بلو جینز،سفید کرتا پہنے وہ جب ایک کیفے کے بالائی سٹوڈیو کی سیڑھیوں پر پہنچی تو اسے گھنگرو کی جھنکار سنائی دی؛ ‘‘تا دھن تک -85 تاکے تہ دھن -85 تاکے تاااا دھن-85’’ جُوں جُوں ستارہ سیڑھیاں چڑھتی گئی، گھنگھرو، طبلہ مل کر اس کے دل کی ہلچل بڑھاتے رہے۔ تیز دھڑکتے دل کے ساتھ اسٹوڈیو میں داخل ہوتے ہی جیسے اس کے پیر وہیں تھم سے گئے اور وہ وہیں دروازے کے پاس ہی رک گئی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو کر طبلے کا ساتھ دینے لگی۔ ٹانگوں کی لرزش کے ساتھ کھڑا ہونا اسے دشوار لگ رہا تھا۔ وہ دیکھ کہاں رہی تھی، سوچ کہیں اور رہی تھی۔اس کی آنکھیں، اس کی روح -85 اس کا پورا وجود اس فضا میں تحلیل ہو گئے -85 اس کا وجود گویا دھواں بن کر اڑ گیا!
کتھک یوں براہِ راست دیکھنے کا اس کا یہ پہلا تجربہ تھا۔
ابھرتی جوانی کی گندمی رنگت کی ستارہ کے گھنگریالے بالوں کی ایک لٹ اکثر اس کے دائیں گال پر جھک آتی تھی، گہری چمک دار آنکھیں اک جستجو میں رہتیں۔ایک پُرعزم اور متجسس روح کی یہ لڑکی جانے کہاں کہاں سے انسپائریشن لیتی اور اپنی آنکھوں میں سجائے پھرتی۔جنھیں وہ کبھی رنگوں میں اتار کر صفحہ قرطاس پر سجا دیتی اور کبھی کہانیوں میں پرو دیتی۔ قدیم و جدید کا حسین امتزاج، ستارہ! ادبی حلقوں میں اب اسے کچھ کچھ جانا جانے لگا۔‘‘ہوا میں سرگوشی’’ کے نام سے اس کے افسانوں کی کتاب آ چکی تھی۔دُورپہاڑوں کے دیس سے فائن آرٹ پڑھنے کے لیے اس جدید شہر میں آتے ہوئے اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ یہیں کی ہو کر رہ جائے گی۔ تصویریں بنانا اس کا پیشہ اور کہانیاں لکھنا اس کا شوق بن جائے گا۔ وہ کئی دنوں سے ایک افسانے پہ کام کر رہی تھی، جو کتھک کے گرد گھومتا تھا۔ اسے رقص کا بے حد شوق تھا مگر اس نے کتھک کبھی براہِ راست نہیں دیکھا تھا۔ یوٹیوب پہ درجنوں وڈیوز دیکھنے سے بھی اس کی تسلی نہ ہوئی تو اس نے سرچ کیا کہ اس شہر میں کتھک دیکھنے کو کہاں مل سکتا ہے اور وہیں سے اسے یہاں کا پتہ ملا تو اپنا افسانہ ادھورا چھوڑ کر دوڑی چلی آئی۔
گھنگرو کی جھنکار کا پیچھا کرتے وہ اندر تک پہنچی اور دروازے کے ساتھ گویا مجسمہ بنی کھڑی تھی۔ رقاص اپنی ایڑیوں کو ایک خاص انداز میں زمین پر مارتے ہوئے طبلے کے ساتھ قدم ملاتا تو وہ ردہم ستارہ کے دل کی دھڑکن بڑھا دیتا۔ کتھک وہاج حسن خان کانوں کی لوؤں تک لمبے بالوں کو جب ایک مسکان کے ساتھ جھٹکتاتو ستارہ کا اندر ڈول جاتا۔ طبلے کی تھاپ کے ساتھ جب وہ گول گول گھومتا تو ستارہ بھی اندر ہی اندراس کے ساتھ گھوم جاتی۔وہ محو ِحیرت کھڑی رقاص کے سکون، خاموشی کو اپنے وجود میں سمیٹ رہی تھی۔ اس کا جذبہ، اس کی لگن دیکھ کر آنکھوں میں حیرت کا جہاں سمیٹے ،وہ مجسمے کی مانند بس جم سی گئی۔
رقص ختم ہو چکا تھا۔ رقاص اپنے نصف درجن شاگردوں کے ساتھ کھڑا انھیں رقص کے رموز سکھا رہا تھا۔ ان سے فارغ ہوا تو اس مجسمے پہ نظر پڑی تو مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور ہیلو کے انداز میں ہاتھ ہلائے۔ ستارہ کو پہلے تو کچھ نظر ہی نہیں آیا، دھند چھٹی تو اس نے دیکھا کہ وہاج اس کے قریب آ کھڑا ہے۔ ‘‘کیا میں آپ کا تعارف جان سکتا ہوں؟ نئی دِکھتی ہیں یہاں!’’
اس نے ایک لمحے میں خود کو سنبھالا اور کہا،‘‘میں ستارہ ہوں،آپ کا کتھک دیکھنے آئی تھی۔’’
‘‘خوش آمدید۔ آئیے تشریف رکھیں۔’’وہاج نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ اسے قریب ہی نیچے رکھے گدیلوں پر بیٹھنے کی دعوت دی۔
وہ بیٹھے تو ایک نوجوان لڑکی ان کے لیے پانی لے آئی۔
‘‘کیا کرتی ہیں آپ؟’’
‘‘مقامی کالج میں فائن آرٹس کی لیکچرر ہوں۔ اس کے علاوہ افسانے لکھتی ہوں۔’’ ستارہ بال ماتھے سے ہٹاتے ہوئے بولی۔
‘‘آہاں، گڈ۔ یہاں کیسے آنا ہوا؟’’
‘‘فائن آرٹس کے زمانے سے ہی رقص کا شوق تھا۔ اب کتھک پہ ایک افسانہ لکھ رہی تھی،کسی موڑ پہ آ کر رک سی گئی ہے کہانی، اس لیے کتھک کو براہِ راست دیکھنا چاہتی تھی۔’’
‘‘تو آپ کو اپنی کہانی کے لیے کردار کی تلاش ہے۔’’ وہاج نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
‘‘نہیں مجھے پوری کہانی کی تلاش ہے۔’’ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
وہاج نے رک کر عجب نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ جیسے گھبرا سی گئی۔
‘‘کیا میں آپ کا رقص دیکھنے کبھی کبھی آ سکتی ہوں؟’’اس نے پوچھا۔
‘‘جی ضرور۔ کم از کم کہانی کی تکمیل تک تو آ ہی سکتی ہیں۔’’ اس نے پھر مسکرا کر گویا اسے زچ کر دیا۔
***
ستارہ واپس آئی تو طبلے کے ساتھ ایک خاص انداز میں پاؤں کی دھمک،آنکھوں کا ایک خاص زاویہ،بازوؤں کی حرکت، اس سب میں قصے کا بیان-85 اسے بار بار یاد آتا رہا۔ کتھک میں اسے ایک خاص کشش محسوس ہوئی۔
دو دن بعد وہ پھر وہاں موجود تھی۔وہاج حسن کلاس لے رہا تھا۔ فارغ ہوا تو اس کی موجودگی کا احساس ہوا۔
‘‘آپ کی سنجیدگی، سکھانے کا انداز،رقص میں آپ کی محویت، یہ سب آرٹ سے آپ کی بے پناہ محبت ظاہر کررہا ہے۔’’ وہیں گدیلوں پر بیٹھتے ہوئے اس روز ستارہ نے گفتگو کا آغاز کیا۔ وہاج نے پانی لانے والے نوجوان سے چائے لانے کا بھی کہہ دیا تھا۔
‘‘رقص ایک سنجیدہ عمل ہی ہے، ایک استعارہ، زندگی کے سفر کا -85 اس کے اتار چڑھاؤ، نئے نئے موڑ کا۔رقص ایک سُر ہے، ایک تال ہے،، ہم آہنگی کے ساتھ حرکت کرنا۔ رقص ایک وقار، ایک بیلنس سکھاتا ہے۔ اموشنز کو، اپنے فُٹ ورک کو، اپنے ہاتھوں کو ایک خاص انداز میں حرکت دینے سے اور اپنے فیشل ایکسپریشن سے، تجربات کوConveyکرتا ہے-85کتھا کی صورت -85 قصے کی مانند -85سانس کو کیسے کنٹرول کرنا ہے، اپنے جسم پہ کیسے قابو رکھنا ہے،میوزک ان سب کو گائیڈ کرتا ہے۔’’ وہ نہایت سنجیدگی سے بولتا رہا۔
‘‘یہ تو محبت میں ڈوبی ہوئی باتیں لگتی ہیں۔’’
ستارہ کی اس بات پہ وہ بے اختیار ہنسا اور کہنے لگا،‘‘کتھک خود سراپا محبت ہے، عشق ہے۔’’
پھر تو جیسے ہر ویک اینڈ پہ سٹوڈیو پہنچ جانا اس کا معمول بن گیا۔وہاج بھی اسے خاص وقت دیتا۔ وہ دونوں آرٹ اور رقص پہ گھنٹوں باتیں کرتے رہتے۔ ان ہی باتوں میں ایک روز ستارہ نے خداجانے کیسے اُس سے پوچھ لیا، ‘‘محبت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟’’ اور وہاج نے یک دم کہا،‘‘وہی جو غالب کا آموں کے بارے میں تھا۔’’ ستارہ کو ایک جھٹکا سا لگا۔ وہ مسکراتے ہوئے جھینپ کر بولی، ‘‘اور وہ کیا تھا؟’’
‘‘یہی کہ آم ہوں، میٹھے ہوں اور بہت سارے ہوں۔’’ اس نے مسکرا کر کہا۔‘‘سو ہم بھی کہتے ہیں محبت ہو، میٹھی ہو اور بہت ساری ہو۔’’
اس پہ دونوں کھکھلا کے ہنس پڑے۔
‘‘بہت ساری ہو یا بہت ساروں سے ہو؟’’ ۔اب ستارہ نے جیسے طنزیہ پوچھا۔
‘‘بھئی اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل بنیاد تو محبت کا جذبہ ہے، وہ ہونا چاہیے۔ ٹرین چلتی رہے، مسافر آتے جاتے رہتے ہیں۔’’اس نے مسکرا کر کہا اور پھر ستارہ سے کہنے لگا، ‘‘آپ اپنی کہیے۔’’
‘‘اب تک تو اس سے محروم ہوں۔’’
‘‘یہ فیصلہ شعوری ہے کہ حادثاتی؟’’
‘‘شعوری -85کیوں کہ حادثاتی عشق تو بہت خطرناک ہوتا ہے-85اور پھر اس عمرکا عشق۔’’ ستارہ نے چائے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
‘‘ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے۔’’ وہاج نے بھی مسکرا کر کہا۔‘‘اور مجھے تو لگتا ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر کا عشق زیادہ میچور ہو جاتا ہے۔ شاید انسان فکری طور پر بہت بلند ہوتا ہے۔ میرے خیال سے لڑکپن میں دماغ پر محبت سے زیادہ جسمانی تقاضے سوار ہوتے ہیں۔’’
‘‘ہاں مگر تسکین محض جسمانی تو نہیں ہوتی۔ یہ جومیں اورآپ باتیں کر رہے ہیں،یہ بھی توکسی تشنگی کی تسکین ہی ہے۔’’
‘‘بالکل ٹھیک۔لیکن میرا خیال ہے تشنگی اہم ہے، تسکین نہیں۔ تشنگی باقی رہے تو جستجو باقی رہتی ہے۔ جستجو باقی رہے تو تلاش باقی رہتی ہے۔ تلاش باقی رہے تو سفر جاری رہتا ہے اور سفر ہی زندگی کا اصل حاصل وصول ہے۔’’
ستارہ کا ویک اینڈبہت اچھا گزرنے لگا تھا۔ وہ جب سٹوڈیو سے ہو کرگھر آتی تو وہی سب اس کے ذہن و دل میں گردش کرتا رہتا۔اس کے تصور میں تھرکتے پاؤں آتے رہے۔ اس کے کانوں میں تتکار کی بازگشت رہتی۔ کوئی کام کرتے کرتے اچانک اس کے کانوں میں طبلے کی آواز آ جاتی، اس کے پاؤں تھرکنے لگتے۔اسے تو جیسے کتھک رقص سے عشق ہو گیا تھا۔
یہی کچھ سوچتے سوچتے اس نے لیپ ٹاپ اٹھایااور اپنا افسانہ ٹائپ کرنے لگی کہ میسینجر پر میسج آیا،‘‘آپ کی کتاب کی کاپی مل سکتی ہے؟ اگر عنایت ہو -85میں نے کافی تلاش کی مگر کہیں سے نہیں ملی۔ اگرآپ میری منزل پر دے سکیں؟’’ وہ حیران تھی کہ کون ہے یہ خبطی،یوں کتاب مانگ رہا ہے جیسے میں نے اس کا ادھار لے رکھا ہو۔ کئی بار پہلے بھی اس کے میسجز آ چکے تھے۔میسنجر پر اس کی شناخت‘‘ہم سفر’’ کے نام سے آرہی تھی۔ کنفیوز ہو کر اس نے ایک دم سے لکھا، ‘‘میرے ایگزامز چل رہے ہیں، میں فری نہیں’’ اور پھر آف لائن ہو گئی۔
کئی دن تک وہ آن لائن آتا رہا لیکن ستارہ جوں ہی اسے آن لائن دیکھتی، جانے کیوں سب کچھ بند کرکے بیٹھ جایا کرتی۔
اور پھر ایک دن میسج آیا،‘‘آپ زندہ ہیں اور قلم کے ذریعے سانس لیتی ہیں، ہمیں آپ کی تحریریں آپ کے ہونے کا خوب صورت احساس دلاتی ہیں، آپ کی تحریر سے آپ کے عشق میں مبتلا کر دینے والا زندگی کا احساس -85!آپ اپنی تحریر کی طرح خوب صورت ہیں!!’’ستارہ اوب کر جانے ہی والی تھی کہ ایک اور میسج آیا، ‘‘اپنے قلم سے عکس بناتی رہتی ہیں آپ-85 اپنے وجود کا احساس دلاتی ہیں۔ لکھتی رہیں۔ آپ تک پہنچنے کا ذریعہ اگرصرف آپ کی تحریر ہے تو یوں ہی سہی۔’’ ستارہ نے میسجز پڑھے لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔
کئی دنوں تک اس کا دھیان رہ رہ کر ان میسجز کی طرف چلا جاتا لیکن پھرمعمول کی مصروفیات میں وہ بھول بھال گئی۔
ویک اینڈ پہ وہ پھراسی شام گئے معمول کے اسی وقت پہ سٹوڈیو پہنچ گئی۔ وہاج اپنے شاگردوں کے ساتھ مصروف تھا۔ ستارہ خاموشی کے ساتھ ایک طرف جا کر بیٹھ گئی۔ وہاج کی آوازفضا میں گونج رہی تھی:
‘‘گھنگھرو اصل میں ایک ساز ہے، ایک انسٹرومنٹ ہے یہ -85 جیسے بانسری -85 طبلہ -85 جیسے ستار!’’ اس کا پرسکون گھمبیر لہجہ سن کر ستارہ جیسے خوابیدہ سی ہونے لگی۔
‘‘اچھا لیکن سر میں تو اسے جیولری سمجھتی تھی۔’’ ایک سٹوڈنٹ نے حیرت کا اظہار کیا۔
‘‘ہاااں، عموماً گھنگھرو سے لوگوں کو جیولری کا خیال آتا ہے لیکن یہ چُوڑی نہیں، پازیب نہیں۔ یہ ساز ہے جسے پاؤں میں باندھ کر مختلف Patternبنائے جاتے ہیں -85 پیر کے حصے ہیں نا، ہیل دبائیں گے تو کیسی آواز آئے گی، ٹوہ دبائیں گے تو کیا ہوگا -85 فلیٹ ماریں گے تو کیسی آواز آئے گی۔ اس کو تتکار کہتے ہیں تا -85 دھن -85 تک -85 تاکے -85 تا دھن تاکے تا دھن۔’’ وہ دھیمی آواز میں کہتے ہوئے تتکار کر کے دکھانے لگا۔
ستارہ بہت دلچسپی سے دیکھتی رہی کہ وہ کس طرح اپنے جذبات، فٹ ورک اور جیسچرز کے ذریعے کتھک کوبیان کرتا ہے۔ وہ اپنے افسانے میں کھو گئی۔ اس نے حرکات کے ذریعے کہانیوں کو دریافت کرنے میں خود کو پایا۔اس نے کتھک کے ردھمک پیٹرن اور اپنی تحریر کے جھرنے کو برابر پایا۔ وہ حیران تھی کس طرح رقاص کی باڈی، قصہ گوئی کا ایک انسٹرومنٹ بن جاتی ہے۔ اس تخلیقی کنکشن کو پانے کے لیے اس نے کتھک سیکھنے کا فیصلہ کیا۔
کلاس ختم ہوئی۔ وہ مڑا تو اس کی نظر ستارہ پر پڑی۔ گھنگرو کی چھن چھن کے ساتھ وہ ستارہ کی طرف آیا۔
‘‘مجھے بھی اپنی شاگردی میں لے لیجیے۔’’ ستارہ جانے کیوں مضطرب سی لگ رہی تھی۔
‘‘شاہ -85 گرد’’ ستارہ پر گہری نظر ڈالتے ہوئے اس نے دہرایا اور پھر کہنے لگا، ‘‘مطلب جانتی ہیں شاگرد کاآپ؟’’ وہاج گھنگرو اتارنے لگا۔ ستارہ خاموش تھی۔ وہ خود ہی بتانے لگا، ‘‘شاہ کا مطلب ہے استاد اور گرد، منڈلانے کو کہتے ہیں۔ یعنی استاد کے پاس منڈلانا -85 اس کے آس پاس رہنا -85 سیکھتے رہنا -85! رہوگی میرے ارد گرد؟ منڈلاؤگی آس پاس؟’’ اس نے ستارہ کی طرف عجب نظروں سے دیکھا تو وہ سٹپٹا گئی اور وہاج کا بے اختیار قہقہہ نکل گیا۔
‘‘میرا رقص ہے کل، چاہو تو آ جانا’’ وہاج بے نیازی سے کہتے ہوئے اٹھا اور اندر کو چل دیا۔وہیں سٹوڈیو کے ایک-A0حصے میں اس کی رہائش تھی۔
***
ستارہ لوٹ آئی لیکن اُس روزوہ براؤن سی بولتی ہوئی آنکھیں اپنے ساتھ لے آئی۔ وہ رقاص سے بہت متاثر تھی۔ وہ صرف رقص نہیں کرتا تھا، ایسا لگتا تھا کوئی عبادت کر رہا ہے،وہ تصور میں کسی سے ہم کلام ہے۔وہ جسمانی طور پر یہاں ضرور ہے لیکن اس کی نظریں،اس کا ذہن دور کہیں اَن سنی اَن جانی وادیوں میں ہے۔ اس کے وجود کی خاموشی ساتھ والے کو اپنے حصار میں لے لیا کرتی۔
اُس روز بادل بہت گھنے تھے، موسم نشیلا سا تھا، لگتا تھا جھل تھل ہونے کو ہے۔ رقاص اور اس کے رقص کوسوچتے ہوئے اس نے لیپ ٹاپ آن کیاکہ افسانے پر کام کر سکے۔ کئی دن گزر گئے، اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ افسانے کو کیا موڑ دے۔
غائب دماغی سے اس نے میسنجر کھولا۔ جس پر‘‘ہم سفر’’نے کسی کیفے کاپتہ دو دن پہلے بھیج کر لکھا ہوا تھا،‘‘وقت ملے تو کتا ب دے دیجیے اور کافی کی دعوت قبول کیجیے۔’’
اس نے لمحے کو توقف کیا اور پھرجانے کیا سوچ کر سب کچھ بند کیا اور تیار ہونے لگی۔ ہلکا پنک کرتا سفید ٹراؤزر کے ساتھ پہنا،دوپٹہ گلے میں لیا اور کتاب لے کر نکل گئی۔پانچ بجے سے پہلے وہ سٹوڈیو پہنچنا چاہتی تھی جہاں آج وہاج کا رقص تھا۔ نکلنے سے پہلے اس نے اپنے آنے کی اطلاع چھوڑ دی تھی۔
دیے ہوئے پتے پر کیفے پہنچی تو حیران ہوئی کہ سٹوڈیو بھی تو یہیں پرہے۔ ‘‘چلو اچھا ہے، آرام سے بروقت سٹوڈیو پہنچ جاؤں گی۔’’ وہ خود کلامی کرتے ہوئے آگے بڑھی تو دیکھاکتھک وہاج بھی وہاں موجود تھا۔
‘‘یہ کتاب کسی نے مانگی تھی،دے کر آتی ہوں بس۔’’ اس نے تیزی سے قدم بڑھائے۔
‘‘آرام سے،جلدی کس بات کی۔’’ وہاج ہونٹوں میں مسکراہٹ دبا کر بولا۔
‘‘مجھے پہنچ کر پتہ چلا کہ یہیں پاس ہی آپ کا سٹوڈیوہے۔’’
‘‘ہاں بالکل، اس کیفے کے عین اوپر۔’’وہاج نے مسکرا کر کہا تو جیسے دنیا جہاں کی حیرت اس کی آنکھوں میں سمٹ آئی۔ وہاج نے اس کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہراتے اور اس کے ہاتھ سے کتاب لیتے ہوئے کہا، ‘‘آؤ چلتے ہیں۔ کافی تو پیو گی ناں؟!’’
وہ جانے کس عالم میں اس کے ساتھ سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر تک آئی۔ کلاس شروع ہونے میں ابھی وقت تھا۔ ہال کے مشرقی کونے میں رکھے صوفے پر وہ بیٹھ گئی۔ وہاج پانی لینے چلا گیا۔اس نے کھوئی کھوئی آنکھوں سے کمرے کا جائزہ لیا۔ ایک طرف گاؤ تکیے اور گدیلے رکھے ہوئے تھے۔ گھنگھروؤں کی ایک جوڑی تکیے پر دھری تھی۔ گدیلے کے دائیں طرف طبلہ اور ہارمونیم رکھے تھے۔ سامنے دیوار پر کسی بزرگ کی بڑی سی تصویرآویزاں تھی۔وہ اٹھ کر اس فر یم کی ہوئی تصویر کے سامنے جا رکی۔
‘‘یہ مہاراج ہیں، میرے استاد۔’’بہت قریب سے وہاج کی آواز آئی۔ وہ جلدی سے مڑی اور ساتھ ساتھ چلتی ہوئی واپس صوفے پر جا کر بیٹھ گئی۔
‘‘وہ کہا کرتے تھے کہ رقص ایک استعارہ ہے زندگی کا، زندگی کے سفر کا، اس کے اتار چڑھاؤ، حرکت،اس کے ہر موڑ کی علامت ہے -85رقص میں ایک ردہم ہے -85 بالکل ایسا جیسے زندگی کا اپنا ایک ردہم ہے۔ایک خاص ترتیب سے حرکت کرنا، گھومنا اس میں ایک بیلنس، ایک وقار لاتا ہے۔ رقص بیلنس سکھاتا ہے -85!’’ وہاج دھیمے لہجے میں بتاتا رہا۔
‘‘لیکن عام تاثر تو یہ ہے کہ یہ محض ایک تفریح ہے اور لوگ اسے Accept بھی نہیں کرتے۔ دیکھ پھر بھی لیتے ہیں لیکن کرنے پر تو سب اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔’’ ستارہ نے کہا۔
‘‘ہاں ٹھیک کہتی ہو کہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں۔ لیکن غور کرو تو تم دیکھو گی کہ ہمارے ہاں ہر خوشی کا اظہار رقص سے کیا جاتا ہے-85 یہ محض تفریح ہر گز نہیں ہے۔ ایک بات سوچی ہے تم نے کبھی ستارہ کبھی؟’’وہاج کا اسے آپ سے تم کہنا اچھا لگا۔
‘‘وہ کیا؟’’ ستارہ اس کے دھیمے گھمبیر لہجے میں جیسے بہہ گئی۔
‘‘کون لوگ ہیں جو رقص کے خلاف ہیں؟ ایلیٹ تو بے تحاشا ہمارے کنسرٹس کا حصہ ہوتی ہے -85اور غریب کی زندگی میں تو رقص ہرجا شامل ہے۔ بارش ہوتی ہے تو کسان خوشی سے ناچتے ہیں گاتے ہیں،فصل پکتی ہے، فصل کٹتی ہے تو خوشی کا اظہار رقص سے کیا جاتا ہے۔ کون خلاف ہے؟ تمھیں کبھی خیال نہیں آیا کہ اس قسم کی پابندیوں میں صرف مڈل کلاس جکڑی ہے یا جکڑدی گئی ہے۔’’
سٹوڈنٹس آنا شروع ہو گئے تھے۔ دیوار پر لگی گھڑی سوا پانچ بجا رہی تھی۔ ہارمونیم کی آواز فضا میں گونجنے لگی۔ وہ اطمینان سے اٹھا اور تا تک دھن، تاکے تک دھن کی تتکار فضا میں لہرانے لگی۔ایک جھنکار گونجتی رہی۔ جانے آج وہ کون سی کتھا سنا رہا تھا۔ ایک عجیب سا اضطراب تھا اس کے وجود میں، اس کی نظر میں۔اس روز اس کا پورا وجود گویا رقص ہی رقص تھا۔
کافی دیر بعد اس کا مخصوص سکون، ٹھہراؤ اس کے اندر اترتا گیا -85 اترتا چلا گیا۔گھنگھروؤں کی آواز دھیمی ہوتی چلی گئی…… اس کے قدم رکتے چلے گئے۔
اس کے شاگرد ایک ایک کرکے چلے گئے توتھکے تھکے قدموں سے وہ عین ستارہ کے سامنے فرش پر آ بیٹھا۔
چند لمحے سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔ لمبی لمبی سانسیں لیں۔ خاموشی میں جانے کتنے لمحے چلے گئے۔آہستہ آہستہ اس نے سر اٹھایا،‘‘ستارہ! میں نے اپنی انا تمہارے قدموں میں رکھ دی۔ میری عزت، میری انا،میری قوم، قبیلہ سب عشق پر قربان۔ انا کو قربان کرنا عشق کا پہلا اصول ہے نا!’’ آنکھوں میں نمی کی لکیرلیے وہ کہتا رہا، ‘‘یہ نہیں ہوتا تو عشق نہیں ہوتا۔اپنا آپ حوالے کرنا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر عشق ہوتا ہے، ورنہ سب لفاظی۔ میں نے تمہاری تحریر کو دل میں رکھ کر عشق کا خمار لیا ہے۔ نہیں اترتا یہ اب! میں نشے میں ہوں!!’’ وہاج نے کانپتے ہاتھوں سے ستارہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ دل کی دھڑکنوں سے گھبرا کر وہ ایک دم اٹھ کھڑی ہو ئی۔ وہاج بھی کھڑا ہو گیا اور ستارہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے رہائشی لاج کی طرف لے آیا۔ دروازے پہ اس کی نظر پڑی تو اس کے ذہن میں جیسے جھماکا سا ہوا۔ دروازے پہ جلی حروف میں خوب صورت سا کنندہ کیا ہوا تھا:‘‘ہم سفر لاج’’۔
وہ ہاتھوں میں ہاتھ دیے ٹیرس پہ آئے جہاں سے شہر کامنظر ٹمٹماتی روشنیوں کی صورت نہایت حسین دکھائی پڑتا تھا۔
‘‘سنو عشقم! تمھیں عشق کے رنگ دوں؟ عشق کا رنگ -85 ہمیشہ رہنے والا -85آؤ، میری ہم سفر بن جاؤ!’’
وہاج نے یہ کہہ کر دونوں ہاتھوں سے ستارہ کا سر پکڑ کر اس کے لبوں پر اپنے لب رکھ دیے۔
بادل گرجے -85 بارش برسی -85 ساری کائنات جیسے رقص میں محو ہو گئی۔
***
ستارہ کے پورے وجود میں گھنگھرو چھنک رہے تھے۔ عشق کا یقین پا کر تو جیسے وہ نشے میں ڈولنے لگی۔ وہ واپس گھر پہنچی، وہاج کے بارے میں سوچتے ہوئے کچن تک گئی، اپنے لیے کافی بنائی اور لیپ ٹاپ آن کر کے اپنے ادھورے افسانے پر کام کرنے لگی۔
میسنجر پہ‘ ہم سفر’ کا میسج آیا ہوا تھا۔ اس نے میسج دیکھا، ‘‘عشقم! تم چلی گئی ہو، صوفے پر خود کوچھوڑ گئی ہو -85 لے جاتی یا مجھے بھی ساتھ لے جاتی، تب سے ہی وہیں بیٹھا ہوں-85 تمہاری یاد اور تمہاری کتاب کے ساتھ-85ہاں کتاب کے لیے شکریہ۔’’ وہ مسکرا دی۔
اس دن وہ واقعی خود کو وہیں چھوڑ آئی لیکن اپنے دامن سے لپٹی وہ براؤن گہری آنکھیں اٹھا لائی جو اس کے گرد محیط تھیں۔ محبت کے رنگ ہولی کے رنگوں کی ماننداس کی آنکھوں، اس کے ہونٹوں، اس کے پورے وجود، اس کی روح تک کو رنگین کر گئے۔ عشق کے ذرات اس کے انگ انگ سے چپک گئے تھے۔
کئی دنوں تک اس کی خوشبو، اس کی نظریں ستارہ کا پیچھا کرتی رہیں لیکن وہ چھپتی رہی۔
بالآخر وہ تھک گئی۔
بادل گرجے۔بارش کی پھوار سے مٹی کی سوندھی مہک فضامیں بکھر گئی۔ پرندوں کی ایک ڈار اس کے سرکے اوپر سے گزر گئی۔ بارش کا ایک بڑا قطرہ اس کے گال پر گر گیا۔ اس نے آنکھیں موند لیں۔
موسم بہت خوش گوار ہو گیا۔
ستارہ کئی دِنوں سے خود کو اس کی سوچ سے بچانے کی کوشش کرتی رہی لیکن آج سٹوڈیو میں قدم رکھاتو خود پر حیران تھی۔ اندر سے وہاج کی مخصوص دھیمی آواز آ رہی تھی:
ابھی تو عشق کی وادی میں اترا ہوں
نہ جانے منزلیں ہیں اس کی مسافت میں
یا سنگ ِمیل ہیں سارے
کوئی رستہ، کوئی منزل تراشوں
تمھیں میں سنگ رکھوں جان و دل کے
کہ اس لمبی مسافت میں
یہی سامانِ راحت ہے!
وہ ہال میں داخل ہوئی تو وہاج اکیلا کتھک کی خوب صورت چھب نِرَت میں مصروف تھا۔ ہارمونیم کے سُر گھنگھرو کی چھنک کے ساتھ اس کی نگاہ ایک مخصوص انداز میں تھی۔ گھنگرو چھنکاتا ہوا مائک کی جانب آ کر وہ ان مصرعوں کی تلاوت کی صورت کتھا سناتا اور پھر کتھک رقص کی شکل میں وہ اس کی تفہیم کرتا۔وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی۔طبلے کی تال، فرش کی لرزش، وہاج کا پرسکون خاموش انداز، ایک ٹھہراؤ -85 ستارہ کے جیسے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ایک لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی سے ہوتے ہوئے پورے وجود میں سرایت کر گئی۔ اس کے رقص کے ردہم میں اسے اپنے دل کی دھڑکن سنائی دی۔
‘‘کیا تم اپنے جیون کو صرف ناچ کے روپ میں دیکھتے ہو؟’’ رقص ختم ہونے پرستارہ نے اس کے قریب جا کر پوچھا۔
‘‘ہاں میرا جیون رقص ہے۔ میرا اٹھنا بیٹھنا، میری سوچ، اوڑھنا بچھونا سب رقص ہے۔’’ اس نے آگے بڑھ کر ستارہ کی کمر کے گرد ہاتھ حمائل کرکے اسے سیدھا کیا اور اسے اپنے رقص میں شامل کر لیا۔اس کے بالوں کی لٹ جو اس کے ماتھے پر آ گئی تھی، وہاج نے اسے اس کے کانوں کے پیچھے کیا۔اسے اپنے قریب کر لیا۔اس کے گال کو چھوا۔اس کے ہونٹ ستارہ کے ہونٹوں کو چھونے لگے۔‘‘تم ایک تال ہو تارہ! جس نے میرے دل کے سُر، لَے درست کیے۔کچھ ایسا ہے جس نے کوئی نئی شئے تخلیق کی۔ الفاظ اور رقص کی ہم آہنگی جاناں۔ ایک ایسی ہم آہنگی جس کی گونج ہمیں پوری زندگی سنائی دیتی رہے گی۔’’ یہ کہتے ہوئے وہاج نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ کر سینے سے لگا لیا۔
وقت یوں ہی گزرتا رہا، وہ یوں ہی ملتے رہے، یک جان ہوتے رہے۔
***
آنکھیں بند کیے لیٹی وہ اپنی زندگی کو سوچ رہی تھی۔اداسی اسے گھیرے ہوئے تھی۔
ان کے تعلق کو چار برس بیت چکے تھے۔
اس کے ساتھ گزرا ہوا ایک ایک لمحہ، وہ قہقہے، وہ آنسو، وہ سرگوشیاں ستارہ کے دل کے آس پاس تھیں، اسے بے چین کر رہی تھیں۔
محبت کی شروعات تھی، جب ایک بار ستارہ نے اس سے کہا تھا، ‘‘ڈر لگتا ہے مجھے محبت سے۔’’
تب اس نے کہا تھا،‘‘اورجو ڈر گیا وہ مر گیا۔ اس پاگل پن میں زندہ رہنا ہی تو جیون ہے۔’’
‘‘تم نے مجھے بھی پاگل کردینا ہے۔’’ ستارہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔
‘‘دیکھو عشقم! اضطراب فکری طور پر مہمیز کرتا ہے، قلم کے لیے سیاہی سے زیادہ تمہارا تخیل اہم ہے۔’’
اور اب وہ چاہ کر بھی اس کے ساتھ نہیں رہ پا رہا تھا۔ اس کی زندگی کی ترجیحات کچھ اور تھیں، جن میں وہ سما نہیں پا رہی تھی۔ وہ اس سے عشق کرتا تھا،اس کا اسے یقین تھا۔ اس کے لیے ہر رشتہ اہم تھا، ہر رشتے کا حق اس نے پورا کیا تھا لیکن ستارہ کے دکھ، اس کی تڑپ، اس کے درد سے وہ مستثنیٰ تھا۔وہ صرف ستارہ کے تھے۔
سوچیں اسے ڈسنے لگیں آنسو گلے میں پھنسنے لگے،جسے نگلنے کی کوشش میں ان کی قطار لگ گئی۔
اکثر یہ دوری کا خیال ایک چور کی مانند رات کے اس پہر اس کے دماغ میں رینگتا، اس کی خوشی چھین لیتا۔ چاروں طرف اداسی بھر جاتی۔
اور پھر رات کے آخری پہر اس نے ایک فیصلہ کیا اور لمبی سانس لے کر آنکھیں موند لیں۔
***
رات دیر تک جاگنے سے اس کی طبیعت بہت بوجھل ہو رہی تھی۔ وہ کافی دیرسے جاگی مگر اب بھی بستر سے اٹھنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔
شام گئے وہاج کے اچانک میسج پر کہ وہ اسے لینے آ رہا ہے، اس نے جلدی سے اٹھ کر منہ پانی کا چھپاکا مارا اور دوپٹہ کھینچ کر گلے میں ڈالا۔
اسی وقت ہارن سنائی دیا۔وہ بھاگتی دوڑتی ہوئی باہر تک آئی۔
‘‘خیریت؟ یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں؟’’ اس کی مسلسل خاموشی پہ وہاج نے پوچھا تو وہ مسکرا کر خاموش ہی رہی۔
شہر کا چکر کاٹ کر وہ اسٹوڈیو کے ‘‘ہم سفرلاج’’ میں ہی واپس آ گئے۔ ٹیرس سے شہر کا منظر ستارہ کو بھلا لگتا تھا۔ یہیں بیٹھ کر دونوں نے کئی شامیں ساتھ بتائیں تھیں، اوربے تحاشا باتیں کی تھیں۔ اسے یہ جگہ بھلی لگتی تھی۔ سورج ڈوب رہا تھا، شہر روشن ہونا شروع ہو رہا تھا۔
وہاج اس کے لیے کافی بنا کر لایا تو وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی سڑک کی طرف دیکھ رہی تھی۔وہاج کافی رکھ کر اسے دیکھنے لگا۔
کافی کا سپ لیتے ہوئے وہ خود ہی گویا ہوئی، ‘‘وہاج،میں ہر طرح سے تمہاری ہم سفر بننا چاہتی ہوں۔مجھے ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ میں تمہارا انتظار کرتی ہوں لیکن تم پوری طرح حاضرکبھی نہیں ہوتے۔ تم پورے کے پورے ایک لمحے کوبھی میرے ساتھ نہیں ہوتے-85تمہارا دل سٹیج اور رقص پر ہوتا ہے۔’’
وہاج کچھ لمحے تو خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا، ‘‘عشقم! تمہارے الفاظ کو میں نے تمہاری آنکھوں کی سچائی کی طرح اپنے اندر اتار لیا لیکن میرا رقص صرف میرا کیریئر نہیں، یہ میری شناخت ہے، یہ میرے وجودکا جواز ہے۔ مجھے تمہارا خیال دل کی گہرائیوں سے ہے لیکن جو Attention تم Deserve کرتی ہو، میں رقص کے ساتھ رہتے ہوئے وہ تمھیں دے نہیں پاؤں گا-85 اور یہ غم مجھے کھا جائے گا کہ میں تمہارے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہا۔’’
کافی دیر خاموشی رہی۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ ستارہ کے ہاتھوں-A0پر رکھتے ہوئے کہا،‘‘تم میرا ردہم ہو، میرامیوزک ہو، میری Beat ہو، میرا رقص تم سے ہے،تم سے مل کر مجھے زندگی کا احساس ہوا۔تمہاری تحریر، تصویر اور تمہارا وجود یہ سب مجھے مکمل کرتے ہیں، میرے رقص کی تکمیل کرتے ہیں -85!’’ وہاج اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے ایک جذب کے عالم میں بولتا رہا۔کچھ لمحے خاموش رہ کر پھر وہ رک رک کر کہنے لگا،‘‘میں رقص کے سلسلے میں باہر جا رہا ہوں، طویل وقت کے لیے، ہو سکتا ہے ہمیشہ کے لیے۔’’
ستارہ کچھ دیر خاموش رہی ۔
پھر اس کا ہاتھ ہاتھوں میں لے کرکہنے لگی،‘‘میں جانتی ہوں کہ تمہارا رقص تمہاری روح کی آواز ہے۔ تم جب رقص کرتے ہوئےmoveلیتے ہو تو تمہاری آنکھوں میں ابھر تی ہوئی چنگاریاں میں نے دیکھی ہیں وہاج۔ اپنی آنکھوں کے ان شعلوں ماند مت پڑنے دو۔ اپنے خوابوں کو پانا تم deserveکرتے ہو۔ جاؤ اور کتاب ِدنیا کے صفحات پر اپنے نشان ثبت کرو۔’’ ستارہ نے لمبی سانس کھینچ کر کہا۔
وہاج نے حیرت سے استفہامیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو ستارہ کہنے لگی،‘‘مجھے تم سے محبت ہے۔ اس لیے نہیں کہ تم ایک زبردست رقاص ہو بلکہ اس لیے کہ تم نے مجھے محبت کرنا سکھایا۔تمہارے پوزیٹو امپیکٹ نے مجھے سننے، دیکھنے اور سمجھنے کا وہ احساس دیا جو کبھی کسی نے نہیں دیا تھا۔ صرف میں نہیں جسے تمہاری ضرورت ہو بلکہ تمہارے آرٹ کو بھی تمہاری ضرورت ہے۔ جس میں، میں تمھیں پیچھے نہیں دیکھ سکتی۔ تم ہمیشہ میرے دل میں رہو گے۔’’ ستارہ کی آواز بھرا گئی۔
وہاج کے بازو پر رکھا ستارہ کا ہاتھ اسے جھلسا رہا تھا۔ اس نے ستارہ کی محبت، محبت میں نچھاور ہونے کی طاقت کا بوجھ محسوس کیا۔
عجیب سی خاموشی چھا گئی جس میں ان دونوں کے دل پرو لیے گئے۔
‘‘عشقم! میں تمھیں بے توقیر نہیں کروں گا -85 بچھڑ بھی جاؤں،تب بھی نہیں۔’’
بچھڑنے کی بات پر ستارہ نے ایک دم سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے نظریں چرا لیں۔
کافی دیر خاموشی رہی۔ بس خاموشی کا شور تھا، طوفان تھا۔
ہم سفر لاج کے ٹیرس سے شہر اب ٹمٹماتے دِیوں کی صورت نظر آ رہا تھا۔ وہ خاموشی سے غروبِ آفتاب کو دیکھ رہے تھے جس کی نارنجی شعاعوں نے آسمان کو رنگین کر دیا تھا۔ وہاج نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔ ہاتھوں کی انگلیاں ان کی زندگیوں کی طرح ایک دوسرے میں باہم مدغم تھیں۔دونوں چپ تھے۔ ستارہ کی آنکھیں آنسوؤں سے چمک رہی تھیں۔
کچھ لمحے بعد وہاج کہنے لگا،‘‘جانتی ہوسی سی نام کا ایک پرندہ ہے جو ہمیشہ جوڑی کی شکل میں پرواز کرتا ہے۔ شکاری جب ایک کو شکار کر لیتا ہے تو جوڑی کا اگلا پرندہ اسی جگہ، اسی مقام پر عرصے تک نچلی اڑانیں بھرتا رہتا ہے -85 یہاں تک کہ وہ بھی شکار ہو جائے-85اور پھر وہی چوک آئندہ ان کے ملنے کا مقام ٹھہرتاہے: سی سی چوک۔’’ یہ کہہ کر اس نے ستارہ کے ہاتھوں کو چوما اور پیار سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا، ‘‘یہ ہم سفر لاج، آج سے سی سی چوک کہلائے گا۔’’
سورج غروب ہوچکا تھا۔
دونوں گلے ملے تو ان کے دل محبت سے بھرے ہوئے تھے۔ پاس ہی زندگی کی ذمہ داریوں کے بیچ کھڑی محبت مسکرا رہی تھی!
تمہارا ہاتھ تھامے اس زمانے سے
میں اُس زمانے کے پار اتروں گا
تو اس سارے سفر کی تھکن،
پڑاؤ یاد آئیں گے!
‘‘عشقم، یہ ہجر ہماری زندگی میں ایک عارضی وقفہ ہے۔’’ ستارہ کو وہاج کی آواز کی بازگشت سنائی دی تو وہ بے چینی سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہنے لگی،‘‘نہیں وہاج، یہ ہجر ہماری زندگی میں وقفہ ہر گز نہیں ہے بلکہ ہجر سے پہلے تک جو کچھ تھا،وہ وقفہ تھا-85 عشق وقفہ تھا، ہجر مستقل ہے، یہ زندگی بھر ساتھ چلے گا۔’’ وہ جیسے خود کلامی کررہی تھی۔
***
ستارہ سے کئی دن سے افسانہ مکمل نہیں ہوپا رہا تھا۔ اسے لکھتے لکھتے اس کی حالت خراب ہو جایا کرتی۔
اب جب اس نے آخری سطریں لکھ کر افسانہ مکمل کیا تو سکون و اطمینان کی ایک لمبی سانس کھینچی۔
اس کا ذہن، اس کا بدن جیسے درد سے ٹوٹ رہے تھے۔
ستارہ نے لیپ ٹاپ بند کر کے آنکھیں موند لیں۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے