وہ میرے شہر کی طرف چل پڑا ہے
بڑھتی دھڑکن کو آنچل میں چھپا لو
جلدی کرو
گلابی بادلوں کی ٹکڑیاں
مخملی آسمانی شال پر ٹانک دو
فضا میں مدھر میلوڈی کو گونجنے دو
پرندوں سے کہو والہانہ رقص کریں
بے موسم بارش کو برستے رہنے کا حکم جاری کر دو
اس کے قدموں نے میرے شہر کی سڑک کو چھو لیا ہے
چلو سولہ سنگھار کر لو
مٹی کی سوندھی سوندھی مہک سانسوں میں بھر لو
پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کی کلیاں سجا دو
آتش دان میں لکڑیاں بڑھا دو
چمنیوں سے اٹھتا دھواں اطراف میں بکھرنے دو
سرسوں کے پیلے پھولوں کو دھند پہننے دو
گرم چائے کی پیالیاں کھنکنے دو
 محبت کی تڑپ کو شاعری کی کتاب میں چھپنے دو
نظر کی تیز شعاعوں سے جمی برف پگھلنے دو
تنہائی کو نئی بہار کا شہد چکھنے دو
اس نے اپنا بیگ پیک کر لیا ہے
لمحوں کو مٹھی میں جکڑ لو
واپس مڑنے والی بس کا ٹائر پنکچر کر دو
پلٹ کر دیکھو
آسمان پر کئی برسوں بعد دھنک کھلی ہے
جو بس کے چلتے ہی ٹائر کے نیچے آ جائے گی
ہنسی کا بادامی پھول شاخ سے جھڑ جائے گا
نئے نکور پھول کھلتے ہی کملا جائیں گے
شام ہونے سے پہلے رات اتر آئے گی
لیکن بے رحم بس چلتی چلی جائے گی
0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے