ایڑیٹوریل ۔۔۔ نومبر
پاکستان پھر بحران میں ہے ۔ سچ یہ ہے کہ یہ اپنی تاریخ میں کبھی بھی معاشی سیاسی اور آئینی بحرانوں سے آزاد نہ رہا ۔ ان بحرانوں کی وجوہات میں قومی اور طبقاتی استحصال ، جمہوریت کی ہمہ دم نفی ،سرمایہ دارانہ نظام کی عمومی ناکامی ، اور ریاستی اداروں کے باہمی تضادات شامل ہیں۔ عدم استحکام ہی نتیجہ ہوتا ہے ۔
اس ملک کا معاشی و انتظامی ڈھانچہ ابھی تک جدید نو آبادیاتی طرز پہ قائم ہے جس میں عالمی سرمایہ داری نظام کے سرپرست ملکوں اور اداروں کی مداخلت ایک لازمی امر ہے-یہ مداخلت روزاول سے موجود رہی ہے اور اب تو چین اور مشرق وسطی کے تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی مداخلت ایک نیا فیکٹر بن کر سامنے آگئی ہے۔
پاکستان میں آئینی ترامیم کی تاریخ بہت طویل ہے۔ مگر یہ ترامیم عوام کے حق میں کبھی نہ رہے ۔ مختلف اوقات میں سرکاری سہولیات کے لیے ایسا کیا جاتا رہا۔ وہ بھی ریاستی ستونوں کے باہمی اقتداری جھگڑوں کو طے کرنے کے لیے زور آور ستون نے ایسا کروایا ۔ ظاہر ہے ایسی ترامیم کے نتیجے میں ملک میں سیاسی استحکام نہیں آ سکا۔ اس لیے کہ ان میں عوامی امنگیں تو سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی تھیں۔ ان ترامیم نے ہمیشہ بحرانوں کو مزید گہرا کیا ۔ پاکستان میں ریاستی بحرانوں کا حل آئینی ترامیم نہیں بلکہ معاشی  نظام کی تبدیلی ہے۔
مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد سیاسی پارٹیاں طاقتور تھیں۔ اسی لیے 1973کا آئین ممکن ہوسکا تھا ۔پھر کبھی مارشل لا، کبھی چودھری افتخار لا،۔۔مسلسل ایک غیر جمہوری دور جس میں عدالت اور اسٹیبلشمنٹ ایک طرف تھے ،اور عوام اور ان کی سیاسی پارٹیاں دوسری طرف۔
موجودہ بحران بھی پاورز تقسیم کی جنگ ہے ۔ حکمرانوں کو تو سب پتہ ہے لیکن عوام جو سیاسی شعور سے عاری ہیں ۔وہ شخصیات کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور سیاسی لیڈر کے بجائے انہیں روحانی مشکل کشا قرار دیتے ہیں۔ وہ اس سارے عمل میں ٹانگیں توڑنے والے رقص میں غلطاں رہتے ہیں۔
اور ریاستی ادارے خود کچھ نہیں ہوتے ۔ یہ تو ملک میں موجود معاشی طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ریاست میں ہر معاشی و سیاسی بحران، یا انتشار کے پیچھے مختلف طبقات کے باہمی مفادات کی لڑائی ہوتی ہے جو نظر تو نہیں آتی لیکن جس کا اظہار سیاست میں انتشار،اداروں کے درمیان اختیارات کی لڑائی اور معیشت میں بگاڑ کی صورت میں ہوتا ہے۔۔۔پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ابتری،اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور اختیار و اقتدار کی کشمکش بھی اسی وجہ سے ہے کہ متحارب قبائلی و جاگیرداری باقیات اور سرمایہ دار طبقات اور اداروں کے درمیان اختیارات اور ان کے زیر اثر اقتدار میں شراکت داری پر سمجھوتہ نہیں ہو رہا۔۔۔۔ بقیہ دینا میں بھی ابتدائی دور کے سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ہی ہوتا تھا لیکن جب سے سرمایہ دارانہ نظام ترقی کر کے عالمی صورت اختیار کر چکا ہے اور عالمی سامراج کا روپ دھار چکا ہے تب سے پسماندہ اور ترقی پذیر ریاستوں کے اختیارات و وسائل پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ اقتدار کی مقامی بالادست طبقات کی کشمکش میں ان عالمی سامراجی قوتوں کا عمل دخل بھی بڑھ چکا ہے ۔وہ اپنے مفادات کے حوالے سے کبھی ایک تو کبھی دوسرے فریق کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔۔ اس لیے امریکی سامراج اور عرب ممالک کی طرف سے پاکستانی سیاست میں مداخلت واضح اور دو ٹوک ہے۔۔۔
پاکستانی سیاست میں انارکی، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے عوامی کشمکش بھی اسی طبقاتی لڑائی کا اظہار ہے۔۔ ہمارے ہاں خود سرمایہ دار دو واضح صورتوں میں موجود ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا  سرمایہ ،اور سول سرمایہ ۔ ان کے اپنے درمیان غیر مخاصمانہ تضاد جاری ہے ۔افسر شاہی سرمایہ کی نمائندگی اسٹیبلشمنٹ ،اور اس کے فیوڈل اور قبائلی اتحادی کرتے ہیں اور سول سرمائے کی نمائندگی بورژوا سیاسی جماعتیں اور اُن کے اتحادی قبائلی و جاگیردار کرتے ہیں۔جس طبقے کے سرمائے کی جتنی طاقت ہے وہ اسی شرح سے ریاستی اقتدار میں حصہ چاہتا ہے۔
اس کشمکش کے تسلسل میں افسر شاہی سرمائے کی نمائندہ  اسٹیبلشمنٹ اور سول سرمائے کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کے درمیان سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری رہا ۔جیسے سرمایہ دار طبقہ بطور طبقہ یا سرمائے کی شرح کے حساب سے طاقتور ہوتا جاتا ہے  وہ ویسے ویسے سرمایہ دارانہ ریاست کے سیاسی اقتدار پر شراکت اور کبھی کبھی تو اپنی مکمل حکمرانی چاہتا ہے ۔ اس کشمکش کو سرمایہ دارانہ ریاست میں پارلیمنٹ کی بالادستی اوربورژوا جمہوری انقلاب کی تکمیل کی لڑائی بھی کہا جا سکتا ہے۔
اسی لئے سرمایہ دار، اور قبائلی و جاگیرداری سیاست دان لڑتے ہیں۔۔۔سمجھوتہ کر لیتے ہیں پھر لڑتے ہیں پھر سمجھوتہ کر لیتے ہیں ۔ اس بار ایسا موقع آگیا کہ پنجاب کے مڈل کلاس کی باغی طاقت کو دبانے اسٹیبلشمنٹ اور سول سرمایہ متحد ہوچکے ہیں اور پاپولزم کا شکار عدلیہ کو اپنے مقام پہ لانے پہ تل گئے ہیں۔
یادر ہے کہ کپٹلزم عوام دشمن نظام ہوتا ہے ۔ مگر ان بورژوا خرابیوں ، استادیوں کی موجودگی میں بھی بورژوازی آئین لکھتی ہے ، آئینی ادارے بناتی ہے ،قانون کی کتابیں لکھتی ہے۔وہ ڈٹ کے بے قانونیاں کرتی ہے مگر ذرا سے حجاب میں بے قانونیاں کرتی ہے۔یہ کپٹلزم کی سرشت میں ہے۔ایسی اوصاف آدم خور فیوڈلزم میں موجود نہیں ہوتیں۔
اس سارے معاملے میں سب سے اہم فریق عوام ہیں جو کئی دہائیوں سے یہ یک طرفہ تماشا دیکھ رہے ہیں اور ایک بے شعور، نوآبادیاتی باقیات،جدید نو آبادیاتی، مذہبی بنیاد پرست معاشرے کے فرد کی حیثیت سے طبقاتی سیاست سے کوسوں دور ہیں ۔
آج کی سیاست میں دوحقیقتیں ہیں:
*پاکستان کی پارلیمنٹ بورژوا پارلیمنٹ ہے ۔
*پاکستان کی پارلیمنٹ عوام کے ووٹوں سے وجود میں نہیں آتی۔
مگر کیا پارلیمنٹ من و سلوی کی طرح عوام پہ مفت میں نازل ہوئی؟ ۔نہیں۔ پارلیمنٹ کے لیے تو سنگین جدوجہد ہوتی رہی، رونگھٹے کھڑے کرنے والی قربانیاں دی گئیں۔ شاہی قلعہ لاہور، اور کلی کیمپ کوئٹہ میں جمہوریت نوازوں پہ درندوں جیسی سفاکیت کی گئی۔ جیلیں پھانسیاں ہوئیں۔تب جا کر ون یونٹ ٹوٹا، صوبے وجود میں آگئے اور اُن کی اسمبلیاں بنیں ۔ کچھ بھی مفت میں نہیں ملا ، ہمارے آبا ﺅ کا لہو شامل ہے ان کے حصول کے لیے ۔ پارلیمنٹ عوامی جدوجہد سے ”حاصل کردہ“ حق ہے ۔ آپ پارلیمنٹ میں جائیں یا نہ جائیں ،اس کی شفافیت کے لیے ہمہ وقت کام کرنا ہوگا۔
موجودہ ترمیم پڑھیے تواندازہ ہوگا کہ یہ سرا سر دو نکاط پہ مشتمل ہے ۔ ججوں کو غیر آئینی فیصلوں سے روکا جائے، اور عدالتی سسٹم کی انتظام کاری میں ”عوامی“ نمائندوں یعنی پارلیمنٹ کا رول بڑھا دیا جائے۔
اس لیے اس ترمیم سے پارلیمانی بالادستی پہ کم از کم کاغذی طور پر دور رس اثرات ہوں گے۔ اب جج خود اپنی ترقیوں کا فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ پارلیمنٹ کی کمیٹی تین سینیئر ججوں میں سے ایک کا انتخاب کرے گی۔ عدلیہ کو اس کے آئینی دائرے میں واپس بھیجا گیا ہے۔ اس لیے عدلیہ اور اس سے منسلک وکلا کا چیخنا چلانا سمجھ میں آتا ہے۔
ا س سے پہلے صدر کے لامحالہ اختیارات کا غیر ضروری استعمال ہم نے نوے کی دہائی میں دیکھا تھا جب آئے دن ففٹی ایٹ ٹو بی لگا کر حکومتیں گرائی گئیں ۔پھر ہم نے ایک وقت دیکھا کہ آئینی ترامیم کے ذریعے صدر کے اختیارات اتنے محدود کر دیے کہ صدر صرف تمغے پہنانے کے لیے رہ گیا (جو بالکل درست تھا ۔ایک پارلیمانی نظام حکومت میں ایسا ہی ہونا چاہیے )۔
اٹھارویں ترمیم اپنی نوعیت کی ایک بہت منفرد ترمیم تھی جس نے ایک خاص طبقے کے جمہوریت پر شب خون مارنے کے راستے مسدود کیے تھے اور ا±ن کی چیخیں ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ون پیج والوں کے منہ سے بلند ہوتی تھیں۔
عدلیہ کے ذریعے جمہوریت کو کتنا نقصان پہنچا ہے یہ سب کو معلوم ہے۔ عدالت نے خرمستی میں ایک وزیر اعظم کو پھانسی پر چڑھایا تھا۔ عدالت ہی نے ایک وزیر اعظم کو ایک چٹھی نہ لکھنے کی وجہ سے فارغ کردیا تھا۔ نواز شریف کو تاحیات انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لیے بے لگام عدالت نے ہی نااہل قراردے دیا گیا تھا۔
8 ججوں کی جانب سے ایک مخصوص سیاسی جماعت کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لئے مختص نشستیں دلوانے کا مضحکہ خیز فیصلہ تو ابھی حال میں کیا گیا۔
اس بات سے انکار نہیں کہ کسی بھی قانون میں سے راستہ نکالنے والوں کے لیے چور دروازے بہت ہوتے ہیں ۔وہ کوئی ترکیب لڑا ہی لیتے ہیں مگر اس 26ویں آئینی ترمیم سے کم از کم بڑے سوراخوں کو بند کرنے کی زبردست کوشش کی گئی۔
مختصراً یہ کہ حالیہ ترمیم سے ججوں کو آئین کے مطابق فیصلے دینے کا پابند کردیا گیا ہے ۔ پاپولزم سے متاثر ہو کر ججز فیصلے کرتے رہے ہیں۔ جسے آئین کو ”دوبارہ لکھنا “کہتے ہیں۔ آئین کو دوبارہ لکھنا صرف اور صرف پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت کا کام ہوتا ہے ۔ اس جوڈیشل ایکٹوزم کو خوب لگام ڈالے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد بننے والی 12 ر±کنی ”پارلیمنٹ “ کی کمیٹی نے تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کا اگلا چیف جسٹس نامزد کر دیا ہے ۔
26ویں آئینی ترمیم کے تحت پاکستان کے آئین میں ایک آرٹیکل کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت آئینی بنچ تشکیل دیے جائیں گے جو آئین سے متعلق معاملات اور آئین کی تشریح کریں گے۔ اِن بنچز کی تعداد اور ا±ن کی مدت کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کمیشن کرے گا ۔ اس کمیشن میں بھی پارلیمنٹ کے نمائندے بھی ہوں گے ۔ ان بنچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی مساوی نمائندگی ہو گی۔
ہم 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت کرتے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے