سید امیرالدین نے ہم کوئٹہ کے سنگتوں کو کراچی میں کچھ لوگوں سے ملوایا تھا۔ یہ لوگ روشن فکر ادبی تحریک میں جتے ہوئے تھے ۔ان لوگوں میں سے راحت سعید،محمد بن احمد، محمد علی صدیقی ، حسن عابدی ، حسن عابد، واحد بشیر، ڈاکٹر شمیم ،اور سید شمس الدین تھے ۔ یہ گروپ بہت منظم طور پر کام کرتا تھا۔
راحت سعید پاکستان میں قومی و عوامی حقوق کا طرفدار انقلابی دانشور تھا۔ نظریاتی و فکری انحطاط اور انقلابی تحریک کی مایوسیوں سے گھرے دور میں بھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی انقلابی فکری اساس پر قائم رہا ۔
وہ چند گنے چنے ساتھیوں کے ساتھ ارتقا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے پلیٹ فارم سے روشن امیدوں کی آبیاری کرتا رہا۔ارتقا کے ماہانہ اجلاس ہوتے تھے ۔اس کے علاوہ سال میں ایک دو بڑے اور کامیاب پروگرام منعقد کیے جاتے۔ پبلک ریلشنگ راحت سعیدکی ہوتی تھی ۔ انتظامات اُسی کے ، فنڈ وہ جمع کرتا تھا۔
اسی طرح وہ رسالہ ارتقا کے لیے بے انتہا محنت کیا کرتاتھا۔
وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا روح رواں تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ انجمن کی تنظیم کاری میں بہت محنت کی ۔
ہماری مشترکہ خواہش تھی کہ یہ پراسیس مزید بڑھے چلے اور ملکی پیمانے پر ایک کھلی ڈلی کنفیڈریشن جیسی باڈی بن جائے ۔ مگر ہم اس سلسلے میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کرسکے۔
پھر عمر رسیدگی اور صحت کے مسائل شروع ہوئے ۔ اسے لنگز کینسر ہوگیا۔ اور وہ ریڈیو تھریپی کے لیے اسلام آباد سے اپنے بھائی کے گھر کراچی منتقل ہوگیا۔ ہم ہر چند روز بعد ٹیلیفون پہ اس بہادر آدمی کی ہمت بڑھانے کی کوشش کرتے۔ مگر وہ قہقہوں میں جوابی کاروائی کرتا۔ باہمی خواہش ہوتی کہ وہ ذرا سا بہتر ہو تو ہم ملک کے مختلف حصوں میں بکھری مترقی اور روشن فکر ادبی تحریک کو مزید قریب لانے کا کام کریں گے ۔
کینسر جیسے خوفناک مرض کے سامنے راحت کے چارہ گر ہار گئے ۔ اور وہ یہ کام ادھورا چھوڑ کر ہم سے چھین لیا گیا۔ ایک ایسا شخص جس کے ساتھ ہماری سنگتی دہائیوں پر مشتمل تھی ۔ہم دکھ میں ہیں، اور بڑھتے ہوئے احساس ذمہ داری کے بوجھ میں ہیں۔
راحت سعید انتہائی شفیق ،نرم دل ،خوش مزاج اور سحر انگیز شخصیت کا مالک تھا۔ وہ دوستانہ اور ہنس مکھ طبیعت کا مالک تھا۔بے تکلف چٹکلے اور بے ساختہ قہقہوں کا رسیا تھا۔ایک ملاقات کے بعد اس کی محبتوں بھرے جال سے نکلنا ممکن نہ ہوتا ۔
راحت سعید کے انتقال سے ہم ایک متحرک کلچرل راہنما سے محروم ہوگئے ۔راحت گیا، کارواں باقی ہے ، تقاضے باقی ہیں۔۔۔ ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں کہ اب راحت سعید کے حصے کا کام بھی کرنا ہے ۔
۔۔۔۔ اور راحت! یہ کام ہم کریں گے ، دوست !

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے