پوری دنیا میں امیر غریب پر مشتمل سماج دراصل غلامی کا سماج ہوتا ہے ۔وہ خواہ امریکہ ہو، فرانس ہو یا افریقہ کا کوئی ملک ۔ ایک فرد آقا اور دوسرا اُس کا غلام ۔ ایک گروہ ،ایک طبقہ آقا اور دوسرا غلام۔ اقلیت آقا اور اکثریت غلام۔
ایسا معاشرہ نہ صرف محنت کو غلام بناتا ہے بلکہ عورت کو بھی غلام بناتا ہے۔ اسی طرح اُس ملک میں زور آور قوم دوسری اقوام کو غلام بناتی ہے ۔ اور جب اس کے پاس مزید قوت آجاتی ہے تو وہ اپنی سرحدوں سے دور واقع اقوام پہ بھی غلامی مسلط کرتی ہے ۔ جیسے کہ انگریز نے ہزاروں میل دور ،ہمیں آکر اپنا غلام بنایا تھا ۔ اسے نو آبادیاتی اور سامراجی نظام کہتے ہیں۔
یہ سامراجی نظام انتہائی سفاک نظام تھا۔ یورپ سمندری طاقت میں بالادستی پاگیا تو کیا افریقہ کیا ایشیا اور کیا لاطینی امریکہ دنیا کا ساری دنیا اُس کی غلام بنی ۔ طویل غلامی ۔ بے درد ، بے ترس اور درندگی والی غلامی ۔ ہر یورپی ملک اپنے غلاموں والے ممالک میں اضافہ کرنا چاہتا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ حصہ لُوٹے ۔ اس طرح وہ اپنی نو آبادیات بڑھانے کے لیے آپس میںبھی لڑتے رہتے تھے ۔ حتی کہ 1914میں وہ پوری دنیا کو جنگ میں جھونک گئے ۔ اسے پہلی عالمی جنگ کہتے ہیں۔ مقصد ، جو زور آور نکلے وہ دوسرے کے غلام ملک پہ قبضہ کرے۔یہ جنگ 4سال تک جہازوں ، بموں ، اور دھماکوں کی زُمبھار اور خندقوں لاشوں کے انبار میں چلی۔ برطانیہ ، فرانس، اٹلی، روس اور امریکہ ایک طرف تھے اور جرمنی، آسٹریا، ہنگری ،سلطنت عثمانیہ اور بلغاریہ دوسری طرف ۔برف، قحط ، خندقیں ،ساتھی سپاہیوں کی موت، بھوکے پیٹ اور ناکافی لباس ، بے پناہ مرگ اور زخموں نے سپاہ کو تھکا ڈالا تھا۔
ایسے میں جنگ کے خاتمے کی خواہش قدرتی بات تھی۔
ایک بڑا دانا آدمی ابھرا، اُس نے باقاعدہ نعرہ لگایا کہ عالمی امن کا اعلان کردو۔ بلکہ اس جنگ کو اپنے حکمرانوں کے خلاف موڑ دو، اور اُن کا تختہ الٹ کر اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لو ۔ کسی نے سنا، کسی نے نہ سنا، کسی نے عمل کیا کسی نے نہ کیا ۔ مگر روس نے اس کی بات سنی۔
روس میں بادشاہت قائم تھی۔ سیاست پر پابندی تھی ۔ اس لیے سیاسی پارٹیاں انڈر گراﺅنڈ کام کرتی تھیں۔ اور اُس دانا آدمی کی پارٹی تو بہت منظم اور بہت سرگرم تھی ۔روس کے عوام الناس بادشاہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ عوام الناس میں صنعتی مزدور اور اُن کی ٹریڈ یونینیں تھیں ، فوج اور اُس کی کمیٹیاں تھیں اور لوکل باڈیز کے ادارے تھے ۔ ان سب کو جمہوری انداز میں فیصلہ کرنے دیا گیا اور سب نے اسی فیصلے کو صدقنا کہا ۔فروری 1917کو بالآخربادشاہ بھاگ گیا۔ ۔۔۔مگر حکومت اُس کے چمچوں کھڑچوں نے سنبھال لی۔
وہ دانا شخص کہاں کمپرومائز کرتا۔ اُس کے ہاں تو بورژوازی سے کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن ہی نہ تھا۔اس نے نعرہ دیا کہ حکومت مزدور اور کسان اور سپاہیوں کی کمیٹیاں سنبھال لیں۔ چنانچہ خود اپنے حکمرانوں کے خلاف لڑائی جاری رہی اور 7نومبر1917میں بالآخر روس میں مزدوروں اور کسانوں اور سپاہیوں کی حکومت قائم ہوئی ور اس کا سربراہ وہی دانا لڑاکا بنا۔ لینن نام تھا اُس کا۔
اس نے سربراہ حکومت بنتے ہی جنگ میں مصروف ممالک کو امن کی دعوت دی ۔اس نے اعلان کردیا کہ کوئی قبضہ نہیں، کوئی تاوان نہیں بس بلامشروط جنگ ختم کی جائے ۔ یوں، اس نے اپنے ملک کو جنگ سے باہر نکالا۔
اس سے سرمایہ دار دنیا میں تو آگ لگ گئی۔ سارے ممالک کو خطرہ ہوا کہ ہر جگہ مزدور حکومت پہ قبضہ نہ کرلیں۔ سارا یورپ اور امریکہ یعنی صنعتی دنیا اُس روس کے خلاف ہوگئی۔14ممالک نے مل کر روس پہ حملہ کردیا۔ مگر روسی انقلابی عوام نے انہیں شکست دی ۔
روس کی نئی حکومت نے اپنے ملک کے اندر جو کہ ”قوموں کا جیل خانہ “ کہلاتا تھا قومی جبر کا فوری خاتمہ کردیا۔ ساری قوموں کو پیش کش کردی کہ جو جو قوم آزاد ہونا چاہتی ہے آزاد ہوجائے۔ جو ساتھ رہنا چاہے وہ بھی اب اپنے جملہ قومی حقوق کے ساتھ رہے ۔ اس کا کلچر آزاد ہو، وہ قوم اپنی حکمرانی خود کرے اور یوں داخلی آزادی میں ایک بڑے اور بہت ڈھیلے ڈھالے فیڈریشن میں رہے ۔ اس نے ہر قوم کو ایک الگ ”رپبلک “قرار دیا اور یوںپورے ملک کا نام رپبلکوں کی یونین رکھ دیا۔
زمین جاگیرداروں سے لے کر کسانوں میں تقسیم کی گئی ، فیکٹریوں کا انتظام مزدوروں کے حوالے کیا گیا ۔ عورتوں کو انسان کا درجہ ملا۔ تعلیم اور صحت مفت کیے گئے ۔
عوام خوش، مزدور کسان خوش، عورتیں نجات پاگئیں اور قومیں آزاد ہوگئیں۔ ایک نئی دنیا تھی یہ ۔ جو باہر کی دنیا کے ساتھ بغیر جنگ کے رہنے لگی۔ یوں اِس روس نے اپنے اس انقلاب کے بعد دنیا کے تعلقات میں بنیادی تبدیلی پیدا کی اور نوع انسان کی ترقی کی راہ تبدیل کر کے رکھ دی۔ وہاں وسطی ایشیا میں ہماری جیسی چرواہی معیشت تھی۔ انقلابی حکومت نے بہت تیزی کے ساتھ وہاں ترقی دی اور اُن کو چرواہی معیشت سے نجات دلا کر تعلیم اور صنعتی دنیا میں داخل کردیا۔ یہ اس لیے آسان تھا کہ اب انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ختم ہوگیا تھا۔
روس کے انقلاب سے دوسرے ممالک بھی بہت متاثر ہوئے اور ایک ایک کر کے ممالک آزاد ہونے لگے۔ نو آبادیاتی نظام جگہ جگہ سے ٹھوکروں کی زد میں آگیا۔ ممالک کی آزادی کا مطلب سامراج کو کمزور کرنا ہوا۔ سامراج تو کپٹلزم ہوتا ہے اس لیے خود کپٹلزم ایک عمومی بحران میں گھر گیا ۔ نو آبادیاتی نظام ایک عمومی بحران میں انتشار کی زد میں چلا گیا۔پہلی دفعہ انسان کو اندازہ ہوا کہ سامراجی نظام کی طاقت نہ حتمی ہے اور نہ دائمی۔ اور سامراجی نظام کے خلاف مظلوم قوموں کی جدوجہد فتح مند ہوسکتی ہے ۔ اس انقلاب نے ہم مشرقی ممالک کی آزادی کی تحریکوں کو ایک عوامی اور قومی جدوجہد بننے میں مدد دی اور اسے عالمی سوشلسٹ انقلاب کا ایک لازمی جزو بنا دیا۔
ہم جو اپنی اپنی آزادیوں کے لیے لڑ رہے تھے قدرتی طور پر روس کے دوست بن گئے ۔ اور اس کے اندر قائم نظام کے دوست بن گئے ۔
مثلاً دیکھیے کہ جب ہم برطانیہ کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے تو اسی زمانے میں روس نے اپنے ملک میں مسلمانوں کے نام یہ اپیل جاری کردی۔
”آج سے آپ کے عقائد کو اور آپ کے رسم و رواج کو ، آپ کے قومی اور ثقافتی اداروں کو آزاد اور قابل احترام سمجھا جائے گا۔آپ کو اجازت ہوگی کہ آپ اپنی قومی زندگی آزاد رہ کر، پابندیوں سے مبرا ہو کر گزاریں“۔ ۔۔۔تصور کریں کہ اس جیسی اپیلوں اور اعلانوں نے ہمارے عوام پہ کتنا اچھا اثر ڈالا ہوگا۔
روس مضبوط ہوتا گیا اور دنیا کے دوسرے ممالک کی مدد کرتا گیا۔ وہ جوں جوں صنعتیں لگاتا رہا، تعلیمی ادارے بناتا گیا دوسرے ممالک کے عوام کو اُن نعمتوں میں شریک کرتا گیا ۔ کہیں سٹیل مل لگا دی ، کہیںکوئی دوسری بھاری صنعت لگانے میں مدد کی اور سینکڑوں ہزاروں غریب طلبا کو اپنے ہاں مفت تعلیم دلانے کا انتظام کیا۔
لینن اور اُس کا انقلاب انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور سہانا واقعہ تھا۔ ہم اُسے ہر سال یاد کرتے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے