”تھر پارکر جانا ہے تو بارش کے بعد جاﺅ ،وہاں کا حسن نظر آئے گا “۔یہ بات مجھے پیرعلی محمد راشدی نے کہی تھی پھر مجھے تھر اور نگر پارکر کا حسن دیکھنے کا موقع اس وقت ملا جب 1984 میں میر ی ماموں زاد بہن ناصرہ کے شوہر راشد کوکب کا مٹھی ٹرانسفر ہوا ۔وہ وہاں کے پہلے اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوئے تھے۔تب مٹھی جانا اتنا آسان نہیں تھا۔ جب میں اورمیرے شوہر شوکت زیدی پہلی بار وہاں گئے تو نوکوٹ میں کار چھوڑ کربہ ذریعہ جیپ ریتلے راستے سے جانا پڑاجسے جرنیلی سڑک کہتے تھے ۔ وہاں ٹرانسپورٹ کے لئے دوسری جنگ عظیم کے زمانے کے ٹرک چلتے تھے جنہیں کھیکڑو (کیکڑا ) کہا جاتا ہے ۔شاید رتیلے راستے پر اس کی کیکڑے جیسی رفتار کی وجہ سے یہ نام پڑگیا ہو۔میں نے راشد سے برسات کے موسم میں نگر پارکر دیکھنے کی خواہش کی تو وہ خود ہمیں وہاں تک لے گئے۔ پورے راستے میں فطرت کے مناظر، جین مت کے آثار ،سمادھیاں اور موروں کے جھرمٹ مبہوت کرتے رہے ۔
یہ یادیں اس وقت جاگیں جب چالیس برس کے بعد ، وہاں کے شاعر خلیل کنبھار نے” کارونجھر ساون مشاعرے “میں شرکت کی دعوت دی ۔تھر کا حسن مقامی لوگو ں کی سادگی ،وہاں کی دستکاریوں میں پرُکاری ،شاعروں ،ادیبوں اورفنکاروں کے ٹیلنٹس کی کشش ۔۔ساون مشاعرہ تو بہانہ بن گیا۔ کارونجھر جانے کی تو میں یوں بھی منتظر تھی ۔اس وقت سے جب بھارو مل کی کتابیں ©©©”صحراکے دوہے “ اور ”تھر کے گیت “ پڑھی تھیں۔مشاعرے کی تاریخ 14ستمبر تھی۔ کراچی سے دوا ور شعرا بھی مدعو تھے ۔تسنیم عابدی جو امریکہ سے آئی ہوئی تھیں انہیں منتظمین کے دعوت نامے کے ساتھ اپنا ایک دوہا بھی بھیج دیا :
کارونجھر کا روپ سجانے آیا ہے ساون
چل سکھی ری ہم بھی دیکھیں پربت کا جوبن
نگر پارکر کی کشش تھی یادوہے کا اثر، وہ بخوشی جانے پر آمادہ ہوگئیں ۔ لیاری کے بلوچ وحید نور جو اردو کے مقبول شاعر ہیں ، وہ بھی مدعو اورہم سفر تھے ۔ دونوں کے ساتھ سفر خوب کٹا ۔ مشاعرے سے پہلے ایک اور پروگرام میں بھی ہمارا انتظا ر تھا۔وہ تھی رانامحبوب اختر کی کتاب ”سندھ گلال ، سمباراسے شاہ لطیف تک“ کی تقریبِ اجرا ۔ کتاب کی پی ڈی ایف کاپی مجھے بھیج کر خلیل کنبھار نے اصرار کیا تھا کہ میں اس پر اظہار خیال کروں ۔کتاب پڑھنے اور اس پر لکھنے کے لئے اگر چہ وقت کم تھا مگر جب پڑھنی شروع کی تو تحریر کے حسن نے اپنی گرفت میں لے لیا اور اس پر لکھنے کے لیے آمادہ کرلیا۔تقریب کا وقت دن کے دو بجے تھااور ہم سڑک پہ تھے۔ وقت کی پابندی کی عادت نے مجھے مضطرب کررکھا تھا ،لیکن اس وقت اطمینان ہوا جب تقریب کے صدر ڈاکٹر ناصر عباس نیراور ایک اور مقرر پروفیسر ممتاز خان کلیانی سے راستے میں ملاقات ہوگئی ۔مٹھی کے قریب تھر ریسٹورنٹ میں کھانے کا انتظام تھا ۔سخت بھوک میں لذیز ویجٹرین کھانا جس میں میری پسندیدہ مقامی کھمبیاں (مشروم ) دال اور کچے تربوز کی ترکاری شامل تھی نعمت لگی ۔کارونجھر میں روپلو کولہی موٹل پہنچے تو تقریب کا آغاز ہوچکا تھا ۔ملتان سے آئے ہوئے بہت معتبر شاعر و ادیب رفعت عباس کتاب پر گفتگو کررہے تھے ۔وہ اس سفر میں رانا محبوب اختر کے ہمراہ تھے جو اس پُر تاثر کتاب کی تحریر کا محرک بنا تھا ۔یہ ایک ایسا سفر نامہ ہے جس میں اس خطے کی تاریخ ،جغرافیہ ،انتھراپولوجی ، سماجیات، سیاسیات، طبعیات ،مابعد طبعیات ،ادب،فنون بہت کچھ لہریں لیتے سندھو دریا کی طرح تحریر وکیفیت کے بہاﺅ میں قاری کو ہمسفر بنالیتے ہیں ۔مقررین میں تقریب کے صدر ناصر عباس نیراور پروفیسر ممتاز خان کلیانی کو میں سن سکی۔ دیر ہوچکی تھی اس لیے میں نے اپنے مضمون کو جو ”سمبارا کی ہم رقص نثر “ کے عنوان سے تھا ،کو مختصر کرتے ہوئے ان جملوں پہ اختتام کیا :
”شاعری اورقص انسان کے ارتقاءکا مظہر ہیں۔ رومی ، شاہ لطیف ،شہباز قلندر، امیرخسرو ،سبھی اس راز کے گواہ ہیں۔عورت تاریخ میں نہیں لکھی گئی، اچھا ہے، جنگ و جدل کی تاریخ میں اُس کا کردار ملوث نہیں ہوا، مگر تمدن کی تاریخ میں اُسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ سمبارا اور شاہ لطیف نے اُس کے وجود کو گمنام نہیں رہنے دیا، وہ فنون کی حقیقی دنیا میں گلال بکھیرتی ہر دور میں موجود رہی ہے۔ ”سندھ گلال “کی تعریف مجھ پر اس لیے بھی لازم ہے کہ اس میں سمبارا ہے، روپلو کولہی کی بیوی میڑاوتی ہے اور شاہ لطیف کی سورمیاں ہیں۔ یہاں کے رسوم و رواج ہیںاور وہ تمدن ہے جس میں کسی قسم کی بھی عصبیت نہیں۔“
ہمارا کمرہ روپلو موٹل میں ہی تھا ۔آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ کو جب میں نے بتایا کہ میں کارونجھر ساون مشاعرے میں شرکت کے لیے جارہی ہوں اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر بھی وہاں آرہے ہیں تو انہوں نے وہاں دو کمرے اپنی طرف سے بک کروادئیے اور کہا تھا کہ واپسی پر ناصر عباس نیر کو اپنے ساتھ لے آﺅں۔انہوں نے جوش ملیح آبادی لائبریری آرٹس کونسل میں ”شہراور شاعری “کے عنوان سے ایک لیکچر کے لئے ڈاکٹر ناصر عباس کو مدعو کرلیا تھا۔ یہ لیکچر 16ستمبر کی شام کو آصف فرخی کی یادوں کے ساتھ سنا گیا کہ یہ آصف کی سالگرہ کی تاریخ بھی تھی۔
اب میں لوٹتی ہوں کارونجھر کی اس فضا میں جہاں میلے کا سماں تھا، تھر اور نگرپارکر کی تہذیب وثقافت کی رنگا رنگی ،عصبیت سے پاک کشادہ دلی ،بچوں، نوجوانوں ،خواتین اور ہر عمر کے حاضرین کا ذوق وشوق کیمرے لئے مہمانوں سے گفتگو کے منتظر صحافی ،دستکاری کے سٹال اور جوق در جو ق مشاعرہ گاہ کی طرف آتے شرکاءثابت کررہے تھے کہ میزبانوں نے محنت ہی نہیں کی ہے خلوص بھی جیتاہے ۔شائد اس لئے کہ خوبصورت پربت کارونجھر کو استعماری طاقتوں سے بچانا ان کا ایسا مشن ہے ،جس میں مقامی ہی نہیں پورے پاکستان کے عوام خصوصاًادیب ودانش ور دل سے ان کے ساتھ ہیں ۔ثقافت ہی کسی قوم کی پہچان ہوتی ہے ۔ثقافت کا تعلق دھرتی سے ہے ۔دھرتی اجاڑ دی جائے تو ثقافت بنجر ہوجاتی ہے ۔فنون وادب مرجاتے ہیں ،ان کے ساتھ اس خطے کے باسیوں کی شناخت بھی کھوجاتی ہے ۔ وادی سندھ میں صدیوں سے فنون وادب کا ایک گہوارہ کارونجھر ، ماں فطرت کی گود میں وہ رنگ اور نظارے بکھیر رہا ہے جس میں لوک گیت ، رقص، مصوری ،شاعری پروان چڑھ رہے ہیں ۔ماضی ہو یا حال ،تھر اور نگر پارکرکو ان رنگوں سے الگ پہچانا جاسکتاہے جو وہاں کی دستکاروں اور فنکاروں کو کارونجھر کی دین ہے ۔اس پہاڑ کا مستقبل کیا ہے ؟ سب تشویش میں مبتلا اپنے طور پر اسے بچانے کی کوشش میں لکھ رہے ہیں ،گارہے ہیں ، رقص کررہے ہیں ۔رقص بھی احتجاج کی شکل اختیار کرسکتاہے ،گانا ترانہ بن سکتاہے ، شعر وادب کا رخ مزاحمتی راہ اختیار کرسکتاہے ۔کارونجھر میں یہ تیور بھی نظر آئے ۔مشاعرے میں مقامی شعراءکے ساتھ دیگر شہروں سے آئے ہوئے مہمان شعراءمیں صدر مشاعرہ رفعت عباس ، راقم الحروف، تسنیم عابدی ،اسحق سمیجو ،سید ماجد شاہ ،علی دوست عاجز ، چندر ولاسائی ، مزدم خان ، اجمل فریدی ،وحید نور ،امام علی جھنجھئی ،سائیں داد منگریو اور میراعتزاز نے اپنا کلام سنایا۔وسیع مشاعرہ گاہ میں دور دور تک سننے والے داد وتحسین کے ساتھ اختتام تک موجود رہے ۔ساون مشاعرے سے پہلے وہاں کا لوک چروڑی رقص پیش کیا گیا۔ مشاعرے کے بعد کائنات تھیبو کی بنائی ڈاکیومنٹری فلم ” Made with love“دکھائی گئی ۔سب کی پسندیدہ مائی ڈھائی نے بھی اپنے گیتوں کی لے بکھیری ۔
اگلے روز صبح کارونجھر پہاڑ کے سیرکا انتظام تھا ۔کارونجھر پہاڑ جہا ں قدرت کی صناعی قدم قدم پر دیکھی جاسکتی ہے ۔گلابی گرینائٹ کی چٹانوں کو وقت نے خود ایسی شکل دے دی ہے جیسے ماہر سنگ تراش نے فن پارے تراشے ہو ں ۔ہم سب مبہوت ہوکر پہاڑ میں فطرت کے بنائے ہوئے مجسمے دیکھ رہے تھے ۔شائد پال ویلری نے لکھا تھا کہ ”فنکار فطرت کے عمل کو تیز ترکردیتاہے “ یعنی جو مجسمہ فطرت صدیوں میں بناتی ہے فنکار اسے گھڑیوں میں تراش لیتاہے ۔میں نے سوچا گھڑیوں میں تراش لینا تو ممکن ہے صدیوں میں بنائے ان فن پاروں کو دوبارہ حاصل کرنا توناممکن ہے ۔دل سے ان کی حفاظت کی دعانکلی ۔اک آہ بھی لبوں پر آگئی ۔یہ ان ہوس زدہ لوگوں کی بصارت اور بصیرت نہ ہونے پر تھی جو، اپنی نسلوں کو قدر ت کے حسن سے محروم کررہے ہیں۔ مادی آسائشیں ، مصنوعی آرائشیںنعمت نہیں ہیں ۔نعمت تو وہ ہ جمالیات کے مظہر ہیں جنہوں نے دھرتی کو جنت بنایا ہواہے۔کارونجھر کے دامن میں ہم نے ”ساڑھ
دھروجین مندر“ بھی دیکھا جو ہزاروں سال قدیم ہے ۔آنکھوں میں خوبصورت مناظر کو اتارتے ہوئے ہم کاسبو کی طرف روانہ ہوئے جہاں قدیم راما مندر کے صحن میں ایک چبوترے پر روایتی ناشتے کا اہتمام تھا ۔ ناشتے میں لسی وہاں کا خاص میٹھا ماوا حلوہ ،سبزیوں کی ترکاری اور دال سے پورے دن کے
سفر کے لیے شکم پری کی۔ وہاں موجود نابینا گائک یوسف فقیر اور ان کے ساتھی سازندوں سے روایتی گیت سنے۔یوسف فقیر جب شاہ عبدالطیف بھٹائی کا
کلام گارہے تھے تومجھ پرانکشاف ہوا کہ ان کے سُرا ور انداز سندھ کے ان فنکاروں سے مختلف تھاجنہیں میں سنتی رہی ہوں ۔یوسف فقیر کی گائیکی راجھستانی لوک گیتوں کی گائیکی سے قریب تھی ۔ایک مختلف انداز میں” اللہ ہو“ کی ادائیگی اچھی لگی۔راما مندر سے ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا جس میں تسنیم عابدی اور ناصر عباس نیر ہم سفر تھے ۔میں نے راستے میں مٹھی شہر کویکھنے کی خواہش ظاہر کی جہاں میں نے چالیس برس قبل چند روز قیام کیا تھا۔اس کی گلیاں اور بازار میں خوبصورت مندر کا تصور اب تک محفوظ تھا۔میرے ہم سفروں نے اس خواہش میں میرا ساتھ دیا۔
مٹھی بازار پہلے ہی جیسا تھا۔اینٹوں سے بنائی گئی گلیاں ،چاندی کے زیورات ، دھات کی گاگریں،دستکاریوں اور جڑی بوٹیوں کی دکانوں سے گزر کر ایک قدیم مندر، اب تک ویسے ہی موجود ہیں جیسے پہلے دیکھا تھا۔البتہ مندر کی بہت خوبصورت آرائش نو کی گئی تھی ۔ وہ شدید غربت و پس ماندگی جو 1984میں نظر آتی تھی اب نہیں رہی ۔ سڑک کی تعمیر ترقی کی راہ بھی کھول دیتی ہے ۔میں نے ایک مرتبہ اپنے شوہر چارٹرڈ انجنیر شوکت زیدی کو یاد کیاجنہوں نے پہلے سفر ہی میں راشد کوکب کو باآسانی سڑک بنوانے کی صورت بتائی تھی ۔راشد کوکب کو آج بھی وہاں بہت احترام سے یاد کیا جاتاہے جس نے دو برس کے اپنے قیام کو بامقصد بنایا تھا ۔مندر سے نکل کر ہم نے تھر کی دستکاریوں کی دکان پر کچھ خریداری کی اور کراچی کی طرف روانہ ہوگئے ۔دل میں نگر پارکر کے سیدھے سادے باسیوں خصوصاً ”ہاکڑا ادبی فورم“ کے میزبانوں ،تمام منتظمین کی کاوشوں ، خوبصورت مناظر ، مذہبی رواداری ،فکری ہم آہنگی کے رویوں کی یادیں بسائے ہوئے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے