زندگی کا دامن بہر حال بہت تنگ ہے۔ مَرگ ”ابھی تک “ بھی برحق ہے۔ یوں چلن ہے کہ بوڑھے درخت تا قیامت توبرقرار نہیں رہ سکتے ، بالآخر انہیں سوکھ کے مرجانا ہوتا ہے۔ ان کی جگہ نئی سبز کونپلیں توانا درخت بننے کے لیے نمودار ہوجاتی ہیں۔
شکر ہے کہ بلوچی زبان و ادب میں نوخیز اور کمسن بچے قد نکالتے نکالتے اس شعبے کی سائیکل میں آکر شامل ہوتے جاہے ہیں۔ نئی نسل کا آن ملنا تو مایوسی اور ناامیدی جیسی بلاﺅں کا دفع ہونا ہوتا ہے ۔ ایسا ہے سلسلہ ہمارے ساتھ ۔ اسی لیے ہر وقت خوشگوار دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ایک نیا باصلاحیت سونے کے اوصاف و قیمت سے تلا بچہ بڑا ہو کر بس آجائے گا اور شاعری اور دانش کے آسمان کی بلندیوں والے لوگوں سے آن ملے گا۔ اِس بار ایک نئے نام کے ساتھ یعنی کہ میر ساگر۔۔ دل مستحکم ہوا۔
ساگر رحمان ، میر ساگر رحمان یا پھر صرف میر ساگر میرے لیے بہت انجانا نام تھا۔ بس اچانک فیس بک پر اس کی شاعری دیکھی۔ بلوچی میں بھی اور اردو میں بھی۔ اور اسی پہلے دن اس کا پہلا مصرع جو پڑھا تھا تو حیران رہ گیا کہ یہ اچھا بھلا شاعر کہاں سے آیا؟۔ اس کا فیس بک ڈی پی جو چیک کیا تو وہاں ایک ایسے شخص کی تصویر دیکھی جو اونٹ کے لبوں پر محبّت اور احترام کا بوسہ ثبت کر رہا تھا۔اس کی شاعری میں بھی اونٹ ، شتر بچہ ، بگ، بگ جت ،اور ڈاچی کا تذکرہ بہت زیادہ ملا۔ یکدم دل میں یہ خیال گزرا کہ ضرور کوئی بگّی واژہ یعنی ا±ونٹوں کا مالک یا کوئی ساربان ہوگا یا کوئی انتہائی شتر دوست شخص۔ شتر کے ساتھ اِس شاعر کی دوستی اس کی تخلیقات میں جابجا دیکھی جاسکتی ہے۔
یہ شتر پالی اور شتر دوستی شاعر سے بہت تخلیقی شعر اگلواتی ہے۔ اکثر اوقات یوں ہوتا ہے کہ عام بات کرتے ہوئے وہ اونٹ کی مدد لے کر کوئی بہت ہی خاص بات کہہ دیتا ہے :
مہری بَرّاں اِشتنت مئے
جَتّاں کار حرابیناں
ترجمہ
اونٹ ہمارے ویرانوں میں چھوڑ آئے
کام خراب کرنے والے اونٹ چرانے والوں نے
اور یہ اِس شاعر کی عادت ہے کہ یہ کلاسیک کی جو بات بھی چھیڑتا ہے ، اسے ضرب المثل بنا ڈالتا ہے۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ اس نے اونٹ کو کس کس طرح سے فلسفہ سے لپیٹ کر پیش کیا ہے۔
مں لیڑواں چتریں پہ کنعانے براں
بلکیں یہودائے زریت
بلکیں یہ شمعونے پہ مصر ا سر بہ گیپت
ترجمہ
میں اونٹوں کو کنعان لے کر جائوں گا
شاید ساتھ یہودا آئے یا شمعون کو حسرت ہو
یہ بھی دیکھیں:
مردا آیاتے پہ لحنِ داﺅدا آران کثہ
امرالقیسا ھوںّ کثہ نہ ہاں کثہ
امرا لقیس ئے مہری شیموشاں کثہ
ترجمہ
لحنِ دائودی میں اس نے آیت کوئی دہرائی
امرالقیس نے ہاں کیا نہ ہوں کیا
امرالقیس کی مہری تیزی سے دور ہوتی گئی
ایک اور جگہ اونٹ کی اوٹ لے کر ایک بہت ہی گہرا اور آہ کش ، خبردار کردینے والا شعر کہا ، بے مثال ، بے نظیر:
بہشتیں ملگزاراں جَور پلّ اَنت
منی بگا نہ گواہیت ساربانے
ترجمہ
جَور کے زہریلے پودے ہیں چراگاہ میں چاروں جانب
اورمیرے اونٹوں کا کوئی رکھوالا نہیں ہے
اس کی شاعری کے اندر سب سے منفرد بات ہی یہ ہے کہ وہ بلوچی کلاسیک پہ گزر بسرکرتا ہے۔ اور جو شاعر و دانشور اپنے بلوچی کلاسیک اور فوک کے مضبوط فرش پر تَن کر کھڑے ہونے کا ہنر جانتا ہو یقینی ہے کہ وہ بہت بڑا شاعر ہوگا۔ ساگر بالکل بڑا شاعر ہے۔ اس کا سٹائل بالکل رِندی عہد کی شاعری کا سا ہے۔ ذائقہ ، ٹے سٹ ، بُو باس سب ہماری کلاسیکل شاعری جیسے ہیں۔
جس گھر میں بزرگ بلوچی کلاسیک کوٹ کرتے ہوں وہاں کے بچوں کے لیے شاعری گھر کی باندی بن جاتی ہے۔ ہمارے گذشتہ 500 برس کی ساری ہسٹری شاعری کے اندر ہے۔ اسی لیے جہاں کہیں بھی دو بزرگ بیٹھتے ہیں تو وہاں ہماری ہسٹری اور ہماری شاعری کا تذکرہ ضرور چھڑتا ہے۔ ساگر اس طرح کی بے شمار مجالس ، محافل ، دیوان اور گفتگو میں بیٹھا۔ اس نے اپنی جیب اس طرح کے کلام کے لعل و گوہروں خوب خوب سے بھر لیے۔ اسی لیے تو شاعری ،شاعری شروع کرنے سے پہلے ہی اس کے دل و دماغ میں موجود تھی۔
جب ا±س نے ابتدا کی تو خیال و الفاظ سے اس کا لفظیاتی قدح پہلے ہی سے چھلک رہا تھا۔ حروف و خیالات کا ایک بہت بڑا ریوڑ پاس تھا اُس کے ۔اَب اس کی مرضی کہ وہ اس گڑون (بہت بڑے) ریوڑ میں سے کوئی جڑ ذبح کرے یا گرانڈ ، سب حاضر۔ کبھی دیکھو تو حروف سے آگ جلا رہا ہے ، کبھی دیکھو تو حروف کو زہر پِلا رہا ہوتا ہے۔سچ ہے کہ کلاسیک شاعری نے اس کے دل و دماغ کی کھیتی کو بہت ہی زرخیز بنادیا ۔
جیسے کہ ذکر ہوا اس کی وسیع شاعری رندی الفاظ، ضرب المثال ،اور استعاروں سے بھری پڑی ہے۔ وہاں آپ جگہ جگہ چاکر کو دیکھیں گے ، مریذ سے ملیں گے۔ ہانی اور دوسرے کردار ہیں جو یہاں وہاں موجود ہیں۔ اس کی ایک کتاب کا نام بھی یہی ہے : حانی کتنے شعر کہوں؟۔
مگر وہ خواہ مخواہ چاکر چاکر نہیں جپتا۔ وہ تو چاکر کے دنگل میں گھس کر سوالات چن کر لاتا ہے۔ اور انہی سوالات سے ہماری توجہ ایسے شعبوں اور سمتوں کی طرف موڑ دیتا ہے کہ ہمارے شعور کا دامن بہت وسیع ہوجاتا ہے۔ وہ بس ایک بات پوچھتا ہے اور ہمیں سوچنے پر ڈال دیتا ہے :
چاکر باریں تہ تاں ڈیساں در ڈِیھ ئے
شئے ! پرچہ تو حانل حانل گالائیے
ترجمہ
چاکر تم کس جرم میں علاقہ بدر ہوئے؟
شئے تم کیوں ہانل ہانل جپتے ہو؟
بس اسی طرح کا ایک ہی مصرع فکر و سوچ کے پنج صدی کا سفر شروع کروادیتا ہے۔ اسے پڑھو توبار بار ٹھنڈی گہری سانس ابھرنے لگتی ہیں ۔ دماغ سوچوں میں ڈوب جاتا ہے۔ ارمان اور پشیمانی چابکیں مارتی ہیں۔
وہ جب :” چاکری نوبتاں گیر کنت شانتلے “کہتا ہے تو یہ مصرع روح کو زخمی کرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ اور نازکی اور موسیقیت اس مصرع کے بعد دوسری طرف یوں جواب دیتی ہے کہ ہم اف کر کے رہ جاتے ہیں:
شئے مریدی غماں یاد کنت حانلے
ا±س کی شاعری ضمیروں ایمانوں کو بہت طاقتور جھٹکے دیتی ہے۔ کوئی خیال کوئی لحاظ داری نہیں رکھتی ، کوئی پرواہ نہیں کرتی۔ کتنا ہی بہادر اور صاف گو ہے یہ شاعر جو ہماری آج کی برادر کشی اور کینہ و جھگڑوں کو ”چاکری کام“ کہتا ہے۔ بدنیتی ، بے اتفاقی اور آپسی جنگ و تنازعات کل بھی بلوچ کے دشمن تھے ، اور آج بھی اس کی جڑیں کاٹ رہے ہیں:
چاکرا رِندی حسدو کینغاں حونی کثہ
انگہ براثی جھیڑواں ہیسار گا انت ستگڑا
ترجمہ
چاکر کو اِس کینہ و حسد نے ،خونی بنادیا
آج تلک بھی خون روتا ہے ستگھر میں
آگے دیکھیے :
مناں دی چاکرا بغضے دلااِنت
رواں کہ کل مری انت میر دیما
ترجمہ
مجھے بھی بیر ہے چاکر سے لوگو!
میں جاتا ہوں کہ آگے سب مری ہیں
وہ صرف چاکر کی ذات سے ایسا سلوک نہیں کرتا ، وہ تو کسی کو بھی نہیں بخشتا۔ مست اور سمو کا تذکرہ یوں کرتا ہے :
سمو مست آ ڈوباریت
مطلب یہ ہے کہ میرساگر نے شاہ لطیف کا کم از کم ایک رنگ تو ضرور اپنا لیا ہے۔ وہ بلوچی کلاسیک میں سے کسی ایک کا نام لیتا ہے یا اس کا ایک مصرع دہراتا ہے بقیہ بات اپنی کرتا ہے اپنے مطالب و معانی سامنے لاتا ہے ، شعور بڑھاتا ہے۔
میں نے فیس بک پر تعریف کی تو وہ بہت انکساری سے اور بغیر کسی تکبر کے میرا شکر گزار ہورہا تھا۔
ہمارا سنگت کا ویب سائٹ ہے۔ میں نے ساگر سے اس کی شاعری ویب سائٹ پہ دینے کے لیے اٹھائی ، تو اس کی ایک عدد تصویر کی ضرورت پڑ گئی۔ فوٹو مانگا تو یکدم کمیونسٹوں کی طرح شخصیت پرستی سے دور ہوجانے کی کوشش کی۔ میں اصرار سے مانگتا رہا اور بالاخر اس نے تصویر بھیج دی۔ لگ بھگ چالیس برس یا تھوڑی زیادہ عمر ہوگی۔ بالوں کے جھڑنے کی وجہ سے اس کی پیشانی ذرا سی فراخ ہے ، خط کی ہوئی داڑھی ، سادہ لباس اور آنکھوں میں عینک لگائے ہوئے۔ اندازہ ہوا کہ وہ کراچی یا آس پاس رہتا ہے۔۔۔ اور وہاں کے تو تقریباً سارے بلوچ اصل میں مکران کے ہیں؛ ” یہ “ مکران ہو یا ” وہ “مکران۔
عبدالرحمان کے بیٹے ساگر کے آباو آجداد کلانچ علاقے سے ہیں۔
ساگر کے والد میر عبدالرحمان نے بہت مشکل زندگی گزاری۔غربت خانہ بدوشی اور دربدری والی زندگی۔ وہ نقل مکانی کر کے کراچی چلا گیا۔
ناواقف اور بڑا شہر کراچی ،روٹی دینے والا شہر ہے ، مزدوری کی جگہ ہے۔ اس کے والد نے مزدوری کی۔
میر ساگر 21 دسمبر 1982میں وہیں اورنگی ٹائون کراچی میں پیدا ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ ساگر ابن مزدور ہے ۔ چونکہ خود بھی محنت مزدوری کرتا ہے اس لیے پرولتاریہ ہے ۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ پرولتاریہ ہونے کا مطلب پرولتاری شعور رکھنا نہیں ہوتا ۔ ہمارے بہت بلند شاعر مراد ساحر کے بعد ساگر ہمارا دوسرا شاعر ہے جو کہ باقاعدہ مزدور کلاس سے ہے۔
ساگر کے محنت کش اچھے والد نے اپنے پانچوں بیٹوں کودینی مدرسہ اور غریبی سکولوں میں تعلیم دلوائی ۔ ساگر نے ”انوار الاسلام“ مدرسہ بکرا پیڑی لیاری سے قرآن بادشاہ پڑھا۔ حافظ بن رہا تھا کہ کراچی کا امن شیطان کے مرشدوں کی بددعاﺅں کی نذر ہوگیا۔ سلامت و برجاہ کراچی جب تپ کر تنور بن گیا اور رہنے کے قابل نہ رہا تو یہ خاندان وہاں سے اٹھ کر لسبیلہ بلوچستان کے حب نامی شہر میں بس گیا۔
حب میں ساگر سکول گیا۔ وہاں اُس نے 9 جماعتیں پڑھیں۔ اب ایسا نہ تھا کہ والد نے غربت کے ہاتھوں اسے سکول سے اٹھا لیا ۔ نہیں اُس شریف آدمی نے تو بہت اصرار کیا مگر ساگر کا اپنا دل سکول میں نہیں لگا۔ اس نے اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑدی اور روٹی کی یافت و دریافت میں لگ گیا۔
حب چھوڑ کر دوبارہ کراچی کا سفر۔ اب وہی پرانا اورنگی ٹاﺅن ، وہی پہلی والی مزدوری ۔ سخت زندگی اپنے تلخ غموں کے ساتھ۔ غم اپنا بھی ، قوم کا بھی ،اور عام انسان کا بھی۔
میر ساگر یوں تو کراچی جیسے بے سر و دم اور لحیم شحیم شہر میں رہتا ہے مگر اس کی ساری باتیں اور مصرعے شہر کے نہیں، دیہات کے ہیں۔ مثلاً ریوڑوں کا ممیانا ، گھوڑوں کی ہنہناہٹ ، چرواہے کی بانسری ، اور ریوڑ کے گلوں میں پڑی ہوئی گھنٹیاں۔
ساگر اپنے عہد کے شاعروں میں بہت لفظ ساز شاعر ہے۔ شاید سب سے بڑا لفظ ساز، اور ترکیب ساز ۔اس کا اپنا بغل جھولا بھی الفاظ سے بھرا ہوا ہے اور وہ دوسری زبانوں کے الفاظ بھی بڑی بے تکلفی کے ساتھ بہت مان اور محبت سے اٹھاتا ہے۔ چونکہ ساگر کی طبیعت میں دوسری زبانوں سے نفرت اور اجتناب بالکل موجود نہیں۔ اس لیے وہ ان الفاظ کو بے درک بلوچی شاعر ی میں استعمال کرتا ہے : اے جانِ بتاں، متاع ، طلسم ، ویرانی ، ق±مری ، تکرار، رفت ، گلزار ، مصرع ، عین ، پلجھڑی ، ابر، سہیلی ، کوہسار ، واعظ ، راز دار ،جرس ، مسجد ، بغض ، صدا وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح ساگر دوسری زبانوں کے اچھے شاعروں ، دانشوروں ، رائٹروں کی بہت پذیرائی کرتا ہے۔ اس نے اردو اور پنجابی کے بہت اچھے شاعر منیر نیازی کی ایک نظم کی زمین میں دلبر شاعری کی۔
میرساگر کی ساری شاعری خاص کر چھوٹی بحر کی شاعری بہت روان اور بہت میوزیکل ہے :
نود سراں ساہیلی بنت
ابر نہ گوارنت کستاں گوں
ترجمہ
ہلکی ہلکی پھوار ہوتی ہے
بارشیں اب کہاں برستی ہیں
یا
مرگ و مودگ سئیلی انت
گ±رکے گندیث بانری میش
یا
بلبلے شیزار بذیت دل نلی آمست بی
گواث کشیت غم تئی چو پیپلی آمست بی
نوذ ہردیں شنزغابنت دل تلی آں مان کیث
ناچ کنت پہ بے سمائی جنگلی آ مست بی
ترجمہ
بلبل کوئی چہکے تو یہ دل جیسے بنسی بن جائے
بادِ صبا لہرائے تو تیری یاد پیپل کی طرح مست ہوجاتی ہے
پھوار کوئی برسے تو جیسے دل تلووں میں رچ جائے
بے خود ناچے ایسے جیسے جنگل جنگل وجدائے
ساگر شاعری کے مشکل طرزوں کے ساتھ بھی خوبصورت رقص کرتا ہے۔ آپ صرف اس کے مصرعے کی لمبائی دیکھ لیں۔
نگاہاں یک و دومی آ ہزاراں داسپانانی ہمک پیچاں گوں الوت کت
(جی ہاں ، یہ ایک مصرع ہے)۔
آئیے بالکل ہی الگ بات کی طرف توجہ دیں: اپنی توصیف ، یعنی خود تعریفی کی جانب۔ ہم سب جانتے ہیں کہ خود توصیفی اچھی بات نہیں ہے۔ بلوچی زبان میں اس کے خلاف بدصورت ضرب الامثال موجود ہیں۔ ہاں،مگر شاعروں کے لیے یہ بات روا ہے۔ شاعر بہر حال اپنی تعریف کرے گا۔ اور یہ صرف آس پاس کی زبانوں کے شاعروں کی عادت نہیں۔ ہم بلوچوں نے بھی یہ کام بہت کمال اور احسن طریقہ سے کیا۔ مثال کے طور پر رحم علی کہتا ہے :
شاہری کلاں کثغہ پرحد کثغ انت رحم علی آ
جام اور مست گوکہ اس کام میں اپنی خوشی اور جوش سے شریک نہ ہوئے۔ اس لیے کہ انہیں اس کی ضرورت نہ تھی مگر وہ بھی اس سے بچ نہ پائے۔
ساگر بھی خود ستائی ، اور اپنی شاعری کی تعریف کرتا ہے۔کہتا ہے کہ لکھنے والا جس بھی زاویے سے لکھے مگر :
نہ لِکّیت چو تو آ کس میر ساگر
یعنی اے میرساگر، تیری طرح کوئی اور نہیں لکھتا
یا
اے زِر چومنا ساکتہ ساکت انت
وتی اندرا گار ہمچو کہ من
ترجمہ
یہ سمندر میری طرح ساکت و خاموش
اپنے اندر ایسا گم جیسے میں
شاعر کے لیے یہ کام حلال ہے۔ اس کا قصور بھی نہیں کہ اس کا تو سارا مال ومتاع ہی یہی شاعری ہے :
تئی متا او مال چندے شیئر و حرفی ٹکرانت
میر ساگر نے اپنے اشعار میں ایک شہر کا تذکرہ کرتا ہے۔ نجانے وہ کون سا شہر ہے ؟۔ مگر میرا دل چاہتا ہے کہ وہ شہر گوادر ہو۔ اس شہر میں ساگر نے ایک خوبصورت اور راہنما شہر کی ساری نشانیاں بتائی ہیں۔ شہر جب تک کہ موٹر گاڑیوں کا آشیانہ نہ ہو تو وہ سربراہی کیسے کرسکتا ہے۔ وہ لازم ہے کہ برق رفتن ہو، برق انجن ہو، فولاد کی منڈی ہو، ڈیزل کی بندرگاہ ہو۔
میر ، انسانی حسن و زیبائی کی ، شکل وصورت و خدّ و خال کی بہت تعریف کرتا ہے۔ شاعر ہے ، تو حسن و زیبداری کی بات کیسے نہیں کرے گا: مر مریں بدن ، آگ کی لپٹوں جیسی ، نور کی کرنیں جیسی۔ اس کے لیے تو دوست کے ابرو کو خنجرکہتا ہے ، ا±س کے عین ہتھکڑی ہیں، ہونٹ گلاب ہیں، محبوب کی آواز پلجھڑی ہے۔
ساگر کی ایک اور صفت مجھے اچھی لگی۔ وہ خود کو غیر ضروری طور پر بھاری نہیں رکھتا ،خود کو بڑا ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کبر نہیں کرتا، فضول تکلف نہیں کرتا۔ وہ اپنے قاری سے ڈائریکٹ ہمکلام ہوتا ہے ، بے تکلفی سے مخاطب کرتا ہے :
یار تو چے گشئے ،
یار! چونیں مردے یئے ، پوہ نہ بئے۔
میر ایک شعر میں کہتا ہے کہ زندگی ایک پہیلی نہیں ہے۔ سچ ہے۔ کاش یہ ایک پہیلی ہوتی اور انسان اپنے کنبے کے ساتھ چولہے کے گرد بیٹھ کر اپنے بچپن کے کچھ پَل چرا کر اس پہیلی کو سلجھاتا اور اس کے انعام میں اپنی بھیڑ بکریوں کے لیے ایک سرسبز و گیاہ علاقہ جیت جاتا۔ مگر زندگی تو بہت ہی پیچیدہ مظہر ہے۔ بلوچ کی زندگی تو سردار کی روندی ہوئی زندگی ہے ، سرکار کے بوٹوں تلے کچلی ہوئی، ملّاوں کی ماری، قحط کی پسی ہوئی، زندگی ہے ۔ یہ کھردرا ترین سفر ہے۔ ہماری دنیا کی کشتی کا بادبان پھٹا ہوا ہے ، ہماری روح کے مصرعوں کے پیر دکھوں کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں۔ ہمارے وسیع کھیت اشکوں سے سیراب ہیں۔ ہماری سرزمین کا تخم بھوک اور فاقہ ہیں، ہماری زبانیں کینہ اور حسد سے چرب ہیں:
بزگلے نوش کنت مئے ہمک و شیاں
موکوئے تَند بندیت مئے دیدگاں
ترجمہ
چَر جاتا ہے خوشیوں کو اک بزغالہ
جالا بن دیتی ہے مکڑی ہماری آنکھوں میں
غریب کی زندگی تو دکھوں کی درانتی کی چراگاہ ہوتی ہے ، راہ کا آئینہ زنگ بھرا ہے ، منزل دہلی والے اندھیرے دھند والے سموگ میں ۔ ہمیں وفاق کی ون یونٹی مائنڈ سیٹ نے جھوٹے لیڈروں کی پک اپ کے کھلے پچھواڑے میں بٹھا دیا ہے۔ کچھ بھی کریں مگر ہمیں ہر صورت میں زندگی کے شطرنجی کھیل میں شہہ مات ہے۔
میر ساگر ہماری اسی زندگی کا ساتھی ہے۔ لڑ رہا ہے کہ ہم لڑھک نہ جائیں ، راستہ نہ گم کردیں۔۔۔۔ چاہتا ہے کہ ہم عوام لناس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالیں۔ ساگر شعور کا کھوجی ہے ۔وہ اپنے قارئین کو عقل دینے والا دانشور ہے۔ وہ اپنا فرض ، اپنی ڈیوٹی کو خوب اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ ہمارے ملتوی در ملتوی کاروان کو اچھی طرح جانتا ہے۔ جس کا آخری حصہ گم ہے۔ اِسی پس منظر کے شور میں اکثر چیخ اٹھتا ہے :
نی جرس بایدیں اذان بہ دنت
درست ہے کہ یہ کام آسان نہیں۔ خاص کر ہمارے وطن میں جہاں ہم ابھی سرقبیلوی مزاج سے باہر نہیں نکلے جس کی سب سے بڑی خاصیت دوسرے کو چھوٹا ثابت کرنا ہے ۔ ہم ایسے معاشرے کے مکین ہیں جہاں چاروں طرف سے فاشزم کی لوچل رہی ہے۔ یہ فاشزم اوپر سے بھی جم کر برس رہی ہے اور زیر زمین سے بھی ابل رہی ہے۔ یہ فاشزم وہ اکاس بیل ہے جو انقلابی لیڈر کے دل میں بھی کنڈلیاں مارے بیٹھا ہے اور مارشل لا مائنڈ سیٹ کے بھی سپاہی سے لے کر سپاہ سالار تک کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے ۔ ایک فاشسٹ ،ملک کا غدار کہے اور دوسرا انقلاب کا غدار قرار دے ۔ ایسے معاشرے میں واقعتا
سچّی دانشوری عذاب ہے
ہم سب اس ماحول کے کوڑوں کی زد میں ہیں۔ یوسف عزیز مگسی کے خطوط میں آپ کو اِن الزامات کی صفائی میں دلگداز تحریر ملے گی ، بزنجو۔۔۔۔۔اور ساگر تو اس قدر دلبر داشتہ کہ ایک غزل کے اندر تو ہر شعر کے آخری الفاظ یہ ہیں: نی من شاعری نکناں ،یعنی اب میں شاعری نہیں کروں گا۔ ہم سب اسی عذاب سے گزر رہے ہیں کہ سرکار ہماری فلاں بات سے خوش نہیں ہوگی ، آقا اور بھوتار غضبناک ہو کر پھنکارے گا، پنڈت غصّے سے لال پیلا ہوجائے گا۔ یہ فرقہ ناراض ہوگا، وہ واجہ دلگیر ہوجائے گا۔ اس طرح کر کے اِن آقاﺅں نے سارا سماج اپنی آنکھوں میں ڈال دیا (تباہ کردیا)۔یہیں پر شاعر کہتا ہے :
میر تو آدینک چاپہ باکنئے
گندگائے شہر مئیماں ک±وڑانت
چم گپتگ مردماں او راہی انت
کس یک ودومی ئے گندگا باڑا نہ انت
تو گوں آدینکاں پذا جلواں دیاناں اتکگ ئے
ترجمہ
میر تو آئینہ کیونکر بیچتا ہے
جانتا بھی ہے کہ اندھوں کا ہے شہر
کوئی اِک دوجے کو تکنے کا یہاں حامی نہیں
اور تو آئینہ لے کر آگیا
میر ساگر نے فاقہ خود بھگتا ہے۔ فاقتہ بہت عذاب کیفیت ہوتا ہے ۔۔۔ مگر اس کا تجربہ بہت گہرا ، دیرپا اور امیر ہوتا ہے ۔ساگر کی فاقہ کشی وقتی نہیں ہے ، غیر مسلسل نہیں ہے ۔ وہ ہر نکڑ ، ہر موڑ پہ اُس کو ”بیابہ بخیر “ کہنے پہ مجبور ہے ۔ وہ بے چارگی ،افلاس ،پرانا پن اور بھوک خود جھیلتا رہا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ایک طرف دولت والوں کے رنگ بہ رنگی محل بن رہے ہیں۔ یہ محل ہماری گلیوں بازاروں کو زیر بار کر رہے ہیں، ہمارے نغموں کا ہار دھیرے دھیرے ٹوٹ رہا ہے ، ہماری کشتی ساحلوں پر سے آہستہ آہستہ گم ہوتی جارہی ہے۔ اور ہم :
ہرچی کہ کِشوں گیش انت ہر چی کہ ر±نوں کم باں
یعنی
جو بوتا ہوں وہ زیادہ ہوتا ہے ، کاٹتا ہوں تو کم ہوجاتا ہے
اور سچی بات تو یہ ہے کہ:
بلوچ انگہ پہ نانے جیڑ گا اِنت۔یعنی بلوچ آج بھی روٹی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
میر ساگر کی شاعری جب دیکھی پڑھی تو یقین بڑھ گیا کہ پرولتاریہ کا یہ شاعر بیٹا بلاشبہ ایک کلاس پوئٹ ہے۔ محنت کرنے والوں کا شاعر ہے۔ مگر شاعر تو زور آور ہوتے ہیں۔ اپنے دل کے بادشاہ ہیں۔ آپ شاعر کو ایک جگہ پر دیکھیں تو دل کہے گا کہ وہ فلاں فکری یا صنفی چوکھاٹ کا شاعر ہے۔ مگر دوسرے دن دیکھیں تو اس کے موج بھرے دل میں دوسری سمت کی تانگ آگئی ہوتی ہے ۔ مثال یوں ہے کہ میں نے اس کے وہ مصرعے پڑھے جہاں وہ کہتا ہے کہ رات اس کے لیے ایک باولے کتّے سے کم نہیں ، اور تاریکی ایک اژدھا ہے۔
یا
اے تھاروکی ہچ مئیم نہ بی
تو میرا دل پکار اٹھا کہ میر ساگر روشنی ہے ، روشنی کا ساتھی ہے۔ مگر جب اس کی ایک اور خوبصورت اور ماسٹر پیس نظم دیکھی تو واپس فکر میں پڑ گیا کہ شاید میرا مشاہدہ درست نہ تھا:
منی چم رمژنائی آہچ نہ سگ انت
ترجمہ : میری آنکھیں روشنی کی تاب نہیں لا سکتیں۔
میر ساگر کے بہت اشعار اور مصرعے ضرب المثل بننے کے قابل ہیں۔ مثلاً : گیچن گونیں گواثارا، کساں ترّان انت مہر و محبت ، زندگی لیکوے ، گرکے گندی بانری میش، ماکئی رہنغاں چونَڑا گریتگوں۔۔۔
ساگر کبھی غزلوں سے وضو کرتا ہے ، کبھی اپنے ”طلسما تی“ اشعار کو لطیف باتوں سے ملاتا ہے ۔ وہ استاد ہے ، ہنر کار ہے۔
میر ساگر خوش گال غزل گو ہے۔ نرمی سے بہتی ہوئی ، سبک گام ندّی کی طرح ، دل ٹھنڈا کرنے والی غزل۔ لیکن اس کی نظم زیادہ خوبصورت ہے۔ اس کونظمیں لکھنی چاہییں۔ اس کے تربیت یافتہ،سنگین و متین گھوڑے کو میدان میں کم سخت لگام کے ساتھ دوڑنے دیا جائے ۔ اس کی قلم کا نِب کبھی منہ زور نہ ہوگا، اور دوسری طرف اس کے وسیع علم اور ادبی پس منظر کی زبردست باتیں قاری تک پہنچ پائیں گی۔
ایک اور بات کی طرف توجہ دلاﺅں کہ بچّوں کے لیے نظمیں لکھنا اور خاص کر ان کے لیے منظوم لکھنا بہت مشکل کام ہے۔ بلوچی زبان میں تو اس میدان میں بہت ہی کم کام ہوا ہے۔ مگر ساگر نے یہ دریا بھی عبور کر لیا۔ اس نے بچوں کے لیے ایک پوری کتاب (سبزیں لیڑہ ، نیلیں زِر ) تخلیق کی۔ اس کتاب میں بچوں کے لیے لولیاں ہیں ، پہیلیاں ہیں ، پند و نصیحتیں ہیں، کہانیاں ہیں ، انگلش سکھانے کے اشعار ہیں۔ اشعار کے ٹائٹل بھی بہت مزیدار ہیں:
ڑِیک وڑِلیک ،بَمبک بَمبک، مشک نہ روث ہوڈا، لالو تیجگ سر، بستہ گاریں تاجوئے ، شہدک کندیت کی کی کی۔۔۔۔۔
اس کی مطبوعہ کتابوں کے نام یہ ہیں:
1۔ریگزارِ طلب (اڑدو شعری کتاب)
2۔اللہ بیلی ( اڑدو شعری کتاب)
3۔ہمائیں تو کہ رفتگئے(بلوچی نظمیہ ڈائری)
4۔حانی کتنے شعر کہوں؟( اردو شاعری)
5۔سبزیں لیڑہ نیلیں زر(بچوں کے لیے شعری کتاب)
6۔ اس کتاب کا عجیب نام ہے :عشق آگ نہیں ہے۔
میں دیر تک حیران رہا کہ اگر عشق آگ نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟۔ کپٹلزم سے قبل کے سماجوں میں جائیے تو مستیں توکلی آپ کو بتا دے گا کہ عشق آگ کا کنواں ہے ، گرد باد ہے ، سیلاب ہے ، طوفان ہے ، آسمانی بجلی ہے۔۔۔یہ چقمق و میگنٹ آگ اپنے شکار کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے ”اس “ کے گھر۔دوست کی یادیں اس قدر زیادہ ہیں کہ جلا کر رکھ کر دیتی ہیں، مگر پھر بھی انسان کہتا ہے : چو کم کم آچیا تو گیر کائے۔( کیوں اتنی کم کم یاد آتی ہو)
ایک جگہ کہتا ہے کہ : منارا میر آزار ینت عشقا۔ یعنی مجھے عشق نے رلا دیا ہے۔ پکّی بات ہے کہ عشق آگ ،شعلہ اور دوزخی لو ہے۔۔۔ مگر بہ یک وقت عشق تو پھول بھی ہے ، گلاب بھی ، کاناف بھی ، باغ بھی ، بہشت بھی۔۔۔ مرید و جام و مست نے بھی ایسا ہی کہا تھا۔
جب میں ساگر کی ”واب“ نامی نظم پڑھ رہا تھا تو اس کے الفاظ کے ساتھ سمجھو اڑ رہا تھا۔ آخری مصرعوں تک پہنچا تو بے اختیار حاشیے پر ”جی ترا“ لکھا۔ آپ کیا لکھیں گے ؟
ہر شپا اِسپراں گوں پِڑے روک بیت
ہر شپا جنگے آ دَرکپاں میر من
ہر شپامرکبانی گِرو داری اِنت
زہم و الگاری اِنت
سہب ئَ پادآیاں سجّیں بدن ٹپّی اِنت
ترجمہ
رات ہر رات میداں کوئی جَل اٹھے
رات ہر رات اک جنگ ہے
خوب صورت زمزموں کا شاعر۔۔۔میر ساگر۔۔۔عمدہ تعارف اور خراجِ تحسین ۔۔۔سلامت رہی۔ شاہ محمد مری صاحب