چوہدری شوکت کی چوہدراہٹ سے اب وہ تنگ آ چکا تھا بلکہ وہ ایک کیا سارا گاو¿ں ہی تنگ تھا۔چوہدری اپنی روایتی چوہدراہٹ کے ذریعے گاو¿ں بھر سے بیگار لیتا تھا۔اجرت پر کوئی کام کروانا تو جیسے وہ اپنی شان کے منافی سمجھتا تھا اور شاید ہر طاقتور یہی سمجھتا ہے۔چوہدری شوکت اپنی چوہدراہٹ کو عروج پر پہنچا چکا تھا۔تخت اس کا اتنی بلندی پر پڑا تھا کہ نیچے اس کے گاو¿ں کے لوگ انتہائی چھوٹے چھوٹے نظر آتے تھے۔مکھیاں تو کچھ بڑی ہوتی ہیں،چوہدری کو مچھروں کی مانند وہ لوگ نظر آتے تھے۔دوسرے لوگ تو شاید چوہدری کے اس خیال کو قبول کر چکے تھے کہ وہ مچھر ہیں لیکن ایک شخص تھا جسے ابھی تک اپنے مچھر ہونے پر یقین نہیں آ رہا تھا۔وہ ہر ایک سے جا کر کہتا کہ ہم کیوں چوہدری کا مفت کام کریں؟ ہر محفل میں وہ یہی سبق دہراتا کہ "چوہدری کوئی ولی اللہ ہے کہ سارا گاو¿ں اس کی خدمت کرتا پھرتا ہے؟”وہ لوگوں کو بتاتا کہ اگر ہم اپنے گاو¿ں سے باہر جا کر کسی اور گاو¿ں، قصبے یا شہر میں مزدوری کریں تو مشقت تو اسی طرح کی کرنی پڑے گی جس طرح کی چوہدری کے کام میں ہوتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اگر ہم چوہدری کا کام کریں تو شام کو گھر آ کر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے سیر دال کہاں سے لائیں اور اگر شہر میں مزدوری کریں تو شام کو معقول اجرت ملے گی جس سے آسانی کے ساتھ ہم اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں گے۔اس کی خوشنما باتیں پسند تو سب کو آتیں لیکن کوئی اس کی ہاں میں ہاں نہ ملاتا۔اپنی مشقت کی معقول اجرت تو سب کو چاہیے تھی لیکن چوہدری کے پالتو غنڈوں کے ڈنڈوں کو سہنے کی ہمت کسی میں بھی نہیں تھی۔سلیم بیوپاری کا واقعہ گائوں کے بچے بچے کے علم میں تھا۔جب سلیم قریبی گائوں سے ایک بیل لے کر آیا تھا اور چوہدری کی حویلی کے پاس سے گزر رہا تھا تو چوہدری کے کسی نوکر کی نظر اس بیل پر پڑ گئی تھی۔چوہدری کی نظروں میں خود کو بلند کرنے کے لئے اس نے چوہدری کو جا کر کہہ دیا کہ چوہدری صاحب صرف ایک ہفتے کے بعد آپ برادری کے لوگوں کی جو دعوت کر رہے ہیں اس کے لئے میں ایک موٹا تازہ بیل دیکھ آیا ہوں۔چوہدری نے جب پوچھا کہ کہاں دیکھا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ سلیم بیوپاری آج ہی کہیں سے لے کر آیا ہے۔ چوہدری نے اسی وقت حکم دیا کہ جاو¿ اسے کہو چوہدری صاحب کو یہ بیل ضرورت ہے۔جب بکھشو نوکر نے جا کر سلیم کو چوہدری کا حکم سنایا تو اس الھڑ بیوپاری نے کہا کہ چوہدری کتنے کا لے گا بیل؟ بکھشو نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا کہ گاو¿ں کی ہر چیز کے مالک کو اس کی اپنی چیز دیتے ہوئے پیسے لیتے ہو؟سلیم نے بغیر کسی لحاظ و مروت کے کہا کہ اگر پیسوں کے بغیر بیل چاہیے تو جا کر کوئی اور دروازہ کھٹکھٹا، میرے منہ نہ لگ۔جب بکھشو نے یہ جواب سنا تو اپنے کندھے پر لٹکتی ہوئی درانتی سلیم کے سر پر دے ماری۔ تکلیف تو بزدل سے بزدل آدمی کو بھی حملے پر آمادہ کر دیتی ہے اور سلیم تو تھا ہی الھڑ! بھلا وہ کیسے خاموشی سے برداشت کر لیتا؟ اس نے آناً فاناً بکھشو کو گریبان سے پکڑا اور ایک ہی جھٹکے سے زمین پر گرا دیا۔وہ اس غضب سے زمین پر گرا کہ چوہدری کی نوکری کا سارا مان وہم و گمان میں بدل گیا۔بکھشو اٹھا کپڑے جھاڑے اور تقریباً بھاگتے ہوئے چوہدری کی حویلی پہنچا۔چوہدری اس وقت محوِ استراحت تھا اس لئے چوہدری کی خاطر مار کھانے والے بکھشو کو چوہدری کے جاگنے تک انتظار کرنا پڑا۔
چوہدری نیند پوری کر کے نہا دھو کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ بکھشو کا چہرہ خون کی سرخی اور پٹیوں کی سفیدی میں عجیب رنگ پیش کر رہا ہے۔چوہدری نے فوراً ہی جملہ کسا "واہ بکھشو واہ! یہ کس بیوٹیشن کا کمال ہے کہ تیرا کوئلہ سا چہرہ آج سرخ و سپید،رعنا و خوشنما بن گیا” بکھشو تو جل بھن گیا لیکن منہ سے کچھ نہیں کہا اور کہہ بھی کیا سکتا تھا چوہدری مائی باپ جو ہوا۔یوں ہی منہ لٹکائے لٹکائے بولا "سرکار آپ کی خاطر گیا تھا اور یہ حالت ہو گئی” چوہدری تو چوہدری تھا اسے مکالمے بازی کب پسند تھی، البتہ اپنے نوکروں سے کبھی کبھار دل لگی کی دو چار باتیں کر لیا کرتا تھا۔ کہنے لگا "میں نے تو تمہیں پارلر پر نہیں بھیجا تھا” بکھشو کو چوہدری پر غصہ تو بہت آ رہا تھا لیکن انتہائی نرمی سے بولا "آپ نے پارلر پر نہیں ہٹلر کے پاس بھیجا تھا”۔
چوہدری: اچھا اچھا! یوں کہو نا! اب میں سمجھا۔تم نے کوئی خواب دیکھا تھا جس میں ہٹلر اپنے بھرپور غصیلے انداز میں دھاڑ رہا تھا
بکھشو: چوہدری صاحب میں نے خواب نہیں،خاک دیکھی تھی جب سلیم نے دھکا دے کر گرایا تھا تو! اور یہ سب کچھ اس نے اس لئے کیا کہ میں آپ کے لئے اس سے بیل لینے گیا تھا۔
چوہدری: بکھشو جا آرام کر، سلیمے کو ہم دیکھ لیں گے۔
بکھشو مطمئن ہو کر چلا گیا۔سلیم کی شامت آ گئی۔چوہدری نے اپنے دو نوکروں کو یہ حکم دے کر سلیم کے ہاں بھیجا کہ جا کر اس کو اس کے بیل کے ہمراہ جلدی یہاں پہنچائو۔ نوکروں نے حکم کی تعمیل کی۔ سلیم کے گھر پہنچے۔ اس نے بہتیری مزاحمت کی لیکن چوہدری کے غنڈوں نے اس کے ہاتھ پاو¿ں کس کر باندھے اور اس کو اسی کے گھر کے ایک کمرے میں ڈال کر باہر سے کنڈی لگا دی۔صرف کنڈی ہی نہیں تالا بھی لگا دیا۔چونکہ اس کی بیوی اور ڈیڑھ سال کا بچہ میکے گئے ہوئے تھے اس لئے کسی کو مدد کے لئے بلانے والا بھی کوئی نہیں تھا۔چوہدری کے نوکر بیل کو چھوڑ کر واپس آئے اور سلیم کو بھی بوری میں ڈال کر لے گئے۔چوہدری منتظر کھڑا تھا۔سلیم کو جب بوری سے نکالا گیا تو چوہدری نے ان نوکروں کو جانے کا حکم دیا جو سلیم کو یہاں لائے تھے۔اس نے بکھشو کو بلایا۔
چوہدری: بکھشو یہ رہا تمہارا مجرم!اب جو چاہو اس کے ساتھ سلوک کرو
بکھشو: سرکار اس نے میرے ساتھ بہت اونچی زیادتی کی ہے اس کے ساتھ میں وہی حشر کروں گا جو اس نے میرا حشر کیا تھا۔
بکھشو نے سلیم کو جی بھر کے پیٹا اور پھر چوہدری کے حوالے کر دیا۔چوہدری نے آنکھ اٹھائی، لب ہلائے اور آناً فاناً بکھشو ان نوکروں کو بلا لایا جو سلیم کو گھر سے اٹھا کر لائے تھے۔نوکر پہنچے تو چوہدری نے حکم صادر کیا کہ یہ احمق جس بیل کو اپنا بیل سمجھتا تھا اور جس کے دام ہم سے مانگتا تھا اس کو اسی بیل کے سپرد کر دو۔نوکروں نے فوراً جکڑے ہوئے سلیم کو اٹھایا اور بپھرے ہوئے بیل کی پچھلی ٹانگوں کے قریب پھینک دیا۔بیل کے پاو¿ں تلے روندے جانے کا تماشا دیکھنا نوکروں کو نصیب نہ ہوا کیونکہ چوہدری نے سوائے بکھشو کے تمام نوکروں کو چلے جانے کا حکم دے دیا۔بیل پیچھے ہٹا اور دونوں پاو¿ں سلیم کے پیٹ پر رکھ لئے۔کہاں انسان اور کہاں بیل کے پاو¿ں! سلیم نے تو تھوڑی دیر کے بعد اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔چوہدری نے بکھشو کو کہا کہ کھرلی کے پاس گڑھا کھود کر اس کیڑے کو اور اس کے مسلے جانے کی خبر کو یہیں دبا دو اور خبر دار اگر یہ خبر اس قبر سے نکلی تو تمہارا وہ حشر ہو گا کہ تمہارے بال و پر سے بھی دنیا بے خبر ہو جائے گی۔بکھشو نے لرزتی زبان کے ساتھ اتنا ہی کہا کہ سرکار! حکم کی تعمیل ہو گی۔کہنے کو تو سلیم کی موت کی خبر چوہدری کی حویلی میں دفن ہو گئی اور چوہدری نے قانون اور قانون کے رکھوالوں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونک دی لیکن گائوں سارے کا سارا چونکہ چوہدری کی زندگی بھر کی تاریخ سے بخوبی واقف تھا اس لئے جب تین چار دن تک گائوں میں نہ سلیم نظر آیا اور نہ اس کا بیل تو سب کو معلوم ہو گیا کہ سلیم کہاں غائب ہوا ہے اور کس نے غائب کیا ہے۔یہ سارا واقعہ جب گائوں کا بچہ بچہ جانتا تھا تو یقیناً ریاض الدین بھی جانتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ گائوں کے ہر فرد کے سامنے چوہدری کے خلاف باتیں کرتا۔اس کا خیال تھا کہ اگر کچھ لوگ ہمخیال نکل آئے تو چوہدری سے نجات کی کوئی صورت بن جائے گی۔جب کچھ عرصہ وہ اس کام میں منہمک رہا لیکن کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی تو وہ دل برداشتہ ہو گیا۔وہ جان گیا تھا کہ سارا گاو¿ں غلامی کی زنجیریں قبول کر چکا ہے اور اب اس کے سوا کوئی صورت باقی نہیں رہی کہ اس گاو¿ں کے لوگوں کی آنے والی نسلیں بھی چوہدری شوکت کے خاندان کی غلامی کریں۔اب وہ اپنا اکثر وقت گھر میں ہی گزارنے لگا تھا۔کبھی کبھی مزدوری کرنے قریبی قصبے میں چلا جاتا اور پھر تین چار دن کبھی قناعت سے اور کبھی فاقوں میں گزار کر پھر جا کر ایک آدھ دن مزدوری کر کے دو چار ٹکے لے آتا۔اسی طرح اس کی زندگی گزر رہی تھی کہ ایک دن اسے خیال آیا کہ روزانہ گاو¿ں سے یہاں آنے کی بجائے اس کو قصبے میں ہی یا کسی قریبی کھیت میں تھوڑی سی زمین خرید لینی چاہیے تاکہ آنے جانے کی تکلیف میں کچھ تو کمی ہو۔یہی سوچ کر اس نے اب روزانہ مزدوری شروع کر دی تھی تاکہ کم از کم اتنی زمین تو خرید لے کہ جہاں رات کو ایک چارپائی بچھا کر آرام سے سو جایا کرے۔ریاض الدین مزدوری بھی کرتا رہا لیکن روکھی سوکھی کھا کر سو جاتا تھا حالانکہ مزدوری کی اجرت اس قدر تھی کہ کہ وہ ایک شخص تو بآسانی پرتعیش زندگی گزار سکتا تھا۔ ایک سال کے بعد اس کے پاس اتنی رقم جمع ہو چکی تھی کہ وہ ایک کنال زمین خرید لے چنانچہ اس نے اسی قصبے کے قریب ایک کھیت میں ایک کنال زمین خرید لی۔وہاں اس نے ایک عارضی سی جھونپڑی کھڑی کر لی۔اب وہ کبھی کبھار گاو¿ں جاتا ورنہ اکثر اسی جھونپڑی میں رات گزارتا۔مزدوری پر اب بھی وہ بلا ناغہ جاتا تھا، کھانا اب بھی اس کا معمولی نوعیت کا ہوتا تھا اور پیٹ کاٹ کر رقم جمع کرنے کی روش اب بھی اس نے ترک نہیں کی تھی۔جب سے اس نے مزدوری شروع کی تھی اور قصبے میں آنا جانا اور لوگوں سے ملنا جلنا شروع کیا تھا اس کی سوچوں کا جنگل وسیع اور خیالات کا سمندر بے کراں ہونے لگا تھا۔جب چوہدری کے خلاف مہم میں اسے گاو¿ں کے لوگوں کی طرف سے مایوسی ہوئی تھی تو وہ مکمل طور پر بجھ گیا تھا اور اداسی میں شب و روز گزر رہے تھے لیکن جب قصبے میں روزانہ کا آنا جانا شروع ہوا تو اندر سے پھر آوازیں آنے لگی تھیں کہ اگرچہ گاو¿ں والوں نے چوہدری کے خلاف اس کا ساتھ نہیں دیا لیکن اس کا فرض ہے کہ اپنی بساط کے مطابق اس ظلم کے خاتمے کے لئے کوششیں کرے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا وہ پھر سے چوہدری شوکت کے خلاف منصوبے سوچنے لگا تھا۔
جھونپڑی میں رہائش اختیار کرنے کے چند دن بعد ریاض الدین جب ایک روز گاو¿ں گیا تو وہ سوائے چوہدری اور اس کے نوکروں کے تمام گھروں میں پھرا۔جمعے کے روز رات کے کھانے کی اس نے سب کو دعوت دی۔بہترین کھانوں کے ساتھ اس نے سارے گاو¿ں کی تواضع کی۔کھانا کھا چکنے کے بعد بان کی چارپائی پر بیٹھا ریاض الدین حاضرین سے مخاطب ہوا "بھائیو!آپ کی آنے والی نسلوں کی نجات کے لئے میں نے آپ کو جگانے کی ہر ممکن کوشش کی۔میں نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا اور ہر ایک کے کان میں سر گوشی کی۔جب سرگوشیاں اپنا اثر دکھانے میں ناکام ہوئیں تو ببانگِ دہل بھی بولا لیکن شاید یہ راستہ قدرت کو نامنظور تھا۔ بہر حال جو جاگ چکا اسے تو اپنے حصہ کا کام کرنا ہی ہے۔آپ نے میری آواز پر کان نہیں دھرا لیکن میں مرتے دم تک چودھری شوکت کی چوہدراہٹ کے بت کو ریزہ ریزہ کرنے کے لئے کلہاڑا تیز کرتا رہوں گا اور اگر موقع ملا تو بغیر کسی تاخیر کے یہ کلہاڑا چلا بھی دوں گا” ۔لوگوں نے خاموشی کے ساتھ ریاض الدین کی باتیں سنیں لیکن دل ہی دل میں ہنستے رہے۔حاضرین میں سے اکثر کا خیال تھا کہ جب سے قصبے میں اس کی آمد و رفت شروع ہوئی ہے تب سے اس کا دماغ پہلے سے کہیں زیادہ چل گیا ہے اسی لئے اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔جب بعض لوگ خاموشی سے اور بعض لوگ ریاض الدین پر طنز کے تیر چھوڑنے کے بعد چلے گئے تو اس نے تمام دروازے مقفل کیے اور گھر سے نکلا۔ جوں ہی گھر سے نکلا برادری کے سرکردہ لوگوں کا گروہ سامنے آن ٹپکا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد سامنے کھڑے برادری کے لوگوں نے پہلے اسے پیار محبت سے سمجھایا کہ گاو¿ں چھوڑ کر نہ جاو¿ اور جن خیالات کا اظہار تم نے دعوت میں بلائے گئے لوگوں کے سامنے کیا ہے وہ خیالات تمہارے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو کسی طور ٹلنے کا نہیں تو لعن طعن شروع کر دیا اور ریاض اسی لعن طعن کی تیر اندازی میں بغیر ڈھال رکھے دل و دماغ کے تمام خفیہ خانوں سے یہ تیر پار کرواتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گیا۔اب چونکہ گائوں والوں سے اس کی تمام امیدیں بھی ختم ہو گئی تھیں اور اس نے قصبے کے قریب اپنا مکان بھی بنا لیا تھا اس لیے گاو¿ں سے رابطہ مکمل طور پر منقطع کر لیا۔ قصبے میں مزدوری پر اب وہ بلا ناغہ جانے لگا تھا۔اس کی کوشش یہی ہوتی کہ جو کچھ کمایا ہے اس کا اکثر حصہ بچ جائے۔اگرچہ کفایت شعاری کی عادت اسے پہلے ہی سے تھی لیکن اب اس نے روپیہ بچانے کے لئے خرچ میں مزید احتیاط شروع کر دی تھی۔چونکہ وہ قصداً روپیہ جمع کر رہا تھا اس لئے کچھ ہی عرصے میں اس کے پاس اچھی خاصی رقم جمع ہو گئی۔اس نے مکان کے پاس مزید کچھ جگہ خرید لی۔
نقل مکانی کے بعد ریاض الدین نے خشخشی سی داڑھی بھی رکھ لی تھی۔معمول کے مطابق وہ قصبے میں جاتا اور شام کو گھر آ کر جب چارپائی پر لیٹتا تو اس کا ہمیشہ سے سوچنے کا عادی دماغ خیالات کی وادیاں طے کرنے لگتا۔ گاو¿ں اور گاو¿ں والوں سے ظاہری طور پر تو وہ تعلقات توڑ کر آ گیا تھا لیکن چوہدری، چوہدری کے مظالم اور گاو¿ں کے لوگوں کی مکمل خاموشی کے تکلیف دہ خیالات کی آمد و رفت اس کے دماغ میں یوں جاری رہتی جیسے کسی صاف ستھرے تالاب میں بھینسیں گھس آئیں اور پانی کو نہ صرف گدلا کر دیں بلکہ کئی کئی گھنٹے اس میں بیٹھ کر جگالی کرتی رہیں۔گاو¿ں کے لوگوں کی نجات کے لئے وہ رات کو سینکڑوں منصوبے بناتا اور صبح خود ہی سارے منصوبوں کے تھان تار تار کر کے قصبے روانہ ہو جاتا۔کچھ عرصہ تو یہی حالت رہی کہ جس تیزی کے ساتھ منصوبے اس کے دماغ میں آتے اسی تیزی کے ساتھ یوں پگھل جاتے جیسے جون جولائی میں برف پگھلتی ہے لیکن رفتہ رفتہ اس کی طبیعت اور مزاج میں ٹھہراو¿ آنے لگا۔ اب وہ رات بھر ایک ہی منصوبے کے متعلق سوچتا رہتا اور پھر کئی دنوں تک اس پر عملدرآمد کی مختلف صورتیں بناتا بگاڑتا رہتا۔
ایک رات کا واقعہ ہے کہ جب وہ صحن میں چارپائی پر لیٹے حسبِ معمول ستاروں کو مسلسل تک رہا تھا اور تمام دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے چوہدری کو پھانسنے کے لئے جال بن رہا تھا تو اچانک اس کے دماغ نے اسے ایک ایسی سرنگ دکھا دی جس کو وہ باآسانی چوہدری کے لئے زندان بنا سکتا تھا۔اب اس کا دماغ برقی رو کی طرح چل رہا تھا اور تیز رفتاری کے ساتھ پورے کے پورے منصوبے کی عکس بندی ہو رہی تھی۔صبح ہونے تک وہ ایک مکمل منصوبہ تیار کر چکا تھا جس کو بہت جلد اس نے عملی جامہ پہنانا تھا۔منصوبے کو اس نے مختلف مراحل میں تقسیم کیا تھا اور صبح سویرے ہی سے مرحلہ وار منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دیا تھا۔
ایک شام چوہدری شوکت کو اس کے نوکر غلام مرتضیٰ نے ایک رقعہ پیش کیا اور بتایا کہ قریبی قصبے کے رہائشی عظیم جولاہے نے یہ کہہ کر یہ رقعہ آپ کو پیش کرنے کے لئے کہا ہے کہ چوہدری شوکت صاحب کے نام ملک حشمت علی خان کا یہ انتہائی اہم پیغام ہے۔چوہدری نے ‘اچھا’ کہہ کر رقعہ جیب میں ڈالا اور حویلی کی جانب چل دیا۔جب حویلی پہنچ کے سکون سے بیٹھ کر اس نے رقعہ پڑھا تو حیرت میں ڈوب گیا۔بغیر کسی سلام دعا اور آداب کے یہ عبارت درج تھی:
"میں نے سنا ہے کہ آپ کی ایک ہی صاحبزادی ہے اور آپ اپنے معیار کے مطابق اپنی صاحبزادی کے لئے کسی اچھے رشتے کی آمد کے منتظر ہیں۔اگر مناسب سمجھیں تو آئیں ہمارے غربت کدے کو چند لمحوں کے واسطے اپنی جلوہ گاہِ جلال بنائیں اور اگر ہمیں اپنے معیار کے مطابق پائیں تو میرے چھوٹے صاحبزادے ملک عظمت علی خان کے ہاتھوں میں اپنی دخترِ نیک اختر کا ہاتھ دے دیں۔اگر ہمارا غربت خانہ ملاحظہ کرنا ہوا تو آج سے ٹھیک سات دن بعد ہمارے ا±س نوکرِ خاص کے ساتھ ہماری رہائش گاہ پر چلے آئیے گا جو آپ کے پاس آئندہ جمعے کو حاضری دے گا”
چوہدری سوچوں میں گم ہو گیا۔وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔وہ سوچ رہا تھا کہ عجیب شخص ہے، نہ گھر آیا نہ ہی لڑکی دیکھی اور پیغام بھیج دیا کہ آئیں میرا گھر دیکھیں۔لڑکی کی شادی کے متعلق وہ پریشان تو تھا کیونکہ چوہدری کو بیٹی بیاہنے کے لئے بھی اپنے معیار کا چوہدری چاہیے تھا اور مصیبت یہ تھی کہ گاو¿ں میں چوہدری کے معیار کا کوئی دوسرا آدمی تھا ہی نہیں لیکن وہ اس طرح رقعوں کے رشتوں کے حق میں نہ تھا۔وہ سوچتا رہا تاآنکہ جمعے کا دن آ گیا۔
جمعے کے دن پونے چار بجے غلام مرتضیٰ نے آ کر چوہدری شوکت کو بتایا کہ آپ کا مہمان آیا ہے۔چوہدری نے اسے بلایا اور رسمی دعا سلام کے بعد آنے کا سبب پوچھا جس پر اس نے بتایا کہ میں عظیم جولاہا ہوں چند روز پہلے بھی آپ کے دولت کدے پر حاضر ہوا تھا اور آپ کے نوکر کو ایک رقعہ دے کر گیا تھا۔ یقیناً رقعہ تو آپ نے پڑھ لیا ہو گا، میں اسی سلسلے میں حاضر ہوا ہوں۔چوہدری نے غلام مرتضیٰ کو بلایا اور اسے کہا کہ سارے نوکروں کو بلائو، آج دعوت پر چلنا ہے۔ نوکر پہنچے تو چوہدری چار کاروں کے قافلے کے ساتھ آنے والے شخص کی راہنمائی میں ملک حشمت کا گھر دیکھنے چلا۔پونے گھنٹے کی مسافت کے بعد عظیم جولاہے نے ایک کھیت کے قریب کارواں کو رکوا دیا۔گاڑیوں سے سبھی اترے۔عظیم جولاہے نے سامنے کھڑے ایک بڑی بڑی سفید مونچھوں اور خشخشی داڑھی والے شخص کی طرف اشارہ کر کے کہا یہ ملک حشمت علی خان ہیں جن سے ملاقات کے لیے آپ یہاں تشریف لائے ہیں۔اتنی دیر میں سامنے کھڑے شخص نے چوہدری کے قریب آ کر بازو پھیلا دیے۔چوہدری اور ملک بغل گیر ہوئے۔معانقے اور مصافحے کے بعد ملک حشمت علی خان اپنی راہنمائی میں قافلے کو لے کر چل پڑا۔کھیت سے گزرنے کے بعد جوں ہی ملک حشمت ایک عام سے مٹی گارے کے مکان میں داخل ہونے لگا تو چوہدری کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
چوہدری:جناب! یہ آپ کہاں گھسنے لگے ہیں؟
ملک: آئیے چوہدری صاحب آئیے اپنا ہی گھر ہے
چوہدری جھجکتے ہوئے اندر داخل ہو گیا
ملک: چوہدری صاحب آپ کی حیرت بجا ہے لیکن امید ہے کہ حقیقت سے پردہ اٹھنے کے بعد آپ کی حیرت رفع ہو جائے گی۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم سینکڑوں ہزاروں دوستیوں دشمنیوں والے لوگ ہیں،اب مصلحت اور دور اندیشی کا تقاضا یہی ہے کہ حاسدوں، شرپسندوں اور مفسدوں سے بچنے کے لئے اپنا ٹھکانہ خفیہ رکھا جائے۔لیکن آپ یہ نہ سمجھ لیجئے کہ خفیہ ٹھکانے سے میری مراد صرف یہ کوٹھڑی ہے بلکہ اس کوٹھڑی کے اندر وہ عجائبات پوشیدہ ہیں کہ آپ کی عقل دنگ رہ جائے گی ۔
جوں ہی کوٹھڑی کے ایک کونے سے ملک حشمت علی خان نے ایک چوڑا سا پتھر ہٹایا تو نیچے ایک لوہے کی کھڑکی نظر آئی۔کھڑکی کھولی تو وہ سیمنٹی سیڑھیاں دکھائی دیں جو نیچے اتر رہی تھیں۔مجسم حیرت بنے چوہدری شوکت کو ملک حشمت نے نیچے اترنے کو کہا اور ساتھ ہی تیز تیز قدموں کے ساتھ خود بھی نیچے اترنے لگا۔پندرہ سیڑھیاں طے کرنے کے بعد ملک حشمت اچانک پیچھے پلٹا اور ساتھ ہی چوہدری شوکت کو کہا کہ جناب! زرا رکئے، میں کھڑکی اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کرنا بھول گیا تھا۔یہ نہ ہو کہ آپ کو اپنی رہائش گاہ دکھاتے دکھاتے برسوں کے راز اور اپنی حفاظت کی ضمانت کو کھو بیٹھوں!واپس کوٹھڑی میں پہنچ کر اس نے سب سے پہلے کھڑکی بند کی پھر اس پر پتھر رکھا۔اس کے بعد کوٹھڑی سے باہر نکل کر کوٹھڑی کا دروازہ باہر سے بند کر دیا اور چوہدری کے گاو¿ں کی طرف بے تحاشا دوڑ لگا دی۔
جب وہ چوہدری شوکت کے گاو¿ں پہنچا تو اندھیرا چھا چکا تھا۔وہ گائوں کی مسجد میں داخل ہوا اور اعلان کیا "حضرات ایک ضروری اعلان سنیں! فوراً سارا گاو¿ں ریاض الدین کے گھر کے کھنڈرات کے پاس پہنچے” یہ اعلان کر کے وہ خود بھی اس جگہ پر پہنچ گیا۔کچھ ہی دیر میں کھنڈرات کے سامنے میدان میں سارا گاو¿ں جمع ہو گیا۔
مکانوں کی دیواروں کے گرے ہوئے پتھروں کے ایک ڈھیر پر کھڑے ہو کر گاو¿ں والوں سے وہ یوں مخاطب ہوا
"میرے بھائیو وہ وقت یاد کرو جب آج سے بیس سال پہلے ایک شخص نے تمہیں کہا تھا کہ میں مرتے دم تک چودھری شوکت کی چوہدراہٹ کے بت کو ریزہ ریزہ کرنے کے لئے کلہاڑا تیز کرتا رہوں گا اور اگر موقع ملا تو بغیر کسی تاخیر کے یہ کلہاڑا چلا بھی دوں گا۔آج وہ شخص تیز دھار کلہاڑا چلا کر تمہارے گائوں پہنچ گیا ہے اور تمہارے سامنے کھڑا تمہیں خوشخبری سنانے والا ہے۔ تمہارا مجرم چوہدری شوکت اپنے تمام نوکروں کے ساتھ میری کوٹھڑی میں قید ہے۔اب تم جو چاہو اس کے لئے سزا مقرر کرو اور اس شخص سے نجات حاصل کرو جس نے تمہاری زندگیوں کو عذاب بنا رکھا تھا”
جوں ہی گائوں والوں نے یہ بات سنی تو آج سے بیس سال قبل کی ریاض الدین کی دعوت میں شریک لوگ تو اس کو پہچان گئے لیکن جو اس وقت بچے تھے اور دعوت میں شریک نہیں تھے لیکن اب جوان تھے وہ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ بوڑھے تو ابھی تک انگشت بدنداں تھے کہ یہ ریاض الدین جس کی گاو¿ں میں بات تک کوئی نہیں سنتا تھا آج کیسے چوہدری شوکت کو قید کر کے ہمیں خوشخبری سنانے آ گیا ہے لیکن جوانوں کی آوازیں مسلسل بلند ہو رہی تھیں۔اب گائوں کے اس ہنگامی اجتماع سے اس طرح کی آوازیں آ رہی تھیں
چوہدری صاحب نے مجھے سکول میں چپڑاسی بھرتی کروایا تھا، ان کو آزاد کرانے کے لئے میں جان کی بازی لگا دوں گا۔۔۔چوہدری صاحب کی سفارش کی وجہ سے میں کلرک بھرتی ہوا تھا، آج اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کا قرض چکانے کا وقت آ گیا ہے۔۔۔چوہدری صاحب نے میرے بھائی کو پولیس میں ملازمت دلوائی تھی، ان کو اس پاگل بوڑھے سے بچانے کے لئے میں سر پر کفن باندھ کر جاو¿ں گا۔
جس سلیم بیوپاری کو چوہدری شوکت نے قتل کیا تھا اور اس کی لاش کھرلی کے پاس دفن کر دی تھی اس کے بیٹے کلیم نے اجتماع میں سے اچانک اٹھتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ "چوہدری شوکت صاحب نے کرنل سے بات کر کے مجھے فوج میں بھرتی کروایا تھا، آج انہیں ایک جنونی اور شرپسند بڈھے کی قید سے آزادی دلوانا میرا فرض ہے۔شکر ہے کہ میں ایسے وقت میں چھٹی پر آیا ہوا تھا۔میں ابھی جا کر دروازہ کھولتا ہوں۔”جب وہ بھاگا تو گاو¿ں کے سارے جوان اس کا ساتھ دینے کے لئے اس کے پیچھے بھاگے۔ریاض الدین پتھروں کے ڈھیر پر گر پڑا اور اس کے ہم عمر گاو¿ں کے بڈھے حیرت میں کھو گئے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے