(ایکسپریس کانفرنس، 2013)

قصہ کچھ یوں ہے کہ میں ایک پنجابن ہوں۔باپ میرا کاٹھا کشمیری۔ وطن اس کا امبر سر۔جثے کا پْلوان، غصے کا تیز اور زبان کا منھ پھٹ۔ کر لو جو کرنا اے، اسیں تے اینج دی اینج کر دیاں گے۔(کرلو جو کرنا ہے، ہم تو ایسی کی تیسی کر دیں گے)
دادا ہماری پیدائش سے پہلے ہی نابینا ہو گئے تھے چناں چہ جب ہم ان سے ملنے جاتے تو وہ ہماری کمزور کلائیاں ٹٹول کر کہتے:‘‘بھولے دے بچے، تے اینیہاں اینیہاں ویہڑیاں؟تہاڈی ماں کھان نوں نئیں دیندی۔اوئے بتّا کھاندے او کہ نئیں؟’’ (بھولے کے بچے اور اتنی اتنی (چھوٹی چھوٹی) کلائیاں؟ تمھاری ماں کھانے کو کچھ نہیں دیتی؟ اوئے تم چاول کھاتے ہو یا نہیں؟)
امی اشارے سے بتاتیں کہ وینڑی کلا ئی کو کہتے ہیں اور بتّا چاولوں کو۔ہم چپکے چپکے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے۔
ماں کا کنبہ چوں چوں کا مربہ۔ نانا ہشیار پور کے دیہاتی زمین دار اور سید ہونے کے دعوے دار۔ اس دعوے کی صداقت پرکھنے کا اور تو کوئی پیمانہ نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ بیٹی سے محبت میں کمال کر دیا۔ ہمارے گھر کبھی خالی ہاتھ نہ آتے۔اور جب لوٹتے تو اکثر جیب سے ایک اٹھنی نکال کر ہم تینوں،یعنی دو بہنوں اور ایک بھائی کو دیتے اور کہتے، ‘‘بیہ بیہ پِیسے تہاڈے دوہاں دے تے دس پیسے منے دے۔’’ (بیس بیس پیسے تم دونوں کے اور دس پیسے منے کے)
‘‘نانا ابا بیس کو بیہ کہتے ہیں۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔۔ ہم اسکول میں پڑھتے اور نانا کے تلفظ پر ہنستے۔لیکنیہ تلفظ والی علت اس وقت بالکل بھو ل جاتے جب نانا ابا ہمیں اپنے چٹے سفید، کھڈی پر بْنے ہوئے کھیس کی بکل میں گھسا کر چھونپڑی سی بنا لیتے اور ہمارے پر زور اصرار پر وہی چڑے چڑیا کی کہانی سناتے جس کا ایک ایک لفظ، ہر سکوت اور ہر آواز ہمیں ازبر تھی، لیکن ہم ہر بار پوری کہانی نئے سرے سے سنتے اور سانس روک کر اس کے آخری جملے کا انتظار کرتے۔۔۔
‘‘پھیر چڑے نے مار مار کے چڑی کا پھلودہ بنا دیا۔’’ (پھر چڑے نے مار مار کے چڑیا کا فالودہ بنا دیا۔)
پتا نہیں نانا ابا پھلودے پر سٹریس زیادہ دیتے تھے یا ہمیں اپنی زبان دانی پر ناز کچھ زیادہ تھا۔ ابھی پھلودے کا لفظ پورا ادا بھی نہیں ہوتا تھا کہ ہم ہنس ہنس ہنس کر دہرے ہو جاتے اور چٹے سفید دیسی کھیس کی بکل میں ایسا گھمسان کا رن پڑتا کہ نانا کی جھونپڑی موج میں آئے دریا کا منظر پیش کرنے لگتی۔ہم بمشکل کنارے لگتے اور اگلی شام تک یہ سوچ سوچ کر ہنستے رہتے کہ اب پھر نانا فالودے کو پھلودہ کہیں گے۔
لیکنیہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔
میری نانی کی ماں عراقی تھی اور باپ وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ کے ممدالوں کا اعوان۔یہ وہی انگہ ہے جہا ں سلطان باہو نے چلہ کاٹا،پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے تعلیم حاصل کی اورجہاں کے کسمالوں سے احمد شاہ نکلا جو بعد میں احمد ندیم قاسمی کے نام سے اردو دنیا کا ستارہ بن کر ابھرا۔
نانی اپنی بڑی بیٹی یعنی میری امی کے ساتھ عربی میں بات کرتیں، اپنے باقی بچوں سے پنجابی میں اور ہم نواسے نواسیوں سے گلابی اردو میں۔ ان کا ذخیرہِ الفاظ اور تلفظ تو اکثر عربی ہوتا، لب ولہجہ خوشاب کی جانگلی بولی کا۔اب خوشاب کی بھی سنیے۔
خوشاب جنوبی پنجاب کی سرحد پر واقع ایک تاریخی قصبہ ہے جو اب خیر سے ضلع بن چکا ہے۔ شیر شاہ سوری نے ‘‘چہ خوش آب است’’کہہ کر اسے گویا ایک خطاب دے دیا تھا۔ یہاں مختلف النسل لوگ رہتے ہیں۔ مقامی آبادی جو زبان بولتی ہے وہ سیالکوٹ اور لاہور کے شہروں، فیصل آباد، گوجرہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چکّوں اور میانوالی، موسیٰ خیل اور بھکر کی سرحدوں کے اندر بولی جانے والی پنجابی سے قدرے مختلف ہے۔ بلکہ سچ کہیں تو زیادہ کٹھور، سخت اور درشت ہے۔ یہاں نرم اور شیریں اصوات کے بھی کڑاکے نکال دیے جاتے ہیں۔
نی صیماں! کِدّے ویندی پئی ایں؟ (او صائمہ، کہاں جا رہی ہو؟)
کِداؤں نئیں۔ گھر ے بیٹھی آں (کہیں نہیں، گھرمیں ہی بیٹھی ہوں)
وے تاہزو دیا پترا، ہر شے بھن تروڑ سٹی آ (او تازو یعنی ممتاز کے بیٹے، ہر شے توڑ ڈالی ہے؟)
آپ خود ہی انصاف کیجیے، اسے جانگلی بولی نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ اردو کا ‘‘کہاں’’ وسطی پنجاب کی زبان میں کتھے ہو جاتا ہے۔ سرائیکی علاقوں سے قریب تر ہوتے جائیں تو اس میں اور بھی نغمگی آتی جاتی ہے:
چن کتھاں گزاری آئی رات وے (اے میرے ماہتاب سجن، رات کہاں گزار کر آئے ہو)
اوپر سون سکیسر کے پہاڑوں میں بھی آوازوں میں لوچ، نرمی اورغنائیت ہے۔
ابھرنے راہنے ہو کہ لاہنے؟ (یعنی مغرب کی طرف رہتے ہو یا مشرق کی سمت؟)
جانا،یعنیto go ونجنا یاوینا ہو جاتا ہے۔ مگر ہمارے خوشاب میں اس میں بھی‘‘ڑ’’ ڈال کر رڑک لیتے ہیں۔اور ‘‘ڑ’’ نہ ڈال سکیں تو کم از کم ‘‘د’’ تو ضرور ڈال دیتے ہیں۔
نی صیماں! کِدّے ویندی پئی ایں؟
اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو تشدیدیا ‘‘ہ’’ سے ہی اسے زور داربنا دیتے ہیں ممتاز سے تازو تو ہوا مگر ہمارے خوشاب میں تازو سے تاہزو ہو جاتا ہے۔
گلیوں اور چوباروں میں یہی پر تشدد آوازیں سنتے سنتے ہم سکول جا پہنچے۔لیکن یہ تو آپ کو بتایا ہی نہیں کہ ہماری امی نے، جو اپنی ایک اہلِ زبان استانی سے متاثر تھیں، اور خود بھی اردو فارسی کی استانی تھیں،ہمیں پالنے سے ہی اردو بولنے پر لگا دیاتھا۔
اب سکول میں کچھ استانیاں تو خوشاب یا ارد گرد کے علاقوں کی تھیں، کچھ مہاجر گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں اورکچھ پنجاب کے دوسرے شہروں سے آئی تھیں۔ ایک سہیلی ایسی تھی جس کے ابا دہلی کے حکیم تھے۔ جب بھی ان کے ہاں جاتے تو کوثر و تسنیم میں دھلی زبان سننے کو ملتی۔ خالہ جان غرارے کے پائنچے سمیٹے تخت پر بیٹھ کر پان دان کھولتیں اور پکار کر ساجدہ کو آواز دیتیں:
اری سازدہ! کَے بجے؟
اور ساجدہ بی بی وہیں سے پکارتیں،
‘‘امّی، چھیبجے’’۔
پھر جب سکول کی استانیاں امی کی ہم کار ہونے کے ناطے گھر آتیں تو ان کی بے تکلف گفتگو سننے کا موقع بھی ملتا۔
ان میں ٹوبے یعنی ٹوبہ ٹیک سنگھ کی دو استانیاں مجھے اب بھی یاد ہیں۔ وہ آپس میں گہری دوست تھیں۔ لیکن ان میں عمروں کا خاصا فرق تھا۔ اس فرق کے باعث وہ حفظ مراتب کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتیں اور بے تکلفی کا مظاہرہ بھی کر گزرتیں۔ ان کی آپس کی گفتگو کے دو تین جملے مجھے ہمیشہ یاد رہے:
دیتاں، کیہ کردے وا۔۔۔ کمینے جیہے۔ بھونکی جاندے وا، بھونکی جاندے وا۔۔۔۔’’
آوازوں، لہجوں اور لفظوں کی اسی بھیڑ بھاڑ میں ہماری اردو اپنا راستہ بناتی رہی۔
ہماری ہیڈ مسٹریس اچھے وقتوں کی بی۔ اے۔ پاس تھیں اور وہ بھی لاہور سے۔ہر معاملے میں ان کا معیار بہت اونچا ہوتا تھا۔چناں چہ انھوں نے ہمیں تحت اللفظ شعر خوانی، بیت بازی اور فی البدیہہ تقریریں کرنے پر لگا دیا۔ اب ہم نے موٹے موٹے رجسٹروں میں اساتذہ کے ایسے ایسے شعر لکھنے شروع کیے جن کا مطلب ہمارے فرشتوں تو کیا، شیطانوں کو بھی نہیں آتا تھا۔
ظلم کر ظلم اگر لطف دریغ آتا ہو
تو تغافل میں کسی رنگ سے معذور نہیں
و علیٰ ھذا القیاس۔دہلی والی سہیلی کی باجی ہمارا تلفظ درست کرنے پر مامور تھیں۔امی ہمارے شین قاف کی نگران تھیں اور ایسی نگراں کہ آج بھی قینچی مانگیں اور ہم کینچی لادیں تو اسی قینچی سے پر قینچ کر دیتی ہیں۔
ہم نے اردو میں پڑھا، اردو میں سوچا، اردو میں محبت کی اور اردو سے محبت کی۔
ہمیں کبھی خیال تک نہ آیا کہ اردو ہماری مادری زبان نہیں ہے۔ہم پنجابی ہیں اور ہمیں پنجابی کو فروغ دینا چاہیے تاکہ ملکی و معاشرتی امور میں ہم پنجابی بولنے والوں کو غلبہ و تسلط حاصل ہو اور ہماری معاشی و سیاسی محرومیوں کا ازالہ ہو سکے۔ یہ احساس پہلی بار ہمیں مسعود کھدرپوش مرحوم نے دلایا۔ تب میں پنجاب یونی ورسٹی میں نئی نئی آئی تھی۔ ان سے پہلی اور آخری ملاقات ہوئی تو انھوں نے دعوت دی کہ میں پنجابی زبان کے فروغ اور اسے اردو کے استحصال سے نجات دلانے کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کروں۔ میں ڈر گئی اور دل میں سوچا، ضرور یہ بھارتی ایجنٹ ہیں۔میں دوبارہ ان سے ملنے کبھی نہیں گئی اور اردو بولنا، اردو میں لکھنا، اردو میں سوچنا جاری رکھا۔کچھ سالوں بعد جب بیاہ ہوا ا ور میں لاہور کے علاقے باغبانپورہ میں پہنچی تو معلوم ہو ا کہ لاہوڑ لاہوڑ ہے۔
اس گھرانے کی روایت بھی عجیب تھی۔ میرے شوہر اور ان کے سب بہن بھائی اپنے والد ین سے اردو میں بات کرتے تھے، اگرچہ لب ولہجہ وہی لاہوڑی تھا۔ میرے سسر بھی گاڑھی گاڑھی اردو بولتے تھے لیکن میری ساس ہمیشہ پنجابی میں جواب دیتی تھیں۔اس وقت تک میں بزعم خویش، لسانی معاملات کو کچھ کچھ سمجھنے لگی تھی اور ماں بولی کی اہمیت اور قدر وقیمت سے بھی آشنا ہوتی جاتی تھی۔مسعود کھدر پوش کو بھارتی ایجنٹ سمجھنے پر پشیمان بھی تھی اور ان کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد ان جیسے اہل علم و بصیرت افراد کی کمی بھی محسوس کر تی تھی۔ چناں چہ میں نے اپنی سسرال میں اعلان کردیا کہ ہم اپنے گھرانے کے بچوں کو پنجابی سکھائیں گے۔ اردو تو وہ سکول جا کر سیکھ ہی لیں گے لیکن پنجابی ان کی مادری زبان ہے، گھر میں ہمیں پنجابی ہی بولنی چاہیے۔
چنانچہ جب میری نند کی پہلی بیٹی نے غوں غاں شروع کی تو میں اسے اٹھا کر پچھلے صحن میں کھڑے آم کے پیڑ کے پاس لے گئی اور ہرے پیلے آم دکھا کر کہا، ‘انب’’۔ یہ سن کر اس کی ماں تیزی سے پلٹ کر آئی اور بچی کو اٹھا کر لے گئی۔
‘‘لوگ چاند پر جا رہے ہیں اور تم میری بیٹی کو پنجابی سکھا رہی ہو۔ یہmangoہے بیٹا، مینگو۔۔۔۔’’
میں نے سوچا، میں اپنے بچوں سے پنجابی بولوں گی۔
لیکن جب اپنے بچے ہوئے تو ان کے والد نے کہا،
‘‘میری ماں کبھی سکول نہیں گئی تھی، اس کے باوجود ہم گھر میں اردو بولتے تھے۔ تم اردو میں پی ایچ ڈی ہو اور اپنے بچوں سے پنجابی میں بات کرنا چاہتی ہو؟ انھیں تہذیب سکھاؤ، تہذیب۔۔۔’’
میری بولتی بند ہو گئی۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ تہذیب کا تعلق اردو سے ہے۔ اب میں نے اس مسئلے پر نئے سرے سے غور کرنا شروع کر دیا۔
ابھی غور کا عمل جاری تھا اور کسی نتیجہ خیز انجام تک نہیں پہنچا تھا کہ بچوں نے انگریزی میڈیم سکول میں جانا شروع کر دیا۔پھر کیا تھا،نہ ٹوٹ بٹوٹ رہے، نہ اکڑ بکڑ بمبا بو، اینگن مینگن تلی تلینگن کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ اب تو ہر طرف لندن برج واز فالنگ ڈاؤن۔اور مائی فئیر لیڈی میری گو راؤنڈ پر سوار ہو کر، بابا بلیک شیپ کو پکار رہی تھیں۔
اسلام آباد آکر پہلی بار ہمیں پاکستان کی دوسری زبانوں سے آشنا ہو نے کا موقع ملا۔ کوئی سندھی بولتاتھا، کوئی پشتو، کوئی بلوچی تو کوئی بلتی، کوئی کشمیری تو کوئی پہاڑی۔ اور تو اور، اتوار بازار سے جو توتا خرید کر لائے وہ بھی پشتو بولتا تھا:چوری اْخرا۔۔۔چوری اْخرا۔۔چر تا زئے۔ چر تا زئے۔ حالاں کہ اس کا مالک صاف اردو بول رہا تھا۔
رلّی خریدنے پہنچے تو سندھی بھائیوں سے ملے:عدی! عدی! کرتے مگر اردو بولتے۔
بلوچستان سے آ نے والے ساتھی ہم کار تو ہم سے بھی اچھی اردو بول سکتے تھے۔
اردو نہ ہوتی تو ہم سب کیسے ملتے جلتے، کیسے بات کرتے۔ ہم اس کثیر لسانی، کثیر ثقافتی ماحول میں دل جمعی سے اردو بولتے رہے۔اور اپنے ان اہلِ زبان ہم کاروں کی قطعاً کوئی پروا نہ کی جو ہماری طرف رخ کر کے کسی اور سے مخاطب ہوتے اور کہتے،یہ پنجابی ایم اے اردو کر کے جِہاد کرتے ہیں، انھیں اردو کے سات خون معاف ہیں۔
غالباً اس کی وجہ وہ اعتماد تھا جو ہمیں اس ڈانٹ ڈپٹ اور طنز ومزاح سے حاصل ہوا جس کا نشانہ ہمیں اردو والا سمجھ کر بنایا جاتا رہا۔ آپ کی تفنن طبع کے لیے چند واقعات پیش خدمت ہیں:
صدر ایوب کے سیکر ٹری اور ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل قاضی احمد سعید ڈیرہ اسماعیل خان کے پٹھان تھے اور اردو کے عاشق۔ چالیس سال تک مفت ہومیوپیتھک دواخانہ چلاتے رہے۔ ایک دن میں نے ان سے کہا، قاضی صاحب، بچے کو قبض ہو گئی ہے، اس کے پیٹ میں بہت درد ہو رہی ہے۔قاضی صاحب نے بیمار کا حال پوچھا نہ دوا تجویز کی۔ الٹا خفا ہونے لگے۔
قبض مذکر ہے اور درد بھی ہوتی نہیں ہوتا ہے، یہ کس قسم کی اردو بول رہی ہیں آپ۔ اگر آپ پنجابی ہوتیں تو میں معاف کر دیتا۔
مجھے درد تو کیا بچہ بھی بھول گیا۔ میں نے کہا، قاضی صاحب، میں پنجابی ہوں۔
بولے، ‘‘اچھا؟؟؟ تعجب ہے، مجھے معلوم نہ ہو سکا۔’’
میں نے اس جملے کو تمغہ سمجھ کر دل پر ٹانک لیا۔
پھر محبوبِ لسانی مشتاق احمد یوسفی یاد آگئے،پہلی بار انھیں خط لکھا تو جواب آیا،
لگتا ہے یوپی کی ہیں؟
میں نے لکھا،حضور میں پنجابی، میری ماں پنجابی، میرا باپ پنجابی، میرا میاں پنجابی، میری اولاد پنجابی۔ کہنے لگے، توکیا مجھےِ تلیَر سمجھ کر دھمکاناچاہتی ہیں؟
حد تو یہ ہے کہ بہاء الدین زَکریایونی ورسٹی کے مرشد کامل اور استاذ الاساتذہ ڈاکٹر انواراحمد صاحب کو بھی جب کبھی اہل ِزبان کی نندا مقصود ہو اور اتفاق سے میں بھی موجود ہوں تو طنز و مزاح کی شیرینی میں لپیٹ کر جملہ پھینکتے ہوئے میری طرف ضرور دیکھتے ہیں۔ سنا ہے پچھلے دنوں انہیں کسی نے بتایا کہ وہ خاتون تو پنجابی ہیں، آپ نے فرمایا، اچھا؟یہ میرے لیے خبر ہے۔
حاضرین کرام، اس سمع خراشی پر معذرت چاہتی ہوں۔ اس کا مقصد خود نمائی یا خود ادعائی نہیں، من توشدم کی اس واردات کی طرف اشارہ مقصود ہے جوہم اہلِ پنجاب پر اردو کی محبت میں بیت گئی ہے۔
ہم بلھے شاہ اور خواجہ غلام فرید کے کلام کے عاشق ہیں، ہیر اور سیف الملوک سن کر غش کھا جاتے ہیں، حتیٰ کہ ہمیں درد بھی ہوتا نہیں ہوتی ہے۔ مچھر کاٹتے نہیں، لڑتے ہیں، آندھی بھی ہماری اردو میں اندھیری ہو جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی اردو کبھی ہماری راہ کی رکاوٹ نہ بنی۔ الٹا ہمارے نطق سے لے کر فکر تک کی سبھی گتھیاں سلجھانے میں پیش پیش رہی۔ ہم اسی راہداری سے گزر کر علم و خبر کی دنیا کے دروازے تک پہنچے۔ نہ کبھی اردو نے ہمیں پنجابی کے لطف و رس سے دور کیا نہ پنجابی نے اردو کی تہ داری میں اترنے سے روکا۔
ایسا ہوتا بھی کیوں جب اردو اور پنجابی دونوں سگی بہنیں ہیں، دونوں کھڑی بولیاں، دونوں کا سانچا ایک سا، ساٹھ ستر فی صد ذخیرہ الفاظ مشترک، صوتی آہنگ ملتا جلتا، تذکیر و تانیث میں مماثلت، بعض اوقات تو لب ولہجے میں بھی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا۔
لیکن یہ تو پچھلی نصف صدی کا قصہ تھا۔ اب اکیسویں صدی کا تجربہ بھی ملاحظہ کیجیے۔ بچے او اور اے لیول کر چکے تو ایک عجیب بات معلوم ہوئی۔ معلوم ہوا کہ لڑکا سکول میں تو انگریزی بولتا ہے لیکن گھر میں اگر کوئی بولے تو برامان جاتا ہے۔
‘‘گھر میں انگریزی کا کیا مطلب ہے؟’’ یہ ایک کایا پلٹ تھی۔
اگلے روز کہہ رہا تھا، میں نے پختو سوسائٹی کی رکنیت لے لی ہے۔ میں پشتو سیکھنا چاہتا ہوں۔’’ پشتو کے گانے سنتا ہے اور بات بات پر پنجابی، پشتو اور ہندکو کا تڑکا لگاتا ہے۔ بیس برس پرانے اماں ابا حیران ہیں۔
یہ کیا ہوا؟ جواب ملا، نئی دنیا ایکMulti Lingual Societyہے اماں، یہاں ایک زبان سے کام نہیں چلتا۔ انگریزی ہماری تعلیمی اور پیشہ ورانہ ضرورت ہے، اردو ہماری لنگوا فرانکا ہے، پنجابی، پشتو اور سندھی بلوچی، ہمارے کلچرکی پہچان ہیں۔ آپ کو کیا اعتراض ہے؟۔
اس کی اردو شاید اردوے معلی کی طرح فصیح اور دھلی دھلائی نہ ہو، مگر یہی پاکستانی اردو کا نیا لہجہ اور نیا آہنگ ہے جسے نہ عربی فارسی الفاظ اپنے خرمن سے نکال پھینکنے کی جلدی ہے، نہ ہندی شبدوں کی کوملتاسے کوئی کد ہے، انگریزی سے اصطلاحات قبول کرنے میں بھی عار نہیں اورپاکستان کی سبھی زبانوں کے اسما اور افعال کے داخلے پر بھی اعتراض ہے نہ شرمساری۔
اب شاعری ہو یاpop موسیقی میں گائے جانے والے بول۔ نئی لسانی تشکیلات، جو ساٹھ سترکی دہائیوں کامحض ایک شعری تجربہ تھیں، اب زمینی حقیقت بن چکی ہیں۔ ادب کے دائرے سے نکل کر اخبارات کی شہ سرخیوں تک، میڈیا کے بھونپو سے لے کرجامعات کے شعبہ ہائے اردو تک، اب سب جگہ اردو کا یہی نیا لہجہ غالب ہے۔پاکستان میں اردو مستقبل کی زبان بنے گی تو اسی فراخ دلی، اسی کشادگی، اسی لوچ اور لچک کا مظاہرہ کر کے بنے گی جس کا مظاہرہ ہر زندہ زبان کی تاریخ میں ہوتا رہا ہے۔اگر انگریزی ٹیوٹونک، ڈچ، ڈینش، فلیمش، سویڈش، نارویجین، لاطینی،یونانی، عبرانی، ہندوستانی، چینی، بنگالی، عربی، روسی، اسپینی اورافریقی زبانوں کے الفاظ کا مجموعہ ہو کر بھی انگریزی کہلا سکتی ہے، اگر ایرانی ‘‘ک’’ کی چار آوازیں اپنا سکتے ہیں اوراگر امریکیhonourکا uاور chequeکا qنکال کر بھی انگریزی بول سکتے ہیں تو اردو اس تلفظ اور لب ولہجے کو کیوں نہیں اپنا سکتی جو اس کے بولنے والوں کے اعضاے نطق سے مانوس تر ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری نئی نسلیں ہم سے زیادہ ذہین، باشعور اور روشن خیال ہیں۔ وہ زبانوں کو ایک آلہ کار سمجھتی ہیں اور ان سے اپنے مقاصد کے حصول میں کام لینا چاہتی ہیں، خود انھیں منزل مقصود سمجھ کر ایک دوسرے پر تلواریں سونت لینے کی قائل نہیں۔ہمیں بھی ہتھ ہولا رکھنا چاہیے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے