کسی خوشبوکا نم
پرتوں سے چٹخی ،بھربھری مٹی پہ
تن کی
رچ کے برسے
نیہہ تک سیراب کرجائے
کوئی آواز
آ ہستہ، بہت آ ہستہ
دھیمے نرم سے لہجے میں
سوچوں کے مضافاتوں سے
آ وازیں دئے جائے
کوئی لہجہ
کلائی تھام کے
اندرکہیں کونے میں بیٹھا
دیرتک باتیں کئے جائے
تو کا غذ کنی انکھیوں سے
دیکھتا ہے
مسکرا تا ہے
قلم لفظوں میں
مہتاب بی شہا بی
رو شنائی سے سنہری سبز تصویریں بناتا ہے
بہت بے ساختہ سی مسکراہٹ
نظم لکھتی ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے