور وائس چانسلر کے گودنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین کچہری روڈملتان میں گزارے تھے۔یہ کالج ایک دورمیں خواتین کے لئے جنوبی پنجاب کاسب سے بڑاادارہ تھا ۔ہر طالبہ یہاں داخلہ لینا چاہتی اور ،ہر نئی لیکچرر یہاں جوائین کرنا چاہتی تھی ۔ایک زمانے میں میرا بھی یہ عشق رہا ہے۔صد شکر کہ قدرت نے میرا یہ خواب ہورا کیا ۔کالج اور پھر یونیورسٹی بن جانے کے بعد بھی مجھے یہاں تدریسی فرائض انجام دینے کا موقع ملا۔۔۔۔ عصمت ناز نے کالج کے اس خوبصورت دور کو بڑی دلبستگی و وارفتگی کے ساتھ یاد کیا ہے۔ٹیچنگ سٹاف کی تعداد اس زمانے میں کم وبیش سو کے قریب ہو ا کرتی تھی عصمت ناز نے ضخامت کے خوف سے ادھے یعنی اکاون لوگوں کو موضوع بحث بنایا بقایا کو وعدہ فردا پہ ٹر خایا ہے۔اللہ کرے کہ وہ ایفائے عہد کا پاس کرتے ہوئے باقی لوگوں کی یادوں کے جگنو بھی اپنے ذہن کے گوشے سے نکال کے صفحہ قرطاس کی زینت بنادیں ،اس طر ح آنے والے دور میں یہ دستاویز اپنے بہترین وقت کی گواہی دے سکے گی۔شیرین وتلخ،نرم وگرم یادوں کی چلمن سے جھانکنے سے پہلے عصمت نے وابستگان ملتان یعنی اس علاقے کے منارہ نور ،علم ودانش کے روشن چراغوں کو بھی بطور گواہ شامل کر لیا ہے۔اغاز شعبہ اردو کے روح رواں،شاگردوں کی جاں تہذیب ملتان کے پاسباں ڈاکٹر انوار احمد کی رائے سے کیا گیا ہے۔انوار صاحب لکھتے ہیں ” یہ ایک نگار خانہ ہے ،تیزی سے گھومتا ہوا ابھی قہقہے ابھی مسکراہٹیں،ابھی خلع،احباب کی بے وفائی یا جائیدا د کے معاملے میں بہنوں کے مابین آزردگی ،ابھی دعوتیں ہیں اور پھر ایک لقمے کے لئے بھی تر ستی نظریں۔موسیقی اور ڈھولک ہے ،پھر عمرے اور مراقبے۔عصمت ناز تم نے یہ کیا لکھدیا؟”پروفیسر انور جمال کی رائے ہے "ان کو پڑھ کر ایسالگتا ہے کہ ایک چلتی پھرتی ،ہنستی مسکراتی،لہکتی مہکتی زندہ شخصیت ہمارے سامنے شب وروز گزار رہی ہے۔ان تحریروں میں کچھ خاکے ہیں،کچھ نوحے ہیں،کچھ یادیں ہیں ،کچھ ماضی کے واقعات،کچھ حال کی سچائیاں اور کچھ مستقبل۔۔۔۔۔۔ "ڈاکٹر نجیب جمال کے بقول”شخصیت نگاری دراصل تصویریں بنانے کا عمل ہے اس میں حرف آخر کے طور پر بلا تامل یہ کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر عصمت ناز نے بڑی سہولت سے نا صرف شخصیات کے مرکزے پر توجہ دی ہے بلکہ اس شخصیت کے گرد بنے ہوئے ہالے کو بھی نہایت سادگی مگر پر کاری سے واضح تر کردیا ہے”. ۔۔۔ پروفیسر مختار ظفر کی رائے ہے "یاد کے جھروکے سے پھر کسی نے جھانکا/ذہن پر اتر آئیں پھر کسی کی تصویریں۔۔۔۔۔ میں ڈاکٹر عصمت ناز کو کریڈٹ دوں گا کہ انھوں نے علم وادب کی دنیا کی اکاون شخصیات کو ہمیشہ کے لئے مستحضر کر دیا ہے۔ایسا کم ہی لوگ کرتے ہیں اور مجھے ایسے قلم کار ہمیشہ اچھے لگتے ہیں جو اپنے فکر ونظر کے حوالے سے اپنے دور کی شخصیات کو تاریخی نوعیت کی زندگی اور تابندگی عنایت کردیں”.۔۔۔۔۔۔ ملتان کی علمی وادبی شخصیت شاکر حسین شاکر لکھتے ہیں ” یہ کتاب ملتان کی علمی ادبی اور ثقافتی تاریخ کی پہلی اور منفرد کتاب ہے ،جس میں ایک خاتون نے اپنی ساتھی خواتین کے خاکے لکھے ہیں اور جن کو پڑھ کر کبھی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے تو کبھی یوں لگا جیسے ہم انہی خواتین سے مکالمہ کر رہے ہیں ،،۔۔ ۔۔۔۔۔ شعبہ اردو سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شاہدہ رسول لکھتی ہیں "حال کی تلخی قاری کو اس حسرت میں مبتلا کر دیتی ہے کہ کاش وہ محبتوں کے اس زمانے کا باسی ہوتا ،جہاں خونی رشتے سے بڑھ کر دوست ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ انسانی جذبوں کی پامالی کے اس دور میں یہ کتاب ایک ایسا دریچہ ہے ،جس کے اندر جھانکنے سے انسان کا فطری جذبہ محبت ضرور انگڑائیاں لیتا ہے۔۔۔۔ شاہدہ کے نزدیک جولوگ گزر گئے وہ ہر لحاظ سے قدروں اور روایات کے پاسدار تھے۔موجودہ دور میں پرانے عہد کی کچھ روشنی موجود بھی ہے تو ہوس زر اور مفاد پرستی کی چکا چوند میں وہ آہستہ آہستہ دھندلا رہی ہے میرا خیال ہے ہر ایک شخص کے تجربات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔دنیا ہر عہد ہر زمانے میں اچھے لوگوں سے سجی رہی ہے ۔یہ اور بات ہے کہ ہمیں اپنے دور سے پہلے والا دور ہمیشہ متاثر کرتا ہے ورنہ عصمت ناز کے خیال کے مطابق۔۔۔دوستوں کی دوستی اگر جیون کے شب وروز سے منفی کردیں تو یقین کریں سوائے خلا کے کچھ باقی نہیں بچتا۔۔۔۔۔۔ہم بہت سی باتیں ،بہت سی خوشیاں،بہت سے کرب ،بہت سے راز،بہت سے سپنے ،بہت سی خواہشیں اور بہت سے دکھ درد صرف اور صرف دوستوں سے ہی بانٹ سکتے ہیں۔کیونکہ دوستی میں عموماً اگر وہ واقعی حقیقی دوستی ہے تو کوئی منفعت،مصلحت اور منا فقت کے ساتھ ساتھ کسی چیز کا بٹوارہ نہیں کرنا ہوتااور وہ تلخیاں اور رنج والم جو بعض اوقات جانے یا انجانے میں اپنوں کی طرف سے ملتے ہیں ان کا مرہم اور مداوا دوستوں کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔اب سوال یہ پیداہوتا ہے آخر عصمت ناز کو بیٹھے بٹھائے یہ کیا سوجھی تو وہ خود حرف آغاز میں لکھتی ہیں۔۔۔۔ ایک روز ایسے ہی یادوں کی بارش میں بھیگتے ہوئے میں نے سوچاکہ اتنی پیاری ہستیاں بچھڑ گئیں ،بہت سے لوگ راہی عدم ہوگئے ،کچھ ریٹائرمنٹ کے بعد گوشہ تنہائی میں چلے گئے اور بہت سوں سے قریب ہوتے ہوئے بھی رابطہ نہیں ہوتا تو کیوں نہ ان کے بارے میں لکھا جائے۔۔۔ ان کی ذاتی زندگی کے اوراق کو کھو لا جائے۔یہ وابستگان ملتان ،روشنی کے وہ مینارہیں جنہوں نے اس خطے میں علم ودانش کے چراغ روشن کیے۔نہ صرف ملتان بلکہ ملتان کے گردو نواح کو بھی علم کے نور سے منور کردیاتھا۔عصمت لکھتی ہیں کہ میں نے صرف دل ودماغ کی وادیوں میں سفر کرتے ہوئے یادوں کی پٹاری کو کھولا ہے۔کسی سے براہ راست انٹرویو وغیرہ نہیں لیا کیونکہ میری دانست میں اس طرح تحریر کی خوبصورتی ماند پڑجاتی ہے ۔عصمت نے شخصیات کی تر تیب وتسوید میں نام کے پہلے حرف کو حروف تہجی کے مطابق مد نظر رکھا ہے اس طرح دوستوں میں سنیئر جونیر کے اختلاف کا خدشہ بھی زائل ہوگیا۔ جن شخصیات کو مو ضوع بحث بنایا گیا ہے بلاشبہ سبھی نابغہ روزگار ہستیاں تھیں لیکن کہیں کبھی کسی کی کوئی کیفیت دل پہ دیر پا اثر چھوڑ دیتی ہے تو دل بے اختیار کچھ لکھنے کو مچل جا تا ہے ہماری سینئر ساتھی مسزارشاداور ان کے شوہر خالد سعید ،دونوں کلاس فیلو،دونوں ہی پر وفیسر اور دونوں میں محبت بھی مثالی۔قدرت کی ستم ظریفی ،کہ اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔پھر یوں ہوا کہ خالد سعید کی وفات کے بعد "ایک طویل رفاقت،مگر ساتھ پل بھر میں چھوٹ گیا”رنجیدہ کرنے کو یہ ایک جملہ ہی کافی ہے۔بات یہ ہے کہ دکھ سکھ،اورخوشی غم زندگی کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔انسان قانون قدرت کے سامنے بے بس ہے عصمت کو اس کا خوب ادراک ہے کہیں ان کی تحریر زیر لب مسکرا نے پہ مجبور کرتی ہے توکہیں اشک بار آ نکھو ں کے ساتھ ہونٹوں پر مسکراہٹ مچلنے لگتی ہے اپنی استاد اور سینئر پروفیسر مس اسماء(جوہمیشہ غرارہ پہنتی تھیں)کے بارے لکھتی ہیں اپ ایک معصوم سی فلسطینی تحریک ہیں ،خاموش سی جد وجہد ہیں ،پر عزم سی منزل ہیں ،آپ کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے محلات میں بھٹک کر کوئی شہزادی ادھر ان نکلی ہو…….جدت اور جودت کا ایک اور انداز ،لفظوں کے ہیر پھیر سے تحریر کو توجہ جذب کرنے کے قابل بنانا ہے۔عصمت یہ گر بھی خوب جانتی ہیں کہ کالج کی خوبصورت لائبریرین مس خورشیدہ تھوڑی سنجیدہ مزاج کی حامل لئے دیے رہتی تھیں ۔عصمت کے بقول "خورشیدہ تعلقات کشیدہ کشیدہ”۔ لفظی آھنگ اور تکرار نے دلچسپی کے عنصر کو خوب بڑھایا ہے۔مزید دیکھیے”چشم تصور سے چھوٹا سٹاف روم دیکھ رہی ہوں۔”جہاں حاضری رجسٹر سب کا منتظر ہوتاتھا۔وہاں بیگمات کے درمیان بلا شبہ ہیرے جواہرات،اہم برانڈاور لاکھوں کی کمیٹیوں کا حساب کتاب ہوتا تھا”۔ یہاں ایک طرف مصنفہ کی یاداشت کی داد دینی پڑتی ہے تو دوسری طرف نقشہ کشی کمال کی نظر آتی ہے سارا منظر انکھوں کے سامنے رقصاں نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔۔شعبہ اردو کا تابندہ ستار ا،تنویر طارق۔۔۔ ہائے کیا چیز تھی ؟جس کو موت کے ظالم ہاتھ نے اچک لیا۔شوخ وشنگ تنویر خوش شکل،خوش لباس،خوش اطوار،خوش گفتاربظاہر بے نیاز سی ہر بات کو ہنسی میں اڑا دینے والی تنویر موت سے کتنی جلدی ہار مان گئی۔فون پہ بتاتی ہے”عصمت مجھے کینسر ہوگیا ہے۔کافی مہینوں سے علاج کرارہی ہوں۔بہت کمزور ہوگئی ہوں۔ابھی بھی کیمیو تھراپی چل رہی ہے ۔سر کے بال بالکل گر گئے ہیں۔میں تو بالکل ہی بد ل گئی ہوں۔آئینہ دیکھ کر خود ہی ڈر جاتی ہوں”۔۔۔۔ مسز ثریا آصف کالج کی انتہائی پروقار پرفیسر ریڈیو ملتان سے خبریں نشر کرتی تھی۔اچانک ان کی موت کی خبر کسی سانحے سے کم تونہ تھی۔ہائے اے موت تجھے موت کیوں نہ آئی۔۔۔۔۔اب زندگی کا دوسرا رخ دیکھیے ۔۔۔ شعبہ تاریخ کی جان مسز ثریا رحمان شاہانہ انداز ،نوابانہ طمطراق۔ ۔ ۔ خوشبووں سے مہکتا قیمتی پیراہن۔۔باوردی ڈرائیور دروازہ کھولتا تو قیمتی گاڑی سے نیچے قدم رکھتیں ۔بھلا ان کو نوکری کی کیا ضرورت ہے ؟لیکن یہ تو دل بستگی کا سامان تھانا ۔۔ اکلوتے بیٹے بلے کی شادی کی ساری پلاننگ تو کالج کے سٹاف اور سٹوڈنٹس کے ساتھ ہی کرتی تھیں ۔کہا کرتیں جب میرے بلے کی شادی ہوگی تو سارے سٹاف کو جوڑے پہناؤں گی۔پتہ نہیں بلے کی شادی کب ہوئی اور کس کس کو جوڑے ملے ۔مجھے تو بہرحال نہیں ملا تھا یا شاید میں ان دنوں کالج میں نہیں تھی۔۔۔۔۔۔اب بات کرتی ہوں پنجابی کی ٹیچر مسز ثمینہ بلا ل کی۔۔۔ کھلتاہوا رنگ اونچا لمبا قد ٹھیٹ پنجابی جٹی۔۔۔کالج کی تقریبا ت میں خوب فنون لطیف کامظاہرہ کرتی۔سوا نگ بھرنا جٹ بن کے ڈانس کرنا ،پھر نجانے اسے کونسی نظر بد کھا گئی گھر ہی اجڑگیا۔پہلے خاوندفوت ہوا پھر جیٹھ کی باری آئی۔خود بھی لقمہ اجل بنی اورکچھ دیر بعد ایک نند چل بسی۔تین بیٹے ہیں اللہ اْنہیں سلامت رکھے۔ فائن آرٹس کی نسرین شیرازی، میری اور ثمینہ کی بحیثیت لیکچرار نوٹیفیکشن اکٹھے ہی ہوئی تھی۔نسرین بہت دھیمے مزاج کی سادہ اوردرویش صفت ہستی تھی جلد ہی دنیا سے کوچ کر کے خالق حقیقی سے جاملی۔
عصمت دیکھیں اپ کی کتاب پر لکھتے لکھتے میں خود یادوں کے بھنور میں ہچکولے کھانے لگی ہوں۔مسز جمیدہ ملک کالج کی وائس پرنسپل۔۔۔ انتہائی خوبصورت باوقارخوش لباس خاتون ،جنکا تعلق سلطان باہو کے خانوادے سے تھا خود ہرنسپل ان کی بہت عزت کرتیں اور کیا کرتی تھیں کہ جمیدہ میری ٹیچر ہیں ۔میں کبھی اس کے آگے نہیں چلتی۔اچھاوقت گزارا اچھی یادیں چھوڑیں۔صدقہ جاریہ کے طور پہ ایک سکول بناکے چھوڑگئیں۔یہ سکول ان کے بہترین انتظام وانصرام کامنہ بولتا ثبوت ہے۔شعبہ انگریزی کی چئر پرسن مس مجید کے بارے عصمت لکھتی ہیں”پر شفقت چہرہ،رعب دار اواز اور خوبصورت انگریزی دیکھ کر مجھے ہمیشہ پتہ نہیں کیوں آپ قائد اعظم سی لگیں”خاکہ نگاری کا فن یہاں ہمیں عروج پر نظر اتا ہے۔اسی طرح اسلامیات کی مس کریم اور مس مجید کے بارے عصمت کا خیال ہے کہ زندگی کے تپتے صحرا میں چھاؤں جیسی تھیں آنسوؤں کے سمندر میں ماؤں جیسی تھیں۔یونانی اساطیری کردار جیسی ڈاکٹر زبیدہ صدیقی کے بارے مصنفہ
کا قلم شگفتگی کی انتہا پر پہنچا نظر آتا ہے لکھتی ہیں۔۔ "لکڑی کا ڈبہ نما پرس کاندھے پر لٹکایا ہوا،گہرے کالے شیشوں والی عینک،ایک ہاتھ میں مردانہ سٹائل کی بڑی سی کالی چھتری،پاؤں میں کھڑاؤں پہنے ،کبھی کبھار بیل باٹم پاجامہ اور ساڑھی بھی پہن لیتی تھیں ،۔۔۔۔ انکا کہنا تھامردوں کی محبت پر بالکل اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ایک آدمی بڑا عرصہ میرے پیچھے لگا رہا،منت سماجت کرتا،حتی کہ پاؤں پر سجدہ بھی کر دیتا کہ مجھ سے شادی کرلومگر میں نے کہا۔دفعہ ہو منحوس!پرے مرو جاکر۔۔۔ یہاں یہ بتادوں کہ یہ اپنے دور کی انتہائی پڑھی لکھی اور لائق فائق خاتون تھیں۔ کم از کم پچاس سال پہلے ایران سے پی ایچ ڈی کرکے آئیں گو لڈ میڈ لسٹ بھی تھیں۔بس تھوڑی کھسکی ہوئی سی۔۔۔ شاید زیادہ پڑھ پڑھ کے۔۔۔۔کہا کرتیں۔میں نے سونے کے میڈل کو ہاتھ نہیں لگایا اسے خیرات کردیا تھا۔وویمن یونیورسٹی بانی چانسلر مس شاہدہ حسنین کی تعریف و توصیف میں ایک جامع اور بھرپور مضمون لکھا گیا ہے۔اس مضمون کے مطالعے سے ان کی علمی اور نجی زندگی کے پرت کھلتے جاتے ہیں۔عصمت کی امتیازی شان یہ ہے کہ ان کی تحریر کہیں بھی کسی کے لئے ازار کا باعث نہیں بنی۔قریب رہتے ہوئے ہم دوستوں کی بہت سی کمزوریوں اور خامیوں سے واقف ہوتے ہیں۔عصمت نے اچھی یادوں اور اچھی باتوں کو تاریخ کا حصہ بنایا ہے۔شعبہ اردو کی چئر پرسن مسز شہوار مسعودانہیں اپنے نام کی طرح خوبصورت دراز قامت ،دبلی پتلی،غلافی نینوں اور ستواں ناک کے ساتھ بھاتی تھی ،قدرے بیضوی چہرہ اور تر تیب وار دانتوں پر دلنشیں مسکراہٹ عصمت کے دل کو خوب لبھاتی تھیں۔۔مسز غوثیہ صدیقی اپنے شوہرنامدار ملتان کے مشہورشاعر ، یونیورسٹی کے استاد اور بعد۔میں رجسٹرار جناب عرش صدیقی کی وجہ سے بھی زیادہ پاپولر تھیں۔اردو کی مسز صفیہ ریاض کا تعلق ملتان کے سیاسی گھرانے سے تھا۔مسز صنوبر مصور اور مسز منیبہ شاعر ہونے کے ناطے خوب محبتیں سمیٹتی رہیں افسوس منیبہ جوا نمرگی کا شکار ہوکر اس کارواں سے بچھڑ گئیں حج کے لئے گئیں۔نمو نیہ ہوا مدینہ میں داعی اجل کو لبیک کہا اور ہمیشہ کے لئے جنت البقیع کو اپنا مسکن بنالیا۔انگلش کی مسز یاسمین محمود شومئی قسمت کپڑوں میں آگ لگنے سے بری طرح جھلسی اور قبر تک جا پہنچیں۔کیسے کیسے لوگ آئے اور چلے گئے۔ایک دور ،ایک عہد ،ایک زمانہ تھا جو دیکھتے دیکھتے بیت گیا ۔ایک مہکشاں تھی جو شب وروز جھلملاتی نظرآتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ کچھ تدبیر کرو وقت کو روکو یارو/ صبح دیکھی ہی نہیں شام ہوئی جاتی ہے۔۔۔ کتاب کے آخر میں لمحو ں کوز نجیر کرنے کی ناکام سی ایک کوشش اور۔۔۔بھولے بسر ے دور کے بھولے بسرے لوگوں کی بھولی بسری یادوں کو امر کرنے کے لئے خوبصورت تصاویر کا سہارا لیا گیا ہے۔ اپنی بھی ایک بھولی بسری تصویر نظر سے گزری بے ا ختیار ہونٹوں پر شعر مچل اٹھا۔۔۔اڑجائیں گے تصویر سے رنگوں کی طرح ہم/ ہم وقت کی ٹہنی پر پرندوں کی طرح ہیں۔۔۔۔۔زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا۔۔۔۔آخر کہاں تک؟ایک دور ،ایک عہد ایک زمانہ تھا جو بیت گیا۔رہوار وقت تیزی سے دوڑا جارہا ہے۔۔نے ہاتھ باگ پہ ہے نے پا ہے رکاب میں۔۔زندگی بذات خود بہت طویل کہانی ہے۔بہت لوگوں نے اسے کھوجنے،پرکھنے اور اس پر لکھنے کی کوشش کی۔لوگ ہار گئے دنیا سے لکھتے لکھتے چلے گئے۔کہا نی ختم ہی نہیں ہوئی عصمت آپ اپنے دور کی! ۔ باقی کہانی لکھنے کی ایک کوشش اور کر لو شاید زندگی کا کوئی اور چھور مل ہی جائے۔۔فیصل اکرم گیلانی کے بقول۔۔۔۔
۔۔ پرانی داستانیں سب پرانی ہوگئیں فیصل /نئے ان عاشقوں کو تم نئی اک داستاں دینا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے