اس پورے علاقے میں چا چی منظورو کو کون نہیں جانتا ۔چور بازار کے کسی بچے سے بھی پوچھئے کہ وہ کہاں رہتی ہیں، تو بچہ حیرت سے آپ کو دیکھے گا، آپ کی کم علمی پر دکھ سے سر ہلائے گا پھر انگلی اٹھا کر کہے گا :
‘‘وہ سامنے تو رہتی ہیں،پرانی کتابوں والے کے اوپر …’’
چور بازار میں چاچی کی وہی حیثیت تھی جو سیاست کے بازار میں اندرا گاندھی کی تھی ۔ وہ ایک ہی وقت میں مقبول بھی تھیں اور نا مقبول بھی ۔ چور بازار والے …میرا خیال ہے میں غلطی کر رہا ہوں ۔ چاچی سے پہلے مجھے چور بازار کا تعارف کرانا چاہیے ۔!
جے جے اسپتال کے چوراہے سے گرانٹ روڈ اسٹیشن کی طرف رُخ کر کے مولانا شوکت علی روڈ پر چلنا شروع کیجئے تو سڑک کی دونوں جانب پتلی پتلی گلیوں کے درجنوں دہانے دکھائی دیتے ہیں ۔ بالکل ایسا لگتا ہے جیسے ایک بڑے سے پائپ میں بہت سے چھوٹے چھوٹے پائپ جوڑ دیئے گئے ہوں ۔ انہی گلیوں میں سے بائیں جانب والی کچھ گلیوں کا ایک چھتّا چور بازار کہلاتا ہے ۔پہلے یہ بازار چار پانچ گلیوں پر مشتمل تھا مگر اب سمٹ گیا ہے اور دو تین گلیاں ہی چور بازار کی قدیم روایت کو سنبھالے ہوئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ جن محلّوں کو چور بازار کہا جاتا ہے ،ان کے اپنے نام نہیں ہیں ؟ ۔ جی بالکل ہیں…… اور گلی کے ناکے پر بد رنگ اور اُداس بورڈ نظر بھی آتے ہیں۔ مگر ان پر جو نام لکھے ہیں، وہ نام میونسپل کارپوریشن ،پوسٹ آفس اور ووٹر لسٹ میں کام آتے ہیں ۔ان گلیوں کے اصلی نام لینے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ،چور بازار کہہ دینے سے کام چل جاتا ہے ۔ اب یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اچھے بھلے شریفوں کے علاقے کو چور بازار جیسے نام سے کیوں نوازدیا گیا، جسے سن کر کوئی بھی اجنبی پہلے چونکتا ہے ،پھر مسکرا دیتا ہے ۔
چور بازار کی کہانی اس زمانے سے شروع ہوتی ہے جب ہندستان پر بڑے چوروں کی حکومت تھی، یعنی انگریزوں کی ۔ تب ان گلیوں میں غریب اور متوسط طبقے کے مکانات تھے اور ایسی دوکانیں تھیں ،جن میں غریبوں کی ضرورت کا سارا سامان مل جاتا تھا ۔ کچھ دوکانیں ایسی بھی تھیں ،جن میں وہ سامان ملتا تھا، جو بڑے گھروں سے کاٹھ کباڑ سمجھ کرپھینک دیا جاتا تھا، یا گلی گلی گھوم کر پرانا سامان خریدنے والے کباڑیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا جاتا تھا ۔ وہ کباڑی ،استعمال کے قابل چیزوں کو اس بازار میں لا کر بیچ دیا کرتے تھے اور وہ چیزیں پھر کسی ضرورت مند یا شوقین کے گھر میں پہونچ جایا کرتی تھیں ۔ اب آپ تو جانتے ہیں کہ ایمان اور بے ایمانی میں دو حرف کی دوری ہے۔ اس لیے ان دوکانوں پر چوری کا مال بھی پہونچ جا یا کرتا تھا ۔ وہ دوکان دار جن کو اپنا منا فع زیادہ عزیز ہوتا تھا بھلا کیوں پوچھتے کہ مال کس رستے سے ان تک پہونچا ہے ۔ اس لیے اس بازار میں کچھ دوکانیں ایسی بھی بن گئیں، جن میں سکینڈ ہینڈ کے نا م پر چوری کا مال کھلے عام ملتا تھا ۔ کسی مسجد یامندر سے اڑائے گئے جوتے ، ہوٹلوں سے چرائے گئے چمچے، کانٹے اور پلیٹیں ۔موٹر گاڑیوں کے پارٹ پرزوں کا تو حساب ہی نہ تھا ۔ ہیڈ لائٹس سے لے کر وائپر تک اور وہیل کیپ سے لے کر سٹیرنگ وہیل تک، وہ کونسا پارٹ یا پرزہ ہے جو ان دوکانوں پر نہیں ملتا، جہاں بظاہر پرانا سامان بیچا اور خریدا جاتا ہے ۔
چلتے چلتے ایک قصہ سن لیجئے ،میری بات سمجھنے میں آسا نی ہوگی۔ ایک مشہور فلمی اداکار نے ایک قیمتی امپورٹڈ کار خریدی اور اس خوشی کو دو بالا کرنے کے لیے اپنی فیملی اور دوستوں کو لے کر ایک ریستوراں پہونچے مگر جب لنچ کے بعد باہر آئے ،تو دیکھا کہ نئی گاڑی کی سٹپنی غائب ہے (وہ ایکسٹرا پہیا جو دکی کے اندر ہوتا ہے یا پیچھے لگا ہوتا ہے ) ۔ ایکٹر صاحب غصّے میں تلملاتے ہوئے پولیس سٹیشن پہونچے اور چوری کی رپورٹ درج کرائی ۔ ڈیوٹی آفیسر کوئی سمجھ دار آدمی تھا اس نے ایکٹر کو سمجھایا ۔
‘‘سر…… ہم سٹپنی کو تلاش کرنا ابھی شروع کر دیں گے ۔ مگر ملنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ گاڑیوں کے سامان چرانے والے پیشہ ور چور ہوتے ہیں ۔ ان کا پورا گینگ ہوتا ہے ۔ آپ کی سٹپنی اب تک پتہ نہیں کہاں کی کہاں پہونچ چکی ہوگی !’’
ایکٹر بے چار ا روہاسا ہو گیا ۔
‘‘امپورٹڈ گاڑی ہے اس کی اسٹپنی تو یہاں ملے گی بھی نہیں ۔اب میں کیا کروں ؟’’
پولیس آفیسر نے کہا
‘‘میں آپ کو ایک غیر سرکاری رائے دے سکتا ہوں کہ وقت ضائع مت کیجئے ،سیدھے چور بازار چلے جائیے اگر قسمت اچھی ہوئی تو اسٹپنی مل جائے گی ۔!’’
اور وہی ہوا ایکٹر کو سٹپنی مل گئی …
میں بھی کہاں بھٹک گیا ،بات ہو رہی تھی چاچی منظورو کی جو چور بازار کی جانی مانی ہستی تھیں ۔ مٹن سٹریٹ کے کونے پر ایک پرانی سی دو منزلہ عمارت تھی۔ جس کے نیچے دو دوکانیں ہوا کرتی تھیں ۔دائیں طرف والی میں نیا اور پرانا فرنیچر ملتا تھا ۔ بائیں طرف جو دوکان تھی، اس میں باہر کی طرف جوتے رکھے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔ ذرا گردن لمبی کر کے دیکھئے تو اسی دوکان میں اندر کی طرف پرانی کتابوں کے انبار دکھائی دیتے تھے ۔ دونوں دوکانوں کے بیچ عمارت میں جانے کا راستہ تھا ،یہ ایک کوریڈور تھا۔کوریڈور کیا تھا اچھا بھلا غار تھا ۔ اس میں دن میں بھی اندھیرا رہتا تھا ۔اس اندھیرے کی وجہ یہ تھی کہ کوریڈور میں کوئی کھڑکی دروازہ نہیں تھا ،جس سے روشنی اندر آسکتی اور کوئی بلب بھی نہیں جلتا تھا ۔ دو دروازے ضرور دکھائی دیتے تھے جو گراؤنڈ فلور پر رہنے والوں کے گھر تھے۔پورا کوریڈور طرح طرح کے ڈبوں ،سائکلوں اور فالتو چیزوں سے بھرا ہو ادکھائی دیتا تھا ۔ دروازے کی پیشانی پر پتھر کی ایک تختی لگی تھی، جس پر زینب منزل لکھا تھا اور بہت غور سے پڑھنے میں آتا تھا، کیونکہ تختی کے چہرے کی دھول صاف کرنے والا کوئی نہ تھا ۔ دروازے میں گھستے ہی ایک زینہ دکھائی دیتا تھا ، جو اوپر کی دو منزلوں تک جاتا تھا ۔ اوپر کا حال بھی نیچے والی کوریڈور سے ملتا جلتا تھا ،فرق صرف اتنا تھا کہ اس فلور پر کاٹھ کباڑ بھرا ہوا نہیں تھا ۔ دائیں طرف کا پہلا دروازہ چاچی منظورو کا تھا ۔چا چی منظورو سے میرا تعارف ظہیر نے کرایا تھا ، جو پرانے فرنیچر کی دوکان چلاتا تھا اور میرا بڑا اچھا دوست تھا ۔اس نے چاچی کے بارے میں ایسی ایسی باتیں بتائی تھیں کہ میں اُ ن میں دلچسپی لینے کے لیے مجبور ہو گیا تھا۔ایک دن میں اور ظہیر دوکان کے باہر کرسیاں ڈالے بیٹھے تھے اور اپنے کالج کے زمانے کویاد کر رہے تھے اور دودھ پتی چائے کا مزہ بھی لیتے جا رہے تھے۔ اچانک بلڈنگ کے اندر سے ایک بزرگ خاتون باہر نکلتی ہوئی نظر آئیں۔ بڑی بڑی روشن آنکھیں ،بے حد صاف رنگت اور گول چہرہ ،جوانی میں کافی خوبصورت رہی ہونگی۔ انھوں نے سوتی سفید کپڑے پہن رکھے تھے اوردوپٹہ سر پر اس طرح بندھا ہوا تھا جیسے مسلمان عورتیں نماز کے وقت باندھتی ہیں۔ ماتھے پر سجدے کا ہلکا سا سرمئی نشان بھی تھا ۔وہ جیسے ہی قریب آئیں ،ظہیر کھڑا ہو گیا۔
‘‘سلام چاچی،کہاں جا رہی ہیں سویرے سویرے ؟’’
چاچی رک گئیں ۔
‘‘جیتے رہو …ارے بھیّا اسپتال جا رہے ہیں ،وہ اپنی پڑوسن ہے نا نور جہاں، اس کا بچہ بیمار ہے ،پتہ نہیں معصوم نے کیا کھا لیا کہ الٹی جلاب رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں !’’
‘‘اتنی دور اکیلی کیسے جاؤ گی چاچی ؟ میں چلو تمہارے ساتھ ؟’’
‘‘ارے نہیں بھیّا… تم اپنا دھندا دیکھو ،ہم چلے جائیں گے !’’ چاچی نے جواب دیا۔ انھوں نے میرے او پر ایک پھسلتی ہوئی نظر ڈالی اور آگے بڑھ گئیں۔
میں نے پوچھا تو ظہیر نے بتایا
‘‘یہ چاچی منظورو ہیں !’’
‘‘اچھا تو یہ ہیں چاچی منظورو!’’ میں نے جاتی ہوئی بزرگ خاتون کو دیکھا۔
پورے محلے کا کوئی بندہ بشر ایسا نہ تھا جو چاچی کو نہ جانتا ہو اور وجہ اس کی یہ تھی چاچی ہر گھر کی خبر رکھتی تھیں اور خبر گیری بھی کرتی تھیں ۔کوئی بیمار ہو ،پریشان ہو، بچوں کو پڑھانا ہو ،وہ ہر جگہ موجود اور مستعد دکھائی دیتی تھیں ۔ اپنی عمر کی عورتوں کی کہانیاں جو زیادہ تر پرانی یادوں اور بہو یا بیٹے کی شکا یتیں ہوتی تھیں ۔ چاچی اس طرح سنتیں جیسے کسی مولانا کا وعظ یا محرم کی مجلس سن رہی ہوں ۔ کوئی الٹا سیدھا کا م ہوتے دیکھتیں تو منہ پر کھری کھری سنا دیتیں ۔چوری کا مال بیچنے والوں سے انھیں پرانا بیر تھا۔ جب بھی سامنے پڑ جاتا چاچی شروع ہو جاتیں ۔
‘‘اللہ سے ڈرو ۔کیا منہ دکھاؤگے اس کو ۔رسول کا زمانہ ہوتا تو ہاتھ کاٹ دئیے جاتے تمہارے وغیرہ وغیرہ … ’’
انھیں برا کہنے والے بھی کم نہ تھے ،جلی کٹی باتیں وہ بھی بھرے بازار میں کس کو اچھی لگتی ہیں ،چاہے وہ سچی ہی کیوں نہ ہو ں ۔ ایک دن تو حد ہی ہوگئی تھی ۔جمعہ کا دن تھا اس دن چور بازار کی زیادہ تر دوکانیں بند رہا کرتی تھیں اور ان بند دوکانوں کے سامنے چھوٹی چھوٹی دوکانیں لگ جاتیں ۔ لوگ سڑک پر کپڑا یا پلاسٹک بچھا کر اپنا سامان سجا دیتے ،یہ بازار خوب چلتا تھا کیونکہ رستے کا مال سستے میں مل جاتا ۔ اس دن ظہیر کی دوکان جمعہ کی نماز کے بعد کھلتی تھی اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میں اور وہ مسجد میں ملتے اور پھر ساتھ ہی دوکان پر آجاتے ۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔ ہم دونوں اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ کھانا منگا لیا جائے یا ہوٹل میں جا کر کھایا جائے کہ اچانک باہر سے شور کی آوازیں آنے لگیں ۔ میں اور ظہیر باہر نکلے تو دیکھا کہ چاچی منظورو ایک بڈھے پر گرج رہی ہیں۔وہ کہہ رہی تھیں
‘‘نامراد ،بد نصیب…… خدا تجھے غارت کرے، تو نے کعبہ شریف اور رسول کے روضے کی تصویریں زمین پر بچھا رکھی ہیں ،لوگوں کے پیر اس کے پاس سے گزر رہے ہیں ،تجھے شرم نہیں آتی، شکل سے مسلمان معلوم ہو تا ہے مگر کیسا مسلمان ہے …’’
بڈھا بھی کچھ کم نہیں تھا ،پلٹ کے بولا
‘‘ارے تو پھر کہاں رکھیں، سر پہ رکھ لیں یاپھر گلے میں لٹکائیں!’’
چاچی نے کہا
‘‘کہیں بھی رکھ مگر ان تصویروں کی بے حرمتی تو مت کر ۔یہ کعبہ ہے جہاں جانے سے بخشش ہوتی ہے، سمجھا۔ اور یہ ہمارے رسول کا روضہ ہے، ارے کچھ تو عزت کر …! ’’
بڈھا بھی گرمی کھا گیا، بولا
‘‘ارے عزت کریں گے تو کھائیں گے کیا ،یہ ہماری روزی ہے ……کہیں نہیں لے کے جائیں گے، یہیں بیچیں گے ،کر لو کیا کرتی ہو! ’’
اس سے پہلے کہ بات بڑھ جاتی کیونکہ چاچی نے پاس کی دوکان سے ایک پرانا جوتا اٹھا لیا تھا اور بڈھے پہ برسانے والی تھیں کہ لوگ آ گئے اور بیچ بچاؤ کرنا شروع کر دیا ۔ ہم دونوں تماشہ دیکھتے رہے اور اس کا حل کسی بھلے آدمی نے یوں نکالا کہ ایک پرانی چار پائی کہیں سے لا کے رکھی گئی اور تصویریں جو زمین پر رکھی تھیں کھٹیا کے اوپر سجا دی گئیں۔ چا چی بکتی جھکتی اپنا پسینہ پونچھتی ہوئی چلی گئیں ۔ میں نے ظہیر سے کہا
‘‘ کمال کی عورت ہے بھائی ،اگر کوئی مسلم ملک میں ہوتیں تو وزیر اخلاقیات بنادی جاتیں !’’
ظہیر مسکرایا ،یہ اس کی ایک خاص والی مسکراہٹ تھی۔ اس میں اس کے ہونٹوں کا ایک کونا کچھ کھنچ جاتا لیکن پورے ہونٹ نہیں کھلتے اورآنکھیں چھوٹی ہو جاتیں اور ایک عجیب سی شرارت ابھر آتی ۔ اس ادھوری مسکراہٹ کو دیکھ کر یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ مسکرا رہا ہے ،ہنسنے کی کوشش کر رہا ہے یا مذاق اڑارہا ہے یا دل ہی دل میں گالی دے رہا ہے ۔ میں نے کہا
‘‘ارے یار یہ تم اس طرح مسکرانا بند کرو ،جب بھی چاچی کا ذکر آتا ہے تم اسی طرح اپنی ایک بانچھ ٹیڑھی کر کے منہ بنا لیتے ہو آخر بات کیا ہے ؟ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ تم چا چی کو پسند نہیں کرتے یا پھر کوئی بات ایسی ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہو، کیا بات ہے ؟ ’’
ظہیر نے سر ہلایا اورکچھ ٹالنے والے انداز میں بولا
‘‘کچھ نہیں یار !چلو چلو کھانا کھاتے ہیں، بھوک لگ رہی ہے !’’
ہم کھانا کھانے کے لیے چلے گئے، مگر وہ بات میرے ذہن میں گھومتی رہی۔ آخر ایسا کیا رازہے جو ظہیر بتا نا نہیں چاہتا ۔بہت دن بعد پھر ایک بار جب چاچی نظر آئیں تو میں نے ظہیر سے کہا تھا
‘‘یار ظہیر چاچی کا توکوئی ذریعہ معاش بھی نہیں ہے، پھر بھی وہ اتنے تھاٹ باٹ سے کیسے رہتی ہیں اور کس طرح لوگوں کی مدد کرتی ہیں ؟’’
ظہیر کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر اس نے بتایا کہ اس کے برابر والی دوکان جس میں جوتے اور پرانی کتابیں ملتی ہیں ،چاچی منظورو کے شوہر شبیر حسین کی تھی جو اس علاقے میں چاچا کے نام سے مشہور تھے۔ ان کے انتقال کے بعد چاچی نے خود دوکان چلانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکیں ۔ اس لیے دوکان بیچ دی اور ایک دوسرا کاروبار شروع کر دیا، جس میں دوکان سے کہیں زیادہ فائدہ ہوتا ہے اور کہیں آنا جانا بھی نہیں پڑتا !
‘‘ ایسا کون سا کاروبار ہے یار ؟’’ میں نے پوچھا
ظہیر مسکر ایا اور وہی عجیب سی آدھی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی ۔ اس نے ایک دو بار سر کو جھٹکا دیا پھر بولا
‘‘چاچی کو چھوڑو یار ،تم اپنی سناؤ ؟ اس فلیٹ کا کیا ہوا جو تم خریدنے والے تھے ؟’’
میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بتایا
‘‘ابھی تک اتنے پیسوں کا بندوبست نہیں ہو پایا ہے کہ فلیٹ خریدا جا سکے ۔ اس شہر میں گھروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں !’’
ظہیر نے کسی بوڑھے فلسفی کی طرح سر ہلایا اور اپنی مختصر سی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا
‘‘یہ تو بہت پرانا مسئلہ ہے یار، جب گھر ہزاروں میں ملتے تھے تو ہمارے پاس ہزار نہیں تھے اور جب ہزار ہوئے تو گھروں کی قیمت لاکھوں تک پہونچ گئی ۔اور جب لاکھوں ہو جائیں گے تو بات کروڑوں تک جا پہونچے گی ۔ یہ ریس ہمیشہ سے اِسی طرح ہوتی آئی ہے !’’
میں چپ ہو گیا پھر میں نے پوچھا
‘‘تم ابھی بتا رہے تھے کہ چاچی منظورو کوئی ایسا کاروبار کرتی ہیں، جس میں اچھا منافع ہوتا ہے اور کچھ کرنا بھی نہیں پڑتا ہے ۔ کیا کرتی ہیں وہ ؟ ’’
ظہیرنے آنکھیں جھپکائیں اور بولا
‘‘تم نہیں کر سکوگے !’’
میں تھوڑا سا چڑا گیا ۔
‘‘ارے کیا گول مول باتیں کر رہا ہے یار ،بتاتا کیوں نہیں ؟ کیا چاچی اسمگلنگ کرتی ہیں ؟’’
‘‘نہیں !’’ ظہیر نے آواز دبا کر کہا ‘‘سود پر پیسہ دیتی ہیں !’’
‘‘کیا ؟ ’’ میں اچھل پڑا ‘‘یہ پانچوں وقت کی نمازی بڑی بی سود لیتی ہیں ؟ کیا انھیں معلوم نہیں ہے کہ اسلام میں سود لینا اوردینا دونوں حرام ہے ! ’’
‘‘اچھی طرح جانتی ہیں ،جاہل نہیں ہیں !’’
‘‘پھر بھی ؟ ’’۔میں نے پوچھا
ؓظہیر نے گردن ہلائی اور کہا
‘‘ایک بار میں نے پوچھا تھا تو ان کا جواب تھا ۔ارے توبہ توبہ ہم تو سود کے پیسوں کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے ہیں ۔ وہ بینک والا سعادت ہے نا کبھی کبھی ایسے بیوپاریوں کو لے کر آ تا ہے جنھیں اپنے کارو بار کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، تو ہم دے دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ بھیّا جب دھندے میں فائدہ ہو تو کچھ ہمیں بھی دے دینا۔ اب اگر کوئی نامرادہمیں بد نام کرنے کے لیے افواہیں پھیلا تا ہے کہ ہم سود کھاتے ہیں تو وہ جانے اور اس کا کام !’’
‘‘اور تم نے چاچی کی یہ کہانی مان لی !’ ’ میں نے کہا
‘‘نہیں مانی مگر کر بھی کیا سکتے ، یہیں قریب میں کتنے افغان پٹھان رہتے ہیں جو سود پر پیسہ دیتے ہیں اور سود بھی چھوٹا موٹا نہیں ۔ بیس اور تیس پرسنٹ …پہلی تاریخ کو جب ملوں اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کو تنخواہ ملنے والی ہوتی ہے تو یہ سود خور پٹھان گیٹ پر جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور جیسے ہی کوئی ایسا مزدور یا کاریگر باہر آتا ہے جس نے ادھار لیا ہوتا ہے تو اس کی گردن پکڑ کے بیاض کی رقم وصول کر لیتے ہیں ۔کوئی دینے میں ہچر مچر کرے یا بعد میں دینے کا وعدہ کرنے لگے تو سب کے سامنے پٹائی کر ڈالتے ہیں اورپیسہ بھی چھین لیتے ہیں ۔ میں نے کتنے ہی غریب مزدوروں کو روتے ہوئے دیکھا ہے مگر کیا کیا جا سکتا ہے سوائے ترس کھانے کے !’’
میں چپ ہو گیا ۔ مگر افسوس بہت ہوا ،ایک نیک ،دردمند اور دوسروں کی مدد کرنے والی عورت کی جو تصویر میرے ذہن نے بنائی تھی وہ اچانک ٹوٹ گئی ۔
مجھے سر جھکائے بیٹھا دیکھ کر ظہیر نے کہا
‘‘کہاں پہونچ گئے بھائی جان ؟’’
‘‘چاچی منظورو کے بارے میں سوچ رہا تھا ،دل نہیں مانتا کہ اُن جیسی پاکیزہ صورت بزرگ ایسا گناہ بھی کر سکتی ہیں !’’
ظہیر پھر مسکرایا
‘‘کوئی نئی بات نہیں ہے ۔سود کھانے والے ایک مسلمان بزرگ جو اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھے ،حدیثوں اور روایتوں کی مدد سے ثابت کیا کرتے تھے کہ سود لینا ناجائز نہیں ہے !’’
‘‘کون تھے وہ ؟ ’’ میں نے حیرت سے پوچھا
‘‘شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد …کیا تمہیں فرحت اللہ بیگ کا مضمون یاد نہیں ہے، وہ تو ہمارے کورس میں تھا ! ’’
میں نے سر ہلایا ،مجھے وہ خاکہ یاد آ گیا تھا ۔ اس کے بعد کئی بار چاچی منظورو سے آمنا سامنا بھی ہوامگر مجھے ان سے بات کر نا اچھا نہیں لگا ۔بس سلام دعا کی حد تک ہی ٹھیک تھا اور وہ بھی ظہیر کی وجہ سے ۔ ہاں یاد آیا ایک بار انھیں انگلش میں ایک ایپلی کشن لکھوانی تھی ۔ ظہیر کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے اس نے مجھے بھیج دیا تھا ۔وہ پہلا موقع تھا جب میں چاچی کے گھر گیا تھا۔ گھر کافی بڑا تھا مگر کمرے دو ہی تھے ، ایک بڑا کمرہ جسے آپ ہال کہہ لیجئے اور ایک چھوٹا کمرہ جو شاید بڈ روم تھا ۔ ہال کے ایک کونے میں پاخانہ ،غسل خانہ دکھائی دیتا تھا۔ چاچی نے اپنا کچن اس بالکنی کو بنا لیا تھا جو سڑک کی طرف تھی۔ کہنے کو دو موٹے موٹے پردے بھی پڑے ہوئے تھے لیکن وہاں کھڑے ہو کر پوری گلی کا معائنہ کیا جا سکتا تھا ۔ اور یہی وجہ تھی کہ چاچی منظورو چور بازارمیں ہونے والی تمام اچھی اور بُری باتوں کی خبر رکھتی تھیں۔ہال کی دیواروں پر فریم کی ہوئی بہت سی تصویریں لگی ہوئی تھیں ۔ یہ سب تصویریں درگاہوں ، مزاروں اور مکہ مدینہ کی تھیں اور اس بڑھیا کی دوہری شخصیت کو ظاہر کرتی تھی ۔ ایک طرف عبادت اور ریاضت ،دوسری طرف سود خوری ،واہ کیا بات ہے ۔ میرا جی چاہا کہ اس دوغلی بڑھیا کو کچھ کھری کھری سنا ڈالوں جیسی وہ دوسروں کو سناتی ہے مگر یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ وہ جانے اور اس کے اعمال،حساب کرنے والا تو اللہ ہے۔!
میں باربار چاچی کو ظہیر کی دوکان کے سامنے سے گزرتے دیکھتا رہا ،وہ بڑھیا جب بھی دکھائی دیتی ، میرے منہ میں ایک گالی آ کر رک جاتی ،اُس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ میں بہت زیادہ مذہبی آدمی ہوں لیکن مجھے جھوٹ بولنے والوں ،منافقت کرنے والوں اور دھوکے بازوں سے بڑی نفرت ہے ۔!
میں اپنی کمپنی کے کام سے دہلی آیا ہوا تھاکہ ایک دن ظہیر کے فون سے پتہ چلا کہ چاچی منظورو اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ مجھے کوئی صدمہ نہیں ہوا ۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا جاتا ہے ، مر گئے مردود جن کی فاتحہ نہ درود۔پھر بھی میں نے پوچھ لیا
‘‘کیا بیماری تھی بڑھیا کو؟ ’’
‘‘بیماری تو کوئی بھی نہیں تھی ،کہیں سے دھوپ میں چلتی ہوئی آ رہی تھیں ،اچانک سڑک پر گری اور ختم ہو گئیں، پولیس نے پوسٹ مارٹم کرایا تھا ،پتہ چلا کہ ہارٹ اٹیک ہوا تھا !’’ظہیر نے بتایا۔
میں نے ایک لمبی سانس لی اور سپاٹ آواز میں کہا
‘‘خدا اُن کے گناہوں کو معاف کرے!’’اور فون بند کر دیا ۔!
چاچی کے انتقال کے تقریباً ڈھائی مہینے بعد دو آدمی ظہیر کی دوکان میں داخل ہوئے ۔ آگے آگے ایک بوڑھا تھا، جس نے ڈھیلی ڈھالی شیروانی پہن رکھی تھی،سر پر رامپوری ٹوپی تھی اور داڑھی میں سفید بال زیادہ دکھائی دے رہے تھے ،اس کے ساتھ جو نو جوان تھا وہ پینٹ شرٹ میں تھا اور بڑے ادب سے بوڑھے کے پیچھے چل رہا تھا ۔ ظہیر نے ایک صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
‘‘بیٹھئے!’’
دونوں بیٹھ گئے ،تو ظہیر نے پوچھا
‘‘جی فرمائیے ،کیا چاہیے آپ کو ؟ ’’
بوڑھے نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا
‘‘ ہم بہرائچ سے آئے ہیں اور ہمیں منظور فاطمہ صاحبہ سے ملنا ہے ،مگر ان کے دروازے پر تالا لگا ہوا ہے ،کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں گئی ہیں ؟’’
ظہیر نے اور اُس کے ساتھ میں نے بھی بڑے میاں کو حیرت سے دیکھا۔کچھ سوچنے کے بعد ظہیر نے کہا
‘‘چاچی منظورو کا تو انتقا ل ہو گیا! ’’
وہ دونوں اس طرح اُچھلے جیسے صوفے نے کرنٹ مار دیا ہو۔
‘‘انتقال؟’’ نوجوان نے بڑی حیرت سے پوچھا ،حیرت اتنی زیادہ تھی کہ اس کی آوازبہت ہی بلند ہو گئی تھی ۔بوڑھے کے منہ سے آواز نہیں نکلی، وہ صرف منہ کھولے ،آنکھیں پھیلائے ہم دونوں کو دیکھتا رہا ۔کچھ دیر بعد اپنے حالت پر قابو پانے کے بعد ،بوڑھے نے کپکپاتی ہوئی آواز میں پوچھا
‘‘یہ کب ہوا،کیسے ہوا؟’’
ظہیر نے بوڑھے کو چاچی کے مرنے کی تفصیل بتا دی۔
بوڑھے نے سر جھکا لیا ۔نوجوان حیرت اور بے یقینی کے ساتھ ہم دونوں کو باری باری دیکھنے لگا ۔
‘‘کیاچاچی منظورو آپ کی رشتے دار تھیں ؟’’ظہیر نے پوچھا
بوڑھے نے سر اٹھایا اور آنسوؤں کو روکنے کے لیے پلکیں جھپکاتا ہوا بولا
‘‘جی نہیں ! وہ ہماری رشتے دار نہیں تھیں مگراُس سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ ہماری سب کچھ تھیں…مسیحا تھیں ہماری! ’’ اور جیب سے رومال نکال کر آنسو پونچھنے لگا۔
میں نے مٹکے سے پانی لیا اور گلاس بوڑھے کی طرف بڑھایا
‘‘یہ پی لیجئے اور ذرا کھل کے بتائیے کہ بات کیا ہے؟ ’’
بوڑھے نے پانی کاایک گھونٹ لیا پھر کہنے لگا
‘‘ہمارا نام سید بشیر حسین ہے اور یہ ہمارا بیٹا ہے منصور ،ہم دونوں قصبہ جمال پور ضلع بہرائچ میں لڑکیوں کا ایک یتیم خانہ چلاتے ہیں ،جس کا نام ہے
‘اُمید کا آنگن’ اُس میں یتیم لڑکیوں کی پرورش کی جاتی ہے، انھیں تعلیم دی جاتی ہے ،گھرکے کام کاج سکھائے جاتے ہیں۔ سینا پرونا ،کھانا بنانا وغیرہ وغیرہ اورجب وہ شادی کے قابل ہو جاتی ہیں تو ہم ان کی شادی کر دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی نئی زندگی شروع کر سکیں … اس یتیم خانے کا خرچا پچھلے سولہ برس سے بڑی حد تک منظورفاطمہ صاحبہ بھیجا کرتی تھیں ۔ فی الحال آنگن میں ستائیس لڑکیاں ہیں ،جن کی عمریں تین سے اٹھارہ برس تک ہیں ۔ جن میں سے دو لڑکیوں کی شادی طے ہو چکی ہے …’’بوڑھے نے پھر تھوڑا سا پانی پیا اور بولنے لگا ‘‘ یہ شادیاں منظور فاطمہ صاحبہ کی مرضی سے طے کی گئی ہیں ،نکاح کی تاریخ بھی انھیں نے مقرر کی تھی اور شادی کے اخراجات کے لیے رقم اور رقم بھیجنے کی تاریخ بھی طے کر دی تھی لیکن جب دو مہینے تک نہ منی آرڈر آیا اور نہ کسی خط کا جواب ملا، تو ہم سب پریشان ہو گئے اور ہمیں یہاں آنا پڑا…اور یہاں آ کر معلوم ہوا کہ …’’ بشیر حسین نے پھر ایک بار آنسو روکنے کی کوشش کی اور بھرّائی ہوئی آواز میں بولے ‘‘نکاح کی تاریخ سر پر آ چکی ہے ،ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اب ہم کیا کریں گے ۔خدانخواستہ اگر رشتے ٹوٹ گئے تو بد نصیب لڑکیوں کا کیا ہوگا! ’’ انھوں نے رومال آنکھوں پر رکھا اور سر جھکا لیا!
شو روم میں اتنی خاموشی تھی کہ سامنے سڑک پر چلنے والوں کے پیروں کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی ۔ میرا دماغ بہت کچھ سوچنا چاہتا تھا مگر ایسا لگتا تھا جیسے سوچنے کی طاقت ختم ہو چکی ہے ۔ چاچی منظورو کا جو روپ سامنے آیا تھا، وہ تو میں سوچ ہی نہیں سکتا تھا !
‘‘اچھا تو چاچی وہ سود اس لیے لیا کرتی تھی کہ‘ اُمید کا آنگن’ کو بھیج سکیں ،جہاں لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور ان کی شادیاں کی جاتی ہیں ۔یہ تو بہت بڑا کام کیا ہے انھوں نے ،مجھے کتنی غلط فہمی تھی ان کے بارے میں! ’’
میرے خیالات کی ڈور بشیرحسین کی آواز سے ٹوٹی جو پوچھ رہے تھے
‘‘یہاں ان کے وارثوں میں سے کوئی ہے، جس سے ہم بات کر سکیں؟’’
ظہیر نے انھیں بتایا
‘‘چاچی کے انتقال کے کچھ دن بعد پتہ نہیں کہاں سے ان کا ایک رشتے دار نکل آیا، جس نے یہ ثابت کیا کہ وہ ان کا بھانجا ہے اور اس حساب سے وہ چاچی کے مکان اور جو کچھ بھی ان کا اثاثہ ہے اس کا مالک بن گیا۔مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس لڑکے کو بھی چاچی کے بینک میں پیسے نہیں ملے تھے اور وہ ہمارے پاس آ کر شکایت کر رہا تھا کہ آخر چاچی کا پیسہ گیا کہاں؟… بینک اکاؤنٹ میں سے تو چارپانچ ہزار ہی نکلے !’’
‘‘نکلتے کیسے۔ چاچی نے سارے پیسے تو بہرائچ بھیج دیئے تھے !’’ میں نے اپنے دل میں سوچا
سید بشیر حسین کی کہانی سن کر اور ان کی حالت دیکھ کر اُ ن کو خالی ہاتھ لوٹا دینے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ ہم دونوں سے جتنا ممکن ہوا، ہم نے مدد کی ،کچھ اور لوگوں سے بھی چندہ لیا اورسعادت کے ذریعے ،ان افرادسے پیسہ واپس لیا جنھوں نے چاچی سے ادھار لیا تھا ۔ کچھ ملا کچھ نہیں ملا مگر اتنا ضرور ہوگیا کہ امید کے آنگن میں رہنے والی یتیم لڑکیوں کی شادی ہو سکے ۔سید بشیر حسین نے ہمارا شکریہ ادا کیااور بہت سی دعائیں دیں۔جب وہ ظہیر کی دوکان سے نکلے تو اچانک رُک گئے ،پلٹ کر چاچی منظورو کے گھر کی طرف دیکھا اور پھرادب سے گردن جھکا کر اس طرح کھڑے ہو گئے جیسے کسی پیر فقیر کی درگاہ پر حاضری دے رہے ہوں!
اِن واقعات کو برسیں گزر چکی ہیں مگر آ ج بھی جب کبھی چاچی منظورو کا خیال آجاتا ہے تو میں خود سے سوال کرتا ہوں۔ چاچی جو سود لیا کرتی تھیں وہ حرام تھا یا حلال؟