خانہ بدوش ادبی نشست میں ناول "سیاہ ہیرے” پہ اڈبی ریفرینس منعقد کیا گیا جس میں ادیب ، شاعر، شائقین،خواتین و حضرات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
پرگرام میں صاحب کتاب ثمینہ نذیر کے علاہ نورالھدی شاہ اور شمع عسکری نے ناول کے بارے میں گفتگو کی جبکہ نظامت کے فرائض امر سندھو نے سر انجام دیئے۔
امر سندھو نے شرکاء مھمان گرامی کے تعارف کے بعد ناول "سیاہ ہیرے” پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ
"اگر پوچھا جائے کہ اس کتاب کی کیا خصوصیت ہو سکتی ہے؛ تو کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ایک شاندار کہانی ہے مگر کئی ناول ایسے ہیں جن میں شاندار کہانی بھی ناول کو کسی ادبی مرتبہ پہ نہیں پہنچاتی اور دوسری جانب کئی ایسے ناول ہیں جن میں کہانی سرے سے موجود ہی نہیں مگر وہ اعلی ناولوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے کردار بہت مضبوط اور بھرپور ہیں۔ مگر کئی کمزور ناولوں کو مضبوط کردار بھی بچا نہیں سکتے۔ ہاں البتہ ناول سیاہ ہیرے کے ان مضبوط کرداروں کی کہانی ہے جس کی اپنی مقامیت یا locality ہے جو کرادروں سے جنم لیتی کہانی کو سیاہ ہیروں کی کہانی سے جوڑتی ہے۔ وہ مقامیت کیا ہو سکتی ہے مثلن اس میں افریقا، یورپ اور برصغیر یعنی تین براعظموں کے کردار ہیں اور اس طرح تینوں براعظموں کی کہانیاں ہیں۔
مثلن راجیو شرما اجمیر شریف کا کردار ہے تو خواجہ کی مزار اور ممبئی کے حاجی علی کی مزار ۔۔۔اور پھر کراچی کے لالو کھیت کی کہانی بھی اس کا حصہ ہے۔ اس طرح کئی کہانیاں مرکزی کردار سلیم، بلو کے ذریعے پورے کراچی میں بھائی بوری بند سیاست بھی ہے تو استاد مدن کی فنکار گلی کی کہانی بھی اس کا حصہ ہے۔
اسی طرح کراچی کی گلی محلہ کی غنڈہ سیاست کو بھی افریقا کی سر زمین کے سیاہ ہیروں کی بیچ چلتی رہتی ہے۔ لیکن ناول کی سب سے ایم بات کولونیئل اور پوسٹ کولنیئل سماج کی سیاست و نفسیات کا بین السطور بیانیئہ ہے جو اس ناول میں کرداروں کے ساتھہ ساتھہ چلتا ہے
نورالہدی شاہ نے کہا کہ "ناول لکھنا بڑی زمیداری کا کام ہے جو کہ کٹھن ہے۔ افسانہ نگار پرندے کی پنجرے میں اڑان ہے جبکہ ناول پر دے کی کھلے آسمان میں اڑان ہے جہاں ناول نگار کی ےخلیقی صلاحیت کا بیلینس دیکھا جا سکتا ہے۔” اس نے کہا کہ "ثمینہ کے کردار دھرتی اور کلچر کے ساتھہ جڑے ہوئے ہیں۔ قبضہ گیر اور غلام دھرتیوں پہ آزادی سے زیادہ ازادی کے بعد غلامی سے نجات ہے ”
ثمینہ نذیر کا کہنا تھا کہ
” سیاہ ہیرے دراصل یہ بیان ہے کہ افریقا میرا ہے اور میں اس کی کولمبس ہوں۔ کہانیاں اقر اس کے کردار مجھے افریقہ سے ہی ملے ۔ افریقہ ، لوگوں کے لیئے ہیروں کی کان ہے، لوگ وہاں ہیروں کا بیوپار کرنے جاتے ہیں، ہیروں کے لیئے جاتے ہیں، ڈالر کے کیئے جاتے ہیں لیکن وہاں کے لوگ بھی ہیرے ہیں جن کو میرے ناول نے دریافت کیا۔ ناول کا ہیرو بھی ویسے تو اپنی محبوبہ کے لیئے ہیرے کی تلاش میں افریقا جاتا ہے جہاں ہیروں کے بدلے وہ ہیرے جیسے لوگ پا لیتا ہے۔”

شمع عسکری کا تعلق تھیٹر اور پرفارمنس ارٹ سے ہوتا اس وقت ادب کا حصہ بن گیا جب اس نے ابن سعید کی کہانیوں کا ترجمہ کیا۔ وہ سیاہ ہیرے کا بھی انگریزی ترجمہ کر چکی ہیں جو کہ ابھی شایع نہیں ہوا۔ شمع عسکری کا کہنا تھا کہ سیاہ ہیرے میں کلچرل بندھن کو مذہبی بندھن کی مقابلے میں زیادہ طاقتور دکھایا گیا ہے جو اس کے لیئے دلچسپی کا باعث بنا۔ انہوں نے کہا کہ ثمینہ نذیر کی ناول میں برجستگی کو ترجمہ کرنا بےشک آسان کام نہیں مگر دلچسپ ضرور ہے۔
مہمان شرکاء کی گفتگو کے بعد صاحب کتاب ثمینہ نذہر، کے ساتھہ شمع عسکری اور راجہ رشید نے ناول کے منتخب ٹیکسٹ کی پڑھت بھی کی۔
بعدازاں سوال و جواب کی نشست میں کراچی سے ائے ہوئے نقاد اکبر لغاری، ڈاکٹر سریش وادھوانی، شاکر عزیز سیتائی، نسیم خاتر جلبانی کے ساتھہ شھناز شیدی نے اپنے سولات کیئے اور ناول کے بارے میں کی گئی گفتگو کے مدنظر اپنی رائے پیش کی۔
جبکہ شھناز شیدی نے منصفہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ افریقی نسل سے تعلق رکھنے کی باعث ناول پہ ہونے والی اس گفتگو سے اور اس کے ذکر سے دوبارہ اپنی زمین افریقہ سے رجوع کر رہی ہیں۔
پروگارم کے اخر میں کافی وقت تک شائقین مصنفہ سے خریدشدہ ناقل کی کاپی پہ دستخط لیتے رہے۔
امرسندھو نے پروگرام کےبحاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ خانہ بدوش کی جانب سے مصنفہ ثمینہ نذیر اور دیگر مھمان نورالھدی شاہ اور شمع عسکری کو روایتی اجرک و لنگی کے تحائف بھی دیئے گئے
پرگرام میں ادب سے دلچسپی رکھنے حاضرین کی بڑی تعدا موجود تھی جس میں اکبر لغاری،نياز پنھور، عابد انڙ، قمر زمان رڄپر، غلام ببي سومرو، سريش ڪمار واڌواڻي، شھناز شيدي، زاھدہ تاج ابڙو، سعود خاصخيلي، نويد سنديلو، واحد پارس ھيسباڻي، محسن سليم، گلبدن جاويد، ڊاڪٽر رضوانہ انري، نسيم جلباڻي، امتياز علي ويسر، پروفيسر سيد زوار نقوي، ڏاڪٽر عبدالمجيد چانڊيو، ذولفقار علي ھالار، صابر سيد سپقري، ارڏو اترادي، محمد يوسف جويو، اياز چانڊيو عبلارزاق پنھور، امجد علي ، عبدللہ سيٺار، اسماعيل وساڻ، عبدلخالق مگسي، فھيم نوناري، شاڪر عزيز سيتائي، ڊاڪٽر پيار علي کتوئي، انو سولنگي، رحمان ميمڻ، حنيف باھوٽو، عماد فدائي،ميھون خان باريچو،لعل بخش ملاح، احتشام الحسن، راشد علي، انور علي، غلام حيدر، ارباب علي چانڊيو، انجنيئر سانگارام، غلام حسين چانڊيو، غلام مصطفي بليدي، وزير ميمڻ، نثار شيخ، گل سنڌي، قدير شاہ، فھميدہ جروار، حسيب ملاح،ڊاڪٽر حسين مسرت، غفرانہ، شھناز، عرفانہ ملاح،سردار خاتون جمالي، ساجدہ قاضي، مرڪ سحر، پروفيسر ام سلمي قاضي، سيد فدا حسين شاہ، علي وقاص سھتو، مير زبير ٽالپر ، فردو عباس، وسيم شاہ، محمد ظفر، عبدالستار، پرديپ، لڪيش ڪمار، روزينہ جوڻيجو، بختاور ڄام ، شامل تھے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے