پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں داخلی و خارجی سطح پر مذکورہ بالا صورت حال ہے جو اس کی داخلی اور خارجی عوام دشمن پالیسیوں سے پیدا ہوچکی ہے اور انتہائی تشویشناک ہے جس کی مضرت سے صرف اسی صورت میں ملک محفوظ رہ سکتا ہے جب ملک کی تمام جمہوریت پسند عوام دوست سیاسی پارٹیاں اور عناصر حکومت کو مجبور کریں کہ وہ ان پالیسیوں کو فی الفور ترک کرے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ :
1۔ بلوچستان میں پھیلائی ہوئی فوجیں واپس بلائی جائیں۔
2۔ اکبر بگٹی کو گورنری اور عبدالقیوم خان کو وزارت داخلہ کے عہدوں سے برطرف کیا جائے ۔
3۔ بلوچستان ، سرحد کی اسمبلیوں کے اجلاس طلب کیے جائیں اور اکثریت کا اعتماد رکھنے والی پارٹیوں کو اقتدار سوپنا جائے ۔
4۔ دفعہ 144اور ایمرجنسی کو ختم کیا جائے ۔تقریر و تحریر ، جلوس ، جلسہ اور ہڑتال پر کوئی پابندی عائد نہ کی جائے ۔ اور سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے ۔
5۔ گرانی اور ملاوٹ کے سد باب کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں اور طبقاتی انجمنوںکے نمائندوں پر مشتمل گول میز کانفرنس طلب کی جائے اور حکومت اس کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنائے ۔
6۔ حکومت خارجہ پالیسی سے متعلق اپنے تمام اقدامات کے رازوں پر سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پردہ ہٹا کر ملک کو حقیقت حال سے باخبر کرے ۔
7۔ ایران سے جس کا بقول نیوزویک اسرائیل سے اتنا گہرا گٹھ جوڑ ہے کہ اس کے سینکڑوں فوجی افسروں کی اسرائیل میں تربیت ہورہی ہے اور اسرائیل و ایران کی انٹیلی جنس میں اشتراک ہے ،واقطعی تعلقات منقطع کئے جائیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کے محبت وطن سیاسی کارکنوں نے ہماری تجویز کے مطابق اپنا فرض انجام نہ دیا تو وہ خودکشی کے مترادف ہوگا۔
خدارا وطن عزیز کو بچائیے “۔
” نئی زندگی، نیا عزم“ 9ستمبر1975کے اداریے کی سرخی ہے ۔ اس کی اولین دو سطریں یوں ہیں:
” دو سال کی غیر حاضری کے بعد” عوامی جمہوریت “ ایک بار پھر عوام کی خدمت کے لیے حاضر ہے ۔ اس کی یہ غیر حاضری مجبوری سے تھی اس لیے کہ اس کا ڈیکلریشن معطل کیا گیا تھا جو طویل مقدمہ بازی کے بعد اب بحال ہوا ہے ۔
”عوامی جمہوریت پھر سے اپنے سفر کا آغاز کر رہا ہے اور نئے عزم کے ساتھ میدان عمل میں آ رہا ہے۔ وہ عظیم علمی اور سائنسی ورثے یعنی مارکسزم کی تعلیمات کو قارئین تک پہنچائے گا۔ وہ بین الاقوامی حالات کا سائنسی تجزیہ پیش کر ے گا۔ اور پاکستان میں سماجی ترقی کے قوانین حرکت کا جائزہ لے گا۔ اور محنت کش طبقات کو مارکسی نظریات سے لیس کرے گا تاکہ وہ پاکستان کی سماجی ترقی میں راہنما یا نہ کردار ادا کر سکیں۔ اور پاکستان میں غیرطبقاتی اور غیر استحصالی سوشلسٹ سماج کا قیام عمل میں لانے کے لئے اپنا تاریخی فریضہ پورا کر سکیں۔ پاکستان کو تعمیر و ترقی کی اس راہ پر ڈال سکیں جو با مقصد اور پ±ر مسرت زندگی یعنی سوشلزم کی طرف جاتا ہے ۔وہ سوشلسٹ ملکوں کی معاشی ، سماجی اور ثقافتی زندگی کے بارے میں اطلاعات بہم پہنچائے گا۔ وہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں کے معاشی اور سیاسی اور ثقافتی بحرانوں کا حال بتائے گا ۔وہ نوآزاد ترقی پذیر ممالک کے حالات پر روشنی ڈالے گا۔ اور ان کی ترقی کے تقاضوں سے بحث کرے گا۔ وہ قومی آزادی ، امن اور ترقی اور سوشلزم کی تحریکوں کی حمایت کرے گا۔
عوامی جمہوریت دنیا بھر کے محنت کشوں کے اتحاد اور پرولتاری بین الاقوامیت کا نقیب ہوگا اور وہ پاکستان میں معاشی ترقی ، عوام کی خوشحالی اور سوشلزم کی طاقتوں کا مشعل بردار ہو گا“۔
اور میں ، ہزاروں دیگر لوگوں کے ساتھ گواہی دیتا ہوں کہ یہی کام یہ اخبار کرتا رہااپنے ایڈیٹر سی آر اسلم کی فعال زندگی کے آخری دن تک!!۔
بلوچستان کے معاملے پر سرکار کی طرف سے عوامی جمہوریت پر پابندی لگانے کے نتیجے میں اس کی کم و بیش دو سال کی اِس غیرحاضری میں بعض ایسے اہم واقعات ہوئے جو بین الاقوامی سطح پر زبردست اثر ڈالنے والے تھے ۔ان میں سب سے عظیم واقعہ تو امریکی سامراج کی جنوبی ویٹ نام اور کمبوڈیا سے شرمناک پسپائی تھی ۔یہ تو واقعی عالمی سیاست میں ایک کایا پلٹ ڈوپلمنٹ تھی ۔ ویت نامی عوام نے اپنی طویل ، مسلسل اور صبر آزما جدوجہد سے امریکی سامراج کو شکست دی ۔ اسی طرح کمبوڈیا کے حریت پسندوں نے امریکی سامراج کو مار بھگادیا ۔
دیت نام کے عوام کی یہ فتح دنیا بھر کے سامراج شمن عوام کی فتح تھی۔ ترقی خوشحالی ، امن اور سوشلزم کی قوتوں کی فتح تھی۔طاقتوں کا توازن عوام کے حق میں ہوگیا۔ اور امریکہ اب مزید ناقابل شکست نہ رہا۔ اور اس تاثر کو ابد تک ایک فارمولے کے تحت انسانی دماغ و دل پہ نقش ہونا تھا کہ کوئی عوام جب اپنی آزادی کا ٹھان لے تو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی اسے غلام نہیں رکھ سکتی۔
امریکہ کی اِس شکست سے دنیا میں ترقی ، آزادی، امن اور سوشلزم کی قوتوں کو تقویت ملی ۔ امریکی سامراج کی ویت نام میں شکست نے اسے دنیا بھر کی نظروں میں ذلیل و خوار کر دیا ۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے حواری اب اپنی بقا کے لئے نئے راستے تلاش کر رہے تھے۔ فلپائن اور تھائی لینڈ ا پنے ملکوں سے امریکی اڈے ہٹانے کا مطالبہ کر نے لگے۔ دوسری جگہوں پر بھی امریکی سامراج کے دوستوں کو یہ فکر لگ گئی کہ امریکہ کب تک انہیں تخت پر قائم رکھ سکے گا۔
ایک اور واقعہ افریقی ملک موز نبیق کی آزادی تھی ۔یہ آزادی پرتگیز سامراجیوں کی پانچ سو سال کی غلامی کے بعد وہاں کے عوام کو نصیب ہوئی ۔موز مبیق کے حریت پسندوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنے ملک میں سوشلزم قائم کریں گے۔
” براعظم افریکہ میں سامراج کی آخری نو آبادی ا نگولا بھی عنقریب آزاد ہونے والا ہے اور ان تمام مشکلات کے با وجود جو آزادی پسند لوگوں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں انگولا جلد ہی آزاد ملکوں کی برادری میں شامل ہو جائے گا۔ جنوبی افریقہ اور رو ڈیشیا کے سفید فام حکمرانوں کے خلاف کالے عوام کی ترقی اور آزادی اور سوشلزم کی جدوجہد روز بروز زور پکڑ رہی ہے ۔یہ سفید فام حکمران جو سامراج کے زور پر قائم ہیں عوام کے ریلے کے سامنے زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکیں گے اور یہاں کے عوام بھی آزاد ہوں گے اور عوام دشمن حکمرانوں کو ان کے جمہوری مطالبات تسلیم کرنے پڑیں گے۔
ایک اور واقع ہوا کہ ”یونان میں فوجی حکومت کی جگہ جمہوری حکومت بر سرِ اقتدار آگئی ہے ۔یورپ میں عوام کے سیاسی شعور میں خاصااضافہ ہو رہا ہے ،ان کے شعور کی بلندی کا اظہار اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ اٹلی میں کمیونسٹ پارٹی کو بلدیاتی الیکشنوں میں زبردست کامیابی ہوئی ہے ۔فرانس میں کمیونسٹوں کا صدارتی امیدوار صرف ایک فی صد ووٹوں سے ہاراہے۔ اس صورت حال سے امریکہ پریشان ہو رہا ہے امریکی سامراج کی ویت نام میں شکست سے سیٹو عملی طور پر ختم ہوگیا ہے اور اس معاہدے میں شامل ملکوں کو امریکہ پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ امریکہ میں واٹر گیٹ سکینڈل کے نتیجے میں نکسن کا استعفےٰ ، سی آئی اے کی سرگرمیوں کے خلاف تحقیقاتی کمیٹی کا قیام۔ یہ سب علامتیں ہیں کہ اب امریکہ کے بظاہر مضبوط بورژوا نظام میں پہلی سی توانائی نہیں رہی ہے اور وہ اپنے تضادات کا شکار ہوتا جاتا ہے ۔
”یورپ میں ناٹو میں شامل ملکوں کا یورپ کی سلامتی اور تعاون کی کانفرنس میں شرکت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ناٹو میں شامل ممالک اس کی افادیت کے قائل نہیں رہے اور ان کا امریکی سامراج پر پہلا سا اعتماد نہیں رہا ہے اور عالمی سرمایہ داری نظام جن پیچ در پیچ بحرانوں میں گھر گیا ہے اب ان سے باہر آنا نا ممکن ہے۔
”امریکی سامراج کی پسپائی ،اور امن ترقی اور سوشلزم کی قوتوں کی ترقی ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آتے معلوم ہو رہے ہیں اور رجعت پسند طاقتوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود اپنے اختلافات دور کرنے کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں ۔ان کے درمیان تجارتی لین دین کا آغاز ہو چکا ہے۔
”پاکستان میں گذشتہ دو سالوں کے دوران حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاست نے افسوسناک صورت پیدا کردی ہے ۔حکومتی پارٹی اور متحدہ جمہوری محاذ کی جنگ محض اقتدار کی جنگ ہے ۔متحدہ جمہوری محاذ محض جمہوریت کے نعرے لگاتا ہے اور جمہور کے مسائل بھوک ،بے کاری، غربت ،اور افلاس کو چھوتا تک نہیں ۔ وہ اس لیے ان مسائل سے دُور رہنا چاہتا ہے کہ یہ مسائل اجارہ دار، زرعی نظام ،اجارہ داری ،سرمایہ داری اور سامراج کی معاشی گرفت سے نجات کا مطالبہ کرتے ہیں ۔دوسری طرف حزب اقتدار عوام کی نمائندگی کا دعوے دار ہونے کے باوجود اس مفاد پرست اور استحصالی نظام کی پرورش کر رہا ہے ۔
”پاکستان زرعی اور صنعتی بحران سے دو چار ہے ۔اور اس سے نپٹنے کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ معاشی نظام میں بنیاد تبدیلیاں لائی جائیں اور سوشلزم کی تعمیر کا راستہ اختیار کیا جائے۔ لیکن حزب اقتدار ہو یا متحدہ جمہوری محاذ ان میں سے کوئی بھی اس راستے پر چلنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
” ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں میں معاشی بحران روز بروز بڑھ رہا ہے ۔افراط زر نے گرانی کو بہت بڑھا دیا ہے، بے کاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور سرمایہ کاری رک گئی ہے ۔یہ ممالک اپنے اس بحران کے بوجھ کو ترقی پذیر ملکوں پر ڈال رہے ہیں اور وہ ممالک جوان ملکوں سے تجارتی لحاظ سے بند ھے ہوئے ہیں وہ اس بحران میں زیادہ پھنسے ہوئے ہیں ۔پاکستان بھی ان ترقی پذیر ملکوں میں سے ایک ہے ۔
16ستمبر 1975کے رسالے میں جن عنوانات کے مضامین شامل تھے ، وہ یہ ہیں،”تیسری دنیا اور امریکی سامراج ، ایشیائی ملکوں کی سلامتی کی کانفرنس، ہوچی من ایک فرد بھی تھا ،اور، پورا ویت نام بھی “ ۔ جبکہ 23ستمبر کے شمارے میں ساڑھے بارہ ایکڑ اراضی پہ آبیانہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ ” پاکستان پیپلز میں انتشار “ 30ستمبر کے شمارے کا ایڈیٹوریل ہے ۔۔۔” پارٹیوں میں اتحاد کی بنیاد دراصل نظریاتی یک جہتی ہے اور جب یہ موجود نہ ہو تو پارٹی مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ بن جاتی ہے اور اس میں انتشار کا پیدا ہوانا لازمی ہوجاتا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ایک پروگرام پر رکھی گئی تھی لیکن اس پروگرام میں تین بنیادی خامیاں تھیں ۔ اول : اس پروگرام میں سامراج کے خلاف واضح لائن موجود نہ تھی ۔ دوئم : اس میں جاگیرداری نظام کے خاتمے کا واضح راستہ طے نہ کیا گیا اور سوئم : اس میں ملک کی صنعتی ترقی کا واضح راستہ طے نہ کیا گیا ۔ چونکہ پیپلز پارٹی کے پروگرام میں یہ چیزیں واضح نہ تھیں ۔ اس لیے اس میں جاگیردار بھی شامل ہوگئے اور سرمایہ دار اور سامراج کے ہمنوا بھی اور پیٹی بورژوا دانشور بھی ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نظریاتی یکجہتی پیدا نہ ہوئی اور ان میں سے ہر بڑے اور چھوٹے لیڈر نے اقتدار کی خاطر جوڑ توڑ شروع کردیا۔
”پارٹی تنظیم کے بارے میں “ ۔ یہ اہم موضوع 7اکتوبر کا اداریے کاہے ۔ اس میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی کی صوبائی کمیٹی کی میٹنگ کی خبر کو ہائی لائیٹ کیا گیا ہے ۔ طے کیا گیا کہ تمام پارٹی یونٹس نظریاتی کام کو اولیت دے کر اس طرف پوری توجہ دیں۔ باقاعدہ سٹڈی سرکل چلائیں اور ان میں پارٹی کا پروگرام اور پارٹی کی سیاسی رپورٹ مل کر پڑھیں اس پر بحث کریں۔
18نومبرکے شمارے کا اہم مضمون ”اکتوبر انقلاب“ ہے جسے سید مطّلبی فرید آبادی نے لکھا۔
یو این او نے 1975کو عورتوں کا سال قرار دیا تھا ۔25نومبرپر شمارے میں اخبار نے خواتین کو مندرجہ ذیل پروگرام پر منظم کرنے کی تجویز دی:
* سماجی معاشی اور سیاسی نابرابری کے خلاف
*جاگیرداری توہمات ، رسومات اور روایات کے خلاف
*خوشحال زندگی کے لیے
*سامراج کے خلاف ،قومی آزادی کے استحکام اور ترقی خوشحالی اور امن کے لیے ۔
حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف اور خوشحالی اور ترقی کی پالیسیوں کے لیے
دو دسمبر کے شمارے کی سرخیاں یوں ہیں: ورلڈ فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز کی کونسل کا اعلان ، کسانوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ۔ انگولا ، افریکہ کی 47ویں نو آزاد ریاست۔
9دسمبر کے شمارے کا بڑا مضمون : ترقی پسند طلبا کی ملک گیر کنونشن کی ضرورت ۔ اس عنوان کے حق میں پورا صفحہ دیا گیا ہے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے