16دسمبر 1975کا شمارہ ”مزدور طبقہ اور سوشلسٹوں کے فرائض “ سے شروع ہوتا ہے ۔ اس میں مارکس کا یہ مشہور قول دیا گیا ہے : ہر طبقاتی جدوجہد سیاسی جدوجہد ہوتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر طبقاتی اور معاشی جدوجہد میں مزدوروں کو سیاسی جدوجہد کا شعور دینا ضروری ہے کیونکہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی سے وہ اقتدار حاصل کرسکتے ہیں ۔
عام انتخابات کے موضوع پر مختلف سیاسی پارٹیوں اور ان کی مقبولیت کا جائزہ لیا گیا ہے ۔
23دسمبر کے عوامی جمہوریت صوبہ سرحد میں سوشلسٹ ورکرز کا نفرنس کی کارروائی دی گئی ہے جو کہ 7دسمبر کو منعقد ہوئی تھی ۔ خواتین کی برلن کانگریس کا احوال بھی اسی شمارے کی زینت ہے ۔
”نیا سال آیا نئی امیدیں لایا “ 6اور 13جنوری 1975کے مشترکہ شمارے کا لیڈنگ مضمون ہے جس میں گذشتہ سال کے اہم ملکی و بین الاقوامی واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس میں سیاہ چوکھٹے میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر چو این لائی کی وفات پر اظہار تعزیت ہے ۔ ایک جواب مضمون” گر تو برانہ مانے“ کے عنوان اسے شمارے میں موجود ہے جس میں پارٹی پر ایک دانشورکی تنقید کا مفصل جواب دیا گیا ہے ۔
20جنوری کے شمارے میں پاکستان کی صنعتی ترقی کا جائزہ لیا گیا ۔ کاکا جی صنوبر حسین کی برسی کے موقع پر ہشت نگر پشتو ادبی ٹولنہ کی طرف سے منعقد کردہ جلسے کی رپورٹ چھاپی گئی ہے ۔ علاوہ ازیں پارٹی، مزدوروں اور کسانوں کی سرگرمیوں کی خبریں شائع کی گئیں۔ جبکہ 27جنوری کا شمارہ تقریباً سارے کا سارا چو این لائی کی زندگی اور حاصلات و تعلیمات پر مشتمل ایک طویل مضمون کی صورت میں ہے ۔
دس جنوری کی بڑی سرخی ”پاکستان کی معاشی کا راستہ سوشلزم کا راستہ ہے ۔ یہ نظریاتی مضمون ہے ۔ اس راستے پہ چلنے کے لیے اخبار ایک دوسرا مضمون دیتا ہے : کھیت مزدوروں ، مزارعوں، چھوٹے مالک کسانوں کو منظم اور متحرک کرو“ ۔اسی سلسلے میں اخبار اپنی بڑی سائز کے ڈھائی صفحات پر کبیروالا کسان کانفرنس کی کاروائی بمع قرار دادوں کے چھاپتا ہے ۔ قرار دادیں یہ ہیں :شہری آزادیاں بحال کرو، روزگار کا تحفظ دو، طلبا مسائل حل کرو، لوئی کارولان کو رہا کرو، پاور لومز کو بچالو، چینی اور گھی کو سستا کرو، منافعوں کو کنٹرول کرو، افراطِ زر ختم کرو۔
17فروری کا شمارہ ایک اور چابی ا پنے قارئین کو تھما دیتا ہے : اشیا کی گرانی کے اسباب ۔یہ آج بھی relevantہیں: نجی تجارت ، عالمی سرمایہ داری منڈی سے وابستگی، صنعت میں اجارہ داری ، خسارے کا بجٹ ، غیر پیداواری اخراجات ۔ بقیہ پورا اخبار پارٹی اور اس کے ماس آرگنائزیشنوں کی سرگرمیوں پر ہے ۔ آخری صفحہ تو ہر شمارے کی طرح ” جدلی و تاریخی مادیت “ کے سلسلہ وار مضمون کے لیے وقف ہے ۔ یہاں اس کی 13ویں قسط دی گئی۔
24فروری کے اخبار نے سوویت پارٹی کی پچاسویں کانگریس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور اس کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ جبکہ2مارچ کے شمارے میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بحران اور اس کے حل پہ ڈیڑھ بڑے صفحات دیے گئے ۔ اور 9 مارچ کے اخبار نے رپورٹیں دی ہیں؛ مزدوروں کسانوں کی انجمنوں کی ۔
16مارچ1976کا شمارہ ” سوشلسٹ طلبا کا کنونشن “ کی رپورٹ ہے جو سات مارچ کو لاہور میں منعقد ہوا تھا ۔ چاروں صوبوں سے 200کے قریب نمائندوں نے شرکت کی ۔ اس کنونشن میں ایس ایس او ( سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ) کی بنیاد ڈالی گئی ۔ اس کنونشن کی قرارداددیں طلبا کو درپیش مسائل پہ تھیں ۔ کابینہ یوں بنی۔ صدر اللہ داد ، نائب صدر عذر ا روشنک ، امیر حمزہ خان شنواری‘جنرل سیکریٹری زاہد پرویز ، جوائنٹ سیکریٹری شاہ محمد مری ۔ یہ سارا شمارہ ایس ایس او پہ ہی ہے ۔ اس میں اس تنظیم کا مینی فیسٹو دیا گیا ہے ۔ اور سسٹر تنظیموں کے لیڈروں کے پیغامات ہیں۔
23مارچ کا شمارہ پاکستان سوشلسٹ پارٹی کا یومِ تاسیس کے سلسلے میں ہے ۔چھ اپریل میں پلیخانوف کے کتابچے ” تاریخ میں فرد کا رول “ پہ دو صفحوں کا مضمون ہے ، اداریہ ”پاکستان کے جمہوری تقاضے اور ترقی پسند عناصر کے فرائض “ پہ ہے ، کچھ بین الاقوامی انقلابیوں کو یاد کیا گیا ہے ۔
13اپریل 1976کے شمارے سے عوامی جمہوریت کے اندر بلوچستان کا تذکرہ ملنا شروع ہوا۔ اس میں پہلا مضمون ہی ”بلوچستان کی زرعی معیشت “ پہ ہے ۔ اداریہ کا عنوان ہے : سرداری سسٹم کے طرح جاگیرداری نظام بھی ختم کیا جائے :
” وزیراعظم پاکستان نے بلوچستان میں سرداری سسٹم کو ختم کرنے کا آرڈی ننس جاری کیا ہے اور قانون کے ذریعے سرداروں کو وہ تمام حقوق و مراعات جو انہیں حاصل تھیں ختم کردی ہیں ۔ اب کسی سردار کو عدالتی اختیارات حاصل نہیں ہوں گے ، اور نہ ہی وہ نجی جیل خانے رکھ سکے گا اور نہ کسی شخص کو اپنی نجی جیل میں بند کرسکے گا۔ اس قانون کی رو سے بیگار لینے اور سرداری ٹیکس وصول کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے اور خلاف ورزی کرنے پر سردار کو تین سال تک کی قید اور دس ہزار روپیہ تک جرمانے کی سزا دی جاسکے گی“۔
20اپریل کا شمارہ سوویت سکالر لونا چرسکی کی تقریر ہے جو اس نے لینن کی وفات کے موقع پر کی تھی: دلادی میر لینن بطور انسان اور راہنما۔
27اپریل1976کا عوامی جمہوریت یوم مئی کا تذکرہ کرتا ہے ۔ ایک طویل مضمون ” پاکستان میں سوشلسٹ تحریک کا اتار چڑھاﺅ“ کے عنوان سے ہے ۔ اخبار کی جہازی سائز کے تین صفحے پہ پھیلا ہوا مضمون البتہ یوپی سی پی ، پنجاب اور کراچی کی تحریک کو ہی ڈیل کرتا ہے ۔ اس میں بلوچستان ،پختونخواہ اور سندھ کی دیسی تحریک کا تذکرہ تک نہیں ہے ۔ اب خود میں نے بلوچستان کی تحریک پر کام کیا تو اندازہ ہوا کہ اُس وقت معلومات ہی نہ تھیں اور نہ کوئی مربوط تاریخ یا تحریر موجود تھی۔ یہ کام میں نے 50برس بعد بہت سرگردانی کے بعد مرتب کیا۔
4مئی 1976کے شمارے میں کارل مارکس پہ لیڈنگ مضمون ہے ۔ اور آخری صفحے کا مضمون بھی اسی کے حالاتِ زندگی پر ہے ۔
” پاکستان میں سوشلسٹ تحریک کا اتار چڑھاﺅ“ 11مئی کے شمارے میں جاری رکھا گیا ۔ ”کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ “ ایک نظریاتی مضمون ہے جو 18مئی 1976کے رسالے کی پیشانی پہ جگمگا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ پارٹی کی سیاسی و تنظیمی سرگرمیوں کی رپورٹیں ہیں۔ ملک بھر میں یوم مئی کی تقریبات کی خبریں ہیں۔
25مئی کے شمارے میں ”1857کی جنگ آزادی اور کارل مارکس ” کی سرخی کے تحت مارکس کی اُن تحریروں کا ذکر ہے جو اس نے اُس زمانے میں ہندوستان کی تحریک پر لکھیں۔ ایک مضمون فریڈرک اینگلز پر ہے جو سبطِ حسن کی کتاب ”موسی سے مارکس تک “ سے ماخود ہے ۔
یکم جون کے شمارے میں مارکس کے اس مضمون کا خلاصہ دیا گیا ہے جو 1857کی جنگ سے متعلق تھا اور جس کا عنوان تھا ” ہندوستان میں انگریزی راج “ ۔ بلاشبہ مارکس بہت محنتی، وژنری اور دور اندیش شخص تھا ۔
” مرکزی بجٹ کا سرسری جائزہ “8جون کے شمارے کا اداریہ ہے ۔ دو بڑے صفحات پہ پھیلے اس مضمون میں تفصیل کے ساتھ بجٹ پہ بات کی گئی ۔ زیادہ تر تنقیدی نگاہ ہے البتہ کراچی کے سٹیل مل کے قیام کی بات پر کچھ کچھ نرمی نظر آتی ہے ۔ ”سوشلسٹ و سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلوچستان کا تنظیمی اجلاس“ اور ” یوم ظریف شہید“ دو خبریں ہیں جن کے تحت صفی اللہ کو صوبائی مقرر کیا گیا ۔ SSOکے جائنٹ سیکریٹری شاہ محمد مری نے کہا کہ اگر چہ بلوچستان کی طلبا تحریک میں وہ جمہوری ماحول نہیں جو کہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں ہے ۔ یہاں کی طالب علم تحریک نسلی ، قبائلی اور گروہی سیاست سے آگے نہیں بڑھی۔
” قول و فعل کا تضاد “ 22جون کا مین مضمون ہے ۔ اس کا آخری پیراگراف دیکھیے : ” پاکستان کے وزیراعظم اور ان کے ہمراہ ان کے وزرا عوامی جمہوریہ کوریا اور چین گئے تھے ۔ اب واپس آکر ان ملکوں کی ترقی کی تعریفیں کر رہے ہیں ۔ وہاں کے عوام کی حسین اور پر مسرت زندگی کا ذکر کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہاں کے لوگ بے حد محنتی ہیں، بے حد دیانتدار ہیں، بے حد بلند حوصلہ اور بلند نظر ہیں۔ اور پھر ٹھنڈی آہ بھر کر کہتے ہیں کہ کاش پاکستان کے لوگ بھی جی لگا کر محنت کریں اور پیداوار کے ڈھیر لگا دیں۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہاں جاگیردار نہیں ہیں، سرمایہ دار نہیں ہیں ، نجی ملکیت کا راج ختم ہے اور محنت کش عوام کی محنت کا استحصال کرنے والے نہیں ہیں۔ جب پاکستان سے جاگیرداری زرعی نظام کو دیس نکالا مل جائے گا ، سرمایہ داری ختم کردی جائے گی اور نجی ملکیت کے رشتوں کو توڑ دیا جائے گا۔ جب پاکستان کی زمینیں ، پاکستان کے کار خانے ، پاکستان کی کانیں غرضیکہ تمام ذرائع پیداوار عوام کی ملکیت بن جائیں گے تو پاکستان بھی حسین بن جائے گا۔۔۔“۔
شمارے میں مختلف جگہوں پر پارٹی کی طرف سے سیاسی سرگرمیوں کی رپورٹیں ہیں ۔
6جولائی 1976کے شمارے میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ اٹلی کے عام انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی کے بہت سیٹیں جیت لیں ۔ اخبار مطلع کرتا ہے کہ الیکشنوں سے قبل مخالفین کی جانب سے کہا گیا کمیونسٹ جیت گئے تو آزادی ختم ہوجائے گی ، ملک کی سا لمیت کو نقصان پہنچے گا۔ حتی کہ پوپ نے یہ فتوی بھی دیا کہ کمیونسٹوں کو ووٹ دینا کرائسٹ (حضرت عیسیٰ) کی مخالفت کرنا ہے “۔
13جولائی کے شمارے میں قاری کو شعور دینے کی بہت سی باتیں ہیں۔ رپورٹیں ہیں۔ 20جولائی کے شمارے کی طویل سرخی یوں ہے : ” کپاس بیلنے ، دھان چھڑنے اور آٹے کی ملوں کی قومی ملکیت میں لے لیا گیا “۔ اس خوش آئند اقدام پر پورا مضمون لکھنے کے بعد آخر میں کہا گیا کہ ” وزیراعظم بھٹو نے ایسی ملیں فیکٹریاں قومی ملکیت میں نہیں لیں جن میں غیر ملکی سرمایہ لگا ہوا ہے ۔
” وزیراعظم بھٹو نے ضلع لسبیلہ کے سرکاری زمین کے مزاروں کو اس زمین کے جس پر وہ کاشت کرتے ہیں مالکانہ حقوق دینے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ خبر 27جولائی کے اداریے میں دی گئی ۔ ایک مضمون ”نسل پرستی انسانیت کی دشمن ہے “ کا عنوان لیے ہوئے ہے ۔ 3اگست کا شمارہ بلوچستان کے ایک اور علاقے میں زمین کی تقسیم کا اعلان پر مضمون سے مزین ہے ۔ علاقہ ہے پٹ فیڈر ۔اس میںکہا گیا کہ وزیراعظم بھٹو نے 25جولائی کو ٹمپل ڈیرہ میں پٹ فیڈر سے سیراب ہونے والی اراضی کی تقسیم کا اعلان کردیا۔ اس نے یہ فیصلہ کردیا کہ پٹ فیڈر سے سیراب ہونے والی اراضی پر صرف بلوچوں کا حق ہے ۔ مضمون اس اقدام کی حمایت کا لہجہ لیے ہوئے ہے ۔
10اگست میں اولمپکس کے کھیلوں کے عالمی مقابلوں پہ ایک مضمون ہے ۔ اس میں حاصل کردہ میڈلز کے اعداد و شمار دے کر یہ دکھایا گیا کہ سوشلسٹ ممالک سب سے زیادہ میڈل لے گئے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سوشلزم کا نظام ترقی کر رہا ہے ، آگے بڑھ رہا ہے اور اس نظام میں رہنے والے لوگ ہر لحاظ سے ترقی کر رہے ہیں اور ان کی شخصیتوں کی ہمہ جہت تکمیل ہو رہی ہے ۔
24اگست کے شمارے کا ادایہ ہنری کنجر کا دورہ پاکستان ہے۔ اس کا نچوڑ آخری پیراگراف میں یوں ہے : ”پاکستان کے عوام کا فرض ہے کہ وہ حکومت کو مجبور کریں کہ وہ امریکہ سے کیے ہوئے معاہدے کالعدم کر دے اور اس کی امداد اور قرضوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے عوام کی قوت محنت پر بھروسہ کرے اور تعمیر و ترقی کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھے “۔
31اگست کے شمارے میں پرتگال کی صورتحال پہ ایک دلچسپ مضمون ہے ۔” جنوبی افریکہ کی نسل پر ست حکومت اور امریکی سامراج ”7دسمبر کے شمارے کا اہم مضمون ہے ۔ یہاں بھٹو حکومت پر تنقید کا ایک مضمون ہے ۔ اگلے شمارے میں ” ایٹمی اسلحہ پر کلّی پابندی ضروری ہے “والے مضمون کے مندرجات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ 21ستمبر میں ”بائیں بازو کے اتحاد کی ضرورت“ کی پہلی قسط دی گئی ہے ۔ دوسری قسط اگلے شمارے میں دے کر مضمون ختم کردیا گیا ۔ اخبار اسی مقصد کے لیے ایک دس نکاتی پروگرام تجویز کرتا ہے جس میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ، سامراجی اثرات کا خاتمہ ، بیرونی تجارت کا قومی تحویل میں لیا جانا، پبلک سیکٹر میں بھاری اور بنیادی صنعت لگانا، مزدوروں کے ٹریڈ یونین ازم کا حق، تعلیم کو سائنسی بنانا، طبقاتی نمائندگی کے اصول پر نمائندگی اور شہری آزادیوں کی مکمل بحالی ، خواتین کو مساوی درجہ دینا اور پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات ۔
5اکتوبر 1976کے شمارے کی مین سرخی ہے ۔
جہانِ نو ہورہا ہے پیدا
جہانِ پیر مررہا ہے
مضمون میں قارئین کی توجہ فیوڈل ازم کے خاتمے اور سامراج دشمنی کی طرف مبذول کی گئی ۔ اداریہ بھی تقریباً اسی موضوع پہ ہے ۔ اس شمارے میں ایران کی فوجی طاقت میں مسلسل اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اگلے شمارے میں لینن کی اُس تقریر کا خلاصہ شائع کیا گیا جو اُس نے 1920میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے اُن کے فرائض بتائے تھے ۔ اس کا آخری پیراگراف یوں ہے : ”سوشلسٹوں کے لیے تمام اخلاق، تمام ڈسپلن استحصال اور استحصالی طبقوں کے خلاف جدوجہد کرناہے ۔ ہم ازلی اور ابدی اخلاق کو نہیں مانتے ۔ اخلاق کے اصول سماج کی خدمت کے لیے وضع کیے جاتے ہیں اور جب سماج آگے بڑھ جاتا ہے تو اُن کی افادیت ختم ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ نیا ضابطہ اخلاق وضع کرلیا جاتا ہے ۔ جب سماج غیر طبقاتی اور غیر استحصالی بن جاتا ہے تو پچھلے ضابطے اور اخلاق مزید کام نہیں دے سکتے۔ سوشلسٹوں کے اخلاق کے اصول یہ ہیںکہ استحصال کے خلاف جدوجہد کی جائے ۔ طبقاتی سماج کو ڈھا کر غیر طبقاتی سماج قائم کیا جائے اور سوشلزم تعمیر کی جائے ۔۔۔“
19اکتوبر کے شمارے میں چوکھٹے میں اینگلز کا یہ پیراگراف دیا گیا ہے :” عورتوں کی آزادی اور مردوں کے ساتھ ان کی مساوات اُس وقت تک ناممکن ہے اور ناممکن رہے گی جب تک عورتوں کو سماج پیداوار کے کاموں سے الگ رکھ کر خانہ داری کے کام تک جو کہ نجی کام ہے محدود رکھا جائے گا۔ عورتوں کی آزادی اس وقت ممکن ہوگی جب عورتیں ایک بڑے سماجی پیمانے پر پیدوار میں حصہ لے سکیں گی اور جب گھریلو کام پر انہیں کم دھان دینا پڑے گا اور یہ اب محض بڑے پیمانے کی صنعت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جو نہ صرف یہ کہ عورتوں کے لیے بڑی تعداد میں پیداوار کے کاموں میں حصہ لینے کی گنجائش پیدا کرتی ہے بلکہ سچ پوچھیے تو اس پر زور دیتی ہے اور اس کے علاوہ نجی گھریلو کام کو بھی ایک عام صنعت بنانے کی کوشش کرتی ہے ۔
اخبار میں دنیا کے مختلف ملکوں کی خواتین کی انجمنوں کی سرمیاں شائع کی گئیں۔
26اکتوبر کے شمارے میں طویل مضمون پاکستان سوشلسٹ پارٹی پنجاب کی جنرل باڈی اجلاس کی کارروائی کی صورت دیا گیا۔ اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی انسٹھویں سالگرہ پہ ایک مضمون ہے ۔ نیز پاکستان کے مختلف علاقوں میں خواتین کی سرگرمیاں شائع کی گئیں۔
اگلا شمارہ بہت مدہم ہے ، پرھنے میں دشواری ہے ۔ البتہ ایک سرخی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تقاضے کے عنوان سے ہے ۔ ایک مطالبہ گھی ملوں کومزدوروں کے کنٹرول میں دینے کا ہے ۔
9نومبر 1976کے عوامی جمہوریت کا اداریہ جاگیرداری نظام کے خلاف ہے۔ تقریباً اسی سے ملتے جلتے موضوع کو اگلے شمارے کا اداریہ بنایا گیا ۔ بلوچستان میں اکتوبر انقلاب کی انسٹھویں سالگرہ منانے کی خبر بھی دی گئی جو سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام منائی گئی ۔ صدارت اور مین تقریر مرکزی جوائنٹ سیکریٹری کی تھی ۔
30نومبر کا رسالہ ”زبان کی ترقی کا مسئلہ ” جیسے اہم معاملے پر ایک مضمون لیے ہوئے ہے :” ۔۔۔ صوبوں کی زبانوں کو ذریعہِ تعلیم بنایا جائے اور ان زبانوں کے ذریعے جدید سائنسی اور معاشرتی علوم سے عوام کو آگاہ کیا جائے ۔۔۔“
” اتحادو ترقی کا راستہ“ وہ مضمون ہے جس میں ایک بار پھر، پاکستان کو کثیر القومی ریاست قرار دیا گیا۔ مضمون میں پروفیسر گنگوفسکی کی یہ بات کوٹ کی گئی :” نو آزاد ملکوں میں قومی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے سامراجی اثرات اور جاگیرداری اور سرمایہ داری استحصال کی تمام باقیات فیصلہ کن طریقے سے ختم کرنا ضروری ہیں“۔
مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے رسالہ اگلے فقرے میں لکھتا ہے:” لیکن ہمارے یہ انقلابی اس کے برعکس عمل کر رہے ہیں ۔ وہ قومی مسئلے کا حل ان لعنتوں کی موجودگی میں کرنا چاہتے ہیں۔۔۔“ یہ موقف 7دسمبر کے شمارے کا تھا۔
14دسمبر کے شمارے میں مولانا بھاشانی کی وفات کی خبر ہے ۔
”پیٹی بورژوا انقلابی بورژوا انقلابی اور ہمارا موقف “ کی اگلی قسط ہے ۔
21دسمبر کا شمارہ ایک دلچسپ موضوع پر بحث کرتا ہے ؛ سرمایہ دارانہ رشتوں کے دیہی زندگی پر اثرات ۔میرا خیال ہے کہ اس موضوع پہ آج لکھنا زیادہ دلچسپ اور معلوماتی ہوگا ۔ شاید کوئی دانشور سنگت اس طرف توجہ کر لے ۔کچھ خبریں سیاسی کارکنوں کی سرگرمیوں کے متعلق ہیں اور ایک مضمون ”مزدوروں کا حقِ ہڑتال اور اجتماعی سود کاری کا قانون “ کے عنوان سے ہے ۔
28دسمبر1976کے شمارے میں اکیڈمک مضمون واقعی پڑھنے کے قابل ہے جس کا عنوان ہے : نو آزاد ترقی پذیر ملکوں میں مزدور طبقے کا رول ۔ ”ہمارا کام عوام کو شعور دینا ہے ، انہیں متحد ، منظم اور متحرک کرنا ہے “۔ اس شمارے میں ”پیٹی بورژوا انقلابی اور ہمارا موقف “ کی تیری قسط شائع کی گئی ۔
4جنوری 1977کے شمارے میں نئے سال کے اپنے فرائض گنوائے گئے : پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات پر زور، سنٹو سے نکلنے کے مطالبات ، سامراج کے معاشی سیاسی اور ثقافتی اثرات سے نجات حاصل کرنے کی مہم ، تمام اراضی قومی ملکیت میں لینے کے مطالبات ، پارٹی کی سیاست کو مزدور وں ، کسانوں اور طلبا میں پھیلانا۔۔۔
11جنوری 1977کے شمارے میں سامراج پہ ایک مضمون ہے ۔ شاہ ایران کی پالیسیوں پہ تنقید ہے اور فلسفہ پر ایک مضمون تاریخ کی مادی بنیاد پر ہے ۔
18جنوری کا تقریباً پورا ایڈیشن ” پاکستان سوشلسٹ پارٹی کا اعلان “ نامی مضمون پہ ہے ۔ پارٹی کا اقتصادی پروگرام کیا ہے ، زرعی پروگرام کیا ہے ، سیاسی نظام کیسا ہو، بنیادی حقوق لازم ہوں۔۔۔۔
7مارچ کو ہونے والے انتخابات 25جنوری کے شمارے میں زیر بحث لائے گئے ہیں۔ عنوان ہے : عام انتخابات اور سوشلسٹ کارکنوں کی ذمہ داریاں ۔ اس کا نچوڑ یہ ہے : پاکستان سوشلسٹ پارٹی نے جو مزدوروں اور کسانوں کی پارٹی ہے چند حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں تاکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جاسکے اور اس طریق سے جدوجہد کی جاسکے ۔ کسانوں سے اپیل ہے کہ پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار وں کو وٹ دے کر کامیاب کریں۔
اگلا ( یکم فروری ) شمارہ انہی الیکشنز کے سلسلے میں ہے ۔ بورژوا پارٹیوں پر تنقید ہے اور اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے اپیلیں ہیں۔
اسی طرح 8فروری کو قومی اتحاد کے منشور کا تنقیدی جائزہ لیا گیا اور اسے مسترد کیا گیا ۔ اسی طرح مہنگائی کے سلسلے میں پیپلز پارٹی کے گومگو کی کیفیت پر پورا صفحے صرف کیا گیا ۔ یہی صورت 15فروری کے شمارے میں ہے ۔ پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کو حکمران طبقے کے دو دھڑے قرار دے کر دونوں کو مسترد کیا گیا ۔ ایک مضمون فلسفے پر ہے : جرمن آئیڈیالوجی کا خلاصہ ۔ 22فروری کے شمارے میں جرمن ڈیموکریٹک رپبلک اور بھارت میں عام انتخابات پر رپورٹس ہیں۔
یکم مارچ 1977کے شمارے میں ان مظام اور دھاندلیوں کا تذکرہ ہے جو پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے امیدواروں کے خلاف جاری ہیں۔ بالخصوص ملتان میں جاگیرداروں کی طرف پارٹی کے الیکشن امیدواروںکے خلاف دھونس ، دھوکہ کے تذکرے ہیں جن میں انہیں کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے نہیں دیا جارہا ۔ ” آزاد انتخابات کی پول “ اگلے شمارے کا اداریہ بھی ہے ۔
22مارچ کے شمارے کا بڑا اور اہم مضمون ”موجودہ صورتحال کے بارے میں ترقی پسند جماعتوں کا مشترکہ اعلان “ ہے ۔ انتخابات میں حکمران پارٹی کی طرف سے بڑے پیمانے کی دھاندلی کی بات کی گئی ۔
اس سیاسی بحران پہ اداریہ لکھا گیا جو الیکشن کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اس کا حل ” نئے الیکشن “ قرار دیا گیا ۔
29مارچ کا شمارہ ”لینن کا یوم پیدائش“ والا اہم مضمون لیے ہوئے ہے ۔ 5اپریل کا شمارہ پھر اس بحران پہ بول پڑا جو الیکشنوں کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ ایک طرف قومی اتحاد ، اور ،دوسری طرف بھٹو۔ یہی موضوع یعنی انتخابات کے بعد کے حالات اگلے شمارے کے اہم ترین موضوعات ہیں۔ پارٹی نے مطالبہ کیا کہ حالیہ نام نہاد انتخابات کو کالعدم قرار دے کر آزاد فضا میں غیرجانبدار مشینری کے تحت نئے انتخابات منعقد کیے جائیں۔
19اپریل کا سارا شمارہ لینن کی زندگی، تعلیمات اور اس کے لائے ہوئے انقلاب پر وقف ہے ۔
مئی نمبر کے نام سے 26اپریل کا شمارہ چھپا ۔ پورے آٹھ صفحے اس موضوع کو دیے گئے ۔
10مئی کا اداریہ وزیراعظم بھٹوکی تقریر کو بنایا گیا جو اس نے پارلیمنٹ میں کی ۔ جس میں اس نے اپنے خلاف امریکی سازش پہ بات کی ۔ رسالہ ہلکی بات کی بجائے گہرائی اور دلیل سے امریکی سامراج کی سازشوں کا تذکرہ کرتا ہے ۔ وہ بھٹو کے الزامات کو پروپیگنڈہ قرار دیتا ہے ۔
17مئی 1977کا اہم مضمون “ لیفٹ کے اتحاد کی ضرورت “ کے نام سے ہے ۔ سرخی کے مطابق ہی اندر باتیں کی گئیں۔ اسی شمارے میں قومی اتحاد کے ان شرائط کا ذکر ہے جو اس نے مذاکرات کے لیے بھٹو کے سامنے رکھے۔ یہ 32نکاتی تھے ۔
24مئی کے شمارے میں ایک مضمون امریکی سازش کے بارے میں بھٹو کے موقف پر ہے ۔ بس سرخی ہی کافی ہے :
”سامراج کی مداخلت کوئی انکشافات نہیں“۔
7جون کے شمارے میں الیکشنوں کے بعد پاکستان میں ابھرنے والے سیاسی بحران کا جائزہ لیا گیا ۔ واضح طور پر کہا گیا کہ دونوں بورژوا دھڑوں کے اختلاف سے معاشی بحران کے اصل اسباب سب کی نگاہوں سے چھپ گئے ہیں۔ اور دونوں متحارب سیاسی فریق چاہتے بھی یہی ہیں کہ اقتدار کی جنگ ایسے نعروں کے سہارے لڑی جائے کہ ان کے طبقاتی مفادات عوام کی نظروں سے اوجھل رہیں۔
21جون کا اداریہ ہے :” مرکزی بجٹ کا تنقیدی جائزہ“۔ قارئین کو وہ فارمولا پڑھوانا چاہتا ہوں جو اس اداریہ سے میں نے چنا:” اس سال کے مرکزی بجٹ میں اور اس سے پہلے کے مرکزی بجٹ میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے ۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ ویسا ہی بجٹ ہے جیسا اس سے پہلے کی حکومتیں پیش کرتی رہی ہیں“۔ بس یہ دو فقرے اپنی دانش کی گرہ میں باندھ کر رکھیں، آپ کو ہر بورژوا سرکار کے بجٹ کا تجزیہ کرنے میں دشواری نہیں ہوگی۔ اگلی بات یہ ہے کہ اس بجٹ میںبھی indirectٹیکسوں کو برقرار رکھا گیا ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ ” اس بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ کیا جائے گا۔اور بجٹ کی باقی رقم سے مرکزی حکومت کے ملازمین کی تنخواہیں پوری کی جائیں گی۔
28جون1977کے شمارے میں اہم اور طویل مضمون” نئی راہیں اور نئی ٹھوکریں“ ہے جو ڈاکٹر فیروز احمد کی کتاب” سامراج اور پاکستان“ پہ تبصرہ ہے ۔ اس مضمون میں ڈاکٹر فیروز احمد پر کہیں کہیں تنقید بھی ہے مگر بحیثیت مجموعی اسے مزدوروں کسانوں کے لیے کار آمد قرار دیا گیا۔
12جولائی1977کے شمارے میں مترقی مزدور تنظیموں میں نظریاتی یکجہتی اور تنظیمی اتحاد پہ تحریریں ہیں۔ بہت پر امید تحریریں ۔ مگر 50برس گزرے جو حالت پہلے تھی وہ اب بھی ہے ۔ کچھ نہ بنا۔
اس شمارے سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلوچستان کا سالانہ اجلاس کی رپورٹ دی گئی ہے ۔ جس میں مرکزی جوائنٹ سیکرٹری شاہ محمد مری کی نگرانی میں صوبائی الیکشن ہوئے ۔ مری نے صوبہ کے سیاسی حالات اور تنظیم کی کارگردگی پہ رپورٹ جیسی صدارتی تقریر کی ۔
19جولائی1977کا شمارہ دلچسپ مگر نوع بہ نوع خبریں لیے ہوئے ہے۔ مثلاً پہلا مضمون ”عام انتخابات اور ہمارے فرائض“ میں بتایا گیا کہ اکتوبر1977میں پھر عام انتخابات ہوں گے۔ اسی سال یہ دوسرے عام انتخابات ہیں۔ عوام نے مارچ کے عام انتخابات اس لیے نامنظور کر دیے تھے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ نہ تھے ۔ بھٹو کو خوب لتاڑنے کے بعد الیکشن میں اس سے مندرجہ ذیل شعبوں میں سوالات پوچھنے کی خواہش کی گئی: شہری آزادیاں، جمہوری حقوق ، زراعت ، صنعت ، خارجہ پالیسی، بیرونی تجارت ، سوشلسٹ ملکوں سے تجارت، تعلیم و ثقافت ، بنیادی حقوق ، پریس کی آزادی ، خواتین کے حقوق۔
مگر اسی شمارے کے آخری صفحے میں چار اور پانچ جولائی کی درمیانی شب مارشل لا لگنے کی خبر پر مبنی ایک مضمون ہے :” رازہائے درونِ پردہ“ ۔ کتنے سخت ابتدائی فقرے ہیں:قارئین کرام! آپ کو یاد ہوگا کہ ایک مرتبہ جناب بھٹو نے ارشاد فرمایا تھا کہ جب وہ ایوان اقتدار سے نکلیں گے تو ہمالیہ کے فلک بوس پہاڑ چیخ پڑیں گے اور خیبر سے لے کر کراچی تک لوگ اشکبار ہوں گے ۔ مگر زمانےکے انقلابات دیکھیے کہ وہ اس طرح گئے جیسے کہ دودھ سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے “۔