خوف

کہتے ہیں سمندر میں گرنے سے پہلے
دریا خوف سے کانپتا ہے۔

وہ مڑ کر اس راستے کو دیکھتا ہے جس پر اس نے سفر کیا تھا،
پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیوں سے گزرتے ہوئے ،
جنگلوں اور دیہاتوں کو عبور کرتی ہوئی لمبی بل کھاتی ندیوں کی شکل میں

پھر اپنے سامنے پھیلے ہوئے
لا متناہی سمندر کو دیکھتا ہے
اسے جس میں داخل ہونا ہے
اور
ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجانا ہے
اس کے سامنے کوئی اور راستہ باقی نہیں
دریا واپس نہیں جا سکتا۔
بلکہ کوئی بھی پیچھے کو سفر نہیں کرسکتا
واپس جانا زندہ رہتے ہوئے ممکن نہیں

دریا کو خطرہ مول لینا ہی ہو گا
سمندر میں داخل ہونے کا خطرہ
تب ہی یہ خوف ختم ہو پائے گا
یہی وہ مقام ہے جہاں دریا کو معلوم ہو جائے گا ۔
سمندر میں معدوم نہیں ہوگا
بلکہ
خود سمندر بن جائے گا
[04/10, 3:39 pm] Salma Jilani: FEAR
Khalil Gibran

It is said that before entering the sea
a river trembles with fear.

She looks back at the path she has traveled,
from the peaks of the mountains,
the long winding road crossing forests and villages.

And in front of her,
she sees an ocean so vast,
that to enter
there seems nothing more than to disappear forever.

But there is no other way.
The river can not go back.

Nobody can go back.
To go back is impossible in existence.

The river needs to take the risk
of entering the ocean
because only then will fear disappear,
because that’s where the river will know
it’s not about disappearing into the ocean,
but of becoming the ocean.

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے